Juraat:
2025-04-13@17:09:16 GMT

سوسائٹی گرل کا ا سکینڈل اور معاشرتی بھونچال ۔۔۔

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

سوسائٹی گرل کا ا سکینڈل اور معاشرتی بھونچال ۔۔۔

تبصرۂ کتب

٭1970 ء میں اکتوبر کی ایک بد قسمت صبح کو معروف پاکستانی شاعر اور سابق بیورو کریٹ مصطفی ٰ زیدی کراچی میں اپنے گھر میں مردہ پائے گئے، وہ اکیلے نہیں تھے ٭ایک نوجوان خوبصورت،شادی شدہ اور ملنے جلنے والوں میں مقبول شہناز گل اس بیڈ روم کے ساتھ والے کمرے میں بے ہوش پائی گئی جس میں مصطفی زیدی کی نعش پڑی ہو ئی تھی ٭میڈیا شہناز گل کے سحر میں یا دوسرے لفظوں میں کہا جائے اس کو مجسم شر کے طور پر پیش کرنے میں مبتلا تھا جو پاکستان میں اسی قسم کے دوسرے واقعات میں مبتلا رہتا ہے ٭کتا ب کے آخر میں مصنفین نے شہناز گل کے بارے میں بے کار باتیں بیان کی ہیں جو کسی نے جو شہناز گل کو جانتا تھا،اس کے جنسی میلان کے بارے میں بتائیں ‘‘سوسائٹی گرل ’’ مصطفی زیدی اور شہناز گل کی زندگیوں کے گرد سوسائٹی کے رجحانات واضح کرنے والی کتاب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت کم کتابیں ایسی ہیں جو سوسائٹی گرل کی طرح مسحور کن ہیں۔یہ کتاب پہلے صفحہ سے ہی ہیجان خیز ہے۔اسے پڑھنے والاختم کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔زبان سادہ ہے۔اسٹوری روانی سے آگے بڑھتی ہے اور آپ ایک نشست یا زیادہ سے زیادہ تین دنوں میں اسے ختم کر سکتے ہیں۔

یہ کتاب اس کیس پر مبنی ہے جس نے 1970 کے ابتدائی عشرے میں پاکستانی معاشرے میں شدید ہلچل مچادی تھی اور جو لوگ اس وقت زندہ تھے،تقریباً54 سال بعد بھی آج یہ ان کے ذہن میں تازہ ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس کتا ب کیلئے جن لوگوں کے انٹرویو کیے گئے،وہ آج زندہ نہیں ہیں۔

1970 ء میں اکتوبر کی ایک بد قسمت صبح کو معروف پاکستانی شاعر اور سابق بیورو کریٹ مصطفی ٰ زیدی کراچی میں اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔ وہ اکیلے نہیں تھے۔ایک نوجوان خوبصورت،شادی شدہ اور ملنے جلنے والوں میں مقبول شہناز گل اس بیڈ روم کے ساتھ والے کمرے میں بے ہوش پائی گئی جس میں مصطفی زیدی کی نعش پڑی ہو ئی تھی۔بعد ازاں شہناز گل نے دعویٰ کیا کہ اس کے کھانے میں نشہ آور دواملائی گئی تھی۔

مصطفیٰ زیدی کے کمرے میں بے ہوش پائے جانی والی شہناز گل اسپتال میں زیر علاج ہے

اس اسکینڈل سے پاکستانی معاشرے میں بھونچال آگیا۔ میڈیا نے اسے اپنے ذہن پر طاری کرلیا۔فوٹوگرافرز شہناز کے اپنے گھر سے پولیس اسٹیشن،جیل اور عدالتوں تک جاتے وقت اس کی ہر حرکت کا سراغ لگاتے۔یہ کیس فرنٹ پیج کی خبر بنتا جب شدت سے طالب رپورٹرز ہر اس شخص کی ٹوہ میں رہتے جو مصطفی زیدی اور شہناز گل کی نجی زندگیوں کے بارے میں تفصیلات بتاسکتا۔اسی بنا ء پر اخبارات کو بچوں کی نگاہوں سے دور رکھا جاتا کہیں وہ اس سے متاثر نہ ہو جائیں۔
یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب پاکستان بڑی آفت ناگہانی سے دوچار تھا۔لیکن اس ا سکینڈل نے اخبارات میں ہر چیز کو ماند کر دیا جس میں مشرقی پاکستان میں1970 کا تباہ کن بھولا ہوا طوفان شامل ہے۔ اس سیلاب میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے جبکہ اس کتاب کے مصنفین نے اسے سنانے میں خاص طور پر افسوس کا اظہارکیا۔دوسری تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں، ان میں مارشل لا ء حکومت میں تبدیلی اور عام انتخابات جس نے ملک کی صورتحال تبدیل کرکے رکھ دی۔ یہ پا کستان میں ہنگامہ خیز دور تھا لیکن پاکستانی میڈیا اور سوسائٹی صرف ایک نوجوان عورت شہناز گل کے سحرمیں مبتلا تھے۔
میڈیا شہناز گل کے سحر میں یا دوسرے لفظوں میں کہا جائے اس کو مجسم شر کے طور پر پیش کرنے میں مبتلا تھا جو پاکستان میں اسی قسم کے دوسرے واقعات میں مبتلا رہتا ہے۔وہ سوشل میڈیا اسٹارمقتول قندیل بلوچ کے سحرمیں مبتلا تھے جب وہ پہلے پہل سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور اس وقت تک ٹی وی پر پیش کی جانے لگی جب تک کہ اس کی مو ت کے چار سال بعد اس کے بھائی کی بریت نہ ہو گئی باوجودیکہ اس سے قبل اس نے اس کے قتل کا اعتراف کیا تھا۔پریس عدالت میں ہرپیشی پر اس کے خاندا ن کے پیچھے پڑا رہتا۔
اسی طرح میڈیا اور پاکستانی معاشرہ ماڈل ایان علی سحر میں مبتلا ہو گئے جب وہ 2015 میں ایک منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار ہوئی اور ٹی وی میز بان اور اداکارہ دانیہ شاہ کے ساتھ بھی ایسا ہواجس نے سابق ٹی وی اینکر عامر لیاقت حسین جو ایک ماہ بعدجون 2022 میں انتقال کرگیا تھا،سے شادی کے صرف تین ماہ بعد طلاق کا مقدمہ دائر کر دیاتھا۔اس کی موت کی مصطفی زیدی کی موت کی طرح اب بھی تصدیق نہیں ہوسکی۔دانیہ شاہ کی ٹک ٹاک اب بھی سب سے زیادہ دیکھی جاتی ہے اور شہناز گل کی طرح قندیل بلوچ،ایان علی اور دانیہ شاہ کو بہت نفرت کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے ا سکینڈل سامنے آئے۔
جیسا کہ کتاب کے مصنفین سوسائٹی گرل میں واضح کرتے ہیں کہ مصطفی زیدی اور شہناز گل کی ذاتی زندگی اور افیئرز سے میڈیا کا لگاؤ مصطفی زیدی کے کیس کو حل کرنا نہیں تھا۔ لاش کے دو معائنے کئے گئے، ایک ان کی جرمن اہلیہ ویرا کے اصرار پر کیا گیا۔تفتیش کئی لوگوں نے کی اور عدالتی کارروائی بھی ہو ئی لیکن ان سب کے باوجود یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ مصطفی زیدی کی موت کس طرح واقع ہوئی؟
آدمی یاد کرتا ہے کہ مصنفین کس کی تہ تک پہنچنے کے خواہشمند تھے جب انہوں نے کیس پر اپنے سچے کرائم پوڈ کاسٹ کا سلسلہNotes on a Scandal’ ‘ شروع کیا۔ایک مقبول عام پوڈ کاسٹ اور بعد ازاں ایک کتاب آئی لیکن ابھی تک ہمارے پاس اس کا کوئی واضح جواب نہیں ہے۔جو سوسائٹی گرل آپ کو دیتی ہے،وہ کیس میں مکمل اوربہت پیچیدہ تفتیش ہے۔ساتھ ہی جو بھی کیس کی شہادت پر مبنی ہمعصر پروفیشنلز کا ماہرانہ تجزیہ بھی دستیاب ہے۔ اس کے کردار معاشرے کے لحاظ سے ہمارے کردار کے اندر گہرائی میں جاتے ہیں،ماضی میں عشروں تک جاتے ہیں اور اپنی کہانیاں، اپنی بتدریج ترقی، اپنی ذہنی صورتحال اور1970 کے عشرے کا پاکستان کی واضح تصویر پیش کرتے ہیں۔یہ جگہ اس ملک سے بہت مختلف ہے جسے ہم اب جانتے ہیں۔ پھر بھی بعض لحاظ سے وہی ہے۔
اس کیس کی اسٹوری سناتے ہوئے مصنفین آپ کو اس دور میں لے جاتے ہیں جب کراچی میں ہوٹلوں اور کلبوں کی تاریخی عمارات خوشحالی کے دور میں تھیں جبکہ وہ اب گری ہوئی،خستہ حال یا تبدیل شدہ حالت میں ہیں۔سوسائٹی گرل میں اب آپ کے پاس ان کی اسٹوری ہے۔ کتاب کراچی کی شاموں ، نہ ختم ہونے والی موسیقی،سوسائٹی کومطلوب گرلز، نرم مزاج کاروباری افراد چند سودوں سے زائد کی امید رکھنے والے، دنیا میں ابھرتا ہواایک جدید پاکستانی معاشرہ ،ایک کلچر جو آج کے مقابلے میں کم پابندیوں والا تھا، طبقاتی تقسیم، سیاست اور اس دور کے اخلاقی سبق کی تصویر کھینچتی ہے۔
جب ایک ہم عصر کی عینک سے دیکھا جائے تو عوامی شدید رد عمل جو اس وقت صرف شہناز گل کے خلاف تھا ،وہ مصطفی زیدی کی طرف ہوتا، اگر وہ ا سکینڈل آج رونما ہوتا۔ اس معاشرے میں اور پریس میں شہناز گل کو نشانہ بنایا گیا جہاں لوگ اپنے بچوں کا نام شہناز نہیں رکھنا چاہتے تھے کیونکہ اس کے ساتھ شرم وابستہ تھی۔ لیکن کتاب کو پڑھتے ہوئے اس کی تمام تفتیش کے ساتھ مصطفی زیدی سازشی، جوڑتوڑ کرنے والے،صورتحال کو اپنے موافق بنانے والے کے طور پر نظر آتے ہیں ۔اپنی تفتیش کے ذریعہ مصنفین مصطفی زیدی کی طویل تاریخ ،اپنی پوری زندگی میں انتہائی افسردہ،خود کشی کی کئی کوششیں اور دیوانگی سے متاثر صورتحال کے مراحل کی طویل تاریخ رقم کرتے ہیں۔ اس کتاب میں مصطفی زیدی ایسے شخص ہیں جنہوں نے بلیک میل کیا اور بد مزاجی کا مظاہرہ کیا جب کوئی بات ان کی مرضی کے خلاف ہوتی اور وہ دوسرے فرد کا ذرہ برابر بھی لحاظ نہ کرتے۔جب وہ اپنے کام کی جگہ پر آتے تو وہ بہت با اصول شخص تھے لیکن جب انکی نجی زندگی کا معاملہ ہوتا تو وہ غیر محفوظ اور خود پرست تھے ۔جب مصطفی زیدی شہناز گل سے اپنی مرضی کی بات نہ منوا سکتے تو وہ یا تو بلیک میل پر اتر آتے یا وہ جنسی فعل کی تصویر دکھاکر اسے بدنام کرتے ۔ پریس نے مصطفی زیدی کو جوابدہ ٹہرانے کی بجائے بعض دستاویزات میں موجود اس کی شہوت پرست تفصیلات شائع کردیں۔ متاثرہ شہناز گل کو اس بات کیلئے شرمندہ کیا گیا جو اس کے کنٹرول میں نہیں تھا۔اگر آج ایسا ہوتا تویہ بیانیہ بہت مختلف ہوتا اور مصطفی زیدی کو جنسی درندہ کہا جاتا۔ وقت کتنا بدل گیا ہے !
کتا ب کے آخر میں مصنفین نے شہناز گل کے بارے میں بے کار باتیں بیان کی ہیں جو کسی نے جو شہناز گل کو جانتا تھا،اس کے جنسی میلان کے بارے میں بتائیں۔ یہ باتیں مصنفین کو کیس ختم ہونے کے عشروں بعد بتائی گئیں۔مصنفین نے پریس پر نکتہ چینی کی کہ اس نے شہناز گل کی زندگی کے بارے میں شہوت پرست تفصیلات تلاش کرنے کی کوشش کی جس کا کیس سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔یہ شہناز گل کی بے حرمتی ہے کہ وہ کس طرح پریس سے اجتناب کرکے نجی زندگی گزاری باوجود یکہ عدالتوں نے اسے بری الذمہ قراردے دیا تھا۔
تاہم سوسائٹی گرل اس کیس کی مسحور کن کہانی ہے جس میں فلم کی سنسنی پیدا کرنے والی کہانی کے تمام اجزاء موجود ہیں جس میں سیکس، جھوٹ اور ا سکینڈل، سوسائٹی کو مطلوب گرلز اور پلے بوائز،آرٹسٹس اور پاؤر پلیئرز اور ماضی کی حسرت ناک یادیں شامل ہیں۔ یہ تفتیشی کتاب عوامی روز نامہ کی طرح پڑھی جا سکتی ہے۔اس کتاب کومسالے دار اور چٹپٹی کہا جا سکتا ہے۔(ترجمہ عبد الرحیم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: اور شہناز گل کی مصطفی زیدی کی سوسائٹی گرل کے بارے میں شہناز گل کو شہناز گل کے مصنفین نے میں مبتلا ا سکینڈل کے ساتھ کی طرح

پڑھیں:

85 ہزار پاکستانیوں نے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار کیا، وفاقی وزیر صحت

کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سید مصطفیٰ کمال نے کہا کہ 21 سے 27 اپریل تک انسداد پولیو مہم چلائی جائے گی، 4 کروڑ 50 لاکھ سے زائد بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے، پولیو سے بچاؤ ویکسین سے ہی ممکن ہے، پولیو کے خاتمے کے لیے ہرطبقے کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ اگر پولیو کی وجہ سے بچہ معذور ہوگیا تو پوری دنیا میں اس کا علاج نہیں ہے، کینسر کا علاج ہے، لیکن پولیو کا علاج نہیں ہے۔ کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پوری دنیا سے پولیو ختم ہوگیا، پاکستان اور افغانستان میں ختم نہیں ہوا، پاکستان میں ایک اور پولیو مہم کا آغاز 21 اپریل سے ہونے جارہا ہے۔ وفاقی وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے کہاکہ پاکستان کے 85 ہزار لوگوں نے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے منع کر دیا۔

وزیر صحت نے انکشاف کیا کہ صرف کراچی میں 34 ہزار افراد نے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے منع کر دیا، 27 ہزار افراد جنہوں نے پولیو کے قطرے پلانے سے منع کیا، وہ کراچی کے ضلع شرقی سے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پولیو کی وجہ سے بچہ معذور ہوگیا تو پوری دنیا میں اس کا علاج نہیں ہے، کینسر کا علاج ہے، لیکن پولیو کا علاج نہیں ہے۔ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ 21 سے 27 اپریل تک انسداد پولیو مہم چلائی جائے گی، 4 کروڑ 50 لاکھ سے زائد بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیو سے بچاؤ ویکسین سے ہی ممکن ہے، پولیو کے خاتمے کے لیے ہرطبقے کو کردار ادا کرنا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • 85 ہزار پاکستانیوں نے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار کیا، وفاقی وزیر صحت
  • 21 اپریل سے شروع ہونیوالی انسداد پولیو مہم کو کامیاب بنانے کیلئے آج اجلاس بلایا ہے، مصطفیٰ کمال
  • ملک بھر میں 44ہزار سے زائد افراد نے بچوں کو انسداد پولیو قطرے پلانے سے انکار کیا،وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال
  • ملک میں پولیو ویکسین سے انکار کرنیوالے 44 ہزار میں سے 34 ہزار والدین کراچی کے ہیں;وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال
  • عمر رواں، ایک عہد کی داستان
  • پی آئی اے طیارہ حادثے میں معجزانہ طور پر بچ جانیوالے ظفر مسعود نے حادثے کے بعد کے تجربات پر کتاب لکھ دی
  • اہل غزہ نے اپنی قربانی سے امت کو بیدار کر دیا ہے، ڈاکٹر عمران مصطفی 
  • سفرِ زیست
  • مصطفیٰ عامر قتل کیس: ارمغان کے والد اور امریکا میں قائم کمپنی کو سلور نوٹس جاری کرنے کی سفارش
  • ایف آئی اے نے مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ملوث ارمغان سے منی لانڈرنگ کی باقاعدہ تفتیش شروع کر دی