ٹرمپ کی امدادی پروگرام میں تبدیلی، پاکستان کے 36 منصوبے متاثر WhatsAppFacebookTwitter 0 1 February, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (آئی پی ایس ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں میں تبدیلیوں اور غیرملکی امدادی پروگرام بند کرنے سے پاکستان میں بھی ایک ارب 12 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے منصوبے بند ہوں گے۔امریکی حکام نے تصدیق کی ہے کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان کیلئے بھی امداد بند کردی گئی، پاکستان میں امریکی امداد کے تحت کل 36 منصوبے جاری ہیں جن کی مجموعی لاگت ایک ارب 13 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ہے-

یہ منصوبے انسانی حقوق، جمہوریت، توانائی، صحت، زراعت، تعلیم، معیشت اور گورننس سے متعلق ہیں۔امریکی امداد کی بندش سے صحت کے 5، اقتصادی ترقی کے 4 اور زراعت کے 5 منصوبے متاثر ہوں گے، گورننس کے 12، توانائی کے 5 اور تعلیم کے 4 منصوبے بھی بند ہو جائیں گے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق امریکا اپنے بجٹ کا صرف ایک فیصد حصہ بیرون ملک امدادی سرگرمیوں کیلئے مختص کرتا ہے جبکہ امریکا نے 2023 میں بیرون ملک امداد پر 68 ارب ڈالر خرچ کئے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام سے جہاں مختلف شعبوں کے اہم منصوبے متاثر ہوں گے وہیں امریکا کے عالمی رسوخ کو بھی شدید دھچکا لگے گا۔اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی امداد جو صحت کے شعبہ سے منسلک ہے ٹرمپ انتظامیہ اسے بحال کرنے کا سوچ سکتی ہے۔دوسری جانب امریکی امداد کی بندش پر ترجمان دفتر خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امداد کے معاملے پر امریکی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: منصوبے متاثر

پڑھیں:

امریکی امداد کی بندش زیادہ فکر کی بات نہیں!

امریکہ کی جانب سے دیگر ممالک کی طرح پاکستانی امداد کی بندش پر ترجمان دفتر خارجہ نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر کے آرڈر کا جائزہ لیے رہیں ہیں، برسوں سے امریکہ و پاکستان مختلف شعبوں میں مختلف پروگرام پر کام کرتے رہے ہیں، ہم امداد کے معاملے پر امریکی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے اسلام آباد میں ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ امریکہ کے ساتھ معاشی سطح پر تعلقات مزید بڑھانا چاہتے ہیں، امریکہ کے ساتھ معاشی تعلقات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کے تعلقات امریکہ سے بہتر ہیں۔انہوں نے کہا کہ 90 دن کے لیے تمام ممالک کے لیے امریکی امداد بند ہے، پاکستان میں مختلف شعبوں میں امریکی امداد کے تعاون سے کام ہو رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بزنس مین دورہ کرتے رہتے ہیں، دورہ کرنے والے امریکی اچھے کاروباری افراد ہیں، کاروباری افراد کا دورہ پاکستان دفتر خارجہ کے ذریعے نہیں ہوا، بزنس مینز کا پاکستان آنا ایک معمول کا کام ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ایسی تمام امداد کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے جو کسی بھی غیر ملک کو دی جا رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ نئی امداد کی فراہمی پر عملدرآمد بھی روک دیا ہے۔امریکہ نے پابندی سے متعلق یہ میمو امریکی حکام اور بیرونِ ملک امریکی سفارتخانوں کو بھی بھیج دیاہے۔ اس دستاویز کے تحت صرف خوراک کی ہنگامی امداد اور اسرائیل اور مصر کے لیے فوجی امداد کو اس حکم سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔دستاویز کے مطابق ‘اس دوران نہ کوئی نیا فنڈ جاری ہو گا اور نہ ہی موجودہ معاہدوں میں توسیع کی جائے گی جب تک کہ ہر نئے معاہدے یا توسیع کا جائزہ لے کر اس کی نئے سرے سے منظوری نہ دی جائے۔یہ معاملہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈر کے بعد سامنے آیا، جس میں انھوں نے 90 دن کے لیے غیر ملکی ترقیاتی امداد کو مؤخر کرنے کا حکم دیا تھا تا کہ اس کے مؤثر ہونے اور ان کی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگی کا جائزہ لیا جا سکے۔یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ بین الاقوامی امداد فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں 68 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔محکمہ خارجہ کا یہ میمو ترقیاتی امداد سے لے کر فوجی امداد تک سب پر اثرانداز ہو گا۔احکامات میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی حکام کو فوری طور پر متعلقہ معاہدوں کی شرائط کے مطابق کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔اس میمو کے تحت3 ماہ کے اندر غیر ملکی امداد کے تمام پروگراموں کے وسیع پیمانے پر جائزے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ امداد صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے اہداف کو پورا کرتی ہے۔ اس سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کہہ چکے ہیں کہ بیرونِ ملک امریکی اخراجات اور امداد صرف اسی وقت دی جائے گی جب ان سے امریکہ کی مضبوطی اسے محفوظ یا زیادہ خوشحال بنانا ثابت ہو سکے گا۔
محکمہ خارجہ کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ یہ نوٹس امریکی امدادی پروگراموں پر ممکنہ طور پر بہت بڑا اثر ڈال سکتا ہے۔جن شعبوں کو ترجیحی بنیادوں پر مدد دی گئی ان میں ایمرجنسی رسپانس، گورنمنٹ اینڈ سول سوسائٹی، آپریٹنگ اخراجات، بنیادی شعبہ صحت، توانائی، زراعت اور دیگر سماجی خدمات اور دیگر شعبے شامل ہیں۔پاکستان میں امداد بہم پہنچانے والے امریکہ کے اہم پارٹنرز میں ورلڈ فوڈ پروگرام، یو این چلڈرن فنڈ، امریکی حکومت کی اپنی ایجنسی، جے ایس آئی ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، نومارک ایسوسی ایٹس، یو این آفس آن ڈرگز اینڈ کرائم اور یو این پاپولیشن فنڈ شامل ہیں۔امریکہ کے پاکستان میں سفارتخانے کی ویب سائٹ پر درج تفصیلات کے مطابق امریکہ نے گذشتہ 20 برس میں پاکستان کو 32 ارب ڈالر کی براہ راست امداد دی ہے۔امریکی دستاویزات کے جائزے سے یہ پتا چلتا ہے کہ 2001 سے لے کر 2010 تک پاکستان کی امداد میں مسلسل اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ یعنی یہ امداد 2001 میں 175 ملین ڈالر سے بڑھ کر 268 ملین ڈالر تک ہو گئی۔یہ وہ عرصہ تھا جب امریکی اور اتحادی افواج افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہی تھیں اور پاکستان امریکہ کا ایک اہم اتحادی بن کر سامنے آیاتھا۔2013 سے 2015 تک امریکہ نے پاکستان کی امداد میں قدرے اضافہ کیا مگر پھر 2018 تک اس میں مسلسل کمی کرنا شروع کر دی۔ 2018 اور 2019 کے درمیان اس امداد میں قدرے اضافہ کیا گیا مگر اس کے بعد پھر کمی لائی گئی۔امریکہ نے 2023 میں پاکستان کو 170 ملین ڈالر تک کی مدد فراہم کی جبکہ گذشتہ برس 2024 میں یہ امداد کم کر کے 116 ملین ڈالر کر دی گئی تھی۔امریکہ سے یہ امداد پاکستان کے عوام کو براہ راست نہیں ملتی تھی بلکہ اس کا بڑا حصہ تو پارٹنرز اور این جی اوز پر ہی خرچ ہو جاتا تھا۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد اس امداد میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ان کے مطابق امریکہ یہ امداد پاکستان میں امریکی پارٹنرز اور این جی اوز کے ذریعے دے رہا تھا۔ اب امریکی امداد کی بندش سے وہ بڑے منصوبے متاثر ہوں گے جن میں یو ایس ایڈ، ڈیموکریسی رائٹس اینڈ لیبر، یو این ایس پی اور اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں کے ذریعے چلنے والے بڑے منصوبے پاکستانی فوج کو ملنے والی امداد براہ راست امریکی محکمہ دفاع کی طرف سے آتی تھی اس لئے اس پر کوئی بڑا اثر پڑنے کا امکان کم ہے۔اب کم از کم 3 ماہ تک یہ امداد معطل ہے اور اس کے بعد تقریباً آدھے منصوبے بند کر دیے جائیں گے اور ان میں سے بھی بڑی تعداد میں معاہدوں میں تبدیلیاں کی جائیں گی۔ اس سے قبل ‘جینڈر انکلیوسونس’ ہر معاہدے کا حصہ ہوتی تھی مگر اب یہ ٹرمپ کی ترجیح میں شامل نہیں ہے اور انھوں نے واضح کیا کہ صرف مرد اور عورت کی صورت میں 2 جینڈر ہی ہیں۔ صدر ٹرمپ جمہوریت کے فروغ سے متعلق بھی زیادہ پرجوش نہیں ہیں۔ خیال کیا جاتاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اب ان منصوبوں کے بجائے سرمایہ کاری اور اکنامک لٹریسی جیسے منصوبوں میں دلچسپی ظاہر کریں گے۔پاکستان میں امریکی امداد سے چلنے والے بڑے منصوبوں میں 21 اعشاریہ 5 ملین ڈالر کا ایمرجنسی فوڈ اسسٹنس پروگرام بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ صحت کے منصوبوں پر 10 ملین ڈالر، یو ایس پے اینڈ بینیفٹس پر 8 ملین ڈالر سے زائد خرچ ہو رہے تھے۔ توانائی کے شعبے میں بہتری کے لیے ساڑھے7 ملین ڈالر جبکہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے کی ترقی کے لیے 7اعشاریہ 7 ملین ڈالر امداد دی جا رہی تھی۔انسانی امداد میں 7 ملین ڈالر اور پولیو ویکسین کی مدد میں6 اعشاریہ8 ملین ڈالر اور 5 اعشاریہ 9ملین ڈالر یونیسف کو پاکستان میں جاری منصوبوں کے لیے امریکی امداد مل رہی تھی۔فاٹا اصلاحات کے لیے تقریباً ساڑھے 5 ملین ڈالر کی امداد دی گئی۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ فی الوقت پاکستان کو ایسی کوئی امریکی امداد نہیں مل رہی جس کے بند ہونے سے حکومت یا عوام کو کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے اور یہ کہا جاسکتاہے کہ امریکی امداد بند ہونے سے پاکستان کی صحت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا کیونکہ پاکستان کو دی جانے والی یہ امریکی امداد بہت ہی معمولی نوعیت کی ہے۔ پاکستان نے کافی عرصے سے امریکہ پر انحصار ختم کر دیا ہے اور اب کبھی کبھار ایف 16 کے فاضل پرزوں کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ آسانی سے مل جاتے ہیں۔ ماضی میں اگر امریکہ نے پاکستان کی مدد کی بھی ہے تو وہ اپنی خوشی اور مفادات کو دیکھ کر کی ہے۔ ان کے مطابق ‘اس وقت اہم بات یہ ہے کہ امریکہ نہ ہونے کے برابر پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ تاریخی طور پر بین الاقوامی سطح پر امریکی حکومت کی ترقیاتی امداد اس کے جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم رہی ہے۔اگرچہ یہ اتنی بڑی امداد نہیں ہے مگر یہ امریکی صدر کا ایک خاص طرح کا رویہ ہے جس سے اگرچہ پوری دنیا ہی متاثر ہو گی لیکن اس سے پوری دنیا میں امریکہ کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوگی جبکہ۔ اس سے عالمی ادارے اور اقوام متحدہ کے زیرانتظام چلنے والے ادارے متاثر ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اگراس اعلان پر عملدرآمد کرایا تو پھر سب سے زیادہ نقصان امریکہ کا ہی ہوگا اور امریکہ عالمی سطح پر آہستہ آہستہ تنہا ہوتا جائے گا۔ یہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کے لیے مختصر مدت میں ہی نقصان دہ ثابت ہوگا۔سابق فوجی آمر ایوب خاں کے دور میں امریکہ زور و شور سے پاکستان میں امداد لے کر آیا تھااور ولیج ایڈ نامی پروگرام متعارف کرایا تھا۔ پاکستان کیلئے امریکی امداد کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو سب سے زیادہ مدد فوجی آمروں کے دور میں ہی دی ہے جس سے امریکہ کے حوالے سے عوامی جذبات بھی متاثر ہوئے۔تاہم یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امریکہ نے پاکستان کے بہت سارے منصوبوں کیلئے جومدد دی ہے اس سے ہمیں فائدہ پہنچا ہے۔ اگر یہ امداد بند ہوتی ہے تو پھر اس کے پاکستان پر معاشی اثرات کم اور امریکہ کے لیے سفارتی اثرات زیادہ ہوں گے کیونکہ امریکی امداد مشروط ہوتی ہے۔اب اس امداد کی بندش سے امریکہ کی اچھی ساکھ ختم ہو گی۔یہ بات واضح ہے کہ فوجی امداد کا ترقیاتی امداد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ فوجی امداد اسی وقت ملتی ہے جب امریکی مقاصد کیلئے امریکہ کو اس کی ضرورت ہو اور پاکستان امریکہ کے ساتھ کھڑا ہو،ایسی صورت میں توفوری فوجی امداد مل جاتی ہے لیکن اگر پاکستان کو فوجی امداد کی اشد ضرورت ہوتو بھی امریکہ امداد دینے کے بجائے اس پر پابندی عاید کردیتاہے،پاک بھارت جنگوں خاص طورپر 70 کی دہائی میں ہم اس کا مزہ اچھی طرح چکھ چکے ہیں ،اور امریکی رہنماؤں کو بھی یہ یاد ہوگا کہ ایک ایسے وقت جب پاکستان کو امریکہ کی فوجی امداد کی اشد ضرورت تھی امریکہ نے پاکستان کی امداد روک کر اس کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کی ان کوششوں کے باوجود پاکستان دنیا میں اپنے دیگر دوست ممالک کے تعاون سے اس مشکل گھڑی سے پروقار انداز میں باہر نکل آیاتھا اور یہ ثابت کردیاتھا کہ پاکستان امریکی امداد کے بغیر بھی دنیا کے نقشے پرقائم رہنے کی سکت رکھتاہے۔اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امداد کی بندش کے اس اعلان کے بعد پاکستان میں امریکہ کے جاری منصوبوں پر نفسیاتی اثر ضرور پڑے گا مگر جو معاہدے ہو چکے ہیں وہ منصوبے مکمل ہوں گے۔ ‘90 کی دہائی میں ماضی میں امریکہ نے پاکستان کے لیے جاری منصوبے بھی بند کر دیے تھے۔ہم وسائل کی کمی کا شکار ملک ہیں اس لئے امداد امریکہ کی ہو یاکسی اور ملکی اس کے اثرات مثبت ہیں ۔واشنگٹن میں موجود تجزیہ کار مائیکل کگلمین کا کہنا ہے کہ پاکستان طویل عرصے سے امریکی امداد وصول کر رہا تھا اور پاکستان میں یو ایس ایڈ ان امدادی منصوبوں میں بہت مگن تھی۔ان کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک کو دی جانے والی امریکی امداد پر بہت تنقید بھی ہو رہی تھی۔ اسی وجہ سے نئی انتظامیہ نے ایسا فیصلہ کیا۔مائیکل کگلمین کے مطابق اس فیصلے سے ضرورت مند طبقات بری طرح متاثر ہوں گے اور اس پابندی کا وقت بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ اس وقت پاکستان پہلے سے ہی شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے۔ ہر برس500 پاکستانی مختلف ایکسچینج پروگرامز اور تعلیمی اسکالرشپ پر امریکہ جاتے ہیں۔لیکن یہ امداد تکنیکی طور پر غیرملکی امریکی امداد کے زمرے میں نہیں آتی جسے معطل کیا گیا ہے۔ وزارت خارجہ نے توقع ظاہرکی ہے کہ امداد کی یہ بندش ہے اور جلد ہی یہ امداد بحال کردی جائے گی اور زیادہ امکان یہی ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے یہ پروگرام جاری رہیں گے اور امریکہ میں اس وقت فلبرائٹ ا سکالرشپ پر زیر تعلیم طلبہ بھی اس پابندی سے متاثر نہیں ہوں گے۔تاہم امریکی امداد بند ہونے سے پاکستان میں مقیم 14 ہزار کے قریب وہ افغان پناہ گزین بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں جن کی بڑی تعداد امریکہ جانے کی منتظر تھی۔ فی الحال تو کم از کم 90دن کے لیے سب کچھ ہی رک گیا ہے۔ اس پابندی سے سب زیادہ غیرسرکاری شعبہ متاثر ہو گا، جن کے ذریعے یہ امداد دی جا رہی تھی۔ اس پابندی سے صرف پاکستان ہی نہیں اقوام متحدہ کا بجٹ بھی متاثر ہوگا۔خیال کی جاتاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی لگائی ہوئی اس پابندی کا پاکستان کے کاونٹر ٹیررازم یعنی انسداد دہشت گردی کے شعبے پر بہت کم ہی اثر ہوگا۔ بلوچستان کی سرحد پر کاؤنٹر ٹیررازم کی کچھ عمارتیں ہیں جو امریکی امداد سے چلائی جا رہی تھیں اور اب وہ آپریشن اس پابندی سے متاثر ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی وجہ سے پاکستان کے 36 منصوبے متاثر
  • امریکی امداد کی بندش زیادہ فکر کی بات نہیں!
  • اسرائیلی پابندیوں کے باوجود ’انروا‘ امدادی کاموں میں مصروف عمل
  • ماحولیاتی تبدیلی کھجوروں کی پیداوار کو کیسے متاثر کر رہی ہے؟
  • امید ہے امریکا کی جانب سے معطل امدادی پروگرام دوبارہ شروع ہو جائیں گے‘پاکستان
  • امریکا کی جانب سے پاکستانی امداد کی بندش پر دفتر خارجہ کا ردعمل آگیا
  • امریکا نے 90 روز کیلئے امدادی پروگرام روکے ہیں: ترجمان دفترِ خارجہ
  • صدر ٹرمپ کے آرڈر کا جائزہ لیے رہیں ہیں‘ امداد کی بندش پرامریکی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں.دفترخارجہ
  • پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات