WE News:
2025-03-09@04:17:48 GMT

انتظار حسین اور پاکستان، ایک کہانی کے 2 عنوان

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

2 فروری 2016ء کو اردو کے عظیم افسانہ نگار انتظار حسین انتقال کر گئے تھے۔ اس مناسبت سے آج یہ خصوصی تحریر شائع کی جا رہی ہے۔

اُس شخص نے چڑیوں اور درختوں کے لیے لکھا، لیکن حیرت ہوتی ہے کہ مقبولیت انسانوں میں حاصل کی۔ یہ کرشمہ کیسے رونما ہوا؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے انتظار حسین ہمیں دستیاب نہیں ہیں۔ اگر ہوتے تو کیا جواب دیتے؟  اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک بار ایسا ہی کوئی سوال ذہن میں آیا تو آؤ دیکھا نہ تاؤ، میں نے انہیں فون کر دیا۔ جیسا کہ ان کی عادت تھی، خود فون اٹھایا۔ صاف محسوس ہوا کہ ایک بزرگ سے بات ہو رہی ہے۔ جی خوش ہو گیا۔ میرا سوال بھی انہوں نے غور سے سنا پھر کہا:

’یار، میں آپ کو جانتا نہیں، بات کیسے ہو سکتی ہے۔‘

معلوم ہوا کہ بات چیت کے لیے جان پہچان ضروری ہے۔ اسی دکھ میں مجھے سلیم احمد مرحوم کی برسی کی یاد آئی۔ ہم جامعہ کراچی والے ذوق و شوق سے پہنچے۔ بنیادی سبب تو سلیم احمد تھے جن کے ساتھ 2 واسطوں سے تعلق تھا۔ ان کی لاڈلی بیٹی عینی ہماری کلاس فیلو تھیں۔ خیر، یہ تعلق تو بعد میں بنا، پہلا تعلق ان کے پھڑکتے ہوئے جملے سے قائم ہوا تھا جیسے:

’آزادی رائے کو بھونکنے دو۔‘

ان کے ایسے ہی جملے تھے جو دل میں ترازو ہو جاتے تھے۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے جب  استاد گرامی ڈاکٹر طاہر مسعود نے ان سے  انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو سے جو ہنگامہ اٹھا اور اس پر برادر گرامی محمد حمید شاہد کے مضمون نے پیٹرول چھڑک کر سلائی دکھائی تھی۔ ان سب واقعات نے سلیم احمد کے ساتھ نہ ٹوٹنے والا تعلق بنا دیا۔ دوسرا لالچ صرف ایک تھا کہ لاہور سے انتظار حسین تشریف لا رہے ہیں۔ وہ سیلفی کا زمانہ نہیں تھا، اس لیے طبیعت کے غریب نوجوانوں کی طرح عنابی رنگ کی ڈائری ان کی خدمت میں پیش کی، ایک اچٹتی ہوئی نگاہ انہوں نے مجھ پر ڈالی تو میں نے زیر لب کچھ اس انداز میں 2 الفاظ کہے جن کی صرف  لہریں ان کے کان تک پہنچ سکیں، آٹو گراف۔ وہ دھیرے سے مسکرائے پھر لکھا:

’آٹو گراف مت لیا کرو‘۔

لیجیے، ہم  اپنے عہد کے سب سے بڑے افسانہ نگار کے آٹو گراف حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کامیابی کا نشہ تادیر رہا، لیکن جب اس روز انہوں نے بات چیت کے لیے جان پہچان کی شرط لگائی تو میں ان کے مخالفین کی طرح اس علامت کو سمجھ نہ پایا اور سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس فعل شریف یعنی آٹو گراف کے لیے بھی جان پہچان کو ضروری  سمجھتے ہوں؟ پس، میں نے جان پہچان کے لیے ہاتھ پاؤں مارے تو مستنصر حسین تارڑ تک رسائی ہو گئی، گو، ان سے بات کرنا اور ان کا خشکی کا مارا ہوا جملہ برداشت کرنا آسان نہیں، لیکن خیر یہ ہوئی کہ ان سے بات کی ضرورت نہیں پڑی، انہیں پڑھنے کا کشٹ اٹھانا پڑا۔ وہ انتظار صاحب کو جانتے ہیں۔ نہ صرف جانتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ انور سجاد کی چپقلش کی تفصیلات سے بھی آگاہ ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انور جب پاک ٹی ہاؤس میں انتظار صاحب کی میز پر آتا تو کہتا:

’بے شک آئندہ زمانوں میں تمہیں تمہاری زبان کے حوالے سے نصابوں میں یاد رکھا جائے گا لیکن ادیب کی حیثیت سے نہیں۔‘

ڈاکٹر انور سجاد، انتظار حسین کی زبان اور ادب دونوں کو دقیانوسی قرار دیا کرتے تھے۔ زبان کو اس لیے کہ وہ ان کی طرح بے تکلف نہ تھے  کہ موٹی موٹی گالیوں کو اپنی تحریر میں جگہ دے سکیں اور ادب کو اس لیے کہ ان کا ادب دیو مالا اور مقدس صحیفوں کی دل و دماغ کو جھنجھوڑ دینے والی حکایات سے پھوٹتا تھا۔ جب کہ ڈاکٹر انور سجاد  ادب کے اس اسلوب کو ماضی پرستی ( ناسٹیلجیا ) سے تعبیر کرتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ انتظار حسین اپنے ماضی سے اداسی محسوس کرتے ہیں اور اسی کے زیر اثر ان کے ادب کا بوٹا پھوٹتا ہے۔ انتظار صاحب اس تنقید سے آگاہ تھے لہٰذا کہا کرتے:

’اداس تو انسان ہوتے ہیں بھلا کبھی بندر بھی اداس دیکھے گئے ہیں؟‘۔

انتظار صاحب کا یہ جملہ بڑا بلیغ ہے۔ اس لیے کہ مظاہر فطرت، جانوروں اور خاص طور پر بندروں کی عادات کا گہرا مشاہدہ رکھنے کے باوصف وہ یقیناً جانتے ہوں گے کہ جانور حتیٰ کہ بندر بھی اداس ہوتے ہیں، لیکن علامتوں میں بات کرنے والے انتظار حسین نے ایک ایسی بات کہہ دی جیسی پتھر پر لکیر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر انور سجاد ہوں یا انتطار حسین، یہ دونوں بزرگ اپنی اپنی فرد ادب لکھ کر ابد آباد کو آباد کر چکے ہیں۔ ان کے بعد کس کی زبان اور کس کا ادب  کھڑا رہ سکا؟ یہ فیصلہ تاریخ سنا چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:مذاکرات سے گریزپائی کے راز

سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر انور سجاد ہوں یا ان کے دیگر ہم خیال، انتظار حسین ان کی نگاہ میں متروک کیوں تھے؟ یہ سوال بہت پیچیدہ ہے۔ اس سوال کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہیں۔ 21 دسمبر 1925 کو یوپی کے شہر میرٹھ کے قصبے ڈبائی میں پیدا ہونے والے انتظار حسین کو سوتے جاگتے میں ڈبائی کی یاد کیوں ستاتی تھی۔ محمد حسن عسکری کی تحریک پر انہوں نے ڈبائی سے پاکستان ہجرت کی تو یہ ہجرت ان کے لیے زندگی بھر یاد رہنے والا واقعہ کیوں بن گئی؟ اس سوال کا جواب مختصر نہیں ہے۔

انتظار حسین نے مذہبی ماحول میں آنکھ کھولی۔ آئندہ زندگی میں جدید تعلیم اور جدید علوم سے استفادے کے باوجود یہ پس منظر ان کے شانہ بشانہ چلا۔

محمد حسن عسکری کی تحریک پر پاکستان کی طرف ہجرت میں بھی ممکن ہے کہ یہی پس منظر کارفرما رہا ہو، لیکن ایک اہم واقعہ اور بھی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد محمد حسن عسکری اور منٹو نے پاکستانی ادب کی تحریک اٹھائی تو نوجوان انتظار حسین اس وقت بھی ان بزرگوں کے ساتھ تھے۔ ایسا پس منظر گہرے اثرات رکھتا ہے، لہٰذا دوست ہوں یا دشمن، ہمیشہ اسے یاد رکھتے ہیں اور اس کے بیج برگ و بار لاتے رہتے ہیں اور ایسی بحث تازہ رہتی ہے۔

کچھ ایسا پس منظر ہی رہا ہو گا کہ ادیبوں کے شہرہ آفاق انٹرویو کرنے والے ڈاکٹر طاہر مسعود نے انہیں کریدا اور پوچھا کہ انتظار صاحب! کیا سبب ہے کہ آپ اپنے ماضی سے دامن چھڑا نہیں پاتے لہٰذا حال میں نہیں دیکھے جاتے؟ انتظار حسین نے اس سوال کا بڑا دلچسپ اور معنی خیز جواب دیا۔ انہوں نے کہا:

’ہجرت اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ کیا میں ہجرت کو بھول جاؤں؟ اگر ہم پاکستان پہنچ چکے ہیں تو کیا میں 1947ء کو فراموش کردوں؟ اگر میں اسے بھول گیا تو پاکستان میرے لیے بے معنی ہوجائے گا۔ جس تاریخ کے پیٹ سے پاکستان پیدا ہوا ہے اس تاریخ کو لوگ کہتے ہیں کہ بھول جاؤ، حالانکہ یہ تو ناجائز اولاد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماضی کو بھول جائے‘۔

یہ بھی پڑھیں:عمران خان کی پارسائی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

انتظار صاحب اپنے ماضی کو بھول نہ پائے تو اس کی  وجہ یہ ہے کہ وہ اور ان کا پاکستان اپنے ماضی کی جائز اولاد ہیں۔ اچھا وہ اور ان کا ملک اپنے ماضی کی جائز اولاد تو ہوئے لیکن سوال یہ ہے کہ ان کا ماضی  کیا ہے، بہ الفاظ دیگر یہ دونوں تاریخ کی جائز اولاد کیسے ہیں؟

افسانہ نگار مسعود اشعر نے اس کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے اور بتایا ہے کہ ان کا ماضی مسلم تہذیب اور ہندو دیو مالا سے پھوٹتا ہے۔ گویا ایک پانی ایک آگ۔ آگ اور پانی کی یکجائی نے مسعود اشعر کو مزید پریشان کر دیا اور سوال اٹھایا کہ چلیے مسلم تہذیب تو انہیں گھر سے ملی، ہندو دیو مالا اُن تک کیسے پہنچی؟ وہ بتاتے ہیں کہ مسلم تہذیب تو انہیں باپ سے ورثے میں ملی کہ سخت مذہبی آدمی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے بیٹے کو بھی ان ہی جیسا بننا چاہیے۔ اس کوشش میں جہاں اور بہت سے کام ہوئے ہوں گے، ان میں ایک کام یہ بھی تھا کہ ان کے لخت جگر نے قرآن حکیم ترجمے کے ساتھ پڑھا۔ یہ انکشاف ان کے سوال کا آدھا جواب تھا۔ سوال کے دوسرے حصے کا جواب انہوں نے اندازے سے تلاش کیا۔ ان کا خیال ہے کہ غیر منقسم ہندوستان کے اسکول کی تعلیم ہو گی جس کے واسطے سے ہندو دیو مالا تک ان تک پہنچی ہوگی۔ یہ عین ممکن ہے کہ گھر سے باہر کی فضا نے ایسا کیا ہو، لیکن ایسا لگتا ہے کہ  اس نتیجے تک پہنچتے ہوئے مسعود اشعر ایک اہم کڑی فراموش کر گئے۔ یہ کڑی وہی ہے، ڈاکٹر انور سجاد جس کے طعنے انتظار حسین کو دیا کرتے تھے۔

تارڑ صاحب گواہی دیتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کا انتظار حسین سے سامنا ہوتا تو وہ کہا کرتے:

’کیوں انتظار! تمہاری نانی اماں نے پچھلی شب تمہیں کون سی کہانی سنائی؟‘

تو بات یہ ہے کہ مسعود اشعر جو نکتہ نظر انداز کر گئے، وہ وہی نانی اماں والا تھا جو ان کے حریف صادق ڈاکٹر انور سجاد کے ذہن میں ہمیشہ تازہ رہا۔ کھوج لگانے کی اصل بات یہ تھی کہ وہ کیسی کہانیاں تھیں جو انتظار حسین نے اپنی نانی سے سنیں؟

انتظار صاحب نے جب دیکھا کہ لوگ اس معاملے میں خوب ٹھوکریں کھا رہے ہیں تو انہوں نے اس بارے میں خود قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ’میری کہانی‘ کے عنوان سے اپنے فکر و فن اور افسانے کے خد و خال واضح کیے۔ یہ ان کا وہی مضمون ہے جو اس معنی خیز جملے سے شروع ہوتا ہے:

’کبھی کبھی مجھے گمان گزرتا ہے کہ میں اپنے ہی ایک فقرے کی پیدا وار ہوں‘۔

 ایسی تہہ دار بات کہنے کے بعد وہ اپنی بات کا آغاز  1947 سے کرتے ہیں۔ اپنی اسی تحریر میں انہوں نے ان کہانیوں کی کہانی بھی بیان کی ہے جو انہوں نے نانی اماں سے سنیں جیسے:

’جب نانی اماں سانپ کی کہانی شروع کرتی تھیں تو سارا خوف زائل ہو کر حیرت اور استعجاب میں بدل جاتا تھا۔ ایک راج کمار تھا اور ایک راج کماری تھی۔ دونوں میں بڑا پیار تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ راج کمار کو زمین والے (سانپ) نے ڈس لیا۔ راج کماری بہت روئی۔ ایک جوگی نے اس پر ترس کھا کر کہا کہ اگر تو راجا باسک کے دربار میں چلی جائے تو وہ تیرے پتی کو زندہ کر سکتا ہے۔۔۔۔‘

یہ بھی پڑھیں:پاکستان اور بنگلہ دیش، آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک

کیا کمال کی نانی اماں تھیں اور کیسی کمال کی ان کی کہانی تھی، لیکن حادثہ یہ ہوا کہ ہم بہ قول انتظار صاحب کے کہانی کے حیرت و استعجاب میں تو ڈوبے لیکن یہ کھوج نہ لگا سکے کہ نجیب الطرفین سید زادی کی کہانیوں میں سانپ، جوگی اور راجا باسک جیسے مقامی بلکہ ہندو کردار کہاں سے آ گئے تھے؟

یہ ایسی گتھی ہے جسے سلجھانے کے لیے قرۃ العین حیدر سے مدد لینی پڑے گی یا اکبر اعظم کا ذہن پڑھنا پڑے گا، جس نے کہا تھا کہ اب ہم فرغانہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکے، ہندوستان کے ہو چکے ہیں اور جس بات میں بھلا ہندوستان کا ہے، اُسی میں ہمارا بھلا بھی ہے، یا پھر یہ راز سمجھنا ہو گا کہ نظام الدین اولیا جیسی ہستی ’نجام جی‘ میں کیسے بدلی اور ان کے فیض سے امیر خسرو جیسی شخصیت کیسے وجود میں آئی؟ یا قائد اعظم محمد علی جناح کے اس قول کی معرفت حاصل کرنی ہوگی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اسی روز بن گیا تھا جس روز پہلا مقامی مسلمان ہوا تھا۔ فرقہ پرست اس سخن میں فرقہ پرستی کی بو پاتے ہیں لیکن ان کے اس بیان میں گزشتہ ایک ہزار برس کا شعور بولتا ہے اور بتاتا ہے کہ توحید کے نغمہ خواں جب یہاں آئے تو انہوں نے پورے کے پورے ہندوستان کو قبول کر لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہاں والے اپنی الجھنوں کا شکار رہے اور ہمیں قبول نہ کر سکے۔

تو واقعہ یہ ہے کہ انتظار حسین اسی ہند اسلامی تہذیب کے نماہندہ ہیں جس کے بطن سے پاکستان پیدا ہوا۔ ہند اسلامی تہذیب ہو، اس کی کوکھ سے جنم لینے والا پاکستان ہو یا انتظار حسین کا ادب، یہ سب ایک ہی شاخ کے گل بوٹے ہیں۔ انہیں سمجھنے کے لیے تاریخ و تہذیب کی جڑوں سے گہری وابستگی ضروری ہے، انہیں سمجھنا بے جڑ کے جھاڑ جھنکار کے بس کی بات نہیں۔

میرے خیال میں یہ معمہ اب حل ہو چکا ہے کہ چڑیوں اور درختوں کے لیے لکھنے والے انتظار حسین انسانوں کے محبوب کیسے بنے؟ واقعہ یہ ہے کہ ان کا ادب چوں کہ تاریخ اور تہذیب کے فطری دھاروں اور طغیانیوں سے گزر کر ایک صاف شفاف ندی میں بدلا تھا، اس لیے انہیں فکر نہیں تھی کہ اگر ڈاکٹر انور سجاد یا ان کے ہم خیالوں کے زیر اثر وہ  توجہ نہیں بھی پاتا تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہیں یقین تھا کہ سچ اور فطری جذبے کے تال میل سے وجود پانے والا ادب ہی دیرپا ثابت ہوگا۔ پھر وقت نے ان کے مؤقف پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ انتظار حسین ہوں یا پاکستان، یہ ایک ہی کہانی کے دو عنوان ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

انتظار حسین پاکستان حسن عسکری ڈاکٹر انورسجاد سلیم احمد قائداعظم مستنصر حسین تارڑ ہندودیو مالا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان ڈاکٹر انورسجاد سلیم احمد مستنصر حسین تارڑ ہندودیو مالا ڈاکٹر انور سجاد جان پہچان سلیم احمد اپنے ماضی کی کہانی انہوں نے دیو مالا کرتے تھے آٹو گراف یہ ہے کہ ہے کہ ان کہ ان کا سوال کا اس سوال ہیں اور کے ساتھ تھا کہ کا ادب یہ بھی اور اس اور ان کے لیے ہوا کہ اس لیے

پڑھیں:

سلمان خان کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہوں، اداکارہ ماورا حسین

پاکستان شوبز انڈسٹری کی خوبرو اداکارہ ماورا حسین نے بالی ووڈ سپر اسٹار سلمان خان کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔

ماروا حسین نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سلمان خان کی بہت بڑی فین ہیں۔ انہوں نے بالی ووڈ اسٹار کی تمام فلمیں دیکھی ہیں اور ان کی فلم ’ہم دل دے چکے صنم‘ وہ کئی بار دیکھ چکی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اداکارہ ماورا حسین 3 بھارتی فلمیں چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوئیں؟

ماورا حسین نے سلمان خان کی فلم ’انداز اپنا اپنا‘ اور ’بجرنگی بھائی جان‘ کو خوب سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ’بجرنگی بھائی جان‘ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ایک ملک کو اچھا دکھانے کے لیے دوسرے ملک کو برا دکھانا ضروری نہیں ہے۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Instant Bollywood (@instantbollywood)

اداکارہ کا کہنا تھا کہ سلمان خان کے ساتھ ساتھ وہ رنبیر کپور کے ساتھ بھی فلم میں کام کرنا چاہیں گی۔

یاد رہے کہ اداکارہ ماورا حسین کی رومانوی بھارتی فلم ’صنم تیری قسم‘ کی ری ریلیز نے بھارت میں باکس آفس پر زبردست کامیابی حاصل کی ہے جس کے بعد وہ متعدد بھارتی شوز میں انٹرویو دیتی نظر آئیں۔ یہ فلم 2016 میں ریلیز کی گئی تھی تاہم یہ باکس آفس پر بزنس کرنے میں ناکام رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ’آپ کمال ہو‘، بالی ووڈ اداکارہ ودیا بالن نے ماورا حسین کی تعریف کیوں کی؟

فلم کی دوبارہ ریلیز نے غیر معمولی طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے صرف بھارت میں 5 دنوں میں 25.16 کروڑ روپے کما کر ہمیش ریشمیا کی فلم ’بی آر‘ اور ’لویاپا‘ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

واضح رہے کہ یہ ماورا حسین کی پہلی اور آخری بالی ووڈ فلم تھی۔ اس کے بعد وہ پاکستانی فلم ’جوانی پھر نہیں آنی 2‘ میں نظر آئیں۔ اس کے بعد انہوں نے ٹی وی پر توجہ مرکوز کرلی۔ ان کے پاس یونیورسٹی آف لندن سے قانون کی ڈگری ہے۔ انہوں نے اپنے قانونی کیریئر کو ایک طرف رکھ دیا کیونکہ وہ اپنے اداکاری کے کیریئر پر توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بالی ووڈ بجرنگی بھائی جان سلمان خان صنم تیری قسم ماورا حسین

متعلقہ مضامین

  • 35 روپے سے بنے آنکھوں کے اسپتال کی کہانی، سلطان حسن کی زبانی
  • اداکارہ نادیہ حسین کے شوہر عاطف خان کو گرفتار کر لیا گیا
  • وی نیوز کے 2 سال کی کہانی
  • وزیراعظم سے معروف کاروباری شخصیات کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئیں
  • پی ٹی آئی قیادت کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی، اندرونی کہانی سامنے آگئی
  • پی ٹی آئی قیادت کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
  • تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کی جے آئی ٹی میں پیش ہونے کی اندرونی کہانی
  • سلمان خان کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہوں، اداکارہ ماورا حسین
  • پی ٹی آئی کو حکومت مخالف مہم شروع کرنے کیلئے فضل الرحمٰن کی واپسی کا انتظار
  •  پی ٹی آئی والوں کو انتظار تھا ٹرمپ آئے گا اور عمران خان کو رہائی ملے گی،عظمیٰ بخاری