چین کے مصنوعی ذہانت کے ماڈل ’ڈیپسیک آر1‘ نے چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑ دیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
چین کی مصنوعی ذہانت کی ایپ ڈیپسیک کے تازہ ترین ماڈل نے بڑے پیمانے پر توجہ حاصل کی ہے، اس ایپ نے چیٹ جی پی ٹی کو امریکا میں پیچھے چھوڑ دیا ہے کیوں کہ امریکا میں آئی فون صارفین چیٹ جی پی ٹی کے مقابلے میں ڈیپسیک زیادہ استعمال کرنا شروع ہوگئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانت، ایٹمی ہتھیاروں سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے، ماہرین
نئے لانچ ہونے والے ڈیپسیک R1 ، جس کی لاگت اوپنائی کے مسابقتی ماڈلز سے 95 فیصد کم ہ، یہ ماڈل صرف 5.
اہم بات یہ ہے کہ امریکا نے چین کے لیے سیمی کنڈیکٹرز کی برآمد پر پابندی عائد کررکھی ہے، یہ پابندیاں چین کو NVIDIA کے H100s جیسے اعلی کارکردگی والے چپس حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نیویڈیا کا مصنوعی ذہانت پر مبنی نیا اور مفت چیٹ بوٹ متعارف، یہ چیٹ جی پی ٹی سے کیسے مختلف ہوگا؟
تاہم ، ڈیپیسیک نے پابندیوں سے پہلے حاصل کردہ پرانے NVIDIA A100 چپس کے ذخیرے کا فائدہ اٹھایا ، اور اپنے ماڈلز کی تربیت کے لیے کم صلاحیت والے H800 چپس استعمال کیے۔
مائیکرو سافٹ کے سی ای او ستیہ نڈیلا نے ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم میں ڈیپیسیک کی کامیابیوں پر روشنی ڈالی اور کہا ’یہ انتہائی متاثر کن ہے کہ انہوں نے ایک کمپیوٹ-مؤثر، اوپن سورس ماڈل کس حد تک مؤثر طریقے سے بنایا ہے۔ دیپسیک جیسی پیشرفتوں کو بہت سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔‘
یہ بھی پڑھیں: چیٹ جی پی ٹی سے ’بریک اپ‘ لیٹر لکھوانا کتنا مہنگا پڑسکتا ہے؟
مائیکروسافٹ کے ایک پرنسپل محقق ، دیمٹریس پاپیلیوپلوس نے اپنی سادگی کے لیے ڈیپ سیک ماڈل کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا ’ڈیپیسیک نے بنیادی کارکردگی پر توجہ مرکوز کی ، جس نے تاثیر کو برقرار رکھتے ہوئے اخراجات کو نمایاں طور پر کم کیا۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا چیٹ جی پی ٹی چین ڈیپسیکذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا چیٹ جی پی ٹی چین مصنوعی ذہانت چیٹ جی پی ٹی کے لیے
پڑھیں:
پاکستان میں پہلی بار شعبہ صحت میں باقاعدہ اے آئی ٹیکنالوجی کا استعمال
پاکستان میں شعبہ صحت کو ٹرانسفارم کرنے کیلئے آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کردیا گیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پورے پاکستان میں پہلی بار کراچی کے آغا خان یونیورسٹی اسپتال نے شعبہ صحت کو ٹرانسفارم کرنے کیلئے اے آئی ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کردیا ہے۔
آغا خان اسپتال نے ہیلتھ کیئر کی فراہمی کو تبدیل کرنے کیلئے مصنوعی ذہانت کے استعمال کو ایک اہم ذریعے کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ٹول یریڈکٹیو اینالٹیکس کے استعمال سے مریضوں کی زندگیوں کی دیکھ بھال، ممکنہ پیچیدگیوں اور بروقت مداخلت کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت ٹولز کے استعمال سے مریضوں کے ڈیٹا کے بڑے والیوم کا تجزیہ اور بیماریوں کی نشان دہی کر کے ذاتی نوعیت کے علاج کی منصوبہ بندی میں مدد اور رہنمائی بھی لی جا رہی ہے جبکہ اے آئی سے چلنے والے امییجنگ ٹولز ایکسرے ایم آر آئی اور سی ٹی اسیکینز میں بے ضابطگیوں کا پتہ لگانے میں بھی مدد دے رے ہیں۔
آغا خان یونیورسٹی کے ڈائریکٹر، ٹیکنالوجی انوویشن سپورٹ سینٹر ڈاکٹر سلیم سیانی نے ایکسپریس ٹریبون کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ اے آئی انسانی ذہانت کی جگہ نہیں لے رہی بلکہ اس کی معاونت کررہی ہے اور یہ معاونت مصنوعی ذہانت شعبہ طب میں انقلاب برپا کرے گی۔
انہوں نے بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے کینسر، امراض قلب سمیت دیگر پیچیدہ بیماریوں کی درست تشخیص ہوسکے گی جبکہ اس کے ذریعے ممکنہ وبا کا بھی پتہ لگایا جاسکے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت آغا خان یونیورسٹی اسپتال نے شعبہ صحت کی بہتری کے لیے مصنوعی ذہانت کو ایک اہم ٹول کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے، یہ ٹول مریضوں اور ان کی بیماریوں کا ڈیٹا جمع کرکے تجزیہ اور علاج کی منصوبہ بندی میں بھی مدد گار ثابت ہوگا اور اس کے علاوہ اہم انتظامی امور میں بھی مدد دے گا۔
انہوں نے آغا خان اسپتال میں مریضوں اور علاج کے حوالے سے ایک اور سوال کے جواب میں بتایا کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے ریڈیولوجی ایکسرے، سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی کے ذریعے جسم میں کسی بھی قسم کے کینسر ٹیومر کی نشاندہی فوری کی جاسکے گی۔ اسی طرح اس ٹیکنالوجی کی مدد سے خون کے کیے جانے والے ٹیسٹوں کے ذریعے بیماریوں کی فوری نشاندہی میں مدد ملے گی۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں اے آئی ٹیکنالوجی کے زریعے مختلف اداروں نے مختلف شعبوں میں کام شروع کردیا ہے لیکن پاکستان میں حکومتی سطح سمیت کسی بھی اداروں میں اس ٹیکنالوجی پر کوئئ کام یا اے آئی کے حوالے سے معلوماتی سلسلہ بھی شروع نہیں کیا جاسکا۔
ڈاؤیونیورسٹی کے ترجمان کے مطابق یونیورسٹی میں اے آئی کے حوالے سے انسٹیٹیوٹ قائم کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے نظام صحت تبدیل ہورہا ہے اور اس ٹیکنالوجی سے شعبہ طب میں مزید تبدیلی آئے گی۔