Nai Baat:
2025-01-31@07:58:18 GMT

مضبوط میڈیا: جمہوری معاشروں کی ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

مضبوط میڈیا: جمہوری معاشروں کی ضرورت

صحافیوں، صحافتی اداروں، انسانی اور ڈیجیٹل حقوق تنظیموں کے تحفظات کے باوجود حکومت نے سوشل میڈیا اور فیک نیوز سے متعلق پیکا ایکٹ ترمیمی بل اسمبلی سے منظور کرانے کے بعد سینٹ سے بھی منظور کرا لیا۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل کے فیصلے کو ہائیکورٹ کے بجائے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی شق اس ٹربیونل کی آئینی حیثیت پر ایک سوال اور اس کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کے اختیارات کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ ایسے قانون صرف میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے کے لئے بنائے جاتے ہیں اور ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں ان کا کبھی درست استعمال نہیں ہو سکتا اور یہ صرف اپنے مخالفین کی آواز کو دبانے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ بظاہر تو نظر آ رہا ہے کہ یہ بل موجودہ شکل میں کالا قانون ہے۔ اس بل کو بنیاد بنا کر صحافیوں کے خلاف پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

مہذب معاشرے میں چند عناصر کو بنیاد بنا کر پوری صحافی برادری کو قانون کے شکنجے میں کسنے کے لئے منصوبے بنانا یا اپنے سیاسی حریفوں کو پابندِ سلاسل کرنا یہ کسی طور مناسب نہیں ہوتا ۔حکومت نے جس جلد بازی میں یہ بل پاس کرایا ہے اس کے کیا محرکات ہیں یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے، اس کی یہ جلد بازی اس کی نیک نیتی پر سوال تو اٹھائے گی۔ سارے میڈیا کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی خواہش کے پیچھے کون سے محرکات ہیں یہ بات آنے والے دنوں میں سمجھ آئے گی لیکن کچھ مفروضات ضرور ذہن میں غالب آ رہے ہیں، وہ جس طرف نشاندہی کر رہے ہیں وہ درست نہیں ہے اس کے نتائج اب بہت خطرناک ہوں گے۔ حکومت اور مقتدر اداروں کو ایک بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سوشل میڈیا کی آڑ میں دوسرے ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ روایتی میڈیا قوانین کا پابند ہے اور رہے گا لیکن مکمل زبان بندی ممکن نہیں ہے۔

سیاست دان ہمارے بڑے بھولے ہیں ہر آمر کے سامنے میڈیا نے آواز اٹھائی جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے کبھی میڈیا کو کچھ نہیں کہا تھا بلکہ وہ دونوں تو میڈیا کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگے رہتے تھے لیکن میڈیا نے اصولوں کی خاطر یا پھر سیاسی قیادت کا کیس لڑتے ہوئے ان دونوں کو دشمن بنایا اور پھر میڈیا نے اس کی بھاری قیمت ادا کی۔ آصف زرداری جب نیو یارک کی رعنائیوں اور میاں نواز شریف سرور پیلس کی رونقوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے اس وقت بھی پاکستان کی صحافتی تنظیمیںسیاسی ڈکٹیٹروں کے خلاف سڑکوں پر نعرہ زن تھیں۔ آج وہی میاں صاحب اپنے کولیشن پارٹنر زرداری صاحب کی مدد سے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے کسی کے احکامات پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔

حکومت نے پیکا ایکٹ میں جیسی سخت ترامیم کی ہیں کیا سوچتے ہیں کہ کل ان کے کسی ادارے سے تعلقات خراب ہوئے تو کیا یہ میڈیا ان کی آواز بن سکے گا جب اسے پیکا ایکٹ کے تحت سخت سزائیں نظر آ رہی ہوں گی؟ دنیا بھر میں ہتکِ عزت کا دعویٰ ہمیشہ سول کیس ہوتا ہے جب کہ یہاں اس کے لئے کریمینل پروسیڈنگز کا قانون پاس کر دیا گیا ہے۔ جس میڈیا کی آزادی کو پابندِ سلاسل کیا جا رہا ہے یہ وہی میڈیا ہے جس نے پرویز مشرف کے خلاف تمام تر مزاحمت کی۔ یہ وہ وقت تھا جب ہماری عدلیہ بھی فوجی ڈکٹیٹر مشرف کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس نے وہی فیصلے کئے جو جنرل مشرف چاہتا تھا۔ اس نے بھی لوگوں اور میڈیا کا ساتھ نہیں دیا۔ کسی کو اٹک قلعے کی بجائے سرور پیلس پسند تھا تو کسی کو دبئی اور لندن میں رہنا اچھا لگتا تھا اور جو سیاسی لاٹ بچ گئی تھی انہیں وزارتیں پسند تھیں۔ ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانا اچھا لگتا تھا۔

پیکا ایکٹ کا اصل مقصد حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے صحافیوں کا منہ بند کرنا ہے لیکن قانون منظور کرنے والے بھول گئے کہ صحافیوں کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔ وہ تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور نہ قابو میں آتے ہیں۔ جب کوئی ظالم حکمران صحافیوں کی آواز دبانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ سب مل کر اسے کوسنے لگتے ہیں اور آخر کار یا تو حکمرانوں کو توبہ کرنا پڑتی ہے یا پھر اقتدار چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہ قرار داد سیاست دانوں کی کامیابی نہیں بلکہ جمہوریت کی ناکامی ثابت ہو گی۔ پارلیمنٹ اور میڈیا کی بقا جمہوریت میں ہے لہٰذا آپس میں لڑنے کی بجائے دونوں ایک دوسرے کو مضبوط بنائیں۔ میڈیا کے لئے ا یسے قوانین نہ بنائیں کہ وہ کل آپ کے لئے کہیں کھڑا ہی نہ ہو سکیں۔

آپ سے درخواست ہے کہ اس قانون کو واپس لے لیا جائے کیونکہ غلطی بلاشبہ بانجھ نہیں رہتی لیکن اس امر کا احساس ہو جائے کہ غلطی سرزد ہو گئی ہے اور اس کے ازالے کی مخلصانہ خواہش بھی بیدار ہو جائے تو اصلاح احوال میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ معاملہ وہاں بگڑتا ہے جہاں کسی فریق کی انا پھن پھیلا کر کھڑی ہو جائے اور وہ غلطی پر ڈٹ جائے۔ ایسی صورت میں غلطی، مزید غلطیوں کو جنم دیتے چلی جاتی ہے اور ازالہ اس وقت ہوتا ہے جب غلطیوں کا ایک گھنا جنگل چار سو پھیل چکا ہوتا ہے اور سب کچھ سفر رائیگاں نذر ہو چکا ہوتا ہے۔ صحافی معاشرے کے سامنے حالات و واقعات کی تصویر پیش کرتا ہے، بعض تصویریں بعض گروہوں کے مفادات پر اثر انداز ہوتی ہیں، اس لئے وہ متعلقہ صحافی کو بلیک میلر قرار دیتے ہیں، اسے دھمکیوں کا نشانہ بناتے ہیں یا صفحۂ ہستی سے نابود کر دیتے ہیں۔ دنیا کے پس ماندہ معاشروں میں اس ظالمانہ رویے کی مثالیں زیادہ نظر آ تی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف مفاہمت اور مصالحت کی حکمتِ عملی اختیار کرتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ کیونکہ آزاد میڈیا ہی سب کے لئے بہتر ہے اسے پھلنے پھولنے سے نہ روکا جائے۔ اس کے پر نہ کاٹے جائیں، اسے زنجیریں نہ پہنائی جائیں، اس کا گلا نہ گھونٹا جائے۔ انا کو چھوڑ کر جھک جانے کے لئے بڑا حوصلہ چاہئے۔ بلاشبہ معاشرے کی ناہمواریوں، حکمرانوں کی خامیوں اور سیاست دانوں کی نا اہلیوں کو نمایاں کرنا ہمارا بنیادی وظیفہ ہے۔ جمہوری معاشروں کو ایک مضبوط میڈیا کی ضرورت ہوتی ہے جو حکومتوں کو دیانتدار رہنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پیکا ایکٹ میڈیا کی نہیں ہو ہو جائے ہوتا ہے کا ایک کے لئے ہے اور

پڑھیں:

حکومت آزادی رائے پر قدغن لگا رہی، پیکا ایکٹ مسترد کرتے ہیں: عمر ایوب

 ویب ڈیسک: اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی و رہنما تحریک انصاف عمر ایوب نے کہا ہے کہ حکومت آزادی اظہار رائے پر قدغن لگا رہی ہے، پیکا ایکٹ کو مسترد کرتے ہیں۔

 سرگودھا میں عدالت پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی عمر ایوب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آزادی کے صحافت یا آزادی کی بات کرنے کا معاملہ ختم ہو چکا ہے، میڈیا نمائندگان نہ کھل کر لکھ سکتے ہیں نہ ہی کھل کر بات کر سکتے ہیں ، پیکا ایکٹ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں ، عوام اور میڈیا نمائندگان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

 لاہور سمیت پنجاب میں قومی انسداد پولیو مہم کا آغاز 3فروری سے ہوگا

 انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوا ، تحریک انصاف کا امریکا میں اقتدار کی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی کوئی امید ہے، پیپلز پارٹی سندھ کے لوگوں کی لاشوں کا سودا کر کے پانی تقسیم کرنے پر راضی ہو جائے گی ۔

 عمر ایوب کا کہنا تھا کہ موجودہ سیاسی بحران کے ذمہ دار سکندر سلطان راجہ ہیں، ہم عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں لیکن ہمارا قصور کیا ہے؟ یہ ہمیں معلوم نہیں ، پارلیمانی کمیٹی بنانے کے لیے میرے خط کا ابھی تک وزیراعظم کی طرف سے جواب نہیں دیا گیا ،یہ معاملے کو لٹکانا چاہتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، 8 فروری کو صوابی میں بھرپور جلسہ ہوگا۔ 

وکالت کے لائسنس حاصل کرنے کے خواہشمند طلبا کیلئے بار ووکیشنل کورس لازمی

متعلقہ مضامین

  • حکومت آزادی رائے پر قدغن لگا رہی، پیکا ایکٹ مسترد کرتے ہیں: عمر ایوب
  • غزہ سے فوری علاج کی ضرورت والے 25 سو بچوں کو نکالا جائے، انتونیو گوتریس
  • ورک پلیس ہراسمنٹ سے کیسے بچا جائے؟ 
  • کشمیریوں کی نسل کشی میں ملوث بھارت کو جمہوری ملک کہلانے کا کوئی حق نہیں
  • وقف ترمیمی بل معاملہ کو لیکر مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ملک گیر تحریک چلانے کی دھمکی
  • اسرائیل کا شام کی اہم ترین پہاڑی جبل الشیخ پر قبضے کا اعلان
  • سندھ بلڈنگ ،اداروں کی سرپرستی ، ضلع وسطی میں مضبوط سسٹم قائم
  • وزیراعلیٰ، وزراء یا کسی سے کوئی شکایت ہو تو مجھے بتائیں کسی اور جگہ چغلی کرنے کی ضرورت نہیں، بلاول بھٹو
  • کراچی کے تاجروں کو اگر مجھ سے مسئلہ ہے بات کریں، کہیں اور جاکر چغلی کرنے کی ضرورت نہیں، بلاول بھٹو