WE News:
2025-01-31@06:13:55 GMT

ورک پلیس ہراسمنٹ سے کیسے بچا جائے؟ 

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

ورک پلیس ہراسمنٹ سے کیسے بچا جائے؟ 

پاکستان میں ملازمت پیشہ خواتین کا تناسب مردوں کے مقابلے میں کافی کم ہے، جبکہ پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں ہر قابلِ روزگار فرد کا معاشی دوڑ میں حصہ لینا وقت اور حالات کی ضرورت بن چکا ہے۔ خواتین کے ملازمت اختیار نہ کرنے کی کئی وجوہات ہیں، جیسا کہ مناسب تعلیم کی کمی، ملازمت کے نا کافی مواقع، سرکاری ملازمتوں کا بحران، چھوٹے شہروں میں مواقع اور رحجان کا نہ ہونا، والدین یا خاوند کی عدم رضامندی اور سب سے بڑی بات دفتروں کا نا مناسب ماحول اور ہراسمنٹ کے واقعات۔

ہر پہلو پہ اگر تفصیلی بات کی جائے تو الگ سے کئی مضامین لکھے جاسکتے ہیں، مگر یہاں ہم حالات حاضرہ کے پیشِ نظر صرف خواتین کو درپیش نامناسب ماحول اور ہراسمنٹ پہ بات کریں گے، جس کے باعث خواتین نا صرف ملازمت کرنے سے بلکہ اکیلے گھر سے باہر نکلنے سے بھی کتراتی ہیں، اور اکثر گھر کے مرد اسی نامناسب ماحول کی وجہ سے تحفظات کا شکار رہتے ہیں اور اپنی خواتین کو ملازمت کرنے سے روکتے ہیں۔

صرف کام کرنے کی جگہوں یا دفتروں میں ہی نہیں بلکہ درسگاہوں اور یونیورسٹیوں میں بھی صنفی تعصب اور ہراسمنٹ عام ہے۔ عموماً خواتین اس پہ بات کرنے سے کتراتی ہیں کہ بات باہر نکلنے پہ کہیں انہیں پڑھائی یا ملازمت سے ہٹا نہ دیا جائے۔ خاموش رہنے کی ایک اور وجہ ان پہ بوس یا ہراساں کرنے والوں کی طرف سے دباؤ کا ڈالا جانا بھی ہے، جبکہ معاشرتی دباو کا مسئلہ الگ سے ہے۔

یہاں یہ کہنا کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے، کچھ غلط نہیں ہوگا، کہ خواتین مردوں کے ڈر سے مردوں ہی کے ہاتھوں ہونے والی ہراسانی کے واقعات رپورٹ کرنے سے جھجکتی ہیں۔

تعلیمی درسگاہوں اور جامعات میں خواتین پہ جملے بازی اور لباس یا شخصیت پر تبصرے معمول کی بات بن گئی ہے۔ دوسری جانب اساتذہ نمبروں کا لالچ دے کر نوجوان لڑکیوں کو جال میں پھنسا کر ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر یورنیورسٹی کی لڑکیوں کا کہنا ہے کہ اساتذہ انہیں بہانے سے اپنے دفاتر میں بلا کر بٹھاتے ہیں۔ ان کے کلاس فیلو لڑکوں کا بھی یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ لڑکیوں کو ان کے لڑکی ہونے کی وجہ سے زیادہ نمبر دیے جاتے ہیں۔

دفاتر میں خواتین کو براہ راست یا بالواسطہ اپنے سینئرز یا بوس کے ساتھ تعلقات رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ اسی طرح ان کی نوکری برقرار رہے گی، یا ان کو پروموشن ملے گی۔ یہاں تک کہ جنسی تعلقات کی پیش کش بھی کی جاتی ہے۔ بلکہ اسے پیش کش نہیں، فرمائش بھی کہا جا سکتا ہے۔

پرائیویٹ جابز میں عموماً اتنے بڑے سیٹ اپ نہیں ہوتے کہ وہاں کوئی ایسی کمیٹی یا پالیسی موجود ہو کہ ایسے واقعات کو رپورٹ کیا جاسکے اور اگر بالفرض کوئی ایسی سہولت ہو بھی تو زیادہ تر خواتین کسی داد رسی کی توقع نہیں رکھتیں۔ بلکہ ان کو اپنی نوکری جانے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ جبکہ ان کا یہ بھی کہنا ہوتا ہے کہ اگر ایک جگہ چھوڑ دیں تو کیا گارنٹی ہے کہ دوسری جگہ پھر ایسے ہی حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اس معاشرے میں مردوں کے یہ رویے بہت عام ہو گئے ہیں۔

اگر کہیں خواتین یہ رپورٹ بھی کر دیں یا اس کے خلاف آواز اٹھائیں تو ان پر یقین نہیں کیا جاتا کہ وہ فائدہ اٹھانے کے لیے عورت کارڈ کھیل رہی ہیں یا ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ خواتین کو اپنی کردار کشی کا خوف ہوتا ہے جس کے باعث وہ کوئی بھی ایسی کارروائی کرنے سے گریز کرتی ہیں۔

صرف جنسی ہراسانی نہیں 

ہراسانی کے علاؤہ اکثر خواتین کو مرد کولیگز کے مقابلے میں تنخواہ یا ترقی نہیں دی جاتی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ مردوں جتنی قابل نہیں ہیں یا اس کے پیچھے اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کے تقاضے پورے نہیں کرتیں۔

اس قسم کے واقعات صرف پرائیویٹ دفاتر میں ہی عام نہیں۔ سرکاری دفاتر میں زیادہ کثرت سے یہ رحجان پایا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ خواتین کے لیے ڈاکٹریا ٹیچر کے پیشے کو زیادہ محفوظ اور معزز سمجھا جاتا تھا اور اب اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کا ماحول بھی اس قابل نہیں کہ اسے محفوظ کہا جاسکے۔ اور اسکی وجہ یہی ہے کہ تعصب اور ہوس زدہ ذہنیت کے افراد ہر شعبے میں برابر موجود ہیں جو وہاں خواتین کے لیے نامناسب ماحول پیدا کرتے ہیں۔

اسپتالوں میں فی میل ڈاکٹرز یا نرسوں کو میل اسٹاف اور ڈاکٹرز کی جانب سے ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ساتھ کام کرنے کے دوران اکثر انہیں ساتھی کولیگز جان بوجھ کر چھوتے ہیں یا معنی خیز باتیں کرتے ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حتی کہ قانون ساز اسمبلیوں میں بھی خواتین کے ساتھ اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ان شعبوں کو تو عام طور پر خواتین کے لیے انتہائی غیر موزوں سمجھا جاتا ہے۔

ایک خاتون کی زبانی

ایک خاتون نے چند دن پہلے مجھے اپنا یہ واقعہ سنایا، “مجھے روز دفتر جاتے ہوئے چند لڑکے گھورتے تھے اور اکثر میرے پیچھے پیچھے دفتر تک آ جاتے تھے۔ ایک روز میں نے ڈولفن اہلکار سے اس معاملے کی شکایت کی تو اس نے اپنا نمبر دے کر اگلے روز کال کرنے کو کہا، اگلے روز میری کال پہ اہلکار نے ان لڑکوں کے خلاف سخت ایکشن لیا۔ وہ معاملہ تو حل ہوا مگر 2 روز بعد اسی اہلکار نے خود میسجز کرکے مجھے ہراساں کرنا شروع کر دیا”۔

اب اگر بچانے والے ہی خود ہراساں کرنے لگیں گے تو مدد کس سے مانگی جائے؟

تصویر کا دوسرا رخ 

جہاں ایک طرف خواتین کو ہراسانی کا سامنا ہے، کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جو کہ خود نمبروں یا ترقی کے لالچ میں اس قسم کی اوچھی حرکات کرتی ہیں یا اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس قسم کی خواتین مردوں کی جھجھک ختم کرتی ہیں اور دوسری خواتین کے لیے بھی ماحول کو غیر محفوظ بنا دیتی ہیں۔

ہراسانی سے کیسے بچا جائے

کتنے ہی لوگوں کو پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف ویمین ایٹ ورک پلیس ایکٹ 2010 کے بارے میں پتا ہے یا بتایا جاتا ہے؟ اداروں اور دفاتر میں اس کے متعلق رہنمائی فراہم کرنا بے حد ضروری ہے۔ ورنہ ایسے قوانین کا کوئی فائدہ نہیں جو تحفظ فراہم نہ کرسکیں۔

اگر کسی بھی قسم کے ہراسانی یا صنفی تعصب کے واقعات رونما ہوں تو ان کو رپورٹ کرنے کے لیے اداروں اور دفاتر میں کمپلینٹ سیل موجود ہونے چاہییں۔ تمام لوگوں کو ہراسانی کے قوانین کی آگاہی دی جانی چاہیے تاکہ خواتین آواز اٹھا سکیں اور مرد اس بات سے ڈریں کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوسکتی ہے۔

خواتین کو ایسی صورتحال میں ملازمت چھوڑ کے بھاگنا یا کھل کر بات کرنے سے ڈرنا نہیں چاہیے، بلکہ ایسے حالات کا سامنا کرنا چاہیے۔ خواتین کا اعتماد ہی مرد کا خوف ہے۔ اور اس مرادنہ ذہنیت کو اب بدلنے کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سعدیہ سویرا

خواتین ملازمت ورل پلیس ہراسمنٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: خواتین ملازمت ورل پلیس ہراسمنٹ خواتین کے لیے دفاتر میں کے واقعات خواتین کو کہ خواتین کا سامنا جاتا ہے ہوتا ہے کی وجہ

پڑھیں:

میراتھن ریس رکوانے کیلیے جماعت اسلامی کے وفدکی کمشنر سے ملاقات

میرپورخاص(نمائندہ جسارت)جماعت اسلامی میرپورخاص کے نمائندہ وفد نے امیر جماعت اسلامی میرپورخاص شکیل احمد فہیم کی قیادت میں کمشنر میرپورخاص فیصل احمد عقیلی سے ڈویژنل انتظامیہ کے تحت خلاف شریعت مجوزہ خواتین میرا تھن ریس کو منعقد نہ کرنے کے حوالے سے کمشنر آفس میں ملاقات کی۔ اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی ضلع میرپورخاص حاجی نور الٰہی مغل اور نیاز درانی بھی ان کے ساتھ تھے۔جماعت اسلامی کے وفد نے ملاقات کے دوران کہا کہ اسلام میں خواتین کا دائرہ کار اور ذمے داریاں واضح طور بیان ہے خواتین اسلام اور طالبات کو مردوں کے ہوتے ہوئے عام شاہراہوں پر دوڑانا اور ڈور کے مقابلے کروانا شریعت اسلامی کی کھلی خلاف ورزی اور مردوں کی ہوس بھری نظروں کا شکار کرنے کے مترادف ہے۔ڈویژنل انتظامیہ طالبات اور خواتین کی معیار زندگی کو بہتر کرنے انہیں جدید تعلیمی و ووکیشنل تربیتی سہولیات مہیا کرنے کے بجائے سڑکوں پر دوڑانے سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔ آج بھی میرپورخاص و قرب وجوار کی خواتین بنیادی طبی سہولیات سے محروم اور سول اسپتال میں زچگی کے دوران جدید سہولتیں نہ ہونے کے سبب جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں مگر ڈویژنل انتظامیہ سب اچھا ہے کا راگ الاپتی ہے۔پرائیوٹ اور سرکاری اسکولز و کالج کی انتظامیہ کو سرکاری احکامات کے ذریعے خواتین میراتھن ریس میں شرکت کا کہا جارہا ہے۔وفدنے مزید کہا کہ میرپورخاص کے غیور مسلمان اس خلاف شریعت اور غیر اخلاقی خواتین میرا تھن ریس کو قبول نہیں کریں گے۔وفد نے کمشنر میرپورخاص سے مطالبہ کیا کہ مجوزہ خواتین میراتھن ریس کو فوری طور پر منسوخ کرے۔

متعلقہ مضامین

  • 9 مئی دہشت گردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟ سپریم کورٹ
  • مضبوط میڈیا: جمہوری معاشروں کی ضرورت
  • پیکا ترمیمی بل، زرداری نے کہاتھا حکومت سے تجاویز تسلیم کرنے کا کہوں گا، مولانا فضل الرحمان
  • جی ایچ کیو، مہران ایئر بیس حملوں میں اربوں کا نقصان ہوا، کیا 9 مئی کی شدت ان سے زیادہ تھی؟ سپریم کورٹ
  • بچوں کے جھوٹ بولنے کی وجوہات کیا ہو سکتی ہے؟عادت کیسے چھڑائی جائے، جانیں
  • مرد و خواتین اداکاروں کے سیٹ پر نشہ کرکے آنے پر پابندی لگائی جائے، محسن عباس حیدر
  • میراتھن ریس رکوانے کیلیے جماعت اسلامی کے وفدکی کمشنر سے ملاقات
  • کے الیکٹرک کو رات کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا پابند بنایا جائے ‘ محمد فاروق
  • 9 مئی واقعات کے ملزمان کے کارنامے عوام میں بے نقاب ہونے چاہئیں، جسٹس حسن اظہر