Jasarat News:
2025-02-04@05:04:11 GMT

پیکا ترمیمی ایکٹ

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

پیکا ترمیمی ایکٹ

پاکستان میں روز اوّل سے آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جاتی رہی ہے اور جب جب حکمرانوں کو موقع ملا چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو سب اس حمام میں ننگے پائے گئے۔ موجودہ حکمرانوں نے پیکا ترمیمی ایکٹ کے ذریعے جو آزادی رائے پر کاری ضرب لگائی ہے اس کی تو کوئی مثال نہیں ملتی۔ تماشا یہ کہ اس کالے قانون پر دستخط بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر سے کروائے گئے۔ پیپلز پارٹی جو خود کو جمہوریت کا چمپئن کہتی نہیں تھکتی اوراب یہ بدنما داغ شاید کبھی پیپلز پارٹی کے چہرے سے صاف بھی نہیں ہوسکے گا اور ان کے چہرے سے نقاب بھی اتر چکی ہے۔ اقتدار کی ہوس اور کرسی کے شوق نے ان کے عزائم کو بھی بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ مسلم لیگ کے وزیراعظم لاکھ چاہتے اور پارلیمنٹ، سینیٹ کا ایوان اس کالے قانون کو پاس بھی کر دیتا لیکن صدر آصف زرداری اس کالے قانون پر دستخط نہیں کرتے تو ان کی عزت بچ جاتی۔ ملک بھر میں صحافی برادری اور اخباری صنعت و صحافی تنظیمیں سڑکوں پر نکل آئی ہیں اس کالے قانون کے خلاف پریس کلبوں پر کالے پرچم آویزاں کردیے گئے ہیں اور ملک گیر احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے الیکٹرونک کرائمز کی روک تھام ترمیمی بل 2025 پیکا کی توثیق کر کے پاکستان کی سیاست میں ایک بھونچال مچا دیا ہے۔ اس قانون سے اب آن لائن جعلی خبروں کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے گی۔ ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے جس سے معاشرے میں خوف وہراس یا بدامنی پھیل سکتی ہے تو اسے تین سال تک قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزا ئیں ایک ساتھ دی جاسکے گی۔ صدر پاکستان کے دستخط کے بعد یہ کالا قانون اب عملی طور پرنافذ العمل ہوچکا ہے۔ پاکستان میں رہی سہی آزادی رائے اب مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔

پیکا ترمیمی ایکٹ بلاشبہ غیر آئینی اور آئین میں دی گئی آزادی اظہار کے تحفظ سے متصادم ہے۔ پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتوں، صحافی تنظیموں نے اس قانون کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور اسے پاکستان کے نوجوانوں کی سوچ پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کو لاہور ہائی کورٹ میں لاہور پریس کلب کے رکن جعفر بن یار نے اپنے وکیل کے توسط سے چلینج بھی کردیا ہے۔ درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پیکا بل متعلقہ اسٹیک ہولڈرز اور صحافتی تنظیموںکی مشاورت کے بغیر لایا گیا جو آئین میں دی گئی آزادی اظہار کے تحفظ سے متصاوم ہے لہٰذا عدالت پیکا ترمیمی ایکٹ کو غیر آئینی قرار دے اور عدالت پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت ہونے والی کارروائیوں کو درخواست کے حتمی فیصلے سے مشروط کرے۔ پیکا ایکٹ بل کے مسودے میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس میں ڈی آر پی اے کو آن لائن مواد ہٹانے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اتھارٹی کو ممنوع یا فحش مواد تک رسائی حاصل کرنے کا اختیار ہوگا۔ اتھارٹی کو ممنوع مواد تشہیر کرنے پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا اختیار ہوگا۔ ڈی آر پی اے سوشل میڈیا مواد کو ریگولیٹ کرنے کا بھی اختیار ہوگا۔ اتھارٹی پیکا ایکٹ کے تحت شکایات کی تحقیقات اور مواد تک رسائی کو بلاک یا محدود کرنے کی مجاز ہوگی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا کمپنیوںکے لیے قائم فریم کا تعین کرے گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے پاکستان میں دفاتر یا نمائندے رکھنے کے لیے سہولت فراہم کرے گی۔ وفاقی حکومت تین سال کے لیے چیئرپرسن اور تین اراکین کا تقررکرے گی اور یہ اتھارٹی چیئرپرسن سمیت دیگر چھے ارکان پر مشتمل ہوگی۔ سیکرٹری اطلاعات، سیکرٹری آئی ٹی اور چیئرمین پی ٹی اے اتھارٹی کے رکن ہوں گے۔ اتھارٹی کے پاس سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو قواعد کی پاسداری کے لیے رجسٹرڈ کرنے اور ان کے لیے شرائط طے کرنے کا اختیار ہوگا۔ ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل 90 روز میں کیس نمٹانے کے پابند ہوں گے۔ ٹربیونل کے فیصلے کو ساٹھ روز کے اندر عدالت عظمیٰ میں دائر کرنے کا اختیار ہوگا۔ ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ این سی سی آئی اے سائبر کرائم سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کرے گی۔ مجوزہ ترامیم کے تحت ایف آئی اے کی سائبر کرائم ونگ ختم کرکے ایف آئی اے سائبر کرائم کے تمام اثاثے، بجٹ این سی سی آئی اے کو منتقل ہوجائیں گے۔ اس کے متبادل کے طور پر قائم اتھارٹی آٹھ ارکان پر مشتمل ہوگی اور پانچ ارکان کا تقرر وفاقی حکومت کرے گی۔

پیکا ایکٹ ترمیمی بل پیپلز پارٹی کے لیے چھچھوندر کی شکل اختیار کرچکی ہے نہ نگلی جائے اور نہ ہی اگلی جائے۔ ایک جانب وہ صحافتی تنظیموں اور میڈیا کے افراد سے یکجہتی کا اظہار کرتی رہی اور یقین دہانی کرواتی رہی کہ پیپلز پارٹی آزادی صحافت کی سب سے بڑی علمبردار ہے اور کسی قیمت پر یہ کالا قانون اسمبلی سے پاس نہیں ہوگا اور اگر ہو بھی گیا تو صدر تو پیپلز پارٹی کا ہے وہ اس پر کسی بھی قیمت پر دستخط نہیں کریں گے جس طرح انہوں نے مداراس ایکٹ بل پر دستخط نہ کر کے کیا تھا لیکن پیپلز پارٹی کے صدر تو ایک ہی اشارے پر ڈھیر ہوگئے اور اسمبلی میں بھی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، متحدہ ودیگر اتحادی جماعتوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیکا ایکٹ کے حق میں ووٹ دیا۔ ان سے اچھے تو سابق وزیر اعظم مرحوم میر ظفر اللہ خان جمالی تھے جب انہیں پرویز مشرف کی جانب سے امریکا کے اشارے پر قبائلی علاقہ جات اور طالبان کی آڑ میں شمالی علاقہ جات، سوات، وزیرستان آپریشن کی پالیسوں کا علم ہوا تو وہ مستعفی ہوگئے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس گندی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔

پاکستان پہلے ہی بحرانی صورتحال سے دوچار ہے اور پیکا ایکٹ کے نفاذ سے ملک میں افراتفری اور انارکی پھیلنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے اور زیادہ مشکلات پیدا نہ کریں۔ پیکا ایکٹ کے خلاف صحافیوں اور سول سوسائٹی، مزدوروں، طلبہ اور اپوزیشن جماعتوں کی تحریک کا مقابلہ کرنے کی نہ اس میں سکت ہے اور نہ ہمت یہ تحریک وکلا تحریک سے بھی زیادہ زور دار اور توانا ہوگی اور بڑی سے بڑی طاقت اس تحریک کو نہیں روک سکے گی۔

بجھا سکو تو دیا بجھا دو
دبا سکو تو صدا دبا دو
دیا بجھے گا تو سحر ہوگی
صدا دبے گی تو حشر ہوگا

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پیکا ترمیمی ایکٹ پیپلز پارٹی کے کا اختیار ہوگا اس کالے قانون پیکا ایکٹ کے ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا کرنے کا کے خلاف ا ئی اے دیا ہے ہے اور کرے گی کے لیے

پڑھیں:

پیکا بل اور القادر یونیورسٹی

موجودہ حکومت جب سے وجود میں آئی ہے، نت نئے قوانین کا ظہور ہوا ہے۔ اس عمل سے ملک کے متعدد ادارے اور تجارتی سرگرمیاں کمزور ہو چکی ہیں، تعلیمی لحاظ سے بھی کوئی خاص کارکردگی سامنے نہیں آئی ہے۔

 اب ایک بل اور منظور کر لیا گیا ہے یہ ہے پیکا ترمیمی بل، جسے وفاقی وزیر رانا تنویر نے پیش کیا تھا۔ اس بل کی صحافتی تنظیموں، انسانی حقوق، سول سوسائٹی سخت مخالفت کر رہی ہے، چونکہ سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد صحافیوں نے ملک گیر احتجاج کیا۔

اس احتجاج کی وجہ یہ ہے بل کے تحت جھوٹی خبر پر تین سال قید اور 20 لاکھ جرمانہ مقرر کیا گیا ہے۔ شبلی فراز نے اس موقعے پرکہا کہ ’’ یہ بل قرآن و حدیث کی روشنی میں نہیں بنایا گیا ہے، اس لیے اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔‘‘ لیکن ہوتا یہ ہے کہ حکومت کے تمام امور اور قوانین محض اپنے مفاد کے لیے ہیں، عوام اور اپوزیشن کے لیے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔

 پیکا ترمیمی بل جوں ہی سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا تو اسی وقت صحافی پریس گیلری سے واک آؤٹ کر گئے اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا کہ یہ قانون بغیر مشاورت کے پاس کرایا جا رہا ہے، اس بل کا مقصد ایک سیاسی جماعت کو ٹارگٹ کرنا ہے، اس شور شرابے اور احتجاج کے باوجود تھوڑی ہی دیر میں پیکا ترمیمی بل سینیٹ سے منظور کر لیا گیا اور اب صدر آصف زرداری نے بھی الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام ترمیمی بل 2025 پر دستخط کر دیے ہیں۔ صدر کے دستخط کے بعد ترمیمی بل قانون بن چکا ہے۔

ترمیمی بل 2025 (پیکا) کی منظوری کے خلاف صحافتی تنظیموں نے ملک بھر میں احتجاج کیا اور آزادی صحافت پر اسے حملہ قرار دیا گیا ہے۔ صحافی ترمیمی بل پر تحفظات دور کرنے کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔

 ان حالات میں یہ سوال بھی زیر غور ہے کہ جن حکومتی ارکان نے یہ بل بنایا اور پاس کروایا ہے تو کیا وہ مقتدر حضرات سچائی پر قائم ہیں؟ آج تھانوں اور جیلوں کی صورت حال اس قدر گمبھیر ہے اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے، ان مظلوموں کو اس حال پر کس نے پہنچایا ہے؟ اس کا جواب سب کو معلوم ہے۔

تو اس بل کے سب سے پہلے بدعنوان اور غیر منصفانہ رویوں پر عمل کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، اس بل کو اپنے مخالفین اور حقیقت کی نقاب کشائی کرنے والوں کی حد تک محدود رکھنا جگ ہنسائی کرانا ہے۔ صحافی زرد صحافت سے دور رہنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر دہشت گردی اور سماجی برائیوں کا مقابلہ اور ظلم و ستم کی روک تھام کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں وہ سفاکیت اپنانے والوں کو آئینہ دکھاتے ہیں۔ ان حقائق کی نشان دہی کرنے والے بے شمار صحافی شہید اور پابند سلاسل کردیے گئے ہیں۔ ٹارچر سیل میں ذہنی اور جسمانی اذیتوں کا سامنے کرنے پر مجبور ہیں۔ 

ان سنگین حالات میں بہت سے صحافی اور صداقت پسند معاشرے کے اہم لوگ معذور ہو چکے ہیں اس ظلم پر قانون بنانے کی ضرورت تھی نہ کہ قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کرنے اور ساتھ میں تین لاکھ رقم جرمانے کے طور پر ادا کرنے کا قانون (پیکا) بنا دیا گیا ہے۔ ہماری نظر میں ہیں، شاید آپ کی نظر میں نہ ہوں کہ ایسے بھی صحافی ہیں جن کی آمدنی بہت کم ہے، کم آمدن کے باعث مہینے کے آخر میں نوبت ان کے گھروں میں فاقوں کی پہنچ جاتی ہے ان کے بچے تعلیم اور علاج سے محروم رہتے ہیں۔

 محض اپنے آپ کو اور اپنی کرسیوں کو مضبوط کرنے کے لیے راست گوئی کرنے والوں کو طاقت کی بنا پر روکنا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب صحافیوں کو ان کی خدمات کے عوض مراعات دی جاتی تھیںاور آج سچ بولنے کی سنگین سزائیں دی جا رہی ہیں جب کہ سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے۔

اب آتے ہیں القادر یونیورسٹی کی طرف جوکہ بانی پی ٹی آئی نے بنوائی ہے، بانی پی ٹی آئی کو عمارات اور وہ بھی اسپتال اور یونیورسٹیز بنانے کا کچھ زیادہ ہی شوق ہے، جب حکومت میں تھے اور غربا و مساکین شیلٹرز کا قیام عمل میں آیا تاکہ محنت مزدوری کرنے والوں کو ایک ایسی جگہ میسر ہو جہاں وہ موسموں کی سنگینی سے بچ سکیں، بھوکے پیٹ کے لیے کھانا میسر ہو جس طرح ان کی نمل یونیورسٹی میں طلبا کے لیے سہولیات موجود ہیں، شوکت خانم اسپتال میں بھی بے شمار مریض داخل ہوئے اور اللہ نے انھیں شفا نصیب کی، کینسر کا علاج کرانا غریب کے بس کی بات نہیں ہے، لاکھوں کا علاج معمولی تنخواہ پانے والے سوچ بھی نہیں سکتے، کراچی میں بھی کینسر اسپتال زیر تعمیر ہے، پشاور میں یہ اہم ادارہ مریضوں کے علاج میں مستعد اور مستند ہے۔

 آخر بانی پی ٹی آئی کو ایسے کام کرنے کی کیا ضرورت ہے جن کی رو سے مخلوق خدا کی خدمت ہو اور والدین کے لیے صدقہ جاریہ۔ ہمارے ملک میں نیک اور صالح، ملک و قوم کی محبت سے سرشار حضرات اور ہستیوں کی قدر ہرگز نہیں کی جاتی ہے بلکہ ان کے ساتھ ظلم و زیادتی ناانصافی کی روایت کو برقرار رکھا جاتا ہے اور یہی پاکستان کی بدنصیبی ہے۔

کچھ عرصہ قبل ہی جب القادر یونیورسٹی کاوجود سامنے آیا اور جس مقصد کے لیے اس یونیورسٹی کو قائم کیا گیا تھا الحمدللہ وہ مقصد پورا ہوچکا ہے۔

یونیورسٹی کی نہ کہ عمارت جو جدید تقاضوں کے اعتبار سے مکمل بن چکی ہے بلکہ اس میں باقاعدہ اساتذہ کا تقرر اور طلبا و طالبات کے داخلے اور پڑھائی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

کشادہ کلاس روم، ساتھ میں کمپیوٹر لیب،لیبارٹری، لائبریری اور اسلامی طریقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے طلبا کی ذہنی نشوونما اور آج کے دور میں ترقی کے جو ذرائع ہیں وہ سب چیزیں وہاں موجود ہیں حتیٰ کہ کھانے پینے کا بھی مفت انتظام ہے، نماز پڑھنے کے لیے مساجد کاقیام عمل میں لایا گیا ہے، طلبا وقت مقرر پر اپنی اپنی مساجد میں جا کر نماز ادا کرتے ہیں اورقرآنی تعلیم و احادیث سے استفادہ کرتے ہیں۔ 

درس و تدریس کے علما دین اور جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی پڑھانے کے لیے اساتذہ موجودہیں، چونکہ اس یونیورسٹی کی خصوصیت یہ ہے اور جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے وہ ہے سیرت النبی ﷺ کی تعلیم سے ذہنوں کے دریچوں کو روشن کیا جاسکے۔

 آج ہمارے معاشرے میں قتل و غارت، نامحرموں کے آپس کے تعلقات نے پرسکون فضا میں زہر گھول دیا ہے، زن، زر، زمین کی وجہ سے 5 سے 10، 15 لوگوں تک کا قتل روز کا معمول ہے اسلامی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے شادیوں کے مواقعوں پر لڑکے، لڑکی کی مرضی کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا ہے، گاؤں گوٹھ کے وڈیروں کا قانون سے کوئی تعلق ہرگز نہیں ہے اور اگر علم ہے بھی تو ہاریوں اور مزدوروں کے بچوں کے کانوں سے دور رکھا جاتا ہے، اپنی اولاد کو بیرون ملک کی یونیورسٹیوں میں تعلیم دلانا عام چلن ہے اپنے ملازمین سے خوب محنت کرواتے ہیں ساتھ میں ان کی عزت و ناموس کو پیروں تلے کچل دیتے ہیں۔

جتنی بھی حکومتیں آئیں انھوں نے گاؤں کے اصولوں کو اسی طرح رہنے دیا جس طرح صدیوں سے رائج ہیں، بے چارے بھوکے پیاسے کچے مکانوں میں رہنے پر مجبور ہیں، سیلاب آئے، طوفان آئے، برسات ہو یا سخت گرمی ہو یہ بے چارے ہر سہولت سے محروم کر دیے گئے ہیں، کوئی ایسا قانون اور قانون دانوں کے پاس اختیارات نہیں ہیں اگر ہیں بھی تو وہ لوگ پیسے اور تعیشات زندگی میں شان دار زندگی بسر کر رہے ہیں وہ ان کی بلا سے کہ ان کے لیے جو باہر ملکوں سے امداد آتی ہے وہ کہاں جاتی ہے، شادی کرنے کے جرم میں لڑکے لڑکیوں کو قتل کرنے پر پابندی اور ساتھ میں قاتلوں کے لیے سزا مقرر نہیں کی گئی۔

وہ سب آزاد ہیں جو چاہیں کریں اب اگر بانی پی ٹی آئی نے ایک ایسا ادارہ بنا دیا ، جہاں سے طلبا اسلامی تعلیمات اور ایک دوسرے کے حقوق کے بارے میں جان کر اور سرٹیفکیٹ حاصل کرکے باہر آئیں تاکہ لوٹ کھسوٹ، قتل، چوری، ڈاکا اور بددیانتی کا جو بازار گرم ہے اس کے خاتمے کے لیے نئی نسل کے لوگ حقیقی معنوں میں کام کریں۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت کی جانب سے متنازع پیکا قانون میں ترمیم کا اشارہ دیدیا گیا
  • حکومت نے متنازع پیکا قانون میں ترمیم کا اشارہ دے دیا
  • پیپلز پارٹی پیکا ایکٹ ترامیم میں برابر کی شریک ہے، بیرسٹر سیف
  • سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے پیکا قانون کیخلاف آواز اٹھادی
  • پیپلز پارٹی پیکا ایکٹ ترامیم میں برابر کی شریک ہے: بیرسٹر سیف
  • بیرسٹر سیف نے پیکا ایکٹ ترامیم پر پیپلز پارٹی کو آڑے ہاتھوں لے لیا
  • پیکا بل اور القادر یونیورسٹی
  • پیپلز پارٹی نے متنازع پیکا ایکٹ کے حق میں ووٹ دیا، بیرسٹر علی ظفر
  • صحافیوں کا پیکا ایکٹ کے خلاف ملک گیر احتجاج