26ہزار متاثرین میں 12ارب روپے تقسیم
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
آج کل ملک میں نیب کا پھر بہت شور ہے۔ لیکن اگر نیب کا مقدمہ سنیں تو انھیں یہ گلہ ہے کہ ان کے اچھے کاموں پر کوئی بات نہیں کی جاتی۔ جہاں نیب عام آدمی کو انصاف دے رہا ہے وہاں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا جاتا۔ میڈیا بھی سیاسی معاملات میں اتنا الجھا رہتا ہے کہ اسے بھی سیاسی مقدمات کے علاوہ ملک میں کچھ نظر نہیں آتا۔ سیاسی مقدمات پر اس قدر فوکس عام آمی کے مسائل کو بہت پیچھے کر دیتا ہے۔
شاید پاکستان کے ادارے بھی عام آدمی کے مسائل پر اس قدر توجہ اس لیے نہیں دیتے کہ اس کی کوئی پذیرائی نہیں ہے۔ عام آدمی کا مسئلہ حل کریں یا نہ کریں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے میں نے دیکھا کہ سب بڑے کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن چھوٹے کام جن کی کوئی پذیرائی نہیں جن کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ اس پر کوئی دھیان بھی نہیں دیتا۔ شاید اس میں ہمارا بھی قصور ہے۔
گزشتہ دنوں نیب لاہور میں ایک تاریخی کام ہوا۔ اس کا بھی کہیں کوئی ذکر نہیں ہو سکتا۔ ایسا لگتا ہے جیسا ایسا کچھ ہوا ہی نہیں۔ میری ملاقات تو نہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ ڈی جی نیب لاہور امجد اولکھ بھی سوچتے ہونگے کہ یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں اس قدر بڑے کاموں کی نہ تو کوئی پذیرائی ہے اور نہ کوئی ذکر ہی۔ وہ اس سے بہتر تھا کسی سیاسی ستدان کو ایک شو کاز بھیج دہتے تو زیادہ ذکر ہوتا۔ لیکن عام آدمی کے لیے اتنا بڑا کام کرنے کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ کہیں کوئی خبر نہیں۔ کوئی پروگرام نہیں۔ کہیں کوئی ٹکر نہیں۔ کوئی بریکنگ نہیں۔
ڈی جی نیب لاہور امجد اولکھ نے نیب لاہور میں ایک تقریب منعقدکی جس میں چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بھی شریک ہوئے۔ مجھے چئیرمین نیب سے بھی بہت گلہ ہے انھوں نے خودکو میڈیا سے اتنا دور کر لیا ہے کہ اب وہ لاہور آئیں اسلام آباد رہیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔
ان کا آنا جانا کوئی خبر ہی نہیں رہا کبھی تو چیئرمین نیب گھر سے نکلے دفتر پہنچے ، بھی خبر تھی۔ انھوں نے کس سے ملاقات کی یہ بھی خبر تھی۔ اب ایسا نہیں۔ بہر حال بات لاہور میں منعقدہ تقریب کی ہو رہی ہے۔ کیا کسی کو اندازہ ہے کہ اس تقریب میں 8310متاثرین میں پلاٹس کے ایلوکیشن لیٹر تقسیم کیے گئے ہیں۔ یہی نہیں اس کے ساتھ 97کروڑ کے چیک بھی متاثرین میں تقسیم کیے گئے ہیں۔ اب آپ سوال کر سکتے ہیں کہ یہ نیب کب سے پلاٹوں کے ایلوکیشن لیٹر اور چیک تقسیم کرنے لگی ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں بیس سال پہلے پلاٹ لیے تھے ۔ اپنی جمع پونجی اس نجی ہاوسنگ سوسائٹی کے مالک کو دی تھی کہ انھیں ایک پلاٹ ملے گا۔ جس پر وہ گھر بنائیں گے۔ لیکن یہ پاکستان میں عام ہے۔ یہاں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان لوگوں سے پلاٹوں کی قیمت لے لیتے ہیں۔ لیکن پلاٹ نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں کا پاکستان کے کسی بھی قانون میں کوئی پرسان حال نہیں۔ ان کے پاس نظام انصاف میں کوئی دروازہ نہیں جو یہ کھولیں تو انھیں انصاف مل سکے۔ صرف نیب اس پراپرٹی مافیا سے ان غریب لوگوں کو پلاٹ یا ان پلاٹوں کی قیمت واپس دلوا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ ان لوگوں میں سے اکثریت نے قسطوں میں رقم ادا کی ہوتی ہے۔ اور اب ا ن کے پاس اپنی رقم کی واپسی اور پلاٹ لینے کا کوئی راستہ نہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کے پاس وسائل بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے وکیل بھی بڑے ہوتے ہیں اور تعلقات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سے کوئی لڑ بھی نہیں سکتا۔
یہ سب کچھ جیب میں رکھتے ہیں۔ پھر ہی فراڈ کرتے ہیں۔ صرف نیب سے ڈرتے ہیں۔ بہر حال نیب لاہور میں یہ 71ارب روپے کی سیٹلمنٹ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی سیٹلمنٹ ہوئی ہے۔
نیب نے پاکستان میں ایک دن میں ریکارڈ بنایا ہے۔ یہ ایک مثبت ریکارڈ ہے۔ میرے نزدیک اس پر ہم سب کو فخر ہونا چاہیے، یہ دو سوسائٹیوں کے متاثرین ہیں۔ سو ئی گیس سوسائٹی کے 6750 متاثرین میں 70ارب مالیت کے ایلوکیشن لیٹر تقسیم کیے گئے۔یہ وہ لیٹر ہیں جہاں پلاٹ موجود ہیں۔ اسی طرح ایک اور سوسائٹی جس کے پاس زمین ہی نہیں تھی اور اس نے لوگوں سے پیسے لے لیے ہوئے تھے۔ اس سے رقم واپس لے کر 2000متاثرین کو 97کروڑ روپے واپس دیے گئے ہیں۔
مجھے جب اس تقریب کا علم ہوا تو میں نے سوچا یہ اپنی نوعیت کی واحد تقریب ہوگی۔اس لیے کوئی توجہ نہیں حاصل کر سکتی۔ ورنہ یہاں تو ایک آٹے کا تھیلا دیا جائے تو فوٹو اور وڈیو لازمی بنائی جاتی ہے۔
پولیس کسی ایک چوری کی گاڑی پکڑ لے اور واپس دلوا دے تو پریس کانفرنس کی جاتی ہے۔ جب تک میڈیا کے سامنے مدعی پولیس کی تعریف نہ کر دے تسلی نہیں ہوتی۔ مسروقہ مال واپس نہیں دیا جاتا ۔ یہاں اربوں روپے کے پلاٹ دے دیے گئے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی ہے۔ تھوڑی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ کوئی پہلی تقریب نہیں۔ موجودہ چیئرمین نیب اور ڈی جی نیب لاہور تسلسل سے یہ کام کر رہے ہیں۔ اس تقریب کو ملا کر اب تک چھ تقاریب ہو چکی ہیں۔ جن میں اب تک کل ملا کو 26ہزار لوگوں میں نیب لاہور 12ارب روپے تقسیم کر چکا ہے۔
یہ سب نیب کی نئی ٹیم کے آنے کے بعد ہوا ہے۔بہر حال ڈی جی نیب لاہور امجد اولکھ 26ہزار متاثرین میں 12ارب روپے خاموشی سے تقسیم کرنے پر خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں حکومت پاکستان کو انھیں خصوصی تمغہ دینا چاہیے۔ ایک مسئلہ یہ بھی کہ حکمران ذہنی طور پر نیب کے خلاف ہو چکے ہیں۔ انھیں نیب اچھی ہی نہیں لگتی۔ اس لیے انھیں نیب کے اچھے کام بھی اچھے نہیں لگتے۔ لیکن بہر حال اچھا کام اچھا ہی ہوتا ہے۔ اور اس کی تعریف کرنا ہمارا فرض ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈی جی نیب لاہور متاثرین میں سوسائٹی کے لاہور میں کوئی ذکر لاہور ا بہر حال نہیں ہو ہی نہیں کا کوئی کے پاس اس لیے
پڑھیں:
وادی پر خار میں پھول کھلنے کا وقت !
جنہیں موسم خزاں پسند ہے وہ چاہتے ہیں کہ نئی کونپلیں نہ نکلیں پھول پتے نمو دار نہ ہوں اور ان پر رنگ برنگی تتلیاں نہ منڈلائیں مگر فطرت ایسا نہیں چاہتی لہٰذا یہ خزاں ر±ت باقی نہیں رہے گی بہار میں بدل جائے گی پھر فضا خوشبووں سے رچ بس جائے گی ماحول میں تازگی اور خوشگواریت کا احساس ہوگا لہٰذا چہروں پر پھیلی ہوئی پژمردگی و اداسی دکھائی نہیں دے گی۔اسی طرح ہم پر امید ہیں کہ سیاست کی دنیا میں جو حزن و ملال کی لہر ابھری ہوئی ہے قہقہوں میں بدل جائے گی۔اگر چہ دوسروں کے د±کھوں کو محسوس نہ کرنے والے حالت موجود کو اِدھر ا±دھر نہیں ہونے دینا چاہتے اور ہر روز اس کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر ” ویلے دی اکھ نے“ د±ور کہیں کسی روشن چراغ کو دیکھ لیا ہے لہذا روشنی پھیلنے کا آغاز ہو چکا ہے اور اب ہر شے واضح نظر آئے گی۔
اس نظام کو اس سوچ کو بدلنے کے لئے کوئی آئے بلکہ آرہا ہے یہ کیسی بات ہے کہ لوگ د±کھ جھیلتے چلے آئیں اور وہ طبقہ جسے اشرافیہ کہتے ہیں ان پر مسلسل حکمرانی کرتا چلا آئے اور اپنے لئے ہر آسانی اور راحت کا سامان پیدا کر لے۔غریبوں کے مسائل کو بھاری پتھر جان کر نظر انداز کردے اور وہ سوچوں میں گ±م ہو جائیں ان سے یہ نہ پوچھ سکیں کہ تم ہی کیوں ریاستی وسائل کے حق دار ہو تم ہی کیوں بار بار اقتدار میں آتے ہو کبھی کوئی کبھی کوئی ٹیکس لگاتے ہو مہنگائیوں کے سائیکلون برپا کرتے ہو اور اس تکلیف دہ نظام کا تحفظ کرتے ہو ؟ مگر اب یہ مشق جاری نہیں رہ سکتی کیونکہ بیداری نے ہر غریب کے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔پہلے وہ جو ہر حکمران سے کسی بہتر کی آس لگاتے تھے اب ان کے ہاتھ سے اس آس کا دامن چھوٹ چکا ہے لہٰذا وہ ماضی کی سیاست کو خیر باد کہہ چکے ہیں اور جو ایک نیا چہرہ ابھر کران کے سامنے آیا ہے اس کے پیچھے چل پڑے ہیں ۔
جی ہاں !عمران خان کو عوام کی غالب اکثریت نے اپنا لیڈر مان لیا ہے وہ اس کی ہر ادا پر صدقے واری جا رہے ہیں اس نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ عوامی ہے اس نے پ±ر آسائش طرز بود و باش سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ لہٰذا وہ کوئی مطالبہ نہیں کر رہا اور کسی ڈیل کے ذریعے باہر نہیں آنا چاہتا کہ ویسے بھی وہ زنداں میں رہنے کا عادی ہو چکا ہے مگر کب تک آخر کار اسے باہر آنا ہی ہے کیونکہ جب وہ اس نظام کو تبدیل کرنا چاہتا ہے تو اس کا زنداں میں تادیر رہنا ممکن نہیں۔
بہرحال عوامی امنگوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ستتر برس بیت گئے اور اشرافیہ اب بھی چاہتی ہے کہ یہ سلسلہ یونہی آگے بڑھے مگر اس کے لئے وقت سازگار نہیں یہ سماں اور یہ ر±ت بدل کر رہے گی چاہے کوئی بھی بدلے مگر وہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ سب کچھ جوں کا توں رہے اس مقصد کے لئے وہ اپنے تئیں مختلف النوع حکمت عملیاں اختیار کر رہی ہے اور جاگے ہوئے ذہنوں کو سلانے کی سعی کر رہی ہے اِس میں ا±سے کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ خیر اب جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے باضابطہ نئے صدر بن چکے ہیں اور روایتی سیاست و پالیسیوں سے الگ ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں تو ہمارے اہل اختیار ان سے پہلی سی محبت کے خواہاں ہیں مگر انہیں کیوں یہ معلوم نہیں کہ وہ روایتی سیاست کو ترک کرنے جا رہے ہیں اس کا اظہار وہ باقاعدہ کر چکے ہیں وہ دوسرے ملکوں میں بھی ایسا ہی چاہتے ہیں امن و آشتی کی بات کر رہے ہیں عوامی مینڈیٹ کا احترام ان کے پیش نظر ہے اس پر ہمارے کرتا دھرتا کسی گہری سوچ میں پڑ گئے ہیں مگر یہ نظام یہ طرز عمل بدلنا ہی ہے ٹرمپ بدلیں یا نہ بدلیں عوام خود بدلیں گے ان کے صبر کا پیمانہ
لبریز ہوچکاہے اس کا ثبوت وہ آٹھ فروری کو دے چکے ہیں اس وقت بھی انتخابات ہو جائیں تو بھی پی ٹی آئی واضح اکثریت سے جیتے گی اس کا ادراک اہل حکومت کو بخوبی ہو گا۔ بات صاف اور سیدھی ہے کہ خان لوگوں کے اذہان کو اپنی مخصوص فکر سے گرفت میں لے چکا ہے لہٰذا وہ حکومت کی کسی منصوبے اور کسی بیان کو تحسین کی نگاہوں سے نہیں دیکھ رہے ان کا موقف ہے کہ جو حکومت ان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اقتدار میں آئے اس کی کوئی بات بھی قابل قبول نہیں یہی وجہ ہے کہ اس کے چند ایک فلاحی پروگرام بھی ان کی توجہ حاصل نہیں کر پا رہے کہ انہیں تو اس نظام کو بدلنا ہے کہ جس میں مساوات ہو ان کے حقیقی نمائندے انہیں جواب دہ ہوں وہ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھوم پھر نہ رہے ہوں ان کی دولت میں اضافہ نہ ہوتا ہو اور اگر ہو بھی تو اسے بحق سرکار ضبط کر لیا جائے مگر ایسا بڑی جدوجہد سے ممکن ہو سکے گا کیونکہ یہ نظام بڑا ہی طاقتور ہے عمران خان اس نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش تو رکھتا ہے مگر اسے قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا ہے اور سلاخوں کے پیچھے بیٹھا ہے۔حیرانی ہوتی ہے کہ وہ ابھی تک اپنے نظریے پر ہی قائم ہے جبکہ ماضی میں بہت سے سیاست دان نیویں نیویں ہوکر باہر آگئے مگر اس میں اتنی جرات و ہمت کہاں سے آگئی ہے کہ وہ چودہ برس کی سزا پر بھی مسکرا رہا ہے شاید اسے یہ یقین ہے کہ عوام اس کے ساتھ ہیں پھر اب تو ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس کی رہائی چاہتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے حکومت کو کوئی فون نہیں کیا مگر ان کے بعض حکومتی عہدیدار خان کی رہائی کا کہہ رہے ہیں وہ حکومت کو مجبور کر سکتے ہیں یا نہیں جلد معلوم ہو جائے گا ویسے کچھ کچھ لگ رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں ضرور کوئی بات ہو رہی ہو گی کیونکہ ہم قرضے لے کر جوان ہوئے ہیں آئندہ بھی اپنا ان پر ہی انحصار ہے کیونکہ جو دولت چھپائی گئی ہے اسے ظاہر نہیں کرنا چاہتے کہنے والے کہتے ہیں کہ اسی لئے ہی موجودہ فرسودہ اور تکلیف دہ نظام کو بدلا نہیں جا رہا مگر وادی¿ پ±رخار میں زندگی کا پھولوں کی مہک میں گزرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے !