Nai Baat:
2025-04-18@04:22:20 GMT

مضبوط میڈیا: جمہوری معاشروں کی ضرورت

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

مضبوط میڈیا: جمہوری معاشروں کی ضرورت

صحافیوں، صحافتی اداروں، انسانی اور ڈیجیٹل حقوق تنظیموں کے تحفظات کے باوجود حکومت نے سوشل میڈیا اور فیک نیوز سے متعلق پیکا ایکٹ ترمیمی بل اسمبلی سے منظور کرانے کے بعد سینٹ سے بھی منظور کرا لیا۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل کے فیصلے کو ہائیکورٹ کے بجائے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی شق اس ٹربیونل کی آئینی حیثیت پر ایک سوال اور اس کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کے اختیارات کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ ایسے قانون صرف میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے کے لئے بنائے جاتے ہیں اور ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں ان کا کبھی درست استعمال نہیں ہو سکتا اور یہ صرف اپنے مخالفین کی آواز کو دبانے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ بظاہر تو نظر آ رہا ہے کہ یہ بل موجودہ شکل میں کالا قانون ہے۔ اس بل کو بنیاد بنا کر صحافیوں کے خلاف پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

مہذب معاشرے میں چند عناصر کو بنیاد بنا کر پوری صحافی برادری کو قانون کے شکنجے میں کسنے کے لئے منصوبے بنانا یا اپنے سیاسی حریفوں کو پابندِ سلاسل کرنا یہ کسی طور مناسب نہیں ہوتا ۔حکومت نے جس جلد بازی میں یہ بل پاس کرایا ہے اس کے کیا محرکات ہیں یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے، اس کی یہ جلد بازی اس کی نیک نیتی پر سوال تو اٹھائے گی۔ سارے میڈیا کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی خواہش کے پیچھے کون سے محرکات ہیں یہ بات آنے والے دنوں میں سمجھ آئے گی لیکن کچھ مفروضات ضرور ذہن میں غالب آ رہے ہیں، وہ جس طرف نشاندہی کر رہے ہیں وہ درست نہیں ہے اس کے نتائج اب بہت خطرناک ہوں گے۔ حکومت اور مقتدر اداروں کو ایک بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سوشل میڈیا کی آڑ میں دوسرے ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ روایتی میڈیا قوانین کا پابند ہے اور رہے گا لیکن مکمل زبان بندی ممکن نہیں ہے۔

سیاست دان ہمارے بڑے بھولے ہیں ہر آمر کے سامنے میڈیا نے آواز اٹھائی جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے کبھی میڈیا کو کچھ نہیں کہا تھا بلکہ وہ دونوں تو میڈیا کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگے رہتے تھے لیکن میڈیا نے اصولوں کی خاطر یا پھر سیاسی قیادت کا کیس لڑتے ہوئے ان دونوں کو دشمن بنایا اور پھر میڈیا نے اس کی بھاری قیمت ادا کی۔ آصف زرداری جب نیو یارک کی رعنائیوں اور میاں نواز شریف سرور پیلس کی رونقوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے اس وقت بھی پاکستان کی صحافتی تنظیمیںسیاسی ڈکٹیٹروں کے خلاف سڑکوں پر نعرہ زن تھیں۔ آج وہی میاں صاحب اپنے کولیشن پارٹنر زرداری صاحب کی مدد سے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے کسی کے احکامات پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔

حکومت نے پیکا ایکٹ میں جیسی سخت ترامیم کی ہیں کیا سوچتے ہیں کہ کل ان کے کسی ادارے سے تعلقات خراب ہوئے تو کیا یہ میڈیا ان کی آواز بن سکے گا جب اسے پیکا ایکٹ کے تحت سخت سزائیں نظر آ رہی ہوں گی؟ دنیا بھر میں ہتکِ عزت کا دعویٰ ہمیشہ سول کیس ہوتا ہے جب کہ یہاں اس کے لئے کریمینل پروسیڈنگز کا قانون پاس کر دیا گیا ہے۔ جس میڈیا کی آزادی کو پابندِ سلاسل کیا جا رہا ہے یہ وہی میڈیا ہے جس نے پرویز مشرف کے خلاف تمام تر مزاحمت کی۔ یہ وہ وقت تھا جب ہماری عدلیہ بھی فوجی ڈکٹیٹر مشرف کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس نے وہی فیصلے کئے جو جنرل مشرف چاہتا تھا۔ اس نے بھی لوگوں اور میڈیا کا ساتھ نہیں دیا۔ کسی کو اٹک قلعے کی بجائے سرور پیلس پسند تھا تو کسی کو دبئی اور لندن میں رہنا اچھا لگتا تھا اور جو سیاسی لاٹ بچ گئی تھی انہیں وزارتیں پسند تھیں۔ ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانا اچھا لگتا تھا۔

پیکا ایکٹ کا اصل مقصد حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے صحافیوں کا منہ بند کرنا ہے لیکن قانون منظور کرنے والے بھول گئے کہ صحافیوں کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔ وہ تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور نہ قابو میں آتے ہیں۔ جب کوئی ظالم حکمران صحافیوں کی آواز دبانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ سب مل کر اسے کوسنے لگتے ہیں اور آخر کار یا تو حکمرانوں کو توبہ کرنا پڑتی ہے یا پھر اقتدار چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہ قرار داد سیاست دانوں کی کامیابی نہیں بلکہ جمہوریت کی ناکامی ثابت ہو گی۔ پارلیمنٹ اور میڈیا کی بقا جمہوریت میں ہے لہٰذا آپس میں لڑنے کی بجائے دونوں ایک دوسرے کو مضبوط بنائیں۔ میڈیا کے لئے ا یسے قوانین نہ بنائیں کہ وہ کل آپ کے لئے کہیں کھڑا ہی نہ ہو سکیں۔

آپ سے درخواست ہے کہ اس قانون کو واپس لے لیا جائے کیونکہ غلطی بلاشبہ بانجھ نہیں رہتی لیکن اس امر کا احساس ہو جائے کہ غلطی سرزد ہو گئی ہے اور اس کے ازالے کی مخلصانہ خواہش بھی بیدار ہو جائے تو اصلاح احوال میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ معاملہ وہاں بگڑتا ہے جہاں کسی فریق کی انا پھن پھیلا کر کھڑی ہو جائے اور وہ غلطی پر ڈٹ جائے۔ ایسی صورت میں غلطی، مزید غلطیوں کو جنم دیتے چلی جاتی ہے اور ازالہ اس وقت ہوتا ہے جب غلطیوں کا ایک گھنا جنگل چار سو پھیل چکا ہوتا ہے اور سب کچھ سفر رائیگاں نذر ہو چکا ہوتا ہے۔ صحافی معاشرے کے سامنے حالات و واقعات کی تصویر پیش کرتا ہے، بعض تصویریں بعض گروہوں کے مفادات پر اثر انداز ہوتی ہیں، اس لئے وہ متعلقہ صحافی کو بلیک میلر قرار دیتے ہیں، اسے دھمکیوں کا نشانہ بناتے ہیں یا صفحۂ ہستی سے نابود کر دیتے ہیں۔ دنیا کے پس ماندہ معاشروں میں اس ظالمانہ رویے کی مثالیں زیادہ نظر آ تی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف مفاہمت اور مصالحت کی حکمتِ عملی اختیار کرتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ کیونکہ آزاد میڈیا ہی سب کے لئے بہتر ہے اسے پھلنے پھولنے سے نہ روکا جائے۔ اس کے پر نہ کاٹے جائیں، اسے زنجیریں نہ پہنائی جائیں، اس کا گلا نہ گھونٹا جائے۔ انا کو چھوڑ کر جھک جانے کے لئے بڑا حوصلہ چاہئے۔ بلاشبہ معاشرے کی ناہمواریوں، حکمرانوں کی خامیوں اور سیاست دانوں کی نا اہلیوں کو نمایاں کرنا ہمارا بنیادی وظیفہ ہے۔ جمہوری معاشروں کو ایک مضبوط میڈیا کی ضرورت ہوتی ہے جو حکومتوں کو دیانتدار رہنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پیکا ایکٹ میڈیا کی نہیں ہو ہو جائے ہوتا ہے کا ایک کے لئے ہے اور

پڑھیں:

  اسرائیلی مفادات کو تسلیم کرنے کی قیاس آرائیاں بے بنیاد، فارن آفس کا بیان

اسلام آباد  میں فارن آفس نے اسرائیلی مفادات کو تسلیم کرنے کی قیاس آرائیاں بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تو اسرائیل کے ساتھ کسی کثیرالجہتی پلیٹ فارم تک پر رابطہ نہیں رکھتا۔

دفترخارجہ کی طرف سے آج ایک وضاحتی بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ  اسرائیلی مفادات کو تسلیم کرنے کی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں، پاکستان اسرائیل کوتسلیم نہیں کرتا،کثیرالجہتی پلیٹ فارمز پر رابطے بھی نہیں کرتا۔

صدر مملکت نے پیٹرولیم لیوی بڑھانے کا آرڈیننس جاری کر دیا

فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ قرارداد پر سوشل میڈیا پوسٹس گمراہ کن ہیں،قرارداد پاکستان کی نہیں بلکہ جنیوا میں اوآئی سی گروپ کی سالانہ مشترکہ پیشکش تھی۔قرارداد کا متن فلسطینی وفد کی منظوری اور اوآئی سی کی تائید سے پیش کیا گیا۔پاکستان نے کسی بھی مرحلے پر قرارداد کے متن میں یکطرفہ ترمیم نہیں کی۔پاکستان کا فلسطینی کاز سے تاریخی اور غیرمتزلزل عزم برقرار ہے۔

دفترخارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ قرارداد پر سوشل میڈیا پوسٹس گمراہ کن ہیں، قرارداد پر بعض سوشل میڈیا تبصروں کی بنیاد غلط میڈیا رپورٹس پر ہے۔ 

پنجاب میں بارشوں کی پیشگوئی، لاہور کا موسم کیسارہیگا؟

دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے قرارداد او آئی سی کوآرڈینیٹر کی حیثیت سے پیش کی، قرارداد پاکستان کی نہیں بلکہ جنیوا میں اوآئی سی گروپ کی سالانہ مشترکہ پیشکش تھی، قرارداد کا متن فلسطینی وفد کی منظوری اور او آئی سی کی تائید سے پیش کیا گیا۔

دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان نے کسی بھی مرحلے پر قرارداد کے متن میں یکطرفہ ترمیم نہیں کی، قرارداد کا مقصد تجویز کو ختم کرنا نہیں بلکہ اسے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے سپرد کرنا ہے۔

سٹیج اداکارہ خوشبو پر پابندی برقرار، ندا چوہدری ، آفرین خان کو ریلیف مل گیا

دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے فلسطینی وفد کی درخواست پر او آئی سی کی مزید 2 قراردادیں بھی پیش کیں، پاکستان کا فلسطینی کاز سے تاریخی اور غیرمتزلزل عزم برقرار ہے۔

Waseem Azmet

متعلقہ مضامین

  • وقت کی اہم ضرورت ہے کہ نوجوانوں کو آگے لایا جائے: مراد علی شاہ
  • فیصل واوڈا جمہوری لوگوں کو گالیاں نہ دیں، عابد شیر علی بر س پڑے
  • فیصل واوڈا جمہوری لوگوں کوگالیاں نہ دیں: عابد شیر علی بر س پڑے
  •   اسرائیلی مفادات کو تسلیم کرنے کی قیاس آرائیاں بے بنیاد، فارن آفس کا بیان
  • پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا کنٹرول بھی ہو جائے تو اسٹیبلشمنٹ ان سے بات نہیں کرےگی، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • اداکارہ علیزے شاہ کا نفرت کرنیوالوں کیلئے پیغام
  • پاکستان میں رہتےہوئےتمام سیاسی جماعتیں اپنےحقوق کی جنگ لڑسکتی ہیں، مولانافضل الرحمان
  • شوبز میں کوئی سچا دوست نہیں ہوتا، سب سوشل میڈیا کی حد تک ہے، نعیمہ بٹ
  • پاکستان میں سفری تجربات کو تبدیل کرنے والے ڈیجیٹل رابطے میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے .ویلتھ پاک
  • وزیر اعظم کا اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان