فورسز پرحملوں کے پیچھے ملک دشمن ایجنسیاں ہیں،ضیا اللہ لانگو
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
اسلام آباد:
سابق وزیر داخلہ بلوچستان ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے دو محرکات ہیں، ایک تو یہ ہے کہ جو ہمارے دشمن ممالک ہیں، دشمن ممالک کی ایجنسیاں ایسے عناصر کی سپورٹ کرتی ہیں اور ان کو ہر طرح کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے، دوسری بات بحیثیت ایک قوم ہم اپنی سیکیورٹی فورسز کیساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال پرانھوں نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے پیچھے ملک دشمن ا یجنسیاں ہیں انھوں نے ایک ایسا ماحول بنایا ہے کہ ہمارے کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر ان کے ذریعے ہمارے نوجوان طلبا کو لٹریچر کے ذریعے کچھ اور باتوں کے ذریعے ورغلایا گیا ہے۔
سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا مذاکرات کا عمل ختم تو نہیں ہوگا،دوبارہ شروع ہو جائے گا،صرف پرابلم یہ آ رہی ہے کہ اس وقت تک حکومت کے پاس اسپیس نظر نہیں آ رہی جب تک مذاکراتی کمیٹی عمران خان سے ملاقات ہی نہیں کر سکتی تو وہ آگے آ کر مذاکرات میں کیا بیٹھے گی؟، پرائمری پرابلم از گورنمنٹ کو اسٹیبلشمنٹ سے بالکل بھی اسپیس نہیں مل رہی،میں پہلے دن سے یہ بات کر رہا ہوں کہ ہمیں گرینڈ پولیٹیکل ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس میں سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوں اور اسٹیبلشمنٹ بھی شامل ہو۔
کورٹ رپورٹر ایکسپریس جہانزیب عباسی نے کہاکہ عدالتی تاریخ میں ایسی مثالیں تو ہیں جن میں ججوں کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ منتقل کیا گیا ہے،آرٹیکل 200میں صدر کا یہ اختیار ہے اور آئین نے یہ اختیار دیا ہوا ہے کہ ایک جج کو ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے۔
اب اس معاملے پر ججوں نے خط کے ذریعے جن خدشات کا اظہار کیا ہے اس حوالے سے مناسب ہوتا کہ کوئی پیپر ورک یا ڈاکیومنٹ ہوتا اور اس کی بنیاد پر بات کی جاتی تو وہ زیادہ مناسب تھا، خط میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحیحٰی آفریدی کو بھی ایڈریس کیا گیا ہے، یہ ایشو ہوایوں ہے کہ 10 فروری کو سپریم کورٹ میں 8 ججوں کی تعیناتی کیلیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلایا گیا ہے، ان میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کا بھی نام ہے۔
ماہر قانون حافظ احسان احمد نے کہا 1973 کے آئین کے اندر جو آرٹیکل 200 دیا گیا ہے یہ پاکستان کے چند آرٹیکلز میں سے ایک آرٹیکل ہے جو 1973 سے لیکر2024 تک ان ٹیکٹ ہے اور اس کی جو اوریجنل لینگویج ہے جو1973کے آئین میں تھی اور ابھی تک چلتی آ رہی ہے، کسی ترمیم میں بھی اس کو نہیں چھیڑا گیا۔
یہ آرٹیکل جو پاکستان کے پانچ لوگ جو کونسٹیٹیوشنل آفس ہولڈرز ہیں ان کے متعلق یہ بات کرتا ہے کہ جب پاکستان کا پریذیڈنٹ، اس ملک کا چیف جسٹس، وہ جج جس نے ٹرانسفر ہونا ہے اور اس کے بعد دو چیف جسٹسز جہاں سے آنا ہے یا جس جگہ جانا ہے اگر وہ سارے اس معاملے میں اگر اپنی کونسینٹ دیتے ہیں تو اس جج کو دوسرے ہائیکورٹ کے اندر ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے،یہ بڑا ایک ڈیٹیلڈ پراسیس ہے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان پاکستان کھیل کے ذریعے چیف جسٹس ا رٹیکل اور اس گیا ہے
پڑھیں:
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
بلاشبہ علم انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔ علم عزت و شرافت اور دارین کی سعادت سے بہرہ مند ہونے کا بہترین ذریعہ ہے، یہی بنیادی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے ظہور کے اول روز سے ہی حضرت محمدﷺ پر ’اقرا‘ کا حکم دے کر جہالت کی تاریکیوں میں علم کی عظمت و اہمیت کو اجاگر کیا۔ کسی بھی قوم کو مجموعی طور پر دین سے روشناس کرانے، تہذیب و ثقافت سے بہرہ ور کرنے اور خصائل فاضلہ و شمائلِ جمیلہ سے مزین کرنے میں اس قوم کی خواتین کا کردار مرکزی اور اساسی ہوتا ہے اور قوم کے نونہالوں کی صحیح نشوو نما میں ان کی مائوں کا اہم کردار ہوتا ہے اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ماں کی گود بچے کا اولین مدرسہ ہے۔ بقول شاعر
اصلاح قوم آپ کو منظور ہو اگر
بچوں سے پہلے مائوں کو تعلیم دیجئے
اسی لیے دینِ اسلام نے شروع سے ہی جس طرح مردوں کے لیے تعلیم کی تمام تر راہیں وا رکھیں ہیں بالکل اسی طرح اسلام خواتین کے بھی تمدنی، معاشرتی اور ملکی حقوق کے ساتھ ساتھ تعلیمی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے عملی سطح پر ادا کرنے کا بھی حد سے زیادہ اہتمام کرتا ہے اور مرد و زن کی تعلیم و تربیت کے حدود و قیود بھی مقرر کرتا ہے۔ چنانچہ ہر دور میں مردوں کے شانہ بشانہ دخترانِ اسلام میں ایسی باکمال خواتین بھی جنم لیتی رہیں جنہوں نے اطاعت گزار بیٹی، و فا شعار بیوی اور سراپا شفقت بہن کا کردار نبھانے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنے علم و فضل کا ڈنکا بجایا اور ان کے دم سے تحقیق و تدقیق کے لاتعداد خرمن آباد ہوئے۔ اسلام نے خواتین کو ہر قسم کے مفید علم کے حصول کی نا صرف آزادی دی بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ لیکن دینِ اسلام بے پردگی کی اجازت کسی بھی صورت میں نہیں دیتا، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’اے نبی آپﷺ فرما دو، مومن مردوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور مومن عورتوں سے فرما دو نگاہیں نیچی رکھیں‘۔
علم حاصل کرنے کے بارے میں دینِ اسلام کی تعلیمات انتہائی واضح اور دو ٹوک ہیں۔ دورِ حاضر میں ہمارے معاشرے میں تعلیم سے متعلق کئی ایک مسائل پریشانی کا سبب ہیں۔ ان تمام مسائل میں ایک اہم مسئلہ مخلوط تعلیم کا ہے، یہ نظام ِ تعلیم گزشتہ کئی عشروں سے ہمارے ہاں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ مخلوط تعلیم کا نظام ہمارے ہاں مغرب سے آیا ہے اور ہم اس بات سے باخوبی واقف ہیں کہ مخلوط تعلیم مغربی تہذیب و ثقافت کا اہم جزو ہے۔ برصغیر میں انگریزوں نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے جو نظام ِتعلیم نافذ کیا تھا وہ مکمل طور پر مغربی تہذیب کا آئینہ تھا اور اس کا مقصد مسلمانوں کی نئی نسل کو مغربی تہذیب و تمدن کا نمونہ بنانا تھا اور وہ بہت حد تک اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی رہے، آج ہماری اکثریت ان کی اندھی تقلید کرتی دکھائی دیتی ہے۔ مغربی معاشرے میں مرد و خواتین میں بہت زیادہ فرق نہیں سمجھا جاتا، مغرب کی عورت مرد کے شانہ بشانہ زندگی کے تمام امور سرانجام دیتے ہوئے ترقی کی دوڑ میں اس کے ساتھ برابر کی شریک ہے مگر ہمارے معاشرے میں بہت ساری مذہبی اور ثقافتی قدریں مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دیتیں۔ مغرب کی تہذیب نے جس طرح سے عورتوں کو اپنے گھر اور بچوں سے دور دفاتر میں لا بٹھایا۔ ایک مدت سے ہمارے ہاں مخلوط نظام ِ تعلیم رائج ہے اور ہماری اکثریت اس نظام ِ تعلیم کے مضر پہلو سے غافل ہے۔ مخلوط نظام ِ تعلیم تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے بجائے پستی کا سبب بن رہا ہے۔ اگر موجودہ معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو مخلوط نظام ِ تعلیم کے تباہ کن اثرات کی ایک لمبی فہرست ملتی ہے مخلوط نظام ِ تعلیم کا سب سے بُرا اثر اخلاق پر پڑ رہا ہے، شرم و حیا جو انسانوں کا سب سے بہترین اور قیمتی گہنا ہے معاشرے سے رخصت ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے نوجوان مخلوط نظام ِ تعلیم کی وجہ سے ایسے معاملات اور الجھنوں کا شکار ہیں جو ان کے بہتر مستقبل کیلئے مسلسل خطرے کا باعث ہے۔ ہمارا موجودہ مخلوط تعلیمی نظام طالبات میں جس شخصیت، صلاحیت اور ذہنیت کی تشکیل کر رہا ہے وہ مخصوص فرائض ادا کرنے کی تربیت نہیں بلکہ ہر میدان میں مردوں سے مسابقت، برابری اور مردوں کے دائرہ کار میں اپنی صلاحیتوں کا جوہر دکھانے کی ذہنیت ہے اور اس تعلیم کے نتیجے میں مجموعی طور پر طالبات مرد بن کر کچھ کر دکھانے میں ناکام رہتی ہیں مگر وہ اپنے مدارِ حیات سے بھی ٹوٹ جاتی ہیں نتیجتاً خاندانی نظام کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔
اسلام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ اس دنیا میں سکونت پذیر تمام لوگوں کے لیے بلا تفریق سرچشمہ ہدایت ہے۔ دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس کی نظر میں مخلوط تعلیمی نظام جائز نہیں۔ حیا عورت کا زیور اور مرد کی غیرت ہے۔ شریعتِ مطہرہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تکمیل کے لیے معاشرے کے ہر فرد کو پابند کرتی ہے کہ وہ بد نگاہی اور بے حیائی سے دور رہیں۔ ہمارا سماجی نظام مخلوط تعلیم کے لیے راس نہیں۔ مخلوط تعلیمی نظام ایک عظیم فتنہ اور فکری و عملی برائیوں کو بڑھاوا دینے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ جیسے حضرت جنید بغدادی ؒ کا قول ہے، ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا، کیا کوئی مرد کسی (غیر محرم) لڑکی کو پڑھا سکتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا، اگر پڑھانے والا با یزید بسطامی ہو پڑھنے والی رابعہ بصری ہو جس جگہ پڑھایا جا رہا ہو وہ بیت اللہ ہو اور جو کچھ پڑھایا جا رہا ہو وہ کلام اللہ ہو پھر بھی جائز نہیں۔ مخلوط تعلیم نظام کے ساتھ دورِ حاضر کے والدین اپنی اولاد کی ضروریات پوری کرنے کیلئے دن رات محنت کرتے ہیں، ان کو ہر سہولت مہیا کرتے ہیں مگر اس سب میں وہ ذہنی اور جسمانی طور پر اتنے تھک جاتے ہیں کہ پھر اپنے بچوں کی اخلاقیات کی طرف توجہ نہیں دے پاتے۔ مخلوط نظام ِ تعلیم دورِ حاضر کا ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے جس پر حکومت اور والدین دونوں کو ہی غور و فکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تعلیم خواتین کا حق ہے مگر ان کی تعلیم وہی ہو جو ان کی فطرت، ان کی لیاقت کے مناسب ہو اور ان کی عفت و عصمت کی حفاظت میں ممد و معاون ہو۔۔۔ ایک متوازن اور اسلامی اقدار پر مبنی تعلیمی نظام وقت کی ضرورت ہے، جو اسلامی اخلاقیات، حیا اور سماجی حدود کا خیال رکھتے علمی ترقی کی راہ کو ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط، با کردار اور با وقار معاشرے کی بنیاد بنے۔