Express News:
2025-04-13@16:48:24 GMT

ریل کی تنگ گلیاں اور کھنڈرات

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

پہلی قسط

تبت کی جھیل مانسرور کی برفوں میں نہ جانے کیا جینیاتی تبدیلیوں رونما ہوئیں اور کیوں کر یہ سب ہوا کہ جھیل پر جمی برفوں نے پانی بنانے کی بجائے ایک جل پری کی تشکیل شروع کر دی۔ ان برفوں میں نہ جانے کس کے نطفے کی آمیزش ہوئی کہ برف سے پانی بننے کا سارا نظام اُتھل پُتھل ہو گیا۔

برف کے کھربوں خلیوں میں سے فقط ایک خلیہ خراب ہوا اور اسی ایک خلیے نے جل پری کی تشکیل شروع کردی۔ آس پاس کے خلیوں کو پہلے پہل تو تبدیلی کچھ سمجھ نہ آئی مگر پھر جوں جوں اس بگڑ چکے خلیے نے اپنی نشوونما شروع کی تو یہ خلیہ سب کے لیے ناقابلِ برداشت بن گیا۔ جھیل مانسرور کے گلیشیر کے لیے یہ خلیہ بالکل سرطان کے مرض کی طرح تھا۔ جیسے سرطان کسی بھی انسان کے اندر ہی نشوونما پاتا ہے کہ یہ مرض بھی ہمارے اربوں خلیوں میں سے فقط ایک خلیے کے بگڑنے کی وجہ سے وجود پاتا ہے اور پھر بڑھتا ہوا انسان کے اندر ایسے اپنا وجود بنا لیتا ہے کہ اسے انسانی جسم سے جدا کرنا بہت مشکل بن جاتا ہے، بالکل اسی طرح مانسرور جھیل کے گلیشیئر کے لیے اس بگڑ چکے خلیے کو وقت سے پہلے اپنے آپ سے جدا کرنا ممکن نہیں تھا۔

نہ چاہتے ہوئے ہوئے بھی اسے اپنے اندر اس نطفے کو پروان چڑھانا ہی تھا۔ کوئی کہتا تھا کہ کیلاش کی پہاڑوں نے جھیل مانسرور کو بد دعا دی تھی جس کی وجہ سے اس کا فقط ایک خلیہ بگڑ گیا تھا اور اس ایک بگڑے ہوئے خلیے نے پوری وادی میں قیامت کا سماں برپا کر دیا تھا۔ جھیل مانسرور کے پانیوں نے ہمیشہ ہی بغاوت کی تھی۔ سب کا ہی خیال تھا کہ جھیل مانسرور کے پانیوں کو بھی تبت کی دوسری جھیل، جھیل راکشاستل کی طرح ہونا چاہیے تھا کہ جھیل راکشاستل سے نکلنے والے سرخ دریا یعنی ستلج جسے تبت کے مقامی لوگ دریائے ہاتھی بھی کہتے ہیں۔

دریائے ستلج ہمالیہ کی گھاٹیوں سے گزر کر ہماچل پردیش کی ریاست میں 900 میل تک کے علاقے کو سیراب کرتا ہوا، سیدھا سیدھا نیچے میدانی علاقوں میں آ جاتا ہے۔ یہی صراطِ مستقیم تھا اور یہی قدرت کا قانون مگر جھیل مانسرور کے پانیوں میں عجب کج روی تھی۔ ستلج ہاتھی کے منہ سے نکل کر مغربی سمت میں بہتا ہے۔ گنگا مور کی چونچ سے نکل کر جنوبی سمت میں بہتا ہے۔ برہم پتر گھوڑے کے منہ سے نکل کر مشرقی سمت میں بہتا ہے اور دریائے سندھ شیر کے منہ سے نکل کر شمالی سمت میں بہتا ہے۔ یہ چاروں دریا بنیادی طور پر جھیل مانسرور کے پانیوں سے ہی جنم لیتے ہیں۔

تینوں دریاؤں کا پانی تو پھر بھی سمجھ میں آتا ہے مگر جھیل مانسرور کے پانیوں کا یوں جنوب کی طرف سفر کرنا اور پھر ایک لمبے راستے پر سفر کرنا سب کے لیے حیران کن بھی تھا اور قدرت سے بغاوت بھی۔ یہی وجہ تھی آس پاس کی سب ندیاں جھیل مانسرور کے گلیشیئر کی کوکھ میں پنپنے والے اس گناہ کو مقدس پہاڑوں کی سزا قرار دے رہے تھے۔ وہ مقرر وقت بھی آن پہنچا جب جھیل مانسرور کے گلیشیئر نے مقدس پہاڑوں کی اس بددعا کو اپنے جسم سے آزاد کیا اور جل پری نے جھیل مانسرور میں پہلا آزاد سانس لیا۔ جل پری جنوب کی طرف حرکت کرنے لگی جیسے اس پر وحی کی جاچکی ہو کہ اسے صرف اور صرف جنوب کی طرف ہی بہنا ہے۔

جل پری واضح ہدایات پر تھی، وہ نہ تو گھبرائی اور نہ ہی اپنے راستے سے بھٹکی بلکہ اپنے مالک کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے آگے بڑھنے لگی۔ جو آبی مخلوق بھی اسے راستے میں ملتی، وہ توبہ تائب ہوتی۔ تمام آبی مخلوق اسے کیلاش پہاڑ کی مانسرور جھیل کو دی جانے والی بد دعا قرار دے رہے تھے۔

سورج کی آخری کرنیں مدہم ہو رہی تھیں جب جل پری نے چین کے زیرانتظام تبت کو چھوڑا اور لداخ میں بودھوں کی خانقاہوں کی جانب سفر شروع کردیا۔ تبت سے لداخ تک کے سفر نے جل پری کو تھکا دیا تھا۔ رات گئے جب جل پری دریائے سندھ کے کنارے بنی ایک پرانی عبادت گاہ کے پاس پہنچی تو اس نے یہیں رات بسر کرنا مناسب سمجھا۔ صبح کی پہلی کرن جب جل پری پر پڑی تو بودھ راہب صبح کی عبادت میں مصروف تھا۔ استاد آنکھیں موندے بیٹھے تھے جب کہ چھوٹے بڑے شاگرد دو زانو تھے۔

جل پری نے لداخ کی زمین کو خشک اور ریت والی پایا جس کے اطراف میں ننگے پہاڑ تھے اور ان ہی پہاڑوں کے بیچوں بیچ سنگھے (دریائے سندھ کو لداخ میں سنگھے یعنی شیر کہتے ہیں) کے کنارے جل پری چمکتی دھوپ کے مزے لے رہی تھی۔ لداخ جس کے بیچوں بیچ چاندی کی رنگت جیسی دور تک چلی جانے والی ایک لکیر ہے۔ یہی دریائے سندھ ہے۔ لداخ جہاں سورج کی کرنیں دریا میں اترتی ہیں، جہاں ان پانیوں کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔

جہاں کے پانیوں میں ریت بہت ہے۔ کہتے ہیں چاند جیسی زمین لداخ میں دیکھنے کو ملے یا نہ ملے مگر چاندنی جیسا پانی لداخ میں دیکھنے کو ضرور ملے گا۔ تنگ وادیوں میں شور مچاتا، سر پٹختا دریائے سندھ جب جل پری کو لے کر سکردو میں داخل ہوا تو پھیل سا گیا جیسے تھک کر گرم دھوپ میں استراحت کر رہا ہو۔ بلتستان میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے دریائے شیوک اس میں آ کر ملا اور پھر تقریباً تیس کلومیٹر مزید آگے چل کر سکردو شہر کے قریب دریائے شیگر اس میں داخل ہوگیا۔ ایک نیا پہاڑی سلسلہ ہندوکش جب شروع ہوا تو دریائے گلگت بھی اس میں شامل ہوگیا۔

بلتستان کی سر زمین میں کہیں سنگلاخ پہاڑ ہیں تو کہیں خوبانیوں کے باغات۔ جل پری نے اسکردو کو چھوڑا جیسے وہ جانتی تھی کہ یہ اس کی منزل نہیں۔ جل پری دریائے سندھ میں چلتی جا رہی تھی۔ کبھی راستے میں درختوں کے جھنڈ آتے تو کبھی کوئی گاؤں۔ کبھی راستے میں کوئی پل آ جاتا اور کبھی کبھار سڑک پر چلتی ہوئی کوئی جیپ مل جاتی۔ اچانک جل پری دریا کے ساتھ ساتھ بہت گہرائی میں چلی گئی اور سڑک بہت اوپر رہ گئی۔ جل پری نے محسوس کیا کہ کبھی کبھار دائیں بائیں سے کچھ نالے یا چھوٹے دریا دریائے سندھ میں شامل ہورہے تھے۔

دریا بہت بڑا تھا مگر اس کے کنارے بلند اور خشک تھے جب کہ آس پاس کی وادیاں بھی ویران تھیں۔ کیسا عجیب سا یہ دریا تھا۔ جسے اپنی پیدائش کے فوراً بعد جنوب میں اتر جانا چاہیے تھا مگر نہ جانے کیوں اس نے یہ کج روی اپنائی، اپنا پہلو بدلا اور شمال کی طرف دوڑنے لگا۔ دریائے سندھ کے کناروں پر آسمان کو چھوتے ہوئے بالکل ننگے پہاڑ کھڑے تھے اور ان کی پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ نانگا پربت بھی تھا جسے دیکھنے کی خواہش کم از کم اس جل پری کو نہ تھی۔ جل پری کو اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ یہ دنیا کا آٹھواں بڑا پہاڑ تھا یا آخری بڑا پہاڑ۔ جل پری کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ کس کس کوہ پیما نے اسے سَر کرتے وقت اپنی جان قربان کی تھی اور کون اپنی ٹانگوں سے محروم ہوگیا تھا۔

جل پری تو بس چلتی جا رہی تھی، مسلسل تیرتی جا رہی تھی۔ اسے اپنے اصل مقام پر پہنچنا تھا۔ جل پری چلتی جا رہی تھی کہ رات کی تاریکی میں ہی ایک استور موڑ آیا اور استور نالا شور مچاتا ہوا دریائے سندھ میں جا گرا۔ استور نالے میں پانی کا بہاؤ اس قدر تھا کہ استور دریا کے دریائے سندھ میں شامل ہونے پر جل پری کو ایک جھٹکا سا لگا اور وہ دائیں کنارے کی جانب چلی گئی مگر اس نے اپنا سفر جاری رکھا۔ پہاڑوں کے اندر سے برآمد ہونے والے نالے کا پانی چٹانوں سے ٹکرا کر جاگ ہوا جا رہا تھا۔ بالکل یوں لگا جیسے دودھ ابل رہا ہو مگر جل پری کا سفر جاری تھا۔ جل پری بلتستان کے سرحدی علاقے کوہستان سے ہوتے ہوئے نیچے کی جانب آنے لگی۔ دریا اب مسلسل پھیل رہا تھا۔

پہاڑی علاقہ رفتہ رفتہ کم ہورہا تھا۔ جل پری کا سفر اب میدانوں کی جانب تھا۔ جل پری خشک اور سنگلاخ پہاڑوں کو بہت پیچھے چھوڑ کر سرسبز پہاڑوں کے درمیان سفر کر رہی تھی۔ تیرتے تیرتے جل پری بہت موٹی سمینٹ کی دیواروں سے ٹکرا گئی۔ بہت بعد میں جل پری کو معلوم ہوا کہ انسانوں نے یہاں پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ایک ڈیم بنا رکھا تھا جسے مقامی لوگ تربیلا ڈیم کہہ رہے تھے۔ جل پری کا سفر پوٹھوہاری پہاڑی علاقے سے چلتا ہوا کالا باغ پر ختم ہونا تھا۔ دریا عام انسانوں کے لیے تو خاموش تھا مگر جل پری سے اپنے دل کی ساری باتیں کر رہا تھا۔ اسے اپنے تمام مشاہدات اور تجربات سے آگاہ کر رہا تھا۔ دریا اسے بتا رہا تھا کہ کس کس لشکر نے کب کب اور کہاں کہاں سے اسے پار کیا اور کون کون سے بادشاہ اُس کے کس کس کنارے پر آپس میں ٹکرائے تھے۔

جل پری دریائے سندھ میں خاموشی سے بہہ رہی تھی۔ کناروں پر کہیں پرانے درخت کے سائے میں کنوئیں پر رہٹ چل رہا تھا اور بیل کے گھنگھروؤں کی آواز گونج رہی تھی۔ راستے میں آنے والے دیہات کے دروازوں، قلعے کے کھنڈروں، محمود کے سپاہیوں کی قبروں، دریا کی لہروں اور سندھ کے ان کناروں نے پچھلے ہزاروں برسوں میں ایسی ایسی نہ جانے کتنی آوازیں سنی ہوں گی۔ کبھی آریاؤں کے قافلوں کے قدموں کی چاپ، کبھی اشوک کے جلوسِ شاہانہ کے باجے، کبھی سکندراعظم کے رتھوں کی گڑگڑاہٹ، کبھی حاکم غزنیں کی فوجوں کے نقارے اور طبل، کبھی چنگیز خان کے لشکر جرار کے نعرے اور کبھی بابر کی توپوں کو کھینچنے والے گھوڑوں کی ٹاپیں۔۔۔ دریائے سندھ کے کناروں کی چھاتی کو خدا جانے کس کس نے روندا اور پامال کیا ہو گا۔

دریا جل پری کو اپنے قصے سنانے لگا کہ اس کے پانیوں کا کب کب رنگ بدل کر لال ہوا۔ اٹک کے مقام پر جب دریائے کابل بھی اس میں شامل ہوا تو سندھو جل پری کو بتانے لگا کہ شمال سے جو بھی لشکر آتے تھے، وہ اسی مقام سے اسے پار کرتے تھے اور دوسرے کنارے چھچھ جس کا پرانا نام چھج کی طرف چلے جاتے تھے۔ دریا جل پری کو بتانے لگا کہ اسی مقام سے سکندر اعظم بھی اس خطے میں داخل ہوا اور سکندر کے ایک ہزار سال یہیں کہیں آس پاس راجا آنند پال اور محمود غزنوی کی فوجیں بھی ٹکرائی تھیں۔ راجا آنند پال کا نام سن کر جل پری کے کان کھڑے ہوگئے۔ جل پری کو بھی راجا آنند پال کے قلعے کی ہی نشان دہی کی گئی تھی۔ آنند پال کا نام سنتے ہی جل پری سندھو کی منتیں کرنے لگی کہ وہ جلدازجلد اسے آنند پال کے قلعے تک پہنچا دے۔ جل پری کی بے چینی بڑھنے لگی تھی، اس کا سانس بھی رکنے لگا تھا۔

سندھو جوں جوں آگے بڑھتا جا رہا تھا، اس کے پانیوں میں آس پاس کے لوگوں کا نفرت انگیز رویہ، منافقت، اپنی ہی زمین سے غداری اور نہ جانے کون کون سے عناصر اس میں شامل ہو رہے تھے۔ جل پری پاک تھی، وہ ان تمام رویوں کی عادی نہ تھی۔ اس کا سانس رکنے لگا تھا مگر اسے راجا آنند پال کے قلعے تک ہر حال میں پہنچنا تھا۔ جل پری کی حالت مسلسل بگڑ رہی تھی۔ سندھو نے اسے یہیں کہیں کنارے پر آرام کرنے کا مشورہ دیا مگر جل پری بہ ضد تھی، وہ ہر حالت میں اپنے مقررہ کردہ مقام پر پہنچنا چاہتی تھی۔ جب سے جل پری کی پیدائش ہوئی تھی، اسے فقط ایک ہی راستہ دکھایا گیا تھا، ایک ہی لفظ سکھایا گیا تھا۔ سندھو کے اندر ہی سفر کرتے ہوئے اسے راجا آنند پال کے قلعے کے کنارے پہنچنا تھا۔ سندھو کنارے آباد لوگوں کے رویے اسے اب تکلیف دینے لگے تھے۔ یہ منافقانہ رویے اب اس کے لیے زہر کا کام کر رہے تھے۔

سورج کی کرنیں سندھو کے پیچھے اوپر کی طرف اٹھ رہی تھیں جب سندھو راجا آنند پال کے قلعے کی چوکھٹ پر پہنچا تھا۔ جل پری نے نظریں بلند کر کے راجا کے قلعے کی جانب دیکھا۔ اوپر ’’کافر کوٹ‘‘ کا بورڈ نصب تھا۔ جل پری نے بھیگی آنکھوں سے لفظ کافر پڑھا اور اپنا چہرہ سندھو سے باہر نکال کر کہا،’’اے انسان! تو واقعی خسارے میں ہے ورنہ کون کسی دوسرے کو کافر کہتا ہے۔ تجھے کیا معلوم کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔ کس کا من پاک ہے اور کس کا من میلا۔‘‘ جل پری نے ایک آخری ہچکی لی اور اپنے آپ کو سندھو کے حوالے کردیا۔ سندھو نے جل پری کو اپنی آغوش میں لیا اور کافر کوٹ سے دور ہٹتا ہوا میدانی علاقوں کی طرف بہنے لگا۔

……………

 نہ جانے آپ کے نزدیک سوشل میڈیا کی کتنی اہمیت ہے مگر مجھے تو انتہائی محترم اور ہیرے لوگ اسی سوشل میڈیا کی بدولت ہی ملے۔ کچھ عرصہ قبل جب میں ترک شدہ چکوال اور بھون ریلوے اسٹیشن کی خاک چھان رہا تھا تو انتہائی محترم صفدر رضا صاحب نے سوشل میڈیا پر ہی راہ نمائی کی کہ مجھے ماڑی انڈس تک بنوں ترک شدہ تنگ ریلوے لائن اور اس کے ریلوے اسٹیشنوں کی بھی سیاحت کرنی چاہیے۔

میں نے اس پر کام شروع کیا اور میاں والی سے ہی اپنے لیے ایک ایسا شخص ڈھونڈ نکالا جو بیک وقت میرا راہ بر، محافظ اور راہ نما تھا۔ طے یہ پایا کہ ہم دو طرح کی سیاحت کریں گے۔ پہلے دن کا معاملہ یہ تھا کہ ہمیں ماڑی انڈس سے بنوں تک ریل کی تنگ پٹری کے ساتھ ساتھ سفر کرنا تھا نیز اس کے ریلوے سٹیشن بھی دیکھنا تھے اور دوسرے دن ہمیں چشمہ بیراج سے ہوتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف سفر کرنا تھا اور کافرکوٹ کے کھنڈرات دیکھنا تھے۔ ارادہ تھا کہ میں بعدازنمازِ جمعہ سیال کوٹ سے لاہور کے لیے نکلوں گا کیوں کہ اطلاعات تھیں کہ شام میں لاہور سے ماڑی انڈس کے لیے ایک ریل گاڑی نکلتی ہے جو صبح سویرے آپ کو ماڑی انڈس ریلوے اسٹیشن پہنچا دے گی مگر میرا راہ نما بضد تھا کہ مجھے راستے میں پڑے میاں والی ہر حال میں اترنا ہوگا۔ نہ جانے کیوں وہ مجھے پائی خیل ریلوے اسٹیشن دکھانے پر ضد کر رہا تھا۔

ایک طرف اس کی ضد تھی کہ میں ماڑی انڈس کی بجائے میاں والی اتر جاؤں اور دوسری طرف میں ماڑی انڈس تک بذریعہ ریل جانے کی ضد میں تھا۔ مجھے ہی اپنی ضد چھوڑنا پڑی اور میں جمعہ کی رات سیال کوٹ سے بنوں کی گاڑی میں بیٹھ کر نکل پڑا جس نے رات تقریباً ساڑھے تین بجے میاں والی لاری اڈے پر اتار دیا۔ اللّہ بھلا کرے میرے راہ بر کا جو رات ساڑھے تین بجے مجھے لاری اڈا سے اٹھا کر ریلوے اسٹیشن لے گیا۔ میں نے کہا بھی کہ بھائی تھکاوٹ کا شکار ہوں مگر میرا راہ نما بھی میری طرح ایسا کوئی جذباتی انسان تھا کہ میرے منع کرنے کے باوجود مجھے گھر کی بجائے ریلوے اسٹیشن لے گیا۔ اس وقت ریلوے اسٹیشن پر کتوں نے ہی بھونکنا تھا، وہی بھونک سکتے تھے اور وہی بھونک رہے تھے۔

میرا تھکاوٹ کے مارے برا حال تھا اور محافظ صاحب میری میاں والی ریلوے اسٹیشن کے ساتھ تصویر لینے پر اصرار کر رہے تھے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اپنے راہ بر کو ذرا ڈانٹ پلائی کہ تم تو آدابِ زندگی سیکھو۔ ایک شخص جو آٹھ گھنٹے کی مسافت طے کر کے آیا ہے، رات کے ساڑھے تین بجے کا وقت ہے۔ وہ مسافر اس وقت استراحت کرنا چاہے گا یا ریلوے اسٹیشن کی سیاحت کرنا چاہے گا؟ معلوم نہیں کہ میرے راہ نما کو میری بات کس حد تک بری لگی، جیسی بھی لگی مگر میں نے اسے زبردستی گھر جانے کا حکم صادر کر دیا۔ اس کے بجائے کہ موصوف گھر کی جانب رخ کرتے، حضرت نے ایک پٹھان کے ہوٹل کی جانب رخ کرلیا کہ انھیں بھوک ستا رہی تھی۔

اس سے پہلے کہ میں اس کے کان کے نیچے ایک رکھتا، خدا نے اس موٹی عقل کو ذرا پتلا کیا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے گھر کی جانب مڑ گیا۔ میں اپنے میزبان کے گھر پہنچا تو دروازے میرے لیے کھول دیے گئے۔ اگرچہ نومبر کا مہینہ تھا مگر سردی تھی۔ لحاف چارپائی پر پڑا ہوا تھا گرم نہ تھا۔ اسے مجھے بقلم خود گرم کرنا تھا۔ میں نے اپنے راہ بر کو خاص تلقین کی تھی کہ وہ رات میرے والے لحاف میں ہی سوئے۔ مقصود یہ تھا کہ ایسے میں جب بھی اس کے گھر پہنچتا تو مجھے گرم بستر ملتا مگر میرا راہ نما نہ صرف نکما تھا بلکہ مکمل طور پر عقل سے پیدل بھی تھا یا پھر شاید کچھ زیادہ ہی سمجھ دار تھا۔ وہ جو کوئی بھی تھا، اپنا بستر مجھے خود ہی گرم کرنا پڑا۔ میں نے جوتے اتارے، حسبِ عادت لحاف منہ پر اوڑھا اور سوگیا۔ بعض لوگ ہوتے ہیں جنھیں لحاف کے اندر منہ دے کر سونے کی عادت ہوتی ہے۔

میں بھی ایسے ہی افراد میں سے ایک ہوا۔ صبح آٹھ بجے اٹھ کھلی تو سورج کی روشنی دروازے کے اوپر بنے روشن دان سے اندر آ رہی تھی۔ اگرچہ کہ روشن دان بند تھا مگر اس پر شیشہ تو تھا ہی۔ اب آواز اور روشنی بھلا کب کسی کے قابو میں آئی ہیں۔ میاں والی پاکستان کا عجیب و غریب شہر ہے۔ یہاں کی ہر لڑکی خواہ وہ کسی بھی عمر کی ہے، میاں والی ہی ہوتی ہے۔ نوے کی دہائی کے تقریباً ہر نوجوان کا میاں والی سے پہلا تعارف عطا اللّہ عیسیٰ خیلوی ہی ہے۔ انگریزوں نے کالا باغ کے مقام پر جناح بیراج سے ایک عظیم الشان نہر نکالی تھی جو شہر کے عین بیچ سے گزرتی ہے۔

میاں والی کے پہلو میں سرسبز علاقہ ہوا کرتا تھا جو کچا کہلاتا تھا، اسے دریا نگل چکا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک نے ’’کچا‘‘ کا نام سن رکھا ہے۔ یہ نام سنتے ہی صوبہ سندھ کے کچے کا علاقہ ذہن میں آتا ہے، ایک دہشت ذہن میں اتر آتی ہے۔ ہر بہتے ہوئے بڑے دریا کے کناروں پر چوں کہ کچھ نرم اور انتہائی سرسبز زمین ہوتی ہے، اس لیے اسے ’’کچے کا علاقہ‘‘ یا صرف کچا کہا جاتا ہے اور اس سے پرے ’’پکے کا علاقہ‘‘ یا پکا کہلاتا ہے۔ کہتے ہیں میاں والی کا پرانا نام بھی ’’کچی‘‘ تھا۔

میاں والی بنیادی طور پر معدنیات سے مالامال ہے۔ یہاں کے پہاڑ دھاتوں سے بھرے پڑے ہیں مگر میرا خیال نہیں کہ ان سے فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ میاں والی بنیادی طور پر ایک قبائلی علاقہ ہے جہاں صدیوں سے قبائل آباد ہیں اور ان ہی کی پرانی روایات آج بھی چلی آ رہی ہیں۔ میاں والی کے ایک انڈر پاس کے قریب سے گزرتے ہوئے میرا راہ نما مجھے بتانے لگا کہ یہاں پہلے فلائی اوور منظور ہوا تھا مگر فلائی اوور کے منصوبے کو انڈر پاس میں اس لیے تبدیل کردیا گیا کہ قریب ہی لڑکیوں کا اسکول تھا اور فلائی اوور بننے سے غیرمردوں کی نظر براہ راست اسکول کے اندر جانی تھی۔ اس لیے یہاں فلائی اوور کی بجائے انڈر پاس بنا دیا گیا جو عام دنوں میں تو ٹھیک کام کرتا ہے مگر بارش کے دنوں میں پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہوجاتا ہے۔

کہتے ہیں اگر کبھی سرائیکی صوبہ بنا تو اس کی سرحد میاں والی تک ہوگی یعنی میاں والی اس میں شامل ہوگا۔ میرا ارادہ تھا کہ عمران خان، ناہید نیازی، مولانا کوثرنیازی اور مولانا عبد الستار کا گھر باہر باہر سے ضرور دیکھا جائے۔ کم از کم عمران خان کا گھر تو باہر سے دیکھنے کی تمنا تھی مگر نومبر کے مختصر دنوں نے ایسا کرنے سے مجھے روکے رکھا۔ نومبر کا سورج چڑھ چکا تھا۔ ہم میاں والی کے پرانے گھر، پرانی دکانیں، بازار سے ہوتے ہوئے انگریزوں کی چھوڑی ہوئی نشانی کی طرف روانہ ہوگئے۔۔۔ ریلوے اسٹیشن۔ ہر ریلوے اسٹیشن کی طرح یہاں بھی پانی کی ٹنکی، شیڈ، مسافرخانہ، ٹکٹ گھر تو تھا ہی مگر اچھی بات یہ تھی کہ یہاں اب ایک طرف باغیچہ بنادیا گیا تھا جو فی الوقت تو پھولوں سے بھرا ہوا تھا۔

میاں والی سے آج کل تین ریل گاڑیاں مختلف اوقات میں گزرتی ہیں۔ میاں والی ایکسپریس، تھل ایکسپریس اور مہر ایکسپریس۔ مجھے بھی میاں والی ایکسپریس کے ذریعے لاہور سے ماڑی انڈس جانا تھا مگر اپنے راہ نما کی ضد مانتے ہوئے میاں والی میں ہی اترنا پڑا۔ اس کا اصرار تھا کہ اس ٹور کے لیے مجھے اپنی سیاحت کا آغاز میاں والی سے کرنا چاہیے ناکہ ماڑی انڈس سے۔ میں اپنے سیاحتی غرور میں پہلے پہل تو اس کی بات کو رد کرتا رہا مگر پھر اس کی ضد کے سامنے ہار مان ہی لی۔ بعد میں پتا چلا کہ ضد وہ نہیں بلکہ میں کر رہا تھا۔ اس علاقے کی سیاحت کو جاتے ہوئے آغاز میاں والی سے ہی ہونا چاہیے۔

 لاہور سے میاں والی ایکسپریس رات 9 بج کر 10 منٹ نکلتی ہے جو کہ صبح 6 سے 7 بجے تک آ خری سٹاپ ماڑی انڈس پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح ایک ریل رات ہی ماڑی انڈس سے لاہور کے لیے نکلتی ہے اور رات تاریکی میں کسی نہ کسی ریلوے اسٹیشن پر دونوں ایک دوسرے کے پہلو میں بھی کھڑی ہوجاتی ہیں۔ ٹرین کی ایڈوانس بکنگ ایک دن پہلے گوگل میں جا کر SSR group  ویب سائٹ سے کروا سکتے ہیں، کیوںکہ یہ ریل پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلتی ہے۔ پائی خیل ریلوے اسٹیشن میاں والی شہر سے نکلے تو ہماری پہلی منزل پائی خیل ریلوے اسٹیشن تھا۔

قبائل خواہ خیبر پختونخوا کے ہوں، پھر بلوچستان کے یا پھر پنجاب سمیت کسی اور علاقے کے، انھوں نے انگریزوں سمیت ہر ایک ہی ناک میں دم کیے رکھا۔ نہ جانے ہمارے قبائل کی سوچ کیا تھی یا آج وہ کیا سوچ رکھتے ہیں۔ وہ جو بھی سوچ رکھتے ہیں، وہ سوچ کم از کم میری سوچ سے تو باہر ہے۔ میں ہی کیا بلکہ یہ سوچ مجھ سمیت ہمارے ہر بڑے کی عقل سے باہر ہے۔ اسی لیے تو پاکستان بننے کے اتنے لمبے عرصے کے بعد بھی ہمارے قبائل میں آج تک امن قائم نہ ہوسکا۔ یہ ہمیشہ ہی آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ سکون سے کبھی نہیں رہتے اور پھر ان واقعات میں اموات بھی ان کے اپنے ہی لوگوں کی ہوتی ہیں مگر ان سب سے سبق لینے کی بجائے یہ مزید لڑتے ہیں، مزید قتل و غارت گری کرتے ہیں اور یہ قتل و غارت گری اس وقت تک جاری رہے گی جب تک قیامت طاری نہ ہو جائے۔

ملکِ پاکستان پر اس سے بڑی قیامت اور کیا ہو گی کہ ہمارے قبائل آج بھی ایک دوسرے کا گلا کاٹتے ہیں۔ کبھی زمین کے نام پر، کبھی عزت کے نام پر اور کبھی مذہب کے نام پر۔ بلوچستان کے ہزارہ قبائل کی ٹارگٹ کلنگ ہو یا پھر خیبرپختونخوا کے قبائل کی مسلکی جنگ ہو۔ نہ جانے معصوم بچوں، عورتوں اور مسافروں کو قتل کرنے کی کون سا مسلک اجازت دیتا ہے، البتہ مسلک دشمنی اس بات کی اجازت ضرور دیتی ہے۔ قبائلی معاشرے میں سیاست کی حیثیت بنیادی ہوتی ہے کیوںکہ ہر قبیلے کی دوسرے قبیلے کے ساتھ ٹکر ہوتی ہے تو خواہ وہ بکریاں چراتا ہو مگر اپنے قبیلے کی سیاست پر نگاہ ضرور رکھتا ہے۔ قبائل میں پرانی دشمنی اور انتقام کا نظام ہوتا ہے۔

جیسا کہ آپ نے تاریخ میں پڑھا ہو گا کہ عربوں میں سو سو سال تک دشمنیاں چلتی تھیں۔ یہاں پر آج تک یہی رواج ہے۔ عربوں میں دشمنی چلتی تھی مگر یہ بھی پڑھا تھا کہ وہ دشمن کو معاف بھی کردیا کرتے تھے۔ یہاں پہنچتے پہنچتے وہ رواج آدھا رہ گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں چوری چکاری نہیں ہوتی، راہ گیروں کو نہیں لوٹا جاتا۔ اغوا کی وارداتیں نہیں ہوتیں۔ بس اگر ہوتا ہے تو قتل۔ لوگ پرانے حساب چکاتے رہتے ہیں اور جان سے جاتے رہتے ہیں۔ بات مجھے پائی خیل ریلوے اسٹیشن کی کرنی تھی اور میں کیا رونے دھونے لے کر بیٹھ گیا۔

آپ لاہور سمیت تقسیم سے پہلے کے ریلوے اسٹیشن کی ساخت کا اگر مطالعہ کریں تو یہ ریلوے اسٹیشن آپ کو ریلوے اسٹیشن کم اور قلعے زیادہ محسوس ہوں گے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ان ریلوے اسٹیشن کو قلعوں کی طرز پر ہی بنایا گیا تھا اور ان میں باقاعدہ طور پر افواج بھی موجود ہوتی تھیں جو نہ صرف ان عمارتوں کی حفاظت کرتی تھیں بلکہ مسافروں کی حفاظت بھی کرتی تھیں۔ موجودہ پاکستان کے خطرناک ریلوے اسٹیشنز میں سے ایک ریل اسٹیشن پائی خیل ریلوے اسٹیشن ہے جو اس وقت تو ضلع میاں والی، تحصیل عیسیٰ خیل کا حصہ ہے مگر ماضی میں پوری کی پوری تحصیل عیسیٰ خیل خیبر پختونخوا کا حصہ رہی ہے۔     ( جاری ہے )

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ریلوے اسٹیشن کی دریائے سندھ میں اس میں شامل ہو میرا راہ نما میاں والی سے جل پری دریا کر رہا تھا جا رہی تھی ماڑی انڈس راستے میں سے نکل کر جل پری کو ا رہی تھی جل پری کی والی ایک کے کنارے کی بجائے کہتے ہیں سے اپنے بھی تھا کے اندر اور پھر کیا اور رہے تھے گیا تھا کے ساتھ تھا مگر جاتا ہے سندھ کے فقط ایک سے پہلے تھا اور ہوتی ہے سورج کی تھے اور نے والے جانے کی کی جانب ا س پاس کہ میں ہیں کہ تھی کہ ہے اور اپنے ا بھی اس اور اس کے لیے تھا کہ ہے مگر کی طرف لگا کہ سے ایک نے لگی میں ہی ہوئے ا

پڑھیں:

کراچی سے دوحہ جانے والی قطر ایئر ویز کی پرواز کئی گھنٹے تاخیر کے بعد منسوخ

کراچی:

جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کئی گھنٹے تاخیر کا شکار ہونے والی قطر ایئر ویز کی پرواز منسوخ کردی گئی۔

ذرائع کے مطابق قطر ایئر ویز کی پرواز کو جمعہ کی شب 3 بج کر 50 منٹ پر دوحہ کیلئے روانہ ہونا تھا تاہم ٹیکسی کے دوران طیارے میں فنی خرابی پیدا ہو گئی جس کے باعث پرواز کئی گھنٹوں تک روانہ نہ ہو سکی۔

مسافروں کو پہلے طیارے میں بٹھا کر طویل انتظار کروایا گیا، پھر لاؤنج میں واپس بھیج دیا گیا۔ طویل انتظار اور غیر یقینی صورتحال کے بعد قطر ایئرویز نے پرواز کی منسوخی کا اعلان کر دیا۔

پرواز میں 325 مسافر سوار تھے جن میں سے متعدد کی دوحہ سے آگے کنیکٹنگ فلائٹس بھی تھیں۔ پرواز کی منسوخی سے بیرون شہر سے آئے مسافر شدید پریشان ہو گئے۔

پرواز منسوخ کرنے کے باوجود مسافروں کو ہوٹل نہیں بھیجا گیا، ایئرلائن کا مؤقف ہے کہ ہوٹلوں میں گنجائش موجود نہیں، اس لیے مسافروں کو گھر واپس جانے کی ہدایت کی گئی۔ 

مسافروں نے الزام عائد کیا کہ پرواز منسوخ ہونے کے باوجود ہوٹل فراہم نہ کرنا بین الاقوامی ضابطوں کی خلاف ورزی ہے۔

متاثرہ افراد نے مطالبہ کیا کہ پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی فوری نوٹس لے اور قطر ایئر ویز کو مسافروں کے لیے متبادل انتظامات کا پابند بنائے۔

مسافروں کا شکوہ ہے کہ نہ صرف پرواز منسوخ کی گئی بلکہ اگلی فلائٹ کے بارے میں بھی کوئی معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں۔

قبل ازیں پرواز کی روانگی میں کئی گھنٹے تاخیر پرمسافروں نے ایئرلائن کے خلاف شدید احتجاج کیا اور دیگر پروازوں کے مسافروں کو طیارے میں سوار ہونے سے روک دیا جس پر مسافروں کے درمیان ہاتھا پائی بھی دیکھنے میں آئی۔

قطر ایئرویز کے متاثرہ مسافروں کا مطالبہ تھا کہ پہلے ان کی پرواز سے متعلق واضح معلومات فراہم کی جائیں، تب ہی دیگر پروازوں کو روانہ ہونے دیا جائے گا، صورتحال پر قابو پانے کے لیے ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس کو طلب کیا گیا۔

 

متعلقہ مضامین

  • کوئٹہ جانے والی بولان میل جیکب آباد پر روک دی گئی، مسافر رُل گئے
  • سنگاپور ایئرپورٹ سے پرفیوم چوری کرنے والی آسٹریلوی خاتون 2 سال بعد گرفتار
  •  کپڑے دھونے تالاب پر آنے والی تین خواتین ڈوب کر جاں بحق
  • کرپشن فری بیانیہ والی پی ٹی آئی حکومت نے رشوت کا بازار گرم کیا ہوا ہے، اختیار ولی
  • کرپشن فری بیانیہ والی پی ٹی آئی حکومت نے رشوت کا بازار گرم کیا ہوا ہے، رہنما مسلم لیگ(ن)
  • زہریلی شے کھلا کر قتل، قیمتی اشیا چرانے والی خاتون گرفتار
  • روبوٹ کے ذریعے حمل ٹھہرانے والی خاتون کے ہاں بچے کی پیدائش
  • عران خان نے آنے والی نسلوں کیلئے بات چیت پر رضامندی کا اظہار کیا ہے: اعظم سواتی
  • کراچی سے دوحہ جانے والی قطر ایئر ویز کی پرواز کئی گھنٹے تاخیر کے بعد منسوخ
  • پی ایس ایل میں جتنی والی ٹیم کو کیا ملے گا؟ پی سی بی نے بڑا اعلان کردیا