داستاں سرائے، راجا گدھ اور بانو آپا
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
معروف ناول و افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 8 برس (4 فروری 2017) بیت گئے۔ بانو قدسیہ 28 نومبر 1928 کو فیروز پور میں پیدا ہوئیں، تقسیم ہند کے بعد لاہور آئیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کیا۔ 1956 میں اشفاق احمد سے شادی کی۔ ادیب جوڑا نصف صدی سے زائد ریڈیو اور ٹی وی پر حرف و صوت کے رنگ بکھیرتا رہا۔ متعدد ناول، کئی سیریل اور طویل ڈرامے بھی لکھے۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں 1983 میں ’ستارہ امتیاز‘ اور 2010 میں ’ہلالِ امتیاز‘ سے نوازا گیا۔ 2012 میں اکادمی ادبیات نے ’کمال فن ایوارڈ‘ عطا کیا جبکہ 2016 میں انہیں اعزازِ حیات سے نوازا گیا۔ ان کی برسی کے موقع پرایک یادگارانٹرویو کا احوال نذر قارئین ہے۔
مزید پڑھیں: عینی آپا تھیں تو پاکستانی
جنوری 2007 کے آخری ہفتے میں کچھ انٹرویوز کے لیے لاہور گیا۔ ڈاکٹر وزیر آغا سے طے شدہ اوقات میں انٹرویو ہوگیا تاہم بانو قدسیہ سے ملاقات کے لیے اسلام آباد سے جاری کوششیں بار آور ثابت نہ ہوئیں۔ لاہور پہنچ کر بھی کئی بار انہیں فون کیا مگر گھریلو ملازم ہر بار نیا عذر تراش لیتا اور مجھے فون بند کرنا پڑتا۔
دفتر سے چوں کہ چھٹی بھی کبھی کبھار بلکہ کم ہی ملتی ہے سو آخری روز ملاقات کا مصمم ارادہ کرلیا۔ سنگ میل پبلی کیشنز سے ’راجا گدھ‘ خریدی (جو بغیر رعایت کے 5 سو روپے میں ملی، انہیں بتایا بھی کہ اس پر راولپنڈی میں تو 40 فیصد رعایت ملتی ہے۔ آپ کیوں نہیں دے رہے، جواب ملا پھر آپ راولپنڈی سے ہی خرید لیں، بہرحال ناگزیر تھی اس لیے خرید لی)۔ رکشہ لیا اور سیدھا ’داستاں سرائے‘ جا پہنچا۔
بیل بجائی تو کافی دیر بعد نوجوان لڑکا باہر آیا اور آنے کی وجہ دریافت کی۔ میں نے بتایا کہ محترمہ بانو قدسیہ سے ملنا ہے، اسے وزٹنگ کارڈ بھی دیا کہ آپا کو دے دیں۔ نوجوان نے گیٹ بند کیا اور لوٹ گیا۔ 8 سے 10 منٹ بعد واپس آیا اور مجھے اندر آنے کی نوید دی۔ ایک پروقار ڈرائنگ روم میں کشادہ صوفے پر بٹھا دیا۔
مزید پڑھیں:100 برس کے مشیر کاظمی
کچھ دیربعد کرسٹل کے خوبصورت کپ میں قہوہ پیش کیا گیا جس میں پودینے کے چھوٹے پتے قرینے سے تیر رہے تھے۔ آرام سے قہوہ پیا، سوالنامے پر بارِ دگر نظر ڈالی لیکن انتظار خاصا طویل ہوگیا۔ قریباً 25 منٹ بعد محترمہ بانو قدسیہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں، وہ بہت مشکل اور تکلیف سے قدم اٹھا رہی تھیں۔ ان کی حالت دیکھ کرمجھے دھچکا لگا۔
میں نے آگے بڑھ کر احترام سے ان کا ہاتھ پکڑ کر صوفے تک پہنچایا۔ سانس بحال ہونے پر گویا ہوئیں۔ ’آپ بہت ضدی ہیں۔ ناسازی طبیعت کے باعث 2 دن سے فون تک نہیں سن پا رہی تھی اور آپ آج داستاں سرائے پہنچ گئے۔ طبیعت آج بھی ملاقات کی اجازت نہیں دے رہی لیکن میں اشفاق صاحب کی روایت کی امین بھی ہوں۔ کوئی داستاں سرائے سے کیسے خالی ہاتھ لوٹ سکتا ہے۔‘
میں نے اس شفقت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ اپنی مجبوری بتائی اور کہا کہ آپ سے ملاقات کی شدید خواہش تھی، اس لیے آپ کو زحمت دی۔ آٹو گراف کے لیے انہیں ’راجاگدھ‘ پیش کی تو بولیں ’آپ نے اس پر کیوں پیسے خرچ کیے یہ آپ مجھ سے بطور تحفہ لے سکتے تھے۔‘ عرض کی ’آپا میں یہ نادر موقع گنوانا نہیں چاہتا تھا، اگر آپ کے پاس بھی کتاب نہ ہوتی؟ آپ کے آٹو گراف سے اس کتاب کی قیمت بڑھ جائے گی۔
مزید پڑھیں:فوزیہ، منٹو اور قندیل
آپا نے مسکراہٹ کے ساتھ آٹو گراف دیا تو میں انٹرویو کی فرمائش کر دی۔ انہوں نے سختی سے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ’بہت سے ٹی وی چینل اور اخبارات وقت مانگ رہے ہیں لیکن میری طبیعت اجازت نہیں دے رہی سب سے معذرت کرچکی ہوں۔ اب یہ انٹرویو شائع ہوا تو انہیں تکلیف ہوگی، میں کسی کی ناراضی مول لینا نہیں چاہتی۔‘
جی! میں یہ گفتگو آپ کی اجازت کے بغیر قطعی شائع نہیں کروں گا۔ آپ اجازت دیں تو گفتگو ریکارڈ کرلوں۔ پہلے اشفاق احمد صاحب کی یادیں تازہ کرلیں۔ ان کے چہرے پر قدرے رونق آئی تو میں نے سوال کردیا:
یہ سچ ہے کہ آپ اشفاق احمد کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں؟اشفاق صاحب نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی، انگلی پکڑ کر آگے بڑھایا۔ یہی نہیں مجھے نئی سوچ اور پہچان بھی دی۔ ان کا کہنا تھا تم خود کو روٹیاں بنانے میں ضائع مت کرو، تمھارا جوہر سب کے سامنے آنا چاہیے۔ وہ میرے شوہر بھی تھے، استاد بھی اور باپ بھی۔ آپ کو شاید عجیب سا لگے کہ انہوں نے بیٹی کی طرح میری پرورش کی۔ میں اپنی زندگی میں اشفاق صاحب کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی تھی اور دیتی رہوں گی، تو مجھ پر ان کا رنگ نظر آنا اچنبھے کی بات نہیں۔‘
مزید پڑھیں:سپمورن سنگھ کالرا سے گلزار تک
اشفاق احمد کی شخصیت کے بارے میں کچھ بتائیں؟اشفاق احمد میری چادر بھی تھے اور چار دیواری بھی۔ ان کی سب سے بڑی خوبی غیرت تھی۔ انہیں خود بھی علم نہ تھا کہ وہ کتنی بڑی شخصیت ہیں۔ اشفاق صاحب نے ہمیشہ مجھے آگے چلنے کا موقع دیا۔ انہیں مجھ سے محبت جب کہ مجھے ان سے عقیدت تھی۔ وہ جتنے اچھے لکھاری تھے اس سے بھی زیادہ اچھے شوہر تھے۔ 50 برس کی رفاقت میں، ان کی خاموشی سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ ہم بہت زیادہ باتیں نہیں کرتے تھے۔ زندگی میں کبھی ان سے لڑائی نہیں کی۔ مجھے لڑائی جھگڑا کرنا آتا ہی نہیں، بس ان کی مان لیتی تھی۔
پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی؟پہلی ملاقات شاید 1948 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ہوئی تھی۔ کیوں کہ 1950 میں تو اشفاق صاحب اور میں نے ایم اے اردو کرلیا تھا۔ اس وقت میں اٹھارہ انیس برس کی تھی، سب سے کم عمر طالبعلم۔ میں نے بی اے میں ایک مضمون ریاضی اور ایک معاشیات رکھا تھا۔ لیکن مجھے اردو پڑھنے لکھنے کا بے حد شوق تھا۔ پانچویں جماعت سے کہانیاں لکھ رہی ہوں۔
بہرحال وہاں کے پرنسپل سراج صاحب جو انگریزی کے پروفیسر بھی تھے۔ ان سے درخواست کی کہ میں اردو میں ایم اے کرنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے کہا: بیٹا تمہاری اردو کی بیک گراؤنڈ ہے؟ میں نے کہا جی! پنڈت رتن ناتھ سرشار کی کتاب ’فسانہ آزاد‘ پڑھ رکھی ہے۔ سر! برائے مہربانی مجھے اجازت دے دیجیے۔ میں فیل ہوئی تو بھلے مجھے کلاس سے نکال دیجیے گا۔ یوں داخلہ مل گیا۔
مزید پڑھیں:احمد فراز: صحرائے محبت کا مسافر
کالج میں کلرک آفس کی کھڑکی کے ساتھ ایک گورا چٹا خوبصورت نوجوان کھڑا تھا۔ اس نے کھڑکی کے ساتھ کہنی ٹیک رکھی تھی۔ جب میں وہاں پہنچی تو وہ مؤدب انداز میں کھڑکی کے سامنے سے ہٹ گیا۔ اس نے میری طرف دیکھا، نہ ہی مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی۔ جب میں فیس جمع کروا چکی تو کلرک نے ان کا تعارف کروایا کہ بی بی! یہ اشفاق صاحب ہیں، آپ کے ساتھ ایم اے اردو کریں گے۔ انہوں نے بھی ابھی فیس جمع کروائی ہے۔ یہ میری اشفاق صاحب سے پہلی ملاقات تھی۔
اس وقت کلاس میں مقابلے کا ماحول ہوتا تھا؟ہم پانچ چھ طالبعلم تھے۔ حیران کن بات یہ ہوئی کہ امتحانات میں، میری پہلی پوزیشن آئی جب کہ افسانوی مجموعے ’ایک محبت سو افسانے‘ کے مصنف اشفاق صاحب سیکنڈ آئے۔ اس سے اشفاق صاحب کو پرخاش ہوئی۔ پھر انہوں نے مجھ میں دلچسپی لینا شروع کی۔ جب انہیں علم ہوا کہ یہ لکھتی بھی ہے تو انہوں نے میرا پہلا افسانہ ’ادبِ لطیف‘ میں شائع کروایا۔ جس کا نام تھا ’واماندگیِ شوق‘۔
انہوں نے مجھے لکھنے کی طرف راغب کیا۔ کہا تم اچھا لکھتی ہو۔ حالاںکہ پروفیسر بھی اشفاق صاحب سے بدکتے تھے ۔کلاس میں مقابلے کی فضا تھی۔ ہماری خوش نصیبی کہ ہمیں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، آفتاب احمد، ڈاکٹر عنایت اللہ اور غلام محی الدین اسد جیسے نامور اور تاریخ ساز اساتذہ نے پڑھایا۔
آپ کا کوئی اور ہم جماعت جو دنیائے اردو میں مشہور ہوا؟قیوم نظر نے بھی ہمارے ساتھ امتحان دیا تھا، وہ بڑے شاعر تھے۔ ایک ہمارے ساتھی مولوی صاحب تھے، ان کی اردو سب سے اچھی تھی لیکن وہ فیل ہوگئے۔ حتمی امتحانات میں اشفاق صاحب کی پہلی پوزیشن آئی اور میری دوسری۔
مزید پڑھیں:قدرت اللہ شہاب کی چندراوتی
اشفاق صاحب سے شادی آسانی سے ہوگئی یا ڈرامائی موڑ بھی آئے؟لمبی سرد آہ بھر کر بولیں’اشفاق صاحب نے میرے لیے بہت بڑی قربانی دی۔ گھر والوں کی شدید مخالفت کے باوجود مجھے زندگی کا ساتھی بنایا، باعزت مقام دیا اور ساری عمر اس کا بھرم رکھا۔ گھر والوں کی مخالفت کے باعث ایم اے اردو کرنے کے بعد اشفاق صاحب روم (اٹلی) پڑھانے چلے گئے۔ وہاں سے باقاعدگی سے خط لکھتے تھے۔ لکھتے کہ کسی سے شادی نہیں کرنی۔ ورنہ واپس آکر دونوں کو مار دوں گا۔
ہماری شادی اشفاق صاحب کی پسند سے ہوئی، اسے محبت کی شادی بھی کہا جاسکتا ہے لیکن میں اسے محبت کی شادی کا نام نہیں دے سکتی۔ میرے لیے اس بندھن کی حیثیت محبت سے کہیں زیادہ تھی۔ بہرحال اللہ کو منظور تھا کہ ہم ایک ہوگئے۔
شادی میں کون کون شریک ہوا، کیسی تیاری کی گئی؟کیسی تیاری؟ اشفاق صاحب کے گھر والے راضی نہ تھے۔ مفتی جی، محمد حسین آرٹسٹ، محمودہ اصغر، بڑا بھائی پرویز چٹھہ اور میری والدہ سمیت کچھ اور عزیز تھے۔ نہ ڈھولک بجی نہ ہی کسی نے ہاتھوں پہ مہندی لگائی۔ میں نے پرانی سفید رنگ کی شلوار قمیص پہنی۔ اشفاق صاحب بھی لکیروں والے معمولی سے کرتے میں ملبوس تھے۔ نکاح کے بعد اشفاق صاحب نے اپنی پاس بک مجھے تھمائی، جس میں 9 سو روپے جمع تھے۔
مزید پڑھیں:منشا یاد کی یاد میں
لکھنے کا باقاعدہ سلسلہ کب اور کیسے استوار ہوا؟ایک دن کچن میں روٹیاں بنا رہی تھی تو اشفاق صاحب کہنے لگے تمہیں اور کوئی کام نہیں آتا؟ کہانیاں لکھاکرتی تھی بچپن میں۔ انہوں نے کہا ان کہانیوں کو دوبارہ لکھو، اب تم روزایک افسانہ لکھا کرو۔ روٹیاں پکانے کے لیے کوئی عورت رکھ لیں گے۔ مجھے افسانہ لکھنا نہیں آتا کیسے لکھوں گی؟
کہنے لگے مچھلیاں پکڑنے کے لیے دانہ ڈالتے ہیں، روز دانہ ڈالو تو کئی مچھلیاں آنے لگیں گی۔ پہلے دن کم خیال آئیں گے لیکن پھر آئے روز نت نئے خیالات ذہن میں منڈلائیں گے۔ میں نے بات مانی اور لکھنا شروع کردیا۔ اشفاق صاحب نے یہ بھی کہا کہ لکھنے کا وقت مقرر کرلو، پھر اس وقت چاہے تمھاری ماں آئے یا باپ تب بھی نہیں اٹھنا۔ یوں میں نے ساری زندگی اشفاق صاحب کے فارمولے پر عمل کیا۔
آپ کا خاندانی نام بھی بانو قدسیہ تھا؟نہیں! یہ نام مجھے اشفاق احمد کا دیا ہوا ہے۔ جب ہم کالج میں پڑھتے تھے تو اشفاق صاحب کہا کرتے تھے کہ ادیب بننا ہے تو نام میں بھی ادبیت ہونی چاہیے۔ میں نے اپنے نام کے ساتھ سے ’خان‘ ہٹا دیا ہے تم اپنے نام کے ساتھ سے چٹھہ ہٹا دو۔ تب میں قدسیہ بانو چٹھہ تھی۔ میرا پہلا افسانہ ’واماندگیِ شوق‘ ادب لطیف میں شائع ہوا تو اشفاق صاحب وہ رسالہ لے کر میرے پاس آئے۔ جس پر انہوں نے لکھا تھا ’کاش میں بھی ایسا ایک افسانہ لکھ سکتا‘۔
مزید پڑھیں:اِک روز مزارِ غالبؔ پر
کہانی پر میرا نام بانو قدسیہ لکھا تھا۔ یہ نام اشفاق صاحب نے عنایت کیا تھا۔ رفتہ رفتہ میرا یہی نام شہرت پکڑتا گیا اور میں خاندانی نام قدسیہ چٹھہ خود بھی بھول گئی۔ نام کی بھی عجیب کہانی ہے۔ میری والدہ نے کبھی مجھے قدسیہ کہہ کر نہ پکارا۔ وہ مجھے کاکی اور بھائی کو کاکا کہتی تھیں۔
میری سہیلیاں جمیلہ ظفر، امینہ ملک، انور ملک اور آپی اقبال ملک مجھے’کو‘ کہہ کر پکارتی تھیں۔ مفتی صاحب مجھے قدسی پکارتے رہے لیکن شہاب صاحب نے جب مجھے بانو کہہ کر بلانا شروع کیا تو ہر نام ماند پڑ گیا۔ اب چھوٹے بڑے مجھے ’بانو آپا‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔
ایک جملے میں اشفاق صاحب کی شخصیت کو کیسے بیان کریں گی؟’اشفاق احمد میرے’داؤ جی‘ تھے۔‘
پچپن کہاں اور کیسے گزرا؟بچپن کیا گزرنا ہے، والد فوت ہو چکے تھے۔ ایک طرح کی پژمردگی ہوتی ہے ان گھروں میں جن میں والد نہ ہوں۔ لڑکیوں میں تو یہ کمی کوئی پوری نہیں کرسکتا۔ میں جو یہ کہتی ہوں کہ اشفاق صاحب کی مرید ہوں، ان کی محبت میں مبتلا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اشفاق صاحب نے میرے والد کی جگہ لے لی تھی۔ انہوں نے میری ویسے ہی پرورش کی جیسے کوئی والد کر سکتا تھا۔
مزید پڑھیں:اسلام آباد میں یادگارِ اقبال
28 نومبر 1928 کو فیروز پور میں پیدا ہوئی۔ تعلق زمیندار گھرانے سے تھا۔ والد زراعت میں بیچلر کی ڈگری رکھتے تھے۔ ساڑھے 3 سال کی عمر میں یتیم ہوئی۔ والدہ نے مجھے اکیلے پالا۔ ہم جالندھر میں رہتے تھے، جب میں نے تختی لکھنا سیکھی۔ عمران خان (بانی پی ٹی آئی) کی خالہ نے مجھے تختی لکھنا سکھایا۔ مشرقی بھارت کے صوبہ ہماچل پردیش کی دھرم شالا میں بھی زیر تعلیم رہی۔ والدہ تعلیم یافتہ خاتون تھیں، میری تعلیم و تربیت میں ان کا بڑا حصہ ہے۔
راجا گدھ کی تخلیق بارے کچھ بتائیں؟امریکا اور پاکستان کے درمیان ایک ایکسچینج پروگرام تھا۔ پاکستان کے کچھ ادیب امریکا جاتے، انہیں مختلف خاندانوں کے ساتھ ان کے گھروں میں ٹھہرایا جاتا تھا۔ اشفاق صاحب بھی اسی پروگرام کے تحت امریکا گئے۔ ایکسچینج پروگرام کے تحت ان کے لوگ ہمارے ہاں بھی آتے رہے۔ اشفاق صاحب امریکا میں جس کے گھر ٹھہرے، وہ لڑکا باب ہیزل ہمارے گھر بھی ٹھہرا۔
وہ جس کمرے میں ٹھہرا اس کا نام’کاسنی کمرہ‘ ہے جس میں قدرت اللہ شہاب رہا کرتے تھے۔ کمرے کی ہرشے میں کاسنی رنگ نمایاں تھا۔ اسی لیے اس کو ’کاسنی کمرہ‘ کہتے ہیں۔ باب ہیزل اکثر میرے ساتھ بات چیت کرتا۔ کہتا ہمارا مذہب مسیحیت محبت اور امن کا درس دیتا ہے تو پھر اسلام سب سے بہتر اور مختلف کیسے ہوا؟ میں کہتی کہ اسلام کہتا ہے اللہ ایک ہے۔ وہ کہتا عیسائی اور یہودی بھی یہی کہتے ہیں۔ پھر کہتا کہ اسلام میں کون سی ایسی چیز ہے جو کسی دوسرے مذہب میں نہیں؟ میرے پاس ایسا جواب نہیں تھا جو اسے لاجواب کرسکتا۔
مزید پڑھیں:آفتابِ اَدب ۔ ڈاکٹر وزیر آغا
انہی دنوں میں گھر کے سامنے والے لان کی طرف منہ کرکے کھڑی تھی، جہاں’سندری‘ کا درخت لگا تھا۔ اس کے بڑے بڑے پتے تھے اور وہ لان کے عین وسط میں لگا ہوا تھا۔ اس کی لکڑی سے سارنگی بنتی ہے۔ میں اپنی سوچوں میں گم تھی کہ باب ہیزل آ گیا اور آتے ہی سوال دہرایا کہ اسلام دوسرے مذاہب سے کیسے بہتر ہے؟ شاید آپ یقین نہ کریں کہ ’سندری‘ کا درخت ایک دم سفید ہو گیا، درخت میں سارنگی بجنے لگی اور آواز آئی کہ رزقِ حرام، رزقِ حرام۔ مجھے نہیں پتا وہ آواز کیسے آئی؟
میں نے ہیزل کو جواب دیا کہ اسلام کہتا ہے رزق حرام نہ کھاؤ ورنہ تمہاری اولاد اور تمہاری آنے والی نسلیں پاگل اور دیوانی ہوجائیں گی۔ ہیزل مجھے حیرانی سے دیکھنے لگا۔ بولا بانو آپا، میں ابھی آتا ہوں۔ میں مطمئن تھی کہ جواب دے چکی۔ وہ 15 منٹ بعد آیا اور کہنے لگا، مبارک ہو بانو آپا میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ باب نے اپنا نام احمد رکھا۔
دوسری صبح جب میں ریڈنگ ٹیبل پرگئی تو وہاں ایک کتاب پڑی تھی جس پر لکھا تھا ’راجا گدھ‘۔ وہ ناول میں نے اسی ٹیبل پر شاید 4 برس میں مکمل کیا۔ اسے بہت پذیرائی ملی لیکن میں اسے ناول نہیں معجزہ سمجھتی ہوں۔
آپ نے ’کاسنی کمرے‘ کا ذکر کیا جس میں قدرت اللہ شہاب قیام کرتے تھے، اس بارے میں کچھ بتائیں؟قدرت اللہ شہاب ہر ہفتے اشفاق صاحب سے ملنے آیا کرتے تھے۔ وہ نہایت ہی شفیق، سچے انسان تھے۔ کسی کے ساتھ زیادہ کھل کر ملتے بولتے نہ تھے، ہمیشہ فاصلہ رکھتے تھے۔ وہ جب بھی داستاں سرائے آتے تو ’کاسنی کمرے‘ میں ٹھہرتے تھے۔ ان کی موجودگی میں اس کمرے سے کاسنی روشنی بھی آتی تھی۔
مزید پڑھیں:غلام عباس کا پاکستان
راجا گدھ کا علامتی حصہ، ناول کو قاری کے لیے گنجلک نہیں بنا رہا؟رزقِ حلال کا انسانی فطرت سے گہرا تعلق ہے۔ اس پر کسی کو گواہ بنائے بغیر وضاحت ممکن نہ تھی۔ اگر’راجا گدھ‘ سے علامتی حصے کو خارج کردیا جائے تو ناول کی ٹانگ ٹوٹ جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ اس سے مرکزی کہانی متاثر نہ ہو لیکن ناول میں ادھورا پن پیدا ہو جائے گا۔
ذہنی طور پر ناپختہ لوگوں کو ناول کا یہ حصہ گنجلک محسوس ہوتا ہو گا۔ کئی قارئین نے مجھے بھی بتایا کہ جہاں جہاں رزق حرام کا فلسفہ آیا وہ ان صفحات کو پھلانگ کر آگے بڑھ گئے۔ ایسے تبصروں کے بعد ہی مجھے سمجھ آئی کہ ہمارے ہاں گورکی، فسکی اور ٹالسٹائی جیسے ادیب کیوں پیدا نہیں ہوئے۔
شاید آپ ناقدین کی رائے کو اہمیت نہیں دیتیں؟نقاد کی اہمیت مسلمہ ہے بشرطیکہ وہ ذاتی اور ادبی اختلافات سے بالاتر ہو کر تنقید کرے۔ افسوس کہ نقادوں نے کتابوں پر کم اور شخصیات پر زیادہ لکھا ہے۔ بیشتر لکھنے والی خواتین عموماً گھروں میں ہوتی ہیں، ان کا لوگوں سے ملنا ملانا کم کم ہوتا ہے۔ لکھاری خواتین نقادوں کو دوست بنائیں پھر ان کی تخلیقات نظر انداز نہیں ہوں گی۔
اصل میں تنقیدی معاملہ عورت اور مرد کا نہیں بلکہ ’تعلقات عامہ‘ کا ہے۔ ویسے بھی مصنف لکھتے ہوئے دوسروں کی تنقید اور اعتراضات کو مد نظر رکھے گا تو پھر لکھ نہیں پائے گا۔ اگر لکھ بھی لے گا تو تحریر اس کی سوچ کا مظہر نہ ہوگی۔ ہم نے جو بہتر سمجھا لکھا، اب یہ نقادوں کا کام ہے کہ وہ کام کو پرکھیں۔
مزید پڑھیں:‘بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی’
’راجا گدھ‘ میں جو حرام اور حلال کی تھیوری پیش کی گئی ہے، اس کے مطابق کیا ہمارے معاشرے میں اور دوسرے ممالک میں ایسا ہے کہ صرف حلال والے پھل پھول رہے ہیں اور حرام والے نقصان میں ہیں؟دیکھیں میں نے ایک تھیسس پیش کیا ہے۔ حلال اور حرام کا تصور صرف اسلام میں ہے، یہ کسی اور مذہب میں نہیں ملتا۔ دوسرے مذاہب میں مختلف امور سے ممانعت تو ہے لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ فلاں حرام ہے اور فلاں حلال۔ میرا پورا یقین ہے کہ ایسا وقت ضرور آئے گا جب سائنس دان حلال اور حرام کی تھیوری پر تحقیق کریں گے کہ حرام کھانے والے انسان کے جینز پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگرچہ حرام والے پھل پھول رہے ہیں عیش میں ہیں لیکن ان کے اور آئندہ نسلوں کے جینز میں مایوسی سرایت کر جاتی ہے۔
آپ کا تخلیقی عمل کیا ہے؟کہانی وارد ہوتی ہے۔ کچھ پتا نہیں چلتا کہ وہ کیسے آتی ہے۔ چلتے پھرتے بھی وارد ہوجاتی ہے۔ ذہن خود ہی اسے پکڑ لیتا ہے اور اس پر کام کرنے جت جاتا ہے۔ آمد کو نہیں مانتی یہ سب نازل ہوتا ہے جس طرح غزل نازل ہوتی ہے۔ بہت غلطیاں کرتی ہوں۔ لکھ کر دہراتی ہوں، کاٹ کر دوبارہ بھی لکھتی ہوں۔
اشفاق صاحب ایک ہی بار لکھا کرتے تھے۔ہمیشہ ان کی نصیحت پر عمل کیا۔ انہوں نے جو مچھلی والی بات سمجھائی اسی کو مانا اور لکھنا شروع کیا۔ ایک مقررہ وقت پر۔ پھر چاہے کوئی بھی آجاتا۔ میں کام مکمل کرنے تک کسی سے بات نہ کرتی۔ عموماً صبح 10 بجے سے دوپہر 12 بجے تک لکھنے کا کام کرتی ہوں پھر باورچی خانے میں چلی جاتی ہوں کم عمری میں میرے لکھنے کا وقت سہ پہر 3 بجے سے شام 6 بجے تک تھا لیکن اب یہ آرام کا وقت ہے۔ ابتدائی ڈرافٹ جسے آپ نوٹس بھی کہہ سکتے ہیں، اس میں کوئی کمی رہ جائے تو دوبارہ لکھتے وقت دور کر دیتی ہوں۔ کہانی کی حتمی شکل، کردار وغیرہ دوسرے مرحلے ہی میں ممکن ہیں۔
مزید پڑھیں:یہ روشنی فریب ہے
آج کل کیا مصروفیات ہیں؟نصف صدی کی رفاقت کے باوجود مجھے لگتا ہے کہ اشفاق صاحب مہمان کی طرح میرے گھر آئے اور چلے گئے۔ جب آپ کا کسی کے ساتھ اچھا وقت گزر رہا ہو تو وقت کا پتا ہی نہیں چلتا۔ ساتھ رہتے ہوئے بھی اشفاق صاحب میرے لیے مانوس اجنبی تھے۔ کالج میں ملے،گھر بسایا۔ کرائے کے مکان بدلے اور پھر اپنا گھر 121 سی، ماڈل ٹاؤن ’داستاں سرائے‘ بنایا جہاں سے وہ اپنے اصلی گھر روانہ ہو گئے۔
اب میں اس رابطے کو بھولنے کی کوشش میں لگی رہتی ہوں جو میرا اشفاق صاحب سے تھا۔ اس رنج و غم سے عہدہ برآں ہونے کی کوششوں میں لگی رہتی ہوں۔ کوشش ہے کہ ان کے ساتھ بیتی زندگی کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرسکوں۔
بانو آپا اگر آپ ہمت کریں تو اشفاق احمد صاحب (ڈرائنگ روم کی دیوار پر ٹنگے پورٹریٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے) کے ساتھ بھی ایک دو تصاویر بنوالیں۔ خوشی سے بولیں کیوں نہیں؟ آج بھی وہ تصاویر اور ’راجا گدھ‘ پر ملا آٹو گراف میرا قیمتی اثاثہ ہیں:
’حرام چیزوں میں سب سے برا غصہ، طیش اور احمقانہ برہمی ہے‘
عزیزی مشکورعلی کے لیے دعاؤں کے ساتھ۔
بانو قدسیہ۔
21/1/07
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مشکور علی 121 سی اشفاق احمد بانو آپا بانو قدسیہ داستاں سرائے دھوپ جلی راجا گدھ راجہ گدھ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اشفاق احمد بانو ا پا بانو قدسیہ داستاں سرائے قدرت اللہ شہاب میں اشفاق صاحب اشفاق صاحب سے تو اشفاق صاحب اشفاق صاحب نے اشفاق صاحب کی داستاں سرائے مزید پڑھیں ا ایم اے اردو اشفاق احمد بانو قدسیہ ا ٹو گراف کے ساتھ ا بانو ا پا انہوں نے کہ اسلام کرتے تھے لکھنے کا نے مجھے نہیں دے ہے کہ ا مجھے ا نہیں ا ئی اور بھی کہ پیش کی کے لیے کہہ کر کے بعد
پڑھیں:
بانو قدسیہ کو بچھڑے 5 برس بیت گئے
معروف ناول نگار، ڈرامہ نگار اور افسانہ نگار بانو قدسیہ کو قارئین سے بچھڑے 5 برس بیت گئے۔
بانو قدسیہ 28 نومبر 1928ء کو بھارت میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئیں اور تقسیمِ ہند کے بعد لاہور آ گئیں۔
انہیں بچپن سے ہی اردو ادب کا بے حد شوق تھا اور اکثر اوقات رسالے پڑھا کرتی تھیں تاہم انہوں نے اردو ادب میں ہی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔
پڑھنے لکھنے کے شوق کی وجہ سے انہوں نے اپنے کالج کے زمانے سے ہی رسالوں میں لکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ انہوں نے ریڈیو کے لیے بھی لکھنا شروع کیا۔
اردو ادب سے بے حد لگاؤ کے باعث انہوں نے اردو میں متعدد ناول لکھے جن میں ’راجہ گدھ‘ اور ’امر بیل‘ اس قدر مشہور ہوئے کہ ان کا نام بہترین ناول نگاروں میں شامل کیا جانے لگا۔
بانو قدسیہ اسٹیج شو اور ٹیلی ویژن کے لیے بھی پنجابی اور اردو زبان میں ڈرامہ اسکرپٹ لکھا کرتی تھیں، ان کے ڈراموں میں ’پیا نام کا دیا‘، ’فٹ پاتھ کی گھاس‘، ’آدھی بات‘ اور دیگر شامل ہیں۔
بانو قدسیہ وہ لکھاری ہیں جن کی تحریر میں محبت کی تلخ حقیقت، شگفتگی، شائستگی اور اردو زبان پر مضبوط گرفت نظر آتی ہے۔
انہوں نے مشہور ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد سے شادی کی جن کا اردو ادب میں ایک منفرد مقام ہے۔
بانو قدسیہ کی بہترین تحریروں اور اردو ادب میں بہترین کارکردگی پر 1983ء میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انہیں ہلالِ امتیاز اور 2010ء میں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا جبکہ انہوں نے 2012ء میں کمالِ فن کا ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔
بانو قدسیہ شدید علالت کے باعث 4 فروری 2017ء کو دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں لیکن اردو ادب میں ان کے خلاء کو کوئی پُر نہیں کر سکتا۔