اسلام آباد ( خبر ایجنسیاں+مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں اپنے دلائل ختم کرلوںگا، آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے، گزشتہ روز میری بات سے کنفیوژن پیدا ہوئی، میڈیا کی فکر نہیں لیکن کچھ ریٹائرڈ ججز نے مجھے فون کرکے رابطہ کیا، وضاحت کرنا چاہتا ہوں کل فیصلہ نہ ماننے کے حوالے سے ججز کا نہیں افراد کا ذکر کیا تھا۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کہنا چاہ رہا تھا 8 ججز فیصلے کو2 افراد کسی محفل میں کہ دیتے ہیں کہ ایسا ہے ویسا ہے، کچھ میڈیا کے ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا، 21ویں آئینی ترمیم اس لیے ہوئی کیونکہ ملک حالت جنگ میں تھا۔وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ اکیسویں ترمیم اس لیے ہوئی کیونکہ ان واقعات میں جرائم آرمی ایکٹ میں نہیں آتے تھے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نیکسز کا مطلب کیا ہوتا ہے، نیکسز کا ایک مطلب تو گٹھ جوڑ، تعلق، سازش یا جاسوس کیساتھ ملوث ہونا ہوتا ہے، نیکسز کی دوسری تعریف یہ ہو سکتی ہے کہ ایسا جرم جو فوج سے متعلق ہو۔وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ نیکسز کا مطلب ورک آف ڈیفنس میں خلل ڈالنا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ورک آف ڈیفنس کی تعریف کو تو کھینچ کر کہیں بھی لیکر جایا جا سکتا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدالت عظمیٰ سے ایک شخص کو 34 سال بعد رہائی ملی، کسی کو 34 سال بعد انصاف ملنے کا کیا فائدہ، ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں۔وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ 34سال بعد کسی کو رہائی دینا انصاف تو نہیں ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ میں نے پہلے بھی آپ سے ایک سوال پوچھا تھا، ماضی میں جی ایچ کیو اور مہران ائر بیس جیسے حساس مقامات پر بھی حملے ہوئے، اکیسویں ترمیم فیصلے میں کہا گیا 2002 سے لیکر ترمیم تک 16 ہزار مختلف حساس مقامات پر حملے ہوئے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ ایسے واقعات میں حساس مقامات پر تعینات اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں، ایک واقعے میں 2 کورین طیارے تباہ ہوئے جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کے کا نقصان ہوا، کیا ان واقعات کی شدت زیادہ نہیں تھی، ایسے تمام واقعات کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا یا انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ہوا۔وکیل وزارت دفاع نے استدلال کیا کہ جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا تھا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل 21ویں ترمیم سے قبل ہوا تھا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ جی ایچ کیو حملے میں مجرمان کا ٹرائل 21ویں ترمیم سے قبل فوجی عدالت میں چلایا گیا، وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ مہران ائربیس پر حملہ کرنے والے تمام دہشت گرد موقع پر ہی ہلاک کردیے گئے تھے، اس لیے وہاں ملٹری ٹرائل کی ضرورت ہی نہیں پڑی، فوجی امور میں مداخلت کی تعریف نہ آنے والے جرائم کے لیے ترمیم کی گئی تھی۔اس کے ساتھ ہی وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے ۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ ہم وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل پر انحصار کرتے ہیں، جواب الجواب میں اپنے دلائل دیں گے، وکیل بلوچستان حکومت نے کہا کہ ہم بھی وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل پر انحصار کرتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے حکومت بلوچستان کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ کو بتانا ہوگا کہ عدالتی فیصلے سے متاثرہ کیسے ہیں، اکیسویں آئینی ترمیم فیصلے کا پیراگراف 122 پڑھیں، فوجی تنصیبات پر حملوں کے جرائم کو 4 سال کے لیے شامل کیا گیا، پہلے 2 سال کے لیے ملٹری کورٹس بنیں، بعد میں 2 سال توسیع ہوئی، کیا آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی ٹو بھی تک ترمیم کے تناظر میں بحال ہے۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے جرائم کو شامل کرنے کے لیے ترمیم ہوئی تھی، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سیکشن ٹو ون ڈی ٹو پر کسی عدالتی فیصلے میں بحث نہیں ہوئی، سیکشن ٹو ون ڈی ٹو مخصوص افراد کے لیے ہے، جبکہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق بلا تفریق ملک کے تمام شہریوں پر ہوتا ہے۔وقفے کے بعدبلوچستان حکومت کے وکیل سکندر بشیر مہمند روسٹرم پر آئے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کیسے بلوچستان حکومت کی نمائندگی کر سکتے ہیں جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کوئی رولز آف بزنس یا قانون بتا دیں نجی وکیل حکومت کی نمائندگی کیسے کرتا ہے،وکیل بلوچستان حکومت سکندر بشیر مہمند نے جواب دیا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے موجود ہیں جس میں نجی وکیل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ چلیں اس مسئلے کو چھوڑیں اپنا حق دعویٰ ثابت کریں، سکندر بشیر مہمند نے کہا کہ بلوچستان حکومت کو مرکزی کیس میں فریق بنایا گیا تھا۔بلوچستان حکومت اور پنجاب حکومت نے خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے، وزارت داخلہ اور وزارت قانون نے بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے، شہدا فورم کے وکیل شمائل بٹ عدالت میں پیش ہوئے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ شہدا فورم فریق نہیں تھی تو اپیل کیسے دائر کر دی؟ شمائل بٹ نے مؤقف اپنایا کہ شہری کی درخواست پر 2 قوانین کالعدم قرار دیے گئے، میں شہدا کی لواحقین کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ شہدا فورم نے بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے، جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا آغاز کر دیا۔وکیل سابق چیف جسٹس نے کہا کہ 9 مئی واقعات کے جرم میں ملوث ملزمان کو نہ کبھی بری کرنے کا کہا نہ یہ ہمارا کیس ہے، خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ہمارا کیس صرف اس حد تک ہے کہ سویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوگا، سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت کا سول عدالتوں کے بجائے فوجی عدالتوں پر اعتماد کیوں ہے۔بعد ازاں سماعت آج ساڑھے 9 بجے تک کے لیے ملتوی کردی گئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین دلائل جاری رکھیں گے۔
جمال مندوخیل

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث جسٹس جمال خان مندوخیل نے جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث کے دلائل نے ریمارکس دیے کہ وکیل وزارت دفاع بلوچستان حکومت خواجہ حارث نے ہے جسٹس جمال عدالت عظمی اپنے دلائل فوجی عدالت نے کہا کہ کا ٹرائل نے دلائل ہوتا ہے کے لیے کے تحت کیا کہ

پڑھیں:

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل ؛وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل 

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہو گئے،وکیل بلوچستان حکومت اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان  نے کہاکہ ہم وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل پر انحصار کرتے ہیں،جواب الجواب میں اپنے دلائل دیں گے۔

نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت جاری ہے،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی بنچ سماعت کررہاہے،وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہو گئے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان  نے کہاکہ ہم وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل پر انحصار کرتے ہیں،جواب الجواب میں اپنے دلائل دیں گے۔

سعودی شہری بڑے بڑے پتیلے لے کر سنیما پہنچ گئے لیکن کیوں؟ جان کر آپ کی ہنسی نہیں رکے گی

وکیل بلوچستان حکومت نے کہا کہ ہم بھی وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل پر انحصار کرتے ہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے بلوچستان حکومت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ کو بتانا ہوگا، عدالتی فیصلے سے متاثرہ کیسے ہیں،کیس کی سماعت میں وقفہ  کر دیا گیا۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالتوں کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے: سپریم کورٹ
  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل ؛وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل 
  • سویلینز کا ملٹری ٹرائل کیس: وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل مکمل
  • آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں: جسٹس جمال مندوخیل
  • ملٹری ٹرائل کس بنیاد پر چیلنج ہو سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
  • ملٹری ٹرائل کس بنیاد پر چیلنج ہو سکتا ہے؟جسٹس جمال مندوخیل کا خواجہ حارث سے استفسار
  • سویلینز ٹرائل کیس؛ وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث کے دلچسپ جواب پر عدالت میں قہقہے
  • سویلینز ٹرائل کیس؛ وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث کے دلچسپ جواب پر عدالت میں قہقہے
  • آرمی ایکٹ میں انکوائری کون کرتا ہے؟ جسٹس حسن اظہر کا وکیل وزارت دفاع سے استفسار