UrduPoint:
2025-01-27@16:47:03 GMT

اقلیتوں کا اَلمیہ

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

اقلیتوں کا اَلمیہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جنوری 2025ء) اقلیتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں، جن میں خاص طور سے مذہبی، لسانی، نسلی اور مہاجر قابلِ ذکر ہیں۔ لوگ روزی اور تحفظ کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے رہے ہیں۔ اقلیتوں کے لیے کسی نئے مُلک میں جا کر آباد ہونا مُشکلات کا باعث رہا ہے۔ کیونکہ آب و ہوا، ثقافتی اِختلافات اور زبان کے نہ جاننے سے اجنبیت کا احساس ہوتا ہے۔

اس لیے اقلیتوں کو نئے معاشرے میں آباد ہونے اور اس کے رسم و رواج کو سمجھنے میں وقت لگتا تھا۔

اپنے تحفظ کے لیے یہ علیحدہ آبادیوں میں رہتے تھے اور روزی کے لیے کسی ایک خاص پیشے میں مہارت حاصل کر لیتے تھے تا کہ اُن کی ضرورت معاشرے میں محسوس ہوتی رہے، لیکن اس کے باوجود اکثریت اور اقلیت کے درمیان دُوری رہتی تھی۔

(جاری ہے)

رومی سلطنت میں مسیحی مذہب کی ابتداء ہوئی کیونکہ یہ اقلیت میں ہوتے تھے اس لیے یہ اپنے عقیدے کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔

خُفیہ مقامات پر لائن میں عبادت کرتے تھے۔ تبلیغ بھی خاموشی سے کرتے تھے لیکن جب ان کی تعداد میں اضافہ ہوا تو یہ رومی حکومت کی نظروں میں آ گئے۔ حکومت کسی نئے فرقے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ اس لیے اُس کے عہدیداروں نے مسیحیوں سے بحث کے بعد چاہا کہ وہ اپنے مذہب سے دست بردار ہو جائیں۔ انکار کی صورت میں اُنہیں اذیتیں دی گئیں۔ کلوزیم میں انہیں جنگلی جانوروں سے مروایا گیا۔

لہٰذا اس کے نتیجے میں مسیحی مذہب میں دو تصور اُبھرے۔ ایک ولی کا تصور اور دوسرا شہید کا۔ کہ ان لوگوں نے اپنے مذہب کی خاطر جانیں دیں۔

131 عیسوی میں جب بازنطینی سلطنت کے بانی قسطنطین نے مسیحی مذہب قبول کیا تو مسیحی مذہب کو ریاست کی حمایت حاصل ہو گئی اور انہوں نے پیگن اقلیت کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا جو رومیوں نے ان کے ساتھ کیا تھا۔

جب یورپ میں پروٹسٹنٹ ازم آیا تو جن مُلکوں میں کیتھولِک اقلیت میں تھے وہاں ان کے ساتھ پروٹسٹنٹ عقیدے والوں نے بے انتہا مظالم کیے۔ جیسے فرانس میں Saint Bartholomew میں پروٹسٹنٹ اقلیت کا 1572 میں قتلِ عام کیا گیا۔ انگلستان کے کروم ویل نے آئرلینڈ کے کیتھولک مذہب والوں کا قتلِ عام کر کے اُن کی آزادی کو ختم کیا جو 1649 سے لے کر 1653 تک جاری رہا۔

اقلیتوں کا سب سے بڑا المیہ اُس وقت شروع ہوا جب افریقہ سے غلاموں کو امریکی کریبیئن جزائر اور انگلینڈ میں لایا گیا۔سیاہ فام ہونے کی وجہ سے سفید فام لوگوں نے انہیں ایک علیحدہ مخلوق سمجھا اور ان کو انتہائی نچلے طبقے میں شامل کر کے ان کے ساتھ تعصب اور نفرت کی پالیسی اختیار کی گئی۔ امریکہ میں جنوب کی ریاستوں میں یہ کاٹن اور گنے کے کھیتوں میں کام کرتے تھے۔

اِن میں اور سفید فام لوگوں کے درمیان فرق موجود تھا۔ کریبیئن جزائر میں یہ شَکر کی پیداوار میں مدد کرتے تھے۔اپنی محںت کے باوجود انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا تھا۔

جب کریبیئن جزائر سے افریقیوں کی ایک تعداد انگلستان کے شہروں خاص طور سے لیور پول، برسٹل اور نوٹنگن میں آ کر آباد ہوئی تو انگریزوں کی جانب سے افریقیوں کے خلاف سخت مظاہرے ہوئے۔

اس کے نتیجے میں سفید فاموں اور افریقیوں کے درمیان تصادُم ہوا۔ اقلیتیں ایک حد تک مظالم کو برداشت کرتیں ہیں۔ لیکن جب انتہا ہو جائے تو وہ بھی اپنے تحفظ کے لیے لڑتی ہیں۔ نسلی فسادات کی وجہ سے انگلستان کے صنعتی شہروں میں اَمن و اَمان نہیں رہا۔

لکھا ہے کہ بیسویں صدی کے شروع میں سکھ کمیونٹی کے کچھ لوگ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں آباد ہوئے۔

یہاں ان کے ساتھ سخت تعصب کا برتاؤ کیا گیا۔ بینکوں نے اِنہیں قرض دینے سے انکار کر دیا۔ سفید فام عورتوں نے ان سے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔ اس لیے انِہوں نے میکسکن خواتین سے شادیاں کیں۔ ان کی اولاد میں انڈین، میکسکن اور امریکن شناختیں آپس میں مِل گئیں۔ نسلی تعصب کے باوجود انہوں نے محنت و مشقت کر کے اپنا مقام پیدا کیا۔ لیکن نسلی تعصب نے ان کی ذہنی حالت کو بدل ڈالا۔

1913 میں اُنہوں نے غدر پارٹی بنائی تا کہ ہندوستان کو برطانیہ سے آزاد کرایا جائے۔ یہ اُردو اور ہندی دونوں زبانوں میں اخبار نکالتے تھے۔ سان فرانسسکو میں انہوں نے ایک ہال بھی تعمیر کرایا تھا۔ ان میں سے بعض پرجوش نوجوانوں نے ہندوستان کا سفر کیا۔ تا کہ وہاں آزادی کی تحریک کو چلایا جائے۔ لیکن برطانوی مخبروں نے ان کے بارے میں ساری اطلاعات برطانوی حکومت کو دے دیں۔

لہٰذا جیسے ہی ہندوستان پہنچے اِنہیں گرفتار کر کے جیلوں میں قید کر دیا گیا اور اُن کی تحریک آگے نہیں بڑھ سکی۔

موجودہ دور میں سیاسی تبدیلیوں اور جمہوری اداروں کے قائم ہونے کے باوجود اقلیتیں خود کو غیرمحفوظ سمجھتی ہیں۔ اگرچہ امریکہ کی یہ پالیسی ہے کہ اُن کا معاشرہ میلٹنگ پوٹ ہے، جن میں اکثریت اور اقلیت سب مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔

لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ میکسیکو اور لاطینی امریکہ کے مہاجرین جو امریکہ میں آ کر آباد ہوئے ہیں اُن کے ساتھ تعصب بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ افریقی باشندے تمام سیاسی نشیب و فراز کے بعد آج بھی عدم مساوات کا شکار ہیں۔

موجودہ دور میں جب ایشیا اور افریقہ کے باشندے یورپی مُلکوں میں جا کر آباد ہوئے تو ان کے اور مقامی باشندوں کے درمیان ابھی بھی کہیں کہیں خلا موجود ہے۔

نسلی تعصب نے یورپی مُلکوں میں مذہبی انتہاپسند سیاسی جماعتوں کو مقبول کر دیا ہے، جس کی وجہ سے اقلیتوں اور اکثریت آبادی میں مِلاپ کے امکانات نظر نہیں آتے ہیں۔

اقلیتوں کا یہ المیہ بھارت اور پاکستان کے معاشروں میں موجود ہے۔ یہاں اقلیتیں خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ فسادات کی صورت میں قتلِ عام بھی ہوتا ہے۔ اگر اقلیتوں کو قوم کا حصہ نہ بنایا جائے تو اس صورت میں قوم کی تشکیل اَدھوری رہتی ہے۔

اقلیتوں کو پورے حقوق دے کر اُن کی ذہانت اور لیاقت سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ عام لوگ بنیادی طور پر تحفظ اور اَمن چاہتے ہیں، اور تشدد کسی بھی صورت میں معاشرے کو مستحکم نہیں کرتا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ان کے ساتھ کے درمیان کے باوجود ن کے ساتھ کرتے تھے سفید فام کر دیا ا نہیں اس لیے کے لیے

پڑھیں:

آج کی نسل کل کی قوم۔کس کی ذمہ داری

چلتی نہیں اڑتی ،کروٹ کروٹ بدلتی وقت اور زمانے کی یہ راہیں ، تیزی اور جلدی کی بناء پر دوڑتی گرتی یہ دنیا یہ لوگ یہ زمانہ یہ نسل کہاں جا رہی ہے کیا مقصد ہے کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا بس تیزی و جلدی اتنی کہ خود سوچ و سمجھ بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہے لیکن کس لیے کس کام کے لیے کچھ پتا نہیں زندگی خود انسان کے ہاتھوں پریشان ہے کہ،میرا دنیا میں آنے کا مقصد تو پہلے سے طے شدہ بہت واضح تھا اور اس کے بعد کا بھی لیکن کس لیے کس کام کے لیے اتنی جلدی کچھ پتا نہیں (جلدی کا کام شیطان کا) شاہد ہم سب شیطانی رستے کے شیدائی ہو گئے ہیں۔

بہرحال آج ہم بات کریں گے اسی تناظر میں کہ دو ہزار کے لگ بھگ پیدا ہونے والی نسل ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں جسمانی طور پر کمزور ترین نسل ہے ،ذہنی طور پر یہ نسل ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی ہے اور آج کی یہ جوان نسل لڑنا نہیں بلکہ اْڑنا چاہتی ہے ‘کام کو سیکھ کر اور سمجھ کر نہیں کرنا چاہتی بس حاصل کرنا چاہتی ہے ، راستوں کی اہمیت اور سفر کے تجربات سے واقف ہوئے بنا یہ منزل پر پہنچنا چاہتی ہے کیونکہ اس نسل کی تربیت بزرگوں نے نہیں بلکہ سوشل میڈیا نے کی ہے اس لیے اس نسل میں’’ عزت‘‘ کا مادہ بھی کم ہے اور اس نسل میں صبر و تحمل بھی نہیں ہے ، ان میں غصہ اور بربریت اور اکتاہٹ بھی زیادہ ہے وہ چاہے رشتوں سے ہو ،کام یا پھر کچھ اور کیونکہ یہ نسل اکڑ کا بھی شکار ہے اور سارا دن موبائل کے استعمال کی وجہ سے صرف ان کی گردنوں میں ہی خم نہیں آیا بلکہ پوری قامت ہی میں خم پڑ گئے ہیں مجھے تو یہ نسل اس صدی کی عجیب وغریب نسل لگتی ہے جسے اپنے آباؤ اجداد ان کے رہن سہن، کام، محنت، پیشہ ، ذات و اطوار، لباس، رسم و رواج، کسی بھی چیز کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے یہ نسل ساری قدرتی چیزوں سے دور ہی نہیں انجان بھی ہے یہ نسل لکڑی سے آگ تک نہیں جلا سکتی اور نہ ہی یہ کسی طرح کے ہتھیاروں کا استعمال جانتی ہے ، میرے مشاہدے کے مطابق یہ نسل سختی بالکل بھی نہیں جھیل سکتی اور اس بات کا تجربہ اور مشاہدہ آپ ان کو آدھا گھنٹہ دھوپ میں کھڑا کر کے دیکھ لیں توآپ کو اندازہ ہو جائے گا یہ نسل پیدل بھی نہیں چل سکتی اور اس کے ساتھ ساتھ احساس سے بھی عاری ہے تہذیب وتمدن ان کو چھو کر نہیں گزری، مشرق ومغرب کا فرق بھی ان کو نہیں پتا جنگ وجدل کے حوالے سے تاریخ وحاضر کچھ بھی ان کے لیے اہم نہیں ہے، آپ ان سے جہاد کے حوالے سے بات کر کے دیکھ لیں اندازہ ہو جائے گا کبھی ان سے ان کی خواہش پوچھ کر دیکھیں آپ صرف دیکھتے رہ جائیں گے، کچھ بول نہیں سکیں گے، یہ نسل اپنے پیروں میں کھڑا ہونے میں سب سے زیادہ وقت لے رہی ہے کیونکہ یہ اوپر جانے کے لیے قدم بقدم سیڑھی کے استعمال نہیں کرنا چاہتی بلکہ اوپر جانے کے لیے اڑ کر پہنچنا چاہتی ہے اور راستے کی اہمیت کو جانے بنا منزل کو پانا چاہتی ہے، پاکستانی نسل تو ویسے ہی ٹک ٹاک کی نسل ہے اس میں تعلیم اخلاق اور تہذیب کچھ بھی نہیں ان کے نزدیک معیاری زندگی موبائل اسٹیٹس تک محدود ہے جن میں معیار کتابیں ہونا یا قابلیت نہیں بلکہ گاڑی کپڑے اور جوتے ہیں اور ترچھی شکلیں بنا کر سیلفیاں لگانا ہے لیبریاں کتابیں اور اگلی دنیا کا راستہ ان کے خیالوں میں بھی نہیں آتا کیونکہ خواب اسی چیز کے دیکھے جاتے ہیں جو خیالوں میں آئے اور ان کے خیالوں میں اچھائی برائی نیکی بدی سزا جزا جنت و دوزخ دین دنیا حق و باطل سچ جھوٹ غلط صحیح کے بارے میں کوئی خیال کوئی فکری سوچ نہیں آتی یہ نسل میری سمجھ سے باہر ہے دوسری دنیا تو کیا یہ مجھے کسی دوسری دنیا سے بھی آگے کی کوئی مخلوق لگتی ہے اور اگر آپ سب بھی مجھ سے اتفاق کرتے ہیں تو پھر سوچیں، سوچیں تمام والدین اور اساتذہ اور ہمارے اسکولز والے کہ انہیں پھر سے زیڈ جنریشن کی طرف واپس کیسے لانا ہے کیونکہ اب واپسی خاص کر پاکستانی نسل کی واپسی بہت ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ملک ریاض کے دو چہرے
  • آئو مذہب کارڈ کھیلیں
  • غور کیا ہے ؟
  • آج کی نسل کل کی قوم۔کس کی ذمہ داری
  • غزل
  • سناتن دھرم مشکل میں پڑا تو کوئی بھی مذہب محفوظ نہ رہے گا، یو پی کے وزیرِاعلیٰ کی دھمکی
  • توہین مذہب کے چار ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنا دی گئی
  • پنڈی کی عدالت نے توہین مذہب کے 4 ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنادی
  • توہین مذہب: 4 مجرموں کو سزائے موت، 80 سال قید