اسلام آباد:

سابق وزیر داخلہ بلوچستان ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے دو محرکات ہیں، ایک تو یہ ہے کہ جو ہمارے دشمن ممالک ہیں، دشمن ممالک کی ایجنسیاں ایسے عناصر کی سپورٹ کرتی ہیں اور ان کو ہر طرح کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے، دوسری بات بحیثیت ایک قوم ہم اپنی سیکیورٹی فورسز کیساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال پرانھوں نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے پیچھے ملک دشمن ا یجنسیاں ہیں انھوں نے ایک ایسا ماحول بنایا ہے کہ ہمارے کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر ان کے ذریعے ہمارے نوجوان طلبا کو لٹریچر کے ذریعے کچھ اور باتوں کے ذریعے ورغلایا گیا ہے۔

سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا مذاکرات کا عمل ختم تو نہیں ہوگا،دوبارہ شروع ہو جائے گا،صرف پرابلم یہ آ رہی ہے کہ اس وقت تک حکومت کے پاس اسپیس نظر نہیں آ رہی جب تک مذاکراتی کمیٹی عمران خان سے ملاقات ہی نہیں کر سکتی تو وہ آگے آ کر مذاکرات میں کیا بیٹھے گی؟، پرائمری پرابلم از گورنمنٹ کو اسٹیبلشمنٹ سے بالکل بھی اسپیس نہیں مل رہی،میں پہلے دن سے یہ بات کر رہا ہوں کہ ہمیں گرینڈ پولیٹیکل ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس میں سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوں اور اسٹیبلشمنٹ بھی شامل ہو۔ 

کورٹ رپورٹر ایکسپریس جہانزیب عباسی نے کہاکہ عدالتی تاریخ میں ایسی مثالیں تو ہیں جن میں ججوں کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ منتقل کیا گیا ہے،آرٹیکل 200میں صدر کا یہ اختیار ہے اور آئین نے یہ اختیار دیا ہوا ہے کہ ایک جج کو ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے۔ 

اب اس معاملے پر ججوں نے خط کے ذریعے جن خدشات کا اظہار کیا ہے اس حوالے سے مناسب ہوتا کہ کوئی پیپر ورک یا ڈاکیومنٹ ہوتا اور اس کی بنیاد پر بات کی جاتی تو وہ زیادہ مناسب تھا، خط میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحیحٰی آفریدی کو بھی ایڈریس کیا گیا ہے، یہ ایشو ہوایوں ہے کہ 10 فروری کو سپریم کورٹ میں 8 ججوں کی تعیناتی کیلیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلایا گیا ہے، ان میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کا بھی نام ہے۔ 

ماہر قانون حافظ احسان احمد نے کہا 1973 کے آئین کے اندر جو آرٹیکل 200 دیا گیا ہے یہ پاکستان کے چند آرٹیکلز میں سے ایک آرٹیکل ہے جو 1973 سے لیکر2024 تک ان ٹیکٹ ہے اور اس کی جو اوریجنل لینگویج ہے جو1973کے آئین میں تھی اور ابھی تک چلتی آ رہی ہے، کسی ترمیم میں بھی اس کو نہیں چھیڑا گیا۔ 

یہ آرٹیکل جو پاکستان کے پانچ لوگ جو کونسٹیٹیوشنل آفس ہولڈرز ہیں ان کے متعلق یہ بات کرتا ہے کہ جب پاکستان کا پریذیڈنٹ، اس ملک کا چیف جسٹس، وہ جج جس نے ٹرانسفر ہونا ہے اور اس کے بعد دو چیف جسٹسز جہاں سے آنا ہے یا جس جگہ جانا ہے اگر وہ سارے اس معاملے میں اگر اپنی کونسینٹ دیتے ہیں تو اس جج کو دوسرے ہائیکورٹ کے اندر ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے،یہ بڑا ایک ڈیٹیلڈ پراسیس ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے ذریعے چیف جسٹس ا رٹیکل اور اس گیا ہے

پڑھیں:

چیف جسٹس بہت اچھے، اللہ صحت مند، سلامت رکھے، مجھے کسی سے شکوہ نہیں: جسٹس منصور

کراچی (نوائے وقت رپورٹ) کراچی بار ایسوسی ایشن کی تقریب حلف برداری کے دوران وکلا کی جانب سے چیف جسٹس منصور علی شاہ کے نعرے لگائے گئے جس پر سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے کہا کہ مجھے چیف جسٹس نہ بلائیں، میں سینئر ترین جج ہوں اور اسی میں خوش ہوں۔ صدر کراچی بار عامر نواز وڑائچ نے سینئر ترین جج کو اجرک کا تحفہ پیش کیا۔ جنرل سیکرٹری کی جانب سے یاد گاری شیلڈ پیش کی گئی۔ کراچی بار کے سیکرٹری رحمن کورائی نے جسٹس منصور علی شاہ کو عوامی چیف جسٹس قرار دے دیا۔ تقریب میں موجود وکلا نے جسٹس منصور علی شاہ کے حق میں نعرے لگائے۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے کہا کہ مجھے چیف جسٹس نہ بلائیں، میں سینئر ترین جج ہوں اور اسی میں خوش ہوں، ہمارے چیف جسٹس موجود ہیں، اللہ چیف جسٹس پاکستان کو صحت مند اور سلامت رکھے۔ ان کاکہنا تھا کہ مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں کہ میں اس وقت چیف جسٹس نہیں ہوں، اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان بہت اچھے ہیں، ان کے لیے دعاگو ہوں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرے لیے باعث فخر ہے کہ میں اس تقریب کا حصہ ہوں، یہ حلف برداری صرف الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ عہد ہے کہ ہم اس پر عمل بھی کریں گے۔ یہ حلف ہمیں سکھاتا ہے کہ مشکل وقت میں کیا کرنا ہے، کس کا ساتھ دینا ہے، اگر ہم اس حلف کو توڑتے ہیں تو پھر سب کچھ غلط ہو جائے گا۔ ہائی سکول میں انگلینڈ کے چانسلر کی کتاب میں ایک کہانی پڑھی تھی، اس میں لکھا تھا کہ حلف ایسا ہی ہے کہ آپ پانی ہاتھ میں لے کر کھڑے ہیں، ہاتھ کھل گیا تو پانی ضائع ہوجائے گا، پھر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ لیگل پروفیشن نالج سے تعلق رکھتا ہے لیکن بہادری ہی اس کی خوبی ہے، لوگوں کے حقوق کے لیے بات کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے، آپ پر پریشر بھی آئیں گے، آپ کو اپنے مقصد سے ہٹایا جائے گا لیکن آپ نے حلف سے نہیں ہٹنا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے خطاب کے دوران علامہ اقبال کا یہ شعر بھی پڑھا کہ ’ہے دونوں کی پرواز اسی ایک فضا میں، کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور‘۔ تقریب سے خطاب میں صدر کراچی بار ایسوسی ایشن عامر نواز وڑائچ نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کو خوش آمدید کہتا ہوں، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کا بھی آمد پر مشکور ہوں۔ ہم سے کہا گیا بات نہ کی جائے لیکن ہم بات کریں گے، 26 ویں ترمیم ہوئی تو نہ لائرز کنونشن کروایا، میڈیا کے دوستوں کو بھی پتا چلا جب پیکا ایکٹ آیا، پورا جوڈیشل سسٹم اپنی مرضی کے ججز لا کر تباہ کردیا گیا، اب سوچ رہے ہیں پیکا ایکٹ کس جج کے سامنے چیلنج کریں، جہاں جائیں گے وہاں اسے مسترد کردیا جائے گا۔ ایک نیا بل آرہا ہے جو وکیل احتجاج کرے گا، اس کا لائسنس معطل کردیا جائے گا، یونیورسٹی کے وائس چانسلرز بیوروکریٹس لارہے ہیں۔ کراچی بار ہر کالے قانون کے کیخلاف ہمیشہ آواز بلند کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔

متعلقہ مضامین

  • جوڈیشل کمیشن کا اجلاس،پشاور ہائیکورٹ کیلیے 10 ایڈیشنل ججز کی منظوری
  • نام نہاد دوست نما دشمن کچھ بھی کرلیں انہیں قوم کے تعاون سے شکست ضرور ملے گی، آرمی چیف
  • کیا مستقبل میں اگر کوئی ملک دشمن جاسوس پکڑا جائے تو ٹرائل کہاں ہوگا؟جسٹس حسن اظہر 
  • چیف جسٹس بہت اچھے، اللہ صحت مند، سلامت رکھے، مجھے کسی سے شکوہ نہیں: جسٹس منصور
  • مغرب کی قائدانہ ناکامی
  • اللہ کے بندوں کے کام آئیں !
  • افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
  • حقوق العباد اور مزاج کا اختلاف
  • پیکاایکٹ پردستخط ، پیپلزپارٹی ،ن لیگ سے پیچھے نہ رہی