Express News:
2025-04-15@06:34:48 GMT

عالمی تجارتی جنگ اور ٹرمپ کی پالیسیاں

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام پر ردعمل میں کینیڈا نے بھی امریکی درآمدات پر 25 فی صد ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کردیا جب کہ چین نے امریکا کی جانب سے ٹیرف عائد کیے جانے پر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شکایت درج کرانے کا اعلان کردیا۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکی کینیڈا، میکسیکو اور چین کے خلاف ٹیرف کی وجہ سے ابھرتی ہوئی تجارتی جنگ سے ’’ کچھ درد‘‘ محسوس کرسکتے ہیں، کینیڈا کو ہماری 51 ویں ریاست بننا چاہیے۔

 درحقیقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نئی عالمی تجارتی جنگ شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے، جس کے نتیجے میں غالباً امریکی شرح نمو میں کمی آئے گی اور صارفین کے زیر استعمال اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ چین، میکسیکو اور کینیڈا کا شمار امریکا کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں ہوتا ہے۔

ٹرمپ نے باور کرایا ہے کہ یورپی مصنوعات بھی بہت جلد کسٹم ڈیوٹیوں کا ہدف ہوں گی۔ یہ عالمی سطح پر ٹرمپ کا سب سے زیادہ انتشار پیدا کرنے والا اقدام ہے۔ اس اقدام نے تجارتی جنگ میں شدت کے خدشے کو جنم دیا ہے جس سے عالمی معیشت شدید عدم استحکام سے دوچار ہو سکتی ہے۔

کینیڈین حکومت امریکی کسٹم ڈیوٹی کے خلاف عالمی ادارہ تجارت WTO میں مقدمہ دائر کرے گی۔ اس کا مقصد کینیڈا، میکسیکو اور امریکا کے درمیان آزاد تجارت کے معاہدے کی رو سی زر تلافی حاصل کرنا ہے۔ ٹرمپ نے خود اس معاہدے پر 2018 میں دستخط کیے تھے۔

کینیڈا کے مستعفی وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک امریکی سامان پر 25% کی شرح سے ٹیکس عائد کرے گا، جس کی مالیت 155 ارب کینیڈین ڈالر (106.

6 ارب امریکی ڈالر) بنتی ہے۔ دوسری جانب میکسیکو کی خاتون صدرکلوڈیا شینباؤم نے تصدیق کی ہے کہ انھوں نے وزیر معیشت کو پلان B نافذ کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔

اس پلان میں ٹیکس عائد کرنے سمیت غیر معینہ تدابیر شامل ہیں۔ امریکی صدر کے اقدام سے تجارتی جنگ شروع ہوگئی ہے، امریکا کے دو بڑے تجارتی شراکت داروں میکسیکو اور کینیڈا نے فوری طور پر جوابی محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، چین اور کینیڈا نے کہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے اقدام کو عالمی تجارتی تنظیم ( ڈبلیو ٹی او) میں چیلنج کرنے کے ساتھ دیگر جوابی اقدامات کریں گے۔

معاشی ماہرین کے مطابق بھاری امریکی محصولات اور جوابی اقدامات کینیڈا اور میکسیکو کی معیشتوں کو کساد بازاری کی جانب دھکیل دیں گے۔ امریکا کو بھی کسی حد تک بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دراصل ٹیرف واضح پیغام ہوتا ہے جو تجارت کو جغرافیائی سیاسی ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ کے امریکا فرسٹ موقف کو تقویت دیتا ہے۔

سب سے بڑی تشویشناک بات یہ ہے کہ صورتحال طویل اور وسیع تر تصادم کی جانب بڑھ سکتی ہے۔ یورپی یونین نے ٹرمپ کی جانب سے بڑے امریکی تجارتی شراکت داروں پر درآمدی محصولات لگانے کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔

مزید برآں ایک ایکسٹرنل ریونیو سروس قائم کرنے کے ان کے منصوبے اس غلط فہمی کو ظاہر کرتے ہیں کہ صرف دوسرے ممالک ہی بڑھتے ہوئے ٹیرف سے متاثر ہوں گے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صارفین بھی اس اقدام کے نتیجے میں زیادہ مہنگائی کی صورت میں متاثر ہوں گے۔

عالمی سطح پر بھی ٹرمپ کے کچھ بیانات اور خارجہ پالیسی کے منصوبے انتشارکا باعث بن سکتے ہیں۔ انھوں نے بعض بیانات میں توسیع پسندانہ عزائم کا اشارہ دیا، جو 19ویں صدی کی امریکی سامراجیت کی یاد دلاتے ہیں۔

ٹرمپ نے پاناما نہر اور گرین لینڈ پر قبضے کا عندیہ دیا۔ اس مقصد کے لیے فوجی طاقت کا استعمال بھی شامل ہے۔ انھوں نے کینیڈا کو امریکا کی 51ویں ریاست بنانے کی دھمکی دی اور خلیج میکسیکو کا نام بدل کر خلیج امریکا رکھنے کا ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا۔

ٹرمپ کی ’’ امریکا پہلے‘‘ پالیسی کے تحت، ایک اور ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے امریکا کو پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی اور اس معاہدے سے متعلق پالیسیوں کو منسوخ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ یہ بین الاقوامی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے جوگرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور عالمی درجہ حرارت سے نمٹنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

ٹرمپ نے یہ اقدام 2017 میں اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران بھی کیا، لیکن صدر جوبائیڈن کے دور میں 2021 میں امریکا دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہوگیا۔ اس بار، اس فیصلے کے ساتھ ٹرمپ نے فوسل فیولز (تیل، گیس اور کوئلہ) کو فروغ دینے کا فیصلہ بھی کیا، جس میں تیل اور گیس کی ڈرلنگ میں اضافہ اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں اور الیکٹرک گاڑیوں کے لیے مراعات سمیت ماحولیاتی پالیسیوں کو ختم کرنا شامل ہے۔

گرین انفرا اسٹرکچر منصوبوں کے لیے اربوں ڈالر کی فنڈنگ معطل کر دی گئی۔ ٹرمپ نے ایک بے بنیاد اعلان میں کہا کہ ’’ماحولیاتی انتہا پسندی نے مہنگائی بڑھا دی اور کاروباروں پر ضوابط کا بوجھ ڈال دیا ہے۔‘‘ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سے علیحدگی کا حکم بھی ٹرمپ کے اقدامات میں شامل ہے۔

اس فیصلے کی بنیاد بھی گمراہ کن دلائل پر مبنی تھی، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ کووڈ 19کی وبا اور عالمی صحت کے دیگر بحرانوں سے نمٹنے میں ادارہ ناکام رہا اور اس میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔اس کے جواب میں عالمی ادارہ صحت نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے یاد دلایا کہ یہ ادارہ ’’ لاتعداد جانیں بچا چکا ہے اور امریکی شہریوں سمیت تمام لوگوں کو صحت کے خطرات سے محفوظ رکھا ہے۔‘‘

بیان میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ حالیہ برسوں میں ڈبلیو ایچ او نے اپنی تاریخ کی ’’سب سے بڑی اصلاحات کا عمل مکمل کیا۔‘‘یہ اقدامات کثیرجہتی کے لیے ایک اور دھچکا ثابت ہوئے، جو پہلے ہی گزشتہ دہائی کے دوران امریکا اور دیگر بڑی یا علاقائی طاقتوں کے یکطرفہ اقدامات کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے۔

ٹرمپ نے کثیر جہتی اداروں کے معاملے میں صبر سے کام نہیں لیا اور ان کی ’’امریکا پہلے‘‘ پالیسی کثیر جہتی پر یقین رکھنے کے اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں سے اقوام متحدہ، عالمی تجارتی تنظیم اور نیٹو جیسے اہم بین الاقوامی ادارے کمزور ہو سکتے ہیں، جو کئی دہائیوں سے عالمی تعاون اور اس کی مضبوطی کی بنیاد رہے ہیں۔

ان کا کثیر الجہتی معاہدات اور عالمی معاہدوں کے بارے میں شکوک و شبہات اور دوطرفہ مذاکرات کو ترجیح دینے سے ایک ایسا تناؤ پیدا ہوگا، جہاں دیرینہ اتحاد اور تعاونی ڈھانچے میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ ماہر ناقدین کا استدلال ہے کہ یہ نقط نظر بین الاقوامی اصولوں کے ٹوٹنے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا کو خود اس کے اپنے بنائے گئے لبرل نظام سے پیچھے ہٹا سکتا ہے۔

تاہم، کچھ افراد ٹرمپ کے بین الاقوامی اداروں کے بارے میں شکوک و شبہات میں ممکنہ فوائد دیکھتے ہیں۔ حامیوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا نقطہ نظر دوسرے ممالک کو اپنی سیکیورٹی اور اقتصادی مفادات کی زیادہ ذمے داری لینے پر مجبور کرتا ہے، جس سے ممکنہ طور پر امریکا کا عالمی بوجھ کم ہو سکتا ہے۔

منصفانہ تجارتی معاہدوں کو فروغ دینے اور اتحادیوں کو دفاعی اخراجات کے لیے خود ذمے دار بنانے کی کوششوں کے ذریعہ، ٹرمپ قلیل مدت میں امریکا کے لیے زیادہ منصفانہ معاہدوں کی وکالت کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا یک طرفہ نقطہ نظر امریکا کو کثیر الجہتی مذاکرات کی پابندیوں کے بغیر کام کرنے کی زیادہ آزادی اور لچک فراہم سکتا ہے، جو جغرافیائی سیاسی حالات میں بے حد فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

ٹرمپ یوکرین کی جنگ بند کرانے میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ضرور کوشش کریں گے ۔یہ جنگ یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے تنازع پر شروع ہوئی تھی جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکا کو نیٹو اتحاد سے نکل جانا چاہیے۔

امریکا کے نیٹو اتحاد سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو کا خاتمہ اور جب نیٹو تنظیم موجود ہی نہیں ہو گی یا مکمل غیر فعال ہو جائے گی تو اس کو وسعت دینے کی بنیاد پر شروع ہونے والی جنگ کے جاری رہنے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ ان سب کے باوجود روس کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کا امکان برقرار ہے، خاص طور پر اگر روس کی جارحانہ خارجہ پالیسی کے ساتھ ٹرمپ کی لین دین کی سفارت کاری کا تصادم جاری رہا۔چین، روس اور دیگر طاقتوں کے عالمی امور میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے طاقت کا ایک ایسا خلا پیدا ہو سکتا ہے جس میں امریکا اب وہ غالب پوزیشن نہیں رکھتا جو وہ کبھی رکھتا تھا۔

ٹرمپ کی حالیہ صدارت عالمی و ملکی سطح پر کئی پہلوؤں سے اثر انداز ہو سکتی ہے۔ امیگریشن، نسل پرستی اور معاشی عدم مساوات پر ان کی پالیسیوں سے امریکی معاشرتی تقسیم اور داخلی اختلافات مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں ٹرمپ کی پالیسی سے ہندوستان کو ترجیح اور افغانستان میں انخلا پر نئی شرائط ممکن ہیں، جو پاکستان کے لیے چیلنجز بڑھا سکتے ہیں۔ فلسطین کے خلاف مزید سخت اقدامات سے فلسطینی مزاحمت میں شدت آ سکتی ہے، جس کا اثر عالمی سطح پر اور خطے کے امریکی اتحادیوں پر بھی ہوگا۔

ان کی صدارت کے نتائج ملکی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر آنے والے برسوں میں جب ظاہر ہوں گے، تب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ان کی ’’America first‘‘ والی اپروچ دنیا کے لیے کس قدر مفید ہوگی اور امریکا کی ساکھ مزید مضبوط ہوگی یا انتشار و خلفشار کا شکار ہوکر دنیا کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردے گی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عالمی تجارتی بین الاقوامی میکسیکو اور ڈونلڈ ٹرمپ تجارتی جنگ امریکا کے کی پالیسی امریکا کو کے اقدام کا اعلان سکتے ہیں کرنے کی سکتا ہے ٹرمپ کے کے ساتھ کی جانب ٹرمپ کی سکتی ہے کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ ٹیرف عالمی معاشی جنگ...گلوبل اکنامک آرڈر تبدیل ہوگا؟؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر منتخب ہوتے ہی غیر معمولی اقدامات کا آغاز کیا اور وہ آئے روز دنیا کو سرپرائز دیتے رہتے ہیں۔

حال ہی میں انہوں نے معاشی محاذ سنبھالا اور ٹیرف جنگ کا آغاز کر دیا جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔اس کے عالمی معیشت اور پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے،ا س کے بارے میں جاننے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں نمائندہ بزنس کمیونٹی اور ماہرین اقتصادیات کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

محمد ندیم قریشی

(سابق ریجنل چیئرمین، ایف پی سی سی آئی)

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن دنیا کی بڑی طاقتوں نے بنایا تاکہ ٹیرف کم ہو اور ہمارا مال بھی ان کے ممالک میں پہنچ سکے، اس میں ان کا مفاد تھا جبکہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ دور ان کے سابق ادوار سے مختلف ہے۔ ٹرمپ ٹیرف کو چار دن بعد ہی 90 روز کیلئے موخر کر دیا گیا۔ یہ جنگ بڑی طاقتوں کی ہے جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

اب جنگ ٹینکوں اور طیاروں کی نہیں معیشت کی ہے ۔ امریکا اور چین کی معاشی جنگ کی بات کریں تو چین ایک مضبوط معیشت ہے، اس کو جھکانا امریکا کیلئے ناممکن ہے۔ امریکا کی اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ 5 برسوں میں بھی خود کو چین کا متبادل بنا سکے، چینی اشیاء کی قیمت میں اضافے سے امریکی صارف متاثر ہوگا۔

چین دنیا بھر سے تجارت کر رہا ہے اور دیگر ممالک میں اپنی انڈسٹری بھی لگا رہا ہے۔ اس نے کیمیکل، فارما سیوٹکلز ودیگر انڈسٹری ویتنام اور دیگر ممالک میں لگائی ہے، پاکستان میں بھی لگ سکتی ہے لیکن ا س میں ہماری حکومتوں کی کمزوریاں ہیں۔ حالیہ معاشی جنگ میں پاکستان کیلئے زیادہ خطرہ نہیں ہے۔ ہم ساڑھے پانچ ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔ ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر بڑا ہے۔ ہم پر خطے میں بھارت کے بعد کم ٹیرف لگا ہے۔ یہ ایک اہم موقع ہے۔ ہمیں جی ایس پی پلس سٹیٹس کے ختم ہونے کا خوف ہوتا ہے لہٰذا اب ہمیں امریکی مارکیٹ میں مزید جگہ بنانے میں مدد ملے گی اور امید ہیکہ ہماری بند انڈسٹری بھی بحال ہوگی۔

حکومت زراعت کے فروغ کیلئے کام کر رہی ہے۔ گزشتہ 75 برس میں اتنا کام نہیں ہوا جتنی توجہ موجودہ حکومت دے رہی ہے مگر اس کے باوجود شعبہ زراعت کیلئے بنیادی پالیسی نہیں بنائی جاسکی۔ سبسڈی سے کچھ سپورٹ تو ملتی ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کسانوں کی مدد اور کپاس کی پیداوار کے حوالے سے بھی اقدامات کر رہی ہیں لیکن میرے نزدیک اگر حکومت صحیح معنوں میں زرعی ترقی چاہتی ہے تو اسے جامع حکمت عملی بنانا ہوگی۔ ہمیں کسان کی پیداواری لاگت کم کرنا ہوگی۔ آٹا، چینی اور گندم حکومت کے کنٹرول میں ہے، اسے فری مارکیٹ کرنے سے قیمتیں مناسب ہو جائیں گی، دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے نقصان امریکا کو بھی ہوگا۔ چین کے پاس راستے بہت ہیں، اس نے دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے پر پھیلا رکھے ہیں۔ اگر آج امریکا کے ساتھ تجارت بند ہوتی ہے تو چین کے پاس یہ آپشنز موجود ہیں کہ وہ امریکی ایکسپورٹ کا 50 فیصد دوسرے ممالک میں فوری بھیج دے گا۔

اس کے علاوہ اس کی اپنی آبادی زیادہ ہے، 25 فیصد اس کے اپنے ملک میں لگ جائے گا، باقی 25 فیصد کا بوجھ وہ با آسانی برداشت کر سکتا ہے جبکہ امریکا کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہے۔ دنیا کیلئے بہتر یہی ہے کہ معاشی جنگ نہ ہو۔ اس سے دنیا کا معاشی سٹرکچر بدل جائے گا، معیشت کی عالمی جنگ ہوگی جس کا نقصان سب کو اٹھانا پڑے گا۔ جب چین اپنی پراڈکٹس دنیا کے دیگر ممالک کو بھیجے گا تو اس کا اثر ہم پر بھی پڑے گا کیونکہ اس کی پیداواری لاگت ہم سے بہت کم ہے۔ چین کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ ممالک کی مینوفیکچرنگ صلاحیت کو ختم کرکے انہیں صرف ٹریڈر بنا دے۔

ڈاکٹر قیس اسلم

(ماہر معاشیات)

تکنیکی طور پر یہ کمیونسٹ اور فری مارکیٹ ریاستوں کی لڑائی ہے ۔ ایک کا چہرہ چین ہے جبکہ دوسروں کا نمائندہ امریکا اور یورپی یونین ہیں، یہ سب ہی ٹاپ تھری معاشی طاقتیں ہیں۔ گزشتہ 50 سال پینڈولم فری مارکیٹ کی طرف تھا، چین بھی اس کی بات کرتا تھا۔ امریکا جو فری مارکیٹ کا لیڈر ہے، وہ پینڈولم کو کلوزڈ اکانومی کی طرف لے جا رہا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ کپیٹل ازم کرائسس میں ہے جسے ٹرمپ بچانا چاہتا ہے۔ ایک طرف برکس ہے تودوسری طرف ٹرمپ کی پالیسیوں کے پیش نظر 40 برس سے زائد عرصہ اکٹھا نہ ہونے والے چین، جاپان اور جنوبی کوریا نے فری ٹریڈ زون بنا لیا ہے اور یہ ٹرمپ ٹیرف کے تیسرے روز ہوا۔ ٹرمپ نے ڈیوس میں کہا تھا کہ جسے ٹیرف نہیں چاہیے وہ اپنی پروڈکشن امریکالے آئے ، اس حوالے سے اہم پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ نیسان نے اپنی پروڈکشن کا بڑا حصہ امریکا منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

فری ٹریڈ اکانومی میں وہ اشیاء بنائی جاتی ہیں جو سستی تیار ہوتی ہیں اور جنہیں دنیا میں ایکسپورٹ کیا جاسکتا ہے لیکن کلوزڈ اکانومی میں تو آپ کو ہر چیز خود تیار کرنا ہوگی اور وہ اشیاء بھی بنانا ہونگی جن کی ڈیمانڈ کم ہے ۔ چین اور امریکا کے درمیان بہترین معاشی تعلق بن چکا تھا ، امریکا نے اپنی مینوفیکچرنگ چین میں منتقل کی وہاں بڑی سرمایہ کاری بھی امریکا کی ہے اور چین کی سب سے زیادہ ایکسپورٹ امریکا ہوتی ہے۔جب چین پر 125فیصد ٹیرف لگے گا تو اس کا نقصان امریکی صارفین کو ہوگا۔ ٹرمپ نے 90 دن کیلئے ٹیرف کو معطل کیا ہے لیکن یہ ریلیف چین، کنیڈا اور میکسیکو کیلئے نہیں ہے۔

ٹرمپ نے گزشہ دور حکومت میں میکسیو اور کینڈا کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدہ کیا اور اسے بہترین قرار دیا، اب ان پر ٹیرف لگا کر اپنے ہی معاہدے کے خلاف کام کیا ہے۔ پاکستان پر 29 فیصد ٹیرف لگا ہے جو بھارت سے زیادہ ہے مگر بنگلہ دیش اور خطے کے دیگر ممالک سے کم ہے۔ہمیں اب دو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا یہ کہ ہم جی ایس پی پلس سٹیٹس سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور نئی مارکیٹ تلاش کریں۔ اس کے علاوہ امریکا میں جو اشیاء مہنگی ہوئی ہیں، ان میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کریں۔

حال ہی میں ملک میں منرلز پر عالمی کانفرنس ہوئی ہے جس میں امریکیوں نے بھی شرکت کی۔ وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ ہم خام مال نہیں دیں گے بلکہ اس کی مینوفیکچرنگ کرکے ایکسپورٹ کریں گے۔ اس میں اہم یہ ہے کہ جس علاقے سے یہ منرلز نکلیں گی، اس کا پچاس فیصد وہاں کے لوگوں پر خرچ کیا جائے گا۔ ہمارے لیے افریقی مارکیٹ بھی موجود ہے جہاں ایکسپورٹ کی جاسکتی ہے۔ اس وقت اہم یہ ہے کہ مینوفیکچررز اورایکسپورٹرزکو یہ بتایا جائے کہ کہاں کہاں مواقع موجود ہیں اور کونسی مصنوعات تیار کرنی ہیں۔ حکومت کو اس پر بھی کام کرنا چاہیے کہ ممالک کی مصنوعات کا ٹیرف کے بعد جائزہ لے اور مینوفکچررز اور ایکسپورٹرز کو بتائے کہ انہیں کیا کام کرنا چاہیے۔ اگر یہ نہ کیا گیا تو حالیہ موقع بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔

میرے نزیک ٹرمپ دنیا کو ڈرا رہا ہے کہ بات چیت کریں۔ ٹرمپ غیر قانونی تارکین وطن کو نکال رہا ہے۔ امریکی حکومت کے رکن نے یہ بھی بیان دیا ہے کہ جس سٹوڈنٹ نے فیس بک پر فلسطین کی حمایت کی، اس کا ویزہ منسوخ کر دیا جائے گا، یہ افسوسناک ہے، اس پر سب کو متحد ہونا ہوگا۔ امریکا، یورپ کے بجائے چین اور روس سے دوستی کرنا چاہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ نیٹو نے اس کا نقصان کیا اور یورپی یونین امریکا کے خلاف بنی۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی سفید فام، مینوفیکچرز اور کسانوں کو سپورٹ کرنا چاہتا ہے لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے، چین سے انڈسٹری امریکا منتقل کرنے میں خاصا وقت درکار ہے۔

برکس میں چین اور بھارت کے درمیان مخالفت میں کمی آئے گی۔ ٹرمپ نے یہ بھی دھمکی دی کہ اگر برکس اپنی کرنسی بنائے گا تو سخت ردعمل آئے گا جس پر روسی صدر پیوٹن نے بھی کہا کہ ہم ابھی اپنی کرنسی بنانے کا نہیں سوچ رہے۔ بہرحال ورلڈ آرڈر میں تبدیلی آرہی ہے۔ پاکستان نے کمیشن بنایا ہے جس میں وزراء شامل ہیں ، کہ ہم نے زائد بجلی سے کرپٹو کرنسی بنانی ہے۔ کسی اور ملک نے اس طرح کی بات نہیں کی، سینٹرل بینک نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے۔ ہماری اکنامک فارمولیشنزعوام یا مینوفیکچرنگ دوست نہیں ہیں، ہمیں اس پر سوچنا پڑے گا۔ آبادی کے لحاظ سے چین دنیا کا دوسرا اور امریکا تیسرا بڑا ملک ہے۔

یہ اگر اپنے اپنے ملک میں اشیاء بیچیں تو ان کا کام چل سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے پاس وسائل ہیں، ان کی معیشت مستحکم ہے، ان کے پاس پانی، توانائی، ٹیکنالوجی، لیبر، عوام سب کچھ ہے۔ مسئلہ یورپ کو ہوگا، اگر باقی دنیا اپنی زراعت اور وسائل پر توجہ دے، کام کرے تو اس کا بھی کام چل جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ تیسری مرتبہ صدر بننا چاہتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو ان کا مقابلہ باراک اوبامہ سے ہوگا، اس وقت یہ مہنگائی اور پالیسیوں کا نقصان امریکا کو ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ چیزیں آگے چل کر بہتر ہونگی اور انہیں بیلنس کرنا پڑے گا۔ اصل پلیئر تو یورپ ہے جسے سمجھ نہیں آرہی کہ امریکا، چین یا روس، کس سے دوستی کرنی ہے۔ اس صورتحال میں فیصلہ کن کردار یورپ کا ہوگا۔

عابد رضا خان

 (اسسٹنٹ پروفیسر، سکول آف اکنامکس جامعہ پنجاب)

پچھلی صدی میں دو عالمی جنگیں ہوئیں، گریٹ ڈپریشن آیا جس کے بعد دنیا نے فیصلہ کیا کہ ’رول بیسڈ آرڈر‘ بنانا جس کے تحت ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بنے اور بعدازاں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی بنیاد بھی رکھی گئی۔ اس آرڈر کی بنیاد پر دنیا نے اپنی تجارت اور نظام کو استوار کیا، یہی وجہ ہے کہ آج دنیا ایک دوسرے سے منسلک ہے، بڑی کمپنیوں کی پراڈکٹس کے حصے ایک سے زائد ممالک میں تیار ہوتے ہیں۔ ٹرمپ ٹیرف اس رول بیسڈ آرڈر کے خلاف ہے۔

اس آرڈر کے تحت تو تجارت کا فروغ اورٹیرف میں کمی کرنا تھی لہٰذا ٹرمپ ٹیرف اس کا مخالف ہے۔ ماضی میں ’ڈبیلو ٹی او‘ نے پاکستان کو پاور سیکٹر کی نجکاری کا کہا۔ اسی اور نوے کی دہائی میں پاکستان، بھارت سمیت دنیا بھر میں پرائیویٹ مارکیٹ کو فروغ دیا گیا، تجارت پر پابندیاں لگائی گئیں اور دنیا میں فری ورلڈ ماڈل انفورس کیا گیا اور اس کا لیڈر آج بھی امریکا ہے لیکن اب امریکی صدر خود گلوبل اکنامک آرڈڑ کے مخالف کام کر رہے ہیں۔

1971 میں اس وقت کے صدر نکسن نے یکطرفہ فیصلے کرتے ہوئے ڈالر کو سونے سے الگ کر دیا۔ اس وقت اسی قسم کے حالات تھے، اس کا فائدہ امریکا کو ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو سنٹرل امریکا سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں، یہ لوگ مینوفیکچرنگ اور زراعت سے منسلک ہیں، ٹرمپ کے فیصلوں سے ان کو فائدہ ہوگا، وہ خوش دکھائی دیتے ہیں۔

فری ٹریڈ کے خلاف بات ہو رہی ہے۔ یورپ نے گرین انڈسڑیلائزیشن پر کام کیا، کاربن بانڈڈ ایڈجسٹمنٹ میکنزم لا رہے ہیں جس سے وہ اپنی انڈسٹری کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ جوابی ٹیرف لگائیں گے لیکن اس کا جو فارمولا سامنے آیا ہے،ا س میں ایسا نہیں ہے، وہ ٹریڈ سرپلس کے حوالے سے ہے۔ پاکستان سوا پانچ بلین ڈالر ایکسپورٹ کرتا ہے، 3.7 بلین کا سرپلس بنتا ہے،یہ نمبر 60 کے قریب بنتا ہے، اسے 2 کے ساتھ تقسیم کیا ہے اور یہ ٹیرف لگ گیا۔ جرمنی نے امریکا پر1.75 ٹیرف لگایا ہے جبکہ امریکا نے 20 فیصد لگا یا ہے، اس پر بات ہو رہی ہے اور مذاق بھی بن رہا ہے۔ میرے نزدیک ٹرمپ ٹیرف کا مقصد گلوبل اکنامک آرڈر کو تبدیل کرنا ہے۔ پاکستان سوا پانچ بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کرتا ہے جن میں ٹیکسٹائل 70 فیصد ہے۔

امریکا میں اتنی پروڈکشن کپیسٹی نہیں ہے کہ وہ دنیا میں ٹیکسٹائل مہنگی ہونے کے بعد خود اس کی پروڈکشن کرے۔ اب دنیا کے ممالک میں یہ ریس لگے گی کہ کون معیاری اور سستی ٹیکسٹائل پراڈکٹس امریکا کو ایکسپورٹ کرے گا۔ اس خطے میں بھارت کے علاوہ سب سے کم ٹیرف پاکستان پر لگا ہے لہٰذا یہ ہمارے پاس بھی ایک بڑا موقع ہے، اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

ٹیکس کی وجہ سے جب قیمت بڑھتی ہے تو سارا بوجھ صارف پر نہیں ڈالا جاتا بلکہ مینوفیکچرر خود بھی بوجھ برداشت کرتا ہے لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ چین کتنا بوجھ خود اٹھائے گا تاکہ امریکی مارکیٹ میں اس کی مصنوعات کی قیمت زیادہ نہ بڑھے۔ اس وقت دنیا کی مارکیٹ اور خود امریکا میں بھی غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ سرمایہ کاروں کیلئے تو لانگ ٹرم پالیسی کی اہمیت ہوتی ہے۔

ٹرمپ نے تو آتے ہیں سب کچھ ہلا دیا اور ان کی پالیسیاں بھی اچانک ہی آتی ہیں۔ اب انہوں نے ٹیرف کا اعلان کیا اور پھر اسے معطل بھی کر دیا۔اس غیر یقینی کی وجہ سے مارکیٹ مسائل کا شکار ہے، لوگ اپنا پیسہ نکال رہے ہیں۔ ٹیرف کے اعلان کے بعد سب سے پہلے سونا مہنگا ہوا، یہ ایک محفوظ سرمایہ کاری ہوتی ہے لہٰذا لوگ سونا خرید لیتے ہیں۔ بانڈز مارکیٹ میں منفی رجحان کی وجہ سے ٹرمپ نے ٹیرف کا فیصلہ واپس لیا۔ تجارت کی دنیا میں سرپلس ملک جنگ نہیں جیت سکتا۔

چین کی تجارت کا حجم زیادہ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں وہ امریکا سے بہت کم خرید رہا ہے۔ اگر صرف تجارت کے حوالے سے دیکھیں تو چین کے جوابی ٹیرف سے اسے خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ ٹرمپ ٹیرف کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ان ممالک سے ٹیبل ٹاک کے ذریعے معاملات طے کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ دنیا اور اپنے ووٹر کو دکھا سکے کہ میں نے چین کو بیٹھنے پر مجبور کر دیا اور اس کے ساتھ ڈیل کی ہے۔ چین کے سخت ردعمل کا مطلب یہ ہے کہ وہ ٹیبل پر بیٹھنے کو تیار نہیں ہے۔

چین دنیا کی بڑی معاشی طاقت ہے لیکن اس کے اور امریکی شہری کے درمیان لائف سٹائل کا موازنہ کریں تو امریکا کہیں آگے ہے لہٰذا اس ٹریڈ وار میں چین کو اپنی ڈومیسٹک ڈیمانڈ کو بڑھانا چاہیے اور جو مصنوعات وہ امریکا اور دیگر ممالک کو ایکسپورٹ کر رہا ہے، اس کو اپنے ملک میں بیچے تاکہ لوگوں کا معیار زندگی بہتر اور امیر، غریب کی تفریق کم ہوسکے۔ چین امریکا کا سب سے بڑا سپلائر ہے، کئی ایسی پراڈکٹس ہیں جو کوئی اور ملک نہیں بناتا، امریکا یہ اشیاء چین سے ہی خریدے گا اور اس کا اثر امریکی صارفین پر پڑے گا۔ چین کہ پاس یہ بھی آپشن ہے کہ وہ امریکا کے بجائے دیگر ممالک پر توجہ دے۔ وہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دے سکتا ہے۔ا سی طرح سی پیک منصوبے کی وجہ سے چین کی وسطی ایشیاء تک رسائی اور تجارت ہوگی۔

لانگ رن میں ٹیرف دنیا کے لیے بڑا مسئلہ نہیں ہوگا بلکہ ایک نیا ورلڈ آرڈر آئے گا مگر شارٹ ٹرم میں دنیا کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔زیادہ امکان تو یہ نظر آتا ہے کہ ٹیرف جیسی پالیسیاں رول بیک ہوجائیں گی مگر ٹرمپ نے ٹیرف کو پالیسی ٹول کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ اسے معاشی اور سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ٹرمپ یورپی یونین کے بڑے سپورٹرنہیں ہیں۔ٹرمپ کی حالیہ پالیسی میں برطانیہ پر ٹیرف 10 جبکہ یورپی یونین پر 20 فیصد ہے۔ برطانیہ میں کاروباری طبقے کا ایک بڑا گروہ کہہ رہا تھا کہ بریگزٹ والی بڑی غلطی کر لی ہے، کوئی راستہ نکالا جائے۔ اب برطانیہ پر کم ٹیرف کی وجہ سے جرمنی کے مقابلے میں برطانوی بزنس کمیونٹی کیلئے امریکی مارکیٹ سازگار ہوگی۔ ٹرمپ اپنے پہلے دور میں تجارت کے حوالے پالیسی میں تبدیلی لائے،ڈیموکریٹس نے اس پر شدید تنقید کی لیکن جب جوبائیڈن صدر بنے تو اس کا تسلسل جاری رہا۔میرے نزدیک ٹیرف ٹول اب ممالک کی پالیسی میں واپس آگیا ہے، ٹرمپ رول بیک کر بھی دیں تو یہ ٹول استعمال ہوگا۔ 

متعلقہ مضامین

  • امریکی اندھا دھند محصولات سے عالمی تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، چینی ریاستی کونسل
  • امریکا کو اپنی غلطیوں کو درست کرنے میں زیادہ بڑا قدم اٹھانا چاہئے، عالمی میڈیا
  • غیرمنصفانہ تجارتی رویے پر کوئی ملک ٹیرف سے نہیں بچے گا، ٹرمپ
  • دہشتگردی عالمی چیلنج ہے، پاکستان دہشتگردی اور دنیا کے درمیان دیوار کی حیثیت رکھتا ہے،  وزیر داخلہ
  • الیکٹرانکس پر امریکی ٹیرف سے بچنا ممکن نہیں، ٹرمپ کی چین کو تنبیہ
  • ٹرمپ ٹیرف عالمی معاشی جنگ...گلوبل اکنامک آرڈر تبدیل ہوگا؟؟
  • ٹرمپ ٹیرف مضمرات
  • تجارتی جنگ: چین نے امریکا سے بڑا مطالبہ کردیا
  • دنیا پر ٹرمپ کا قہر
  • تجارتی جنگ اور ہم