UrduPoint:
2025-02-03@14:00:59 GMT

جرمنی میں امیگریشن پر بحث اور مظاہروں میں شدت

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

جرمنی میں امیگریشن پر بحث اور مظاہروں میں شدت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 فروری 2025ء) پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق اتوار کو جرمنی کے دارالحکومت برلن میں تقریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد نے ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی، جبکہ منتظمیں کے مطابق مظاہرین کی تعداد ڈھائی لاکھ کے قریب تھی۔

اس مظاہرے میں ''فائر وال‘‘ کے نعرے بلند کیے گئے۔ اصطلاح ''فائر وال‘‘ سے مراد ایک تقسیم کرنے والی لکیر ہے، جس کے ذریعے جرمنی کی مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں خود کو جزوی طور پر دائیں بازو کے انتہا پسند جماعت متبادل برائے جرمنی (اے ایف ڈی) سے الگ کرتی ہیں۔

اس مظاہرے کا مقصد دیگر جماعتوں کو اے ایف ڈی کے ساتھ تعاون کرنے سے روکنا تھا۔ اس بڑے مظاہرے کا پس منظر

اس احتجاج کا پس منظر یہ ہے کہ گزشتہ بدھ کو جرمنی کی قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور صوبے باویریا میں اس کی ہم خیال جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کی طرف سے ملک میں سیاسی پناہ کی پالیسی کو سخت بنانے کے لیے جرمن پارلیمان میں ایک قرارداد پیش کی گئی تھی۔

(جاری ہے)

اس قرارداد کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی نے حمایت کی تھی اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ جرمن پارلیمان میں ووٹنگ کے دوران کسی بڑی سیاسی جماعت کو اے ایف ڈی کی حمایت حاصل ہوئی۔

جمعے کو اسی تناظر میں سی ڈی یو اور سی ایس یو نے ایک قانون متعارف کرایا تھا، جو جرمن پارلیمان (بنڈس ٹاگ) میں ناکام ہو گیا۔ اے ایف ڈی نے اس ووٹنگ میں بھی سی ڈی یو اور سی ایس یو کا ساتھ دیا لیکن دونوں قدامت پسند یونین جماعتوں (سی ڈی یو اور سی ایس یو) کے ساتھ ساتھ لبرل فری ڈیموکریٹک پارٹی کے کئی اراکین نے اس ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔

برلن میں گزشتہ روز کے مظاہرے سے یہودی مصنف میشل فریڈمان، جنہوں نے حالیہ واقعات کی وجہ سے سی ڈی یو کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا، نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے اے ایف ڈی کو ''نفرت کی جماعت‘‘ اور اے ایف ڈی کے ساتھ سی ڈی یو اور سی ایس یو کے مشترکہ ووٹ کو ''ناقابل معافی غلطی‘‘ قرار دیا۔

جرمنی: قدامت پسندوں کے امیگریشن منصوبے قانونی ہیں؟

مظاہرین جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں فکر مند تھے۔

گزشتہ روز مظاہرے میں شریک ایک خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا: ''میرے خیال میں سی ڈی یو اور ایف ڈی پی جیسی جمہوری مرکز کی جماعتوں پر یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ وہ جمہوری مرکز کو چھوڑنے کے عمل میں ہیں۔‘‘ ان کے مطابق اگر فریقین کو اس کا علم نہیں تو انہیں اس سے آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔ جرمنی بھر میں مظاہرے

گزشتہ روز برلن میں ہونے والا یہ مظاہرہ سب سے بڑا تھا لیکن جرمنی میں صرف یہ ایک مظاہرہ ہی نہیں ہوا تھا۔

پولیس کے مطابق نسل پرستی اور سی ڈی یو اور سی ایس یو کی سیاسی پناہ کی متنازعہ پالیسی کے خلاف احتجاج کے لیے اتوار کو ریگنزبُرگ میں بھی تقریباً 20 ہزار شہری سڑکوں پر نکلے۔

اسی طرح کئی دوسرے شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ہفتے کو بھی انتہائی دائیں بازو کے خلاف بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ ہیمبرگ میں 65 ہزار سے 80 ہزار تک کے درمیان لوگ سڑکوں پر نکلے جبکہ کولون اور اشٹٹ گارٹ میں تقریباً 45 ہزار لوگ سڑکوں پر آئے۔

اسی تناظر میں مزید مظاہروں کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ ''دائیں بازو کے خلاف اتحاد‘‘ اور ''فرائیڈیز فار فیوچر‘‘ نے آج بروز پیر برلن میں سی ڈی یو کی پارٹی کانگریس کے موقع پر بھی احتجاج کا منصوبہ بنایا ہے۔

مارکو میولر (ا ا / م م)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سی ڈی یو اور سی ایس یو اے ایف ڈی کے مطابق

پڑھیں:

متنازع پیکا ایکٹ کے خلاف صحافیوں کے احتجاجی مظاہرے، سرکاری تقریبات کے بائیکاٹ کا اعلان

متنازع پیکا قانون کے خلاف صحافی برادری نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے قانون واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، لاہور، کراچی سمیت دیگر شہروں میں صحافیوں نے احتجاج کیا، اور پریس کلبوں پر سیاہ پرچم لہرائے گئے۔ صحافیوں نے اپنے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر فرائض انجام دیے۔

یہ بھی پڑھیں صحافی برادری نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل مسترد کردیا، ملک گیر احتجاجی مظاہرے

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ نے اسلام آباد میں احتجاج کرنے والے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہم کسی صورت آزادی صحافت پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔

لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے کہاکہ کالے قانون کے خلاف احتجاج کیا جائےگا، اور ہم سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ کریں گے۔

واضح رہے کہ صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط کے بعد پیکا ایکٹ قانون بن گیا ہے، آصف زرداری نے صحافیوں سے گزارشات سننے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس سے قبل ہی دستخط کردیے۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پیکا ایکٹ میں مزید ترامیم بھی ہو جائیں گی، یہ کوئی صحیفہ نہیں، صحافی اپنی ٹھوس تجاویز لے کر آئیں۔

یہ بھی پڑھیں صدر نے پیکا ایکٹ پر دستخط کرکے اپنے مؤقف سے روگردانی کی، مولانا فضل الرحمان

انہوں نے اعتراف کیاکہ حکومت کی جانب سے پیکا ایکٹ پاس کرانے میں جلد بازی کی گئی، ایسے نہیں ہونا چاہیے تھا، ضروری تھا کہ صحافیوں کے تحفظات سنے جاتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews پریس کلب حکومت صحافیوں کا احتجاج صدر مملکت آصف زرداری عرفان صدیقی متنازع پیکا ایکٹ وی نیوز یوم سیاہ

متعلقہ مضامین

  • جرمن انتخابات۔۔جرمنی نئی منزلوں کی تلاش میں
  • مہنگی بجلی، آئی پی پیز مافیا، مہنگائی کے خلاف جماعت اسلامی کے مظاہرے، ریلیاں
  • نوابشاہ ،جماعت اسلامی کے تحت ہونیوالے احتجاجی مظاہرے سے مقررین خطاب کررہے ہیں
  • صحافیوں کا پیکا ترمیمی قانون کیخلاف ملک بھر میں یوم سیاہ اور مظاہرے
  • مہنگی بجلی اور آئی پی پیز مافیا کیخلاف جماعت اسلامی کاملک بھر میں احتجاج(حافظ نعیم آج لائحہ عمل کا اعلان کرینگے)
  • گستاخ امام زمانہ کیخلاف گلگت میں عوام ایک بار پھر سڑکوں پر، مظاہرے اور ریلی، ویڈیو رپورٹ
  • گلگت، گستاخ امام زمانہ کی عدم گرفتاری کیخلاف جلسے سے مقررین کا خطاب
  • متنازع پیکا ایکٹ کے خلاف صحافیوں کے احتجاجی مظاہرے، سرکاری تقریبات کے بائیکاٹ کا اعلان
  • جماعت اسلامی کے خیبر پختونخوا میں بجلی کے بھاری بلز کیخلاف احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں