دہلی میں جناح کا بنگلہ: ہندو تاجر نے خرید کر گنگا جل سے دھلوایا تھا
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 فروری 2025ء) دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک، پاکستان، کے وجود میں آنے سے ایک ہفتے قبل سات اگست 1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح نئی دہلی کے صفدر جنگ ہوائی اڈے سے اپنے خوابوں کی سرزمین کے لیے روانہ ہوئے۔ وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے طیارے نے انہیں، ان کی چھوٹی بہن فاطمہ جناح، اے ڈی سی سید احسان اور دیگر قریبی عملے کے افراد کو کراچی پہنچا دیا۔
کیا جناح کی مسلم لیگ اور بی جے پی میں کوئی تعلق ہے؟
نئی دہلی میں محمد علی جناح کا 10 اورنگزیب روڈ (اب اے پی جے عبدالکلام روڈ) پر عالیشان بنگلہ تھا۔ پاکستان جانے سے پہلے جناح نے اپنا بنگلہ معروف بھارتی بزنس مین رام کرشن ڈالمیا کو تقریباً ڈھائی لاکھ روپے میں بیچ دیا تھا۔
(جاری ہے)
اگرچہ دونوں کے دوستانہ تعلقات تھے لیکن جناح اپنا بنگلہ ڈھائی لاکھ روپے سے کم میں بیچنے کو تیار نہیں ہوئے۔
دہلی کی تاریخی سماجی، تہذیبی، ثقافتی اور سیاسی واقعات پر گہری نگاہ رکھنے والے اور متعدد کتابوں کے مصنف بھارتی صحافی وویک شکلا نے ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ جناح کے اپنا بنگلہ فروخت کرنے کی پوری کہانی خود رام کرشن ڈالمیا کی اہلیہ نندنی ڈالمیا نے چند سال قبل انہیں سنائی تھی اور بنگلہ کے فروخت سے متعلق قانونی دستاویزات بھی دکھائے تھے۔
نندنی ڈالمیا ہندی کی مشہور مصنفہ اور آزادی نسواں کی علمبردار تھیں۔جناح کا خواب کیوں شرمندہ تعبیر نہ ہوا؟
وویک شکلا کے مطابق دہلی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے سے ایک دن پہلے جناح نے ڈالمیا کے ساتھ رات کا کھانا کھایا تھا۔ اس موقع پر فاطمہ جناح، نندنی ڈالمیا اور دیگر افراد موجود تھے۔
ڈالمیا کی بیٹی اور'دی سیکریٹ ڈائری آف کستوربا‘ کی مصنفہ نیلیما ڈالمیا نے لکھا ہے"جناح اور میرے والد کے گہرے تعلقات تھے۔
اکبر روڈ پر میرے والد کے بنگلے پر جناح بھی باقاعدگی سے جایا کرتے تھے۔" بنگلے کو 'گنگا جل' سے پاک کیا گیاشکلا کا کہنا تھا کہ نندنی ڈالمیا نے انہیں بتایا کہ جناح کا بنگلہ خریدنے کے بعد ڈالمیا نے اسے گنگا جل (گنگا کے پانی) سے دھلوایا تھا۔ اور جیسے ہی جناح دہلی سے نکلے، انہوں نے بنگلے سے مسلم لیگ کا جھنڈا ہٹانے کا حکم دیا۔
اس کی جگہ 'گئو رکشا آندولن' (تحفظ گائے تحریک) کا جھنڈا لگا دیا گیا۔ اس پورے واقعے کا ذکر لیری کولنز اور ڈومینک لیپیئر نے اپنی کتاب فریڈم ایٹ مڈ نائٹ' میں بھی کیا ہے۔بھارت کا جناح ٹاور: تنازعہ کیا ہے؟
یہ بنگلہ تقریباﹰ ڈیڑھ ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کا نقشہ ایف بی بلوم فیلڈ نے تیار کیا تھا، جو برطانوی دور حکومت میں نئی دہلی کی عمارتیں تعمیر کرنے والے ایڈورڈ لوٹینز کی ٹیم کا حصہ تھے۔
جناح کے بنگلے میں پانچ بیڈ رومز، بہت بڑا ڈرائنگ روم، میٹنگ روم، بار وغیرہ ہیں۔ اس میں ایک بہت بڑا باغ بھی ہے۔ جہاں مختلف اقسام کے پھولوں سے پورا ماحول خوشگوار رہتا ہے۔
ڈالمیا نے جناح کا بنگلہ 1964 تک اپنے پاس رکھا اور پھر اسے ہالینڈ کی حکومت کو فروخت کر دیا۔ اس کے بعد سے اسے نئی دہلی میں ہالینڈ کے سفیر کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
جناح کی تعریف پر بی جے پی سے نکال دیے جانے والے جسونت سنگھ انتقال کر گئے
خیال رہے کہ ممبئی میں بھی جناح کا ایک بنگلہ تھا۔ وویک شکلا کہتے ہیں کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستان بھارت سے ممبئی میں جناح کا بنگلہ کرایہ پر دینے کا مطالبہ کرتا رہا ہے لیکن اس نے دہلی میں اپنے بانی کے بنگلے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
بنگلے کی خریداری کی کہانیجناح کا بیشتر قیام ممبئی میں رہا لیکن 1940 سے پہلے سے ہی دہلی آمد کا ان کا سلسلہ تیز ہو گیا تھا۔ اس وقت وہ دہلی کے جن پتھ روڈ پر واقع امپیریل ہوٹل میں ٹھہرا کرتے تھے۔ ان کی طرز زندگی کے لحاظ سے امپیریل ہوٹل ان کے لیے موزوں تھا۔ جناح نے 1939 میں دہلی میں اپنا گھر بنانے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ اب ہوٹلوں میں رہنے سے بات نہیں بن رہی تھی۔
اس لیے ان کے لیے مناسب بنگلے کی تلاش شروع ہو گئی۔بنگلے کی تلاش کا کام صاحبزادہ لیاقت علی خان کے سپرد کیا گیا، جو بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ وویک شکلا کا کہنا تھا کہ دہلی کے پوش علاقے سول لائنز میں فلیگ اسٹاف روڈ اور اورنگزیب روڈ پر بنگلے دیکھے گئے۔ آخر کار 10 اورنگزیب روڈ پر بنگلہ خرید لیا گیا۔ فاطمہ جناح بھی اسی بنگلے میں رہتی تھیں۔
مودی حکومت نے چند سال قبل اس سڑک کا نام بدل کر اے پی جے عبدالکلام روڈ کردیا ہے۔ بنگلے کے کیئرٹیکر 'ڈان' کے الطاف حسیندہلی میں جناح کے بنگلے پر سیاست دانوں کی آمدورفت کا سلسلہ لگا رہتا تھا۔ بنگلے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مسلم لیگ کے ترجمان 'دی ڈان' کے ایڈیٹر الطاف حسین کے سپرد تھی۔
اس وقت،'دی ڈان' دہلی کے دریاگنج کے علاقے سے شائع ہوتا تھا۔
اب اس جگہ ایک کوآپریٹو بینک ہے۔ جناح نے 1941 میں سب سے پہلے سینیئر صحافی پوتھن جوزف کو 'ڈان' کا ایڈیٹر بنایا۔ لیکن جوزف مسلم لیگ کے نظریات کے مطابق اخبار نہیں چلا سکے، اس لیے جناح نے کلکتہ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ الطاف حسین کو ڈان کا ایڈیٹر بنا دیا۔ الطاف حسین بنیادی طور پر کھلنا (اب بنگلہ دیش) کے رہنے والے تھے۔تقسیمِ ہند کے ذمہ دار جناح تھے، بی جی پی موقف پر قائم
ڈان نے پاکستان کے قیام سے ایک دن پہلے کراچی سے اشاعت شروع کی۔
اس کا زیادہ تر عملہ پاکستان شفٹ ہو چکا تھا۔ دہلی میں اس کی اشاعت 11 اگست تک جاری رہی۔ الطاف حسین نامور ادیب خوشونت سنگھ کے والد سجان سنگھ کے تعمیر کردہ فلیٹ 'سجان سنگھ پارک' میں ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ جب دہلی میں فسادات پھوٹ پڑے تو ان کے فلیٹ اور 'دی ڈان' کے دفتر پر بھی حملہ کیا گیا۔وویک شکلا کا کہنا تھا کہ دہلی نے جناح کو کافی عزت دی۔ یہاں 1941 سے 1946 تک ان کے نام پر فٹ بال کی ایک بڑی چیمپئن شپ کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ دہلی فٹ بال ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری کے ایل بھاٹیہ کا کہنا ہے کہ یہاں کے کلب جناح کے نام پر ہونے والی اس چیمپئن شپ میں حصہ لیتے تھے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جناح کا بنگلہ نندنی ڈالمیا الطاف حسین ڈالمیا نے دہلی میں مسلم لیگ کے بنگلے بنگلے کی نئی دہلی جناح کے کا کہنا دہلی کے کے لیے روڈ پر
پڑھیں:
بنگلہ دیش پریمئیر لیگ میں تنازع شدت اختیار کرگیا، بڑی گرفتاری سامنے آگئی
بنگلادیش(نیوز ڈیسک )بنگلہ دیش پریمئیر لیگ (بی پی ایل) میں تنخواہوں کے تنازع پر دربار راجشاہی کے مالک کو پولیس نے دھر لی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دربار راجشاہی کے مالک شفیق رحمان نے حکومت کو 10 فروری تک قسطوں میں تمام ادائیگیوں کی یقین دہانی کرادی ہے۔ قبل ازیں میڈیا سے بات چیت میں دعویٰ کیا تھا کہ تمام غیرملکی پلیئرز کی گھروں کو واپسی کیلئے ریٹرن ٹکٹس کا انتظام کرلیا گیا جبکہ ریٹرن ٹکٹ نہ ملنے کے باعث کئی غیرملکی کرکٹرز بنگلادیش میں پھنس گئے ہیں، ان میں پاکستان کے محمد حارث بھی شامل تھے۔
معاوضوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کھلاڑیوں نے پریکٹس اور غیرملکی کرکٹرز نے گروپ اسٹیج میچز کا بائیکاٹ کردیا تھا جس کےباعث فرنچائز کو میچ کیلئے مقامی کرکٹرز کی خدمات لینا پڑی تھیں۔ مقامی کھلاڑیوں کے چیک باؤنس ہوئے، ٹیم ہوٹل کی ادائیگیاں نہیں کی گئیں جبکہ ڈرائیور نے آخری روز کھلاڑیوں کی کٹس کو اپنی بس میں لاک کردیا، ساتھ ہی واضح کیا کہ جب تک ٹرانسپورٹ کے بقایاجات ادا نہیں کیے جائیں گے وہ یہ سامان واپس نہیں کریں گے۔ تمام معاملات سے بنگلہ دیش پریمئیر لیگ (بی پی ایل) کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا جس پر وزارت کھیل کی جانب سے معاملے کا نوٹس بھی لے لیا ہے۔
پولیس نے شفیق الرحمان کو حراست میں لیا تو انہوں نے حکومتی عہدیداروں کو 10 فروری تک تمام واجبات ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ شفیق رحمان نے اس سے قبل سپورٹس ایڈوائزر آصف محمود کو 2 فروری تک 50 فیصد ادائیگی کی یقین دہانی کرائی تھی مگر پھر اس پر عمل نہیں کیا، جس پر حکومت نے ایکشن لیا اور انھیں حراست میں لے لیا۔وزارت کھیل کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ شفیق الرحمان نے اپنی غلطی تسلیم کی اور کہا کہ وہ 3 قسطوں میں رقم ادا کردیں گے، پہلی قسط پیر کو ہی ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی جبکہ دوسری 7 اور باقی رقم 10 فروری کو دے دیں گے۔ انھوں نے نہ صرف پلیئرز بلکہ دیگر تمام واجبات بھی 10 فروری تک کلیئر کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
پشین: درمان ہسپتال میں گیس لیکیج کا دھماکا، 7 افراد زخمی