اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کیخلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے جس میں عدالت نے قرار دیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اور ججز آئینی کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا جس میں کہا گیا کہ نذر عباس نے جان بوجھ کر توہینِ عدالت نہیں کی۔ نذر عباس کیخلاف توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جاتا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چیف جسٹس پاکستان اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے دو سوالات تھے۔ کیا ایک ریگولر بینچ سے جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں کیس واپس لیا جاسکتا ہے اور دوسرا سوال یہ تھا کہ انتظامی آرڈر کے ذریعے جوڈیشل آرڈر کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو اختیار نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل آرڈر کے باوجود کیس واپس لے۔ ججز آئینی کمیٹی کو بھی یہ اختیار ہی نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں انتظامی آرڈر کے ذریعے کیس واپس لیتی۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ نذر عباس کی کوئی غلطی نہیں ہے، نہ ہی انہوں نے جان بوجھ کر کیس فکس کرنے میں غفلت برتی۔ نذر عباس کا کیس فکس نہ کرنے پر کوئی ان کا ذاتی مفاد نہیں تھا۔ نذر عباس کے اقدام میں کوئی بدنیتی ظاہر نہیں ہو رہی۔ نذر عباس کا اقدام توہینِ عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔ نذر عباس کی وضاحت قبول کرکے توہین عدالت کی کارروائی ختم کرتے ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیس واپس لیا جو اس کو اختیار ہی نہیں تھا۔ ججز آئینی کمیٹی نے بھی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کیا۔ ججز کمیٹیوں نے جوڈیشل آرڈر نظر انداز کیا یا نہیں، یہ معاملہ فل کورٹ ہی طے کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے 14 رکنی بینچ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے۔ معاملے کو دیکھنے کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو فل کورٹ کے لیے بجھواتے ہیں۔ فل کورٹ آئین کے آرٹیکل 175 کی شق 6 کے تحت اس معاملے کو دیکھے۔ کسٹمز ایکٹ سے متعلق کیس غلط انداز میں ہم سے لیا گیا۔ کسٹمز کیس واپس اسی بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے جس 3رکنی بینچ نے یہ کیس پہلے سنا تھا۔ بعد ازاں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے توہین عدالت کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی جاری کردیا جس میں تحریر کیا گیا ہے کہ  ہم نے اس سوال پر بھی غور کیا ہے کہ کیا مبینہ توہین کے مرتکب افراد کے خلاف شوکاز نوٹس ختم ہونے کے بعد معاملے کو نمٹا ہوا سمجھا جائے یا یہ معاملہ ان 2کمیٹیوں کے ارکان کے خلاف مزید کارروائی کے لیے جاری رہے۔ فیصلے کے مطابق پہلی کمیٹی نے غیر قانونی طور پر زیر سماعت مقدمات کو ایک بینچ سے واپس لے کر انتظامی حکم کے ذریعے دوسری کمیٹی کے سپرد کیا۔ جس سے عدالتی حکم کا اثر زائل ہوا۔ دوسری کمیٹی نے عدالتی حکم کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے محض پہلی کمیٹی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مقدمہ 27 جنوری 2025 کو آئینی بینچ کے سامنے مقرر کر دیا۔  دونوں کمیٹیاں 17 جنوری 2025 کو عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے انتظامی فیصلے لینے کی مجاز نہیں تھیں۔  اس پس منظر میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان دو کمیٹیوں کے ارکان کے خلاف مزید کارروائی کی جانی چاہیے۔ تاہم  عدالتی روایات اور وقار کا تقاضا ہے کہ اس سوال کو سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے ذریعے طے کیا جائے تاکہ اسے حتمی اور مستند طور پر حل کیا جا سکے۔ ہم یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ ایک ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کو اتنی اہمیت دی گئی کہ 14 ججوں پر مشتمل ایک بڑا بینچ تشکیل دیا گیا۔ ہماری رائے میں یہ مسئلہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ جو اس عدالت کے تمام ججوں کی اجتماعی اور ادارہ جاتی غور و فکر کا متقاضی ہے۔ اس لیے ہم اس معاملے کو چیف جسٹس کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ فل کورٹ تشکیل دے کر اس اہم مسئلے پر غور اور فیصلہ کیا جا سکے۔ یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کو ایکٹ کی دفعہ 2 کے تحت قائم کمیٹی کے حوالے نہیں کیا گیا کیونکہ اس کی اتھارٹی سپریم کورٹ کے بینچز کی تشکیل تک محدود ہے۔ عدالت کے بینچز اور فل کورٹ کے درمیان فرق آئین کے آرٹیکل 203J(2)(c) اور (d) کی دفعات میں تسلیم شدہ ہے اور فل کورٹ بلانے کی ذمے داری روایتی طور پر چیف جسٹس کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کو جاری شوکاز نوٹس کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل نمٹا دی ہے۔  انٹرا کورٹ اپیل پر جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ وکیل نذر عباس نے کہا کہ ہم اپنی انٹرا کورٹ اپیل واپس لینا چاہتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ اپنا کلیم واپس لے سکتے ہیں لیکن اپیل واپس نہیں لی جاسکتی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے نذر عباس کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ کمرہ عدالت سے باہر جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ میرے موکل کیخلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا گیا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جب توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دی گئی تو آرڈر کیسے دیا گیا، اس فیصلے میں تو مبینہ طور پر توہین کرنے والوں میں چیف جسٹس پاکستان کو بھی شامل کیا گیا، کیا مبینہ طور پر توہین کرنے والے فل کورٹ تشکیل دیں گے،  مرکزی کیس آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ توہین عدالت قانون میں پورا طریقہ کار بیان کیا گیا ہے، دونوں کمیٹیوں کو توہین کرنے والے کے طور پر ہولڈ کیا گیا، طریقہ کار تو یہ ہوتا ہے پہلے نوٹس دیا جاتا ہے، ساری دنیا کیلئے آرٹیکل 10اے کے تحت شفاف ٹرائل کا حق ہے، کیا ججز کیلئے آرٹیکل 10 اے دستیاب نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جو فل کورٹ بنے گا کیا اس میں مبینہ توہین کرنے والے چار ججز بھی شامل ہوں گے، ہمیں نوٹس دے دیتے ہم چار ججز ان کی عدالت میں پیش ہو جاتے۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ کیا انٹراکورٹ اپیل میں وہ معاملہ جو عدالت کے سامنے ہی نہیں، کیا اسے دیکھ سکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ تو کیا ہم بھی فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں، مناسب ہوگا ججز کراس ٹاک نہ کریں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر یہ بینچ کارروائی جاری رکھنا چاہتا ہے تو میں بینچ سے الگ ہو جائوں گا، ہمارے سامنے اس وقت کوئی کیس ہے ہی نہیں، ہمارے سامنے جو اپیل تھی وہ غیر موثر ہو چکی، اگر بنچ کارروائی جاری رکھنا چاہتا ہے تو میں معذرت کروں گا۔ جسٹس جمال مندوخیل  نے کہا کہ فائل کے پہیے نہیں لگے ہوتے کسی نے تو لے کر جانی ہے، ہمیں بتائیں کمیٹی پر اعتراض کیا گیا، ہمیں بتائیں کیا کمیٹی آئین کے خلاف جا سکتی تھی؟۔ میری رائے میں آئینی سوال آ جائے تو وہ مقدمہ خودکار طریقے سے آئینی بینچ کے سامنے چلا جاتا ہے، ملٹری کورٹس کیس کسی نے منتقل نہیں کیا وہ خود منتقل ہوا، جب ریگولر بینچ میں میرے سامنے آئینی نکتہ آئے گا میرے لیے وہ کیس سننا ہی حرام ہو جائے گا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی  نے کہا کہ 13 جنوری کے آرڈر میں لکھا ہوا ہے کہ اعتراض کیا گیا تھا کہ کیس آئینی بینچ کو بھیجا جائے۔ جسٹس جمال مندوخیل  نے کہا کہ اس فیصلے میں جو کہا گیا کیا وہ آئین کی خلاف ورزی نہیں؟ میں صرف پوچھ رہا ہوں، اگر ایک جج آئین کی خلاف ورزی کرے تو آئین اس بارے میں کیا کہتا ہے؟  ہر جج نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ  نے کہا کہ ہمارے سامنے موجود کیس غیر مؤثر ہو چکا ہے، کیا ہم یہاں بیٹھ کر ججز کو نوٹس کر سکتے ہیں؟ ہم انٹرا کورٹ اپیل کے اختیار سماعت سے باہر نہیں جا سکتے۔ جسٹس جمال مندوخیل  نے کہا کہ ہمارے بارے میں کہا گیا کہ یہ دو جج بینچ میں نہ بیٹھیں، ان کا مفادات کا ٹکراؤ ہے،  پہلے بتائیں ہمارے مفادات کیا ہیں اور ان کا ٹکراؤ کیا ہے؟۔ جسٹس محمد علی مظہر  نے کہا کہ یہ تو نئی عدالتی نظیر ہو گئی کہ میرا آرڈر ہے فلاں جج کیس نہ سنے۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ  نے ریمارکس دیے کہ ایسے تو آدھے ججز کورٹ میں بیٹھ ہی نہیں سکتے۔ جسٹس محمد علی مظہر  نے کہا کہ ایسے میں تو آپ کو ایڈہاک ججز بھرتی کرنا پڑیں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل  کا کہنا تھا کہ یہ تو ایسے ہی ہو گیا یہ تیرا جج ہے یہ میرا جج ہے، ہمیں بتایا جائے ہمارے کیا مفادات تھے؟ ہمیں کیا فائدہ ملا؟ ساڑھے گیارہ بجے جب ساری عدالتیں بند ہو جاتی ہیں ہم تب بھی کیس سنتے ہیں، ہم روزانہ ڈبل فائلیں پڑھ کر آتے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی  نے ریمارکس دیے کہ ہم تو دوگنا کام کر رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل  نے کہا کہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ فائدہ اٹھانے والے جج ہیں، دوسری طرف کہا جاتا ہے متاثرہ جج ہیں،کیا یہ معاملہ اب عالمی عدالت انصاف میں جائے گا؟ مفادات کا ٹکراؤ کیا ہے یہ بتانا پڑے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر  نے کہا کہ ہمارے ساتھ وہ ہوا جیسے کہا جاتا ہے کہ کچھ بھی نہیں کہا اور کہہ بھی گئے۔ جسٹس جمال مندوخیل  نے کہا کہ یہ ہماری نیک نیتی پر سوال اٹھایا گیا ہے، اس معاملے کو کلیئر کرنا پڑے گا۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ  نے ریمارکس دیے کہ چھ ججز کا خط کلاسیک مثال تھی، وہ خط آج بھی موجود ہے۔ قوم، سیاستدانوں اور ججز نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا، جب وہ آتا ہے تو کوئی کھڑا نہیں ہوتا، آج صبح ایک اخبار کی سرخی پڑھی جس میں سینئر سیاستدان نے کہا ملک میں جمہوریت ہے ہی نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل  نے کہا کہ ہم اس سوال کو ہمیشہ کے لیے طے کرنا چاہتے ہیں تاکہ روز روز تماشا نہ لگا رہے، اس خوف سے میں ججز کمیٹی میں بھی نہیں بیٹھوں گا کہ کہیں کوئی بینچ مجھے توہین عدالت کا نوٹس نہ جاری کر دے۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ  نے ریمارکس دیے کہ ججز کمیٹی جوڈیشل فورم نہیں ہے، کیا اس معاملے میں کمیٹی ممبران پر اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے کہ ان کا مفادات کا ٹکراؤ ہے؟۔ جسٹس جمال مندوخیل  نے کہا کہ آنے والے ساتھی ججز کو توہین عدالت کی کارروائیوں سے بچانا چاہتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ کا کہنا تھا کہ جو ہوا یہ شرمندگی کا باعث ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے کیس نمٹا دیا۔ 4 ججز نے اکثریتی فیصلے میں کہا کہ تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کریں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس شاہد وحید نے اقلیتی رائے دیتے ہوئے کہا کہ مقدمہ نمٹانے کی حد تک اکثریتی فیصلے کے ساتھ ہیں، تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کرنے کی حد تک اکثریتی رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی نے تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کرنے کا اکثریتی فیصلہ دیا ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کے 2 رکنی بینچ کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جس انداز میں توہین عدالت کا مرتکب قرار دیاگیا کمیٹی اجلاس میں نہیں جائوں گا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جسٹس جمال خان مندوخیل نے جسٹس محمد علی مظہر جسٹس جمال مندوخیل عدالت کی کارروائی نے ریمارکس دیے کہ جسٹس اطہر من الل انٹرا کورٹ اپیل توہین عدالت کی توہین عدالت کا بینچ کے سامنے جوڈیشل ا رڈر اس معاملے کو نے کہا کہ ہم نذر عباس کی سپریم کورٹ خلاف توہین نے کہا کہ ا توہین کرنے کرتے ہوئے ججز کمیٹی فیصلے میں عدالت نے کمیٹی نے سکتے ہیں کہ ہمارے عدالت کے کا ٹکراو نہیں تھا چیف جسٹس کیس واپس اور جسٹس کے ذریعے کے خلاف کیا گیا فل کورٹ میں کہا کورٹ کے جاتا ہے ا رٹیکل واپس لے ہی نہیں نے والے تھا کہ کیا جا گیا ہے کے لیے

پڑھیں:

حکومت کا جسٹس منصور کے فل کورٹ تشکیل سے متعلق آرڈر کو چیلنج کرنے کا فیصلہ

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصورعلی شاہ کے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کیخلاف توہین عدالت کیس کے فیصلے میں فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق آرڈر کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان  نے آئینی بینچ کو وفاقی حکومت کے فیصلے سے متعلق مؤقف سے آگاہ کردیا۔

سپریم کورٹ میں کسٹم ریگولیٹر ڈیوٹی کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ غیر آئینی فیصلہ ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت اسے چیلنج کرے گی۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کیخلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ سنایا تھا جس میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرکمیٹی اور ججز آئینی کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل مشتمل 2 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ نذر عباس نے جان بوجھ کر توہینِ عدالت نہیں کی،نذر عباس کیخلاف توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیکر معاملہ چیف جسٹس پاکستان کو بھیجا جاتا ہے۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو اختیار نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل آرڈر کے باوجود کیس واپس لے، ججز آئینی کمیٹی کو بھی یہ اختیار ہی نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں انتظامی آرڈر کے ذریعے کیس واپس لیتی۔ نذر عباس کی کوئی غلطی نہیں ہے نہ ہی انہوں نے جان بوجھ کر کیس فکس کرنے میں غفلت برتی، نذر عباس کا کیس فکس نہ کرنے پر کوئی ان کا ذاتی مفاد نہیں تھا، ان کے اقدام میں کوئی بدنیتی ظاہر نہیں ہو رہی، نذر عباس کا اقدام توہینِ عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔

نذر عباس کی وضاحت قبول کرکے توہینِ عدالت کی کارروائی ختم کرتے ہیں۔ ججز کمیٹیوں نے جوڈیشل آرڈر نظر انداز کیا یا نہیں، یہ معاملہ فل کورٹ ہی طے کر سکتا ہے، اس حوالے سے 14 رکنی بینچ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے۔

چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ تشکیل دے کر اس معاملے کو دیکھیں۔ فل کورٹ آئین کے آرٹیکل 175 کی شق 6 کے تحت اس معاملے کو دیکھے، کسٹمز کیس واپس اسی بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے جس 3رکنی بینچ نے یہ کیس پہلے سنا تھا۔

عدالتی فیصلے میں تحریر کیا گیا ہے کہ ہم نے اس سوال پر بھی غور کیا ہے کہ کیا مبینہ توہین کے مرتکب افراد کے خلاف شوکاز نوٹس ختم ہونے کے بعد معاملے کو نمٹا ہوا سمجھا جائے یا یہ معاملہ ان 2کمیٹیوں کے اراکین کے خلاف مزید کارروائی کے لیے جاری رہے۔

پہلی کمیٹی نے غیر قانونی طور پر زیر سماعت مقدمات کو ایک بینچ سے واپس لے کر انتظامی حکم کے ذریعے دوسری کمیٹی کے سپرد کیا، جس سے عدالتی حکم کا اثر زائل ہوا،دوسری کمیٹی نے عدالتی حکم کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے محض پہلی کمیٹی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مقدمہ 27 جنوری 2025 کو آئینی بینچ کے سامنے مقرر کر دیا۔

دونوں کمیٹیاں 17 جنوری 2025 کو عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے انتظامی فیصلے لینے کی مجاز نہیں تھیں، اس پس منظر میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان دو کمیٹیوں کے اراکین کے خلاف مزید کارروائی کی جانی چاہیے تاہم عدالتی روایات اور وقار کا تقاضا ہے کہ اس سوال کو سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے ذریعے طے کیا جائے تاکہ اسے حتمی اور مستند طور پر حل کیا جا سکے۔

ہم یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ ایک ہائیکورٹ کے رجسٹرار کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کو اتنی اہمیت دی گئی کہ 14 ججوں پر مشتمل ایک بڑا بنچ تشکیل دیا گیا ،لہذا ہماری رائے میں یہ مسئلہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے، جو اس عدالت کے تمام ججوں کی اجتماعی اور ادارہ جاتی غور و فکر کا متقاضی ہے، اس لیے ہم اس معاملے کو چیف جسٹس کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ فل کورٹ تشکیل دے کر اس اہم مسئلے پر غور اور فیصلہ کیا جا سکے۔

یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کو ایکٹ کی دفعہ 2 کے تحت قائم کمیٹی کے حوالے نہیں کیا گیا کیونکہ اس کی اتھارٹی سپریم کورٹ کے بینچز کی تشکیل تک محدود ہے، عدالت کے بنچز اور فل کورٹ کے درمیان فرق آئین کے آرٹیکل203J(2)(c) اور (d) کی دفعات میں تسلیم شدہ ہے اور فل کورٹ بلانے کی ذمے داری روایتی طور پر چیف جسٹس کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ: نذرعباس ایڈیشنل رجسٹرار کے عہدے پر بحال
  • ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کو بحال کردیا گیا،نوٹیفکیشن جاری
  • حکومت کا جسٹس منصور علی شاہ توہین عدالت کیس کا آرڈر چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • حکومت کا جسٹس منصور کے فل کورٹ تشکیل سے متعلق آرڈر کو چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • حکومت کا توہین عدالت کیس میں جسٹس منصورعلی شاہ کے آرڈر کیخلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ
  • ججز کمیٹیوں نے عدالتی حکم نظر انداز کیا معاملہ فل کورٹ سنے، جسٹس منصور
  • سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کی توہین عدالت کے خلاف اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی
  • سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار کی انٹراکورٹ اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی
  • آپ اپنا کلیم واپس لے سکتے ہیں ،اپیل نہیں ،جسٹس جمال مندوخیل کے ایڈیشنل رجسٹرار کی توہین عدالت کارروائی کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر ریمارکس