اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمات سے متعلق کیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اس اپیل میں ہم آرٹیکل 187کا اختیار استعمال کر سکتے ہیں،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ آرٹیکل 187کے تحت مکمل انصاف کااختیار تو عدالت کے پاس ہمیشہ رہتا ہے،

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق فوجی عدالتوں سویلینز کے مقدمات سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بنچ سماعت کررہا ہے،سزایافتہ ملزم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل  دیتے ہوئے کہاکہ1977تا1980بلوچستان ہائیکورٹ نے کورٹ مارشل والوں کو ضمانتیں دینا شروع کیں،ہر10،8سال بعد عدلیہ کو تابع لانے کی کوشش ہوتی ہے، پیپلزپارٹی رجسٹریشن کیلئے ایک قانون لایا گیا تھا،سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد پیپلزپارٹی کیخلاف بنایا گیا قانون ختم ہوا، عدلیہ کسی بھی وقت قانون کا بنیادی حقوق کے تناظر میں جائزہ لے سکتی ہے۔

پیکا قانون کے تحت پہلا مقدمہ درج، ملزم گرفتار

جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ ہم ایک فیصلے کیخلاف اپیل سن  رہے ہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اس اپیل میں ہم آرٹیکل 187کا اختیار استعمال کر سکتے ہیں،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ آرٹیکل 187کے تحت مکمل انصاف کااختیار تو عدالت کے پاس ہمیشہ رہتا ہے،جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ شروع میں آپ نے ہی عدالت کے دائرہ اختیار پراعتراض کیا تھا، شکر ہے اب بڑھا دیا، وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ عدالتی دائرہ اختیار ہمیشہ وقت کے ساتھ بڑھا ہے۔

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ ا رٹیکل

پڑھیں:

نواز شریف کے ایکٹو ہونے سے چیزیں کنٹرول ہو سکتیں، جاوید لطیف

اسلام آباد:

رہنما مسلم لیگ (ن) میاں جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ جہاں تک پارٹی ڈیمج کنٹرول کی بات ہے تو اس کو ٹائم لگے گا مگر ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کے ایکٹو ہونے سے اور حقائق قوم تک پہنچانے سے چیزیں کنٹرول ہوسکتی ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ آپ نے بڑی اچھی بات کی مگر پھر مجھے یہ بھی کہنے کی اجازت دے دیں کہ یہ کیسی پی ٹی آئی دشمنی تھی کہ خیبر پختونخوا میں ان کو دوتہائی سے زیادہ اکثریت دیدی گئی۔

صدر سپریم کورٹ بار میاں رؤف عطا نے کہا کہ میں نے حکومت کے کیس فیصلے کی حمایت نہیں کی آئین کی حمایت کی ہے، میں نے آئین کے متعلق کہا ہے کہ دستور پاکستان کا آرٹیکل 200صدر پاکستان کو اس بات کا اختیار دیتا ہے وہ کسی بھی ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں کسی بھی جج کو اس کی رضامندی سے ٹرانسفر کر سکتا ہے تبادلہ کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے اسے چیف جسٹس آف پاکستان سے مشاورت اور جو متعلقہ عدالتیں ہیں کے چیف جسٹسز سے مشاورت کرنا ضروری ہے۔

صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ریاست علی آزاد نے کہا کہ آرٹیکل 200 وہ ہے عارضی اگر آپ کسی جج، کسی سائڈ پہ کسی فیلڈ میں اسپیشیلٹی ہے کو عارضی طور پر لیکر جاتے ہیں تو پاکستان میں یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے، اس سے پہلے جسٹس، بلال، جسٹس اسلم اور جسٹس اقبال حمید الرحمن کی جو مثالیں دی جاتی ہیں تو پہلے جو دو جج صاحبان ہیں وہ پی سی او کورٹ میں آئے تھے، جنرل مشرف کے آرڈر سے آئے تھے۔

ماہر قانون حافظ احسان احمد نے کہا کہ پہلی چیز یہ ہے کہ کیا آرٹیکل 200 پاکستان کے پریذیڈنٹ کو، پاکستان کے چیف جسٹس کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو، چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ، چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ایک ہائیکورٹ سے دوسرے ہائیکورٹ کوٹرانسفر کریں بالکل کرتا ہے،آرٹیکل200 کے اندر پانچ سب آرٹیکلز ہیں، اگر آرٹیکل 200 کلاز (1) کے نیچے جائیں گے تو وہ مستقل ٹرانسفر ہوگی، دوسرا یہ ہے کہ آرٹیکل 200 جو ہے وہ 26 ویں آئینی ترمیم میں پہلے بھی ایسے ہی تھا اور 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد بھی ہے اس کے اندر کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔

متعلقہ مضامین

  • ایسا نہیں ہو سکتا ایک ایس ایچ او خود عدالت لگالے، اپیل ایس پی سنے اور توثیق آئی جی کرے،سلمان اکرم راجہ کے دلائل
  • ہمارے آرمی ایکٹ جیسی سیکشن ٹوڈی کیا دنیا میں کہیں ہے؟جسٹس جمال مندوخیل  کا استفسار
  • جو شخص فوجی نہ ہو، صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل 
  • آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے کیا اختیارات ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل
  • ایف بی علی خود بھی ایک سویلین ہی تھے،ان کا کورٹ مارشل کیسے ہوا؟جسٹس محمد علی مظہرکا استفسار
  • فوج سے باہر کا شخص صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے؟جسٹس جمال مندوخیل 
  • سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں کے اختیارات سے متعلق سوال پر سلمان اکرم راجہ کے دلائل جاری
  • نواز شریف کے ایکٹو ہونے سے چیزیں کنٹرول ہو سکتیں، جاوید لطیف
  • 21ویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیاتھا،سوال یہ ہےکہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا،جسٹس جمال مندوخیل