Nai Baat:
2025-01-27@17:20:12 GMT

حکومت پی ٹی آئی مذاکرات، ٹائیں ٹائیں فش

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

حکومت پی ٹی آئی مذاکرات، ٹائیں ٹائیں فش

پی ٹی آئی اور حکمران اتحاد مذاکرات عین توقع کے مطابق ٹائیں ٹائیں فش ہو گئے ہیں۔ عمران خان کی ہدایات کے مطابق بیرسٹر گوہر نے مذاکرات کو مزید جاری نہ رکھنے کا اعلان کر دیا۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ترجمان عرفان صدیقی کے بقول پی ٹی آئی مطالبات پر عملدرآمد کے لئے پی ٹی آئی نے جو سات روز کا وقت مقرر کیا تھا اب ڈیڈلائن کے خاتمے سے پہلے ہی پی ٹی آئی نے مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ سات دن 28جنوری کو پورے ہوتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی پہلے ہی مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کر گئی ہے۔ بیرسٹر گوہر کے مطابق ہم نے تین سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججوں یا تین سینئر ترین ہائیکورٹ کے ججوں پر مشتمل کمیشن بنانے کے لئے سات دن کی مہلت دی ہے وگرنہ مذاکرات ختم۔ اب بحث شروع ہو گئی ہے کہ سات دن کا الٹی میٹم دراصل کب ختم ہونا تھا۔ اس سے پہلے بحث ہو رہی تھی کہ جوڈیشل کمیشن بن سکتا ہے یا نہیں، اس سے پہلے بحث ہوتی رہی کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات تحریری طور پر کب دے گی۔ یہ سب لایعنی باتیں تھیں۔ میری سوچی سمجھی رائے تھی جو میں ان صفحات پر لکھتا بھی رہا ہوں اور ٹیلی وژن چینلز پر تبصروں میں بھی اس کا اظہار کرتا رہا ہوں کہ فریقین مذاکرات کے لئے سنجیدہ نظر نہیں آ رہے ہیں۔ دونوں فریق پوائنٹ سکورنگ کے لئے کاوشیں کر رہے ہیں۔ مذاکرات کے لئے ایک واضح ایجنڈہ ہوتا ہے، ایشوز ہوتے ہیں جنہیں سلجھانے کے لئے مذاکرات کئے جاتے ہیں، مشکلات ہوتی ہیں جنہیں سلجھانے کے لئے مذاکرات کئے جاتے ہیں۔ اختلافات ہوتے ہیں جنہیں سلجھانے کے لئے کم کرنے کے لئے یا مٹانے کے لئے مذاکرات کئے جاتے ہیں۔ کوئی ٹائم لائن بھی ہوتی ہے اور سب سے اہم بات فریقین کی مذاکرات کرنے کے لئے سنجیدگی ہوتی ہے۔ یہاں یہ سب کچھ نہیں تھا۔ فریقین نے سنجیدگی دکھانے کے لئے خوب زور لگایا، نمائشی حرکات کیں، بیانات داغے لیکن جہاں نیت نہ ہو تو دعوے کچھ نہیں کرتے جبکہ ایکشن اس کے خلاف ہو، ویسے اگر دیکھا جائے تو مذاکرات فریقین کو سوٹ ہی نہیں کرتے تھے۔ مذاکرات برابری کی سطح پر اور مساوی حیثیت کے فریقین کے درمیان ہی ہوتے ہیں۔ اگر ایک فریق طاقتور اور دوسرا کمزور ہو تو مذاکرات کبھی مطلوبہ نتائج نہیں ظاہر کرتے ہیں اور اگر معاہدہ ہو بھی جائے تو اس کے مثبت اثرات ظاہر نہیں ہوتے۔ یہ بات اقوام کے درمیان مذاکرات اور معاہدوں پر بھی لاگو ہوتی ہے اور ایک ملک یا قوم کے فریقین کے درمیان ہونے والے مذاکرات اور معاہدوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ جنگ عظیم اول میں ورسائی معاہدہ فاتح اور مفتوح اقوام کے درمیان ہوا تھا۔ جرمن شکست خوردہ تھا اس کے خلاف اتحادی ممالک نے جنگ جیت کر ورسائی معاہدہ کیا اور جرمن قوم کو شرمناک شرائط ماننے پر مجبور کیا لیکن جونہی جرمن قوم نے ایڈولف ہٹلر کی زیر قیادت طاقت پکڑی تو جرمن قوم نے اس معاہدے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے اور دنیا دوسری جنگ عظیم کا شکار ہو گئی۔
عمران خان کو 2022ءمیں جب ایک تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکالا گیا تو عمران خان اس دن سے احتجاجی موڈ میں آئے ہوئے ہیں۔ 1996ءمیں پی ٹی آئی کے قیام سے لے کر 2011ءتک جب انہیں ایک نئے اسٹیبلشمنٹ نے گود لیا، وہ مزاحمتی سیاست کرتے رہے تھے۔ ن لیگ، پیپلزپارٹی، جے یو آئی و دیگر پارٹی رہنماﺅں کے خلاف بولتے بولتے شاید تھکے نہیں تھے لیکن ان کے موقف کو پذیرائی نہیں مل سکی تھی۔ انہیں ایک غیر سنجیدہ سیاست دان کے طور پر لیا جاتا رہا لیکن 2011ءمیں انہیں اسٹیبلشمنٹ نے گود لیا تو ان کی چرب زبانی اور کذب گوئی کو بڑے منظم طریقے سے آگے بڑھایا گیا۔ روایتی حکمران سیاست دانوں کے خلاف ایک ہمہ گیر مہم چلائی گئی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ نوازشریف کو سیاست سے آﺅٹ کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے جس کھیل کا آغاز کیا اس میں عمران خان ایک دیو بن کر سامنے آئے۔ 2018ءمیں انہیں ایوان اقتدار میں داخل کیا گیا۔ پنجاب اور کے پی میں صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ مرکز میں انہیں حکومت دی گئی لیکن ان کی کارکردگی اتنی مایوس کن رہی کہ پاکستان ڈیفالٹ کے قریب پہنچ گیا۔ 2022ءمیں عمران خان چلتے کئے گئے اور وہ اس وقت سے منفی احتجاجی تحریک چلا رہے ہیں۔ انہوں نے چھ دفعہ احتجاج کی کال دی۔ آخری کال اور آخری بال کا مرحلہ بھی آیا حتیٰ کہ 26نومبر کو پی ٹی آئی نے اپنا سب سے قیمتی اثاثہ خاتون اول بشریٰ بی بی کو بھی احتجاجی سیاست میں جھونک دیا لیکن ہم نے دیکھا کہ یہ احتجاجی کال بھی بری طرح فلاپ ہو گئی۔ اس بارے میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ حکومت نے تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست پر بند باندھ دیا ہے، ان کی سٹریٹ پاور کا پول کھل گیا ہے۔ اب حکومت کے لئے پی ٹی آئی اس حوالے سے کوئی سنجیدہ تھریٹ نہیں رہ گئی ہے۔ سوشل میڈیا تحریک انصاف کی ایک بڑی قوت ہے، جسے لگام دینے کے لئے پیکا ایکٹ منظور کرا لیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی تو روز
اول سے ہی ان تمام سیاست دانوں کو مانتی ہی نہیں ہے جو اس وقت اتحادی حکومت کا حصہ ہیں یا حکومت میں شامل ہوئے بغیر ہی اس کے ساتھ ہیں۔ عمران خان ن لیگ اور پیپلزپارٹی و دیگر روایتی سیاسی جماعتوں کو پاکستان کو درپیش مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں وہ جب 2018ءسے پہلے اپوزیشن میں تھے تو حکومت کے ساتھ اور جب 2018ءمیں حکومت میں آئے تو اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ تک ملانے کے لئے تیار نہیں تھے لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کس طرح مولانا فضل الرحمان کے سامنے سربسجود ہوئی۔ اچکزئی کے سامنے کیسے جھکی اور پھر جنہیں بے ایمان، کرپٹ ٹولہ کہتی تھی ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بھی بیٹھی۔ پی ٹی آئی کا ایسے لوگوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا بھی اس کی شکست تھی اور اب مذاکرات سے نکلنا بھی ان کی ناکامی ہے لیکن پی ٹی آئی کی ایک کامیابی واضح ہے کہ پی ٹی آئی ہمیشہ فساد اور انتشار کی سیاست کے فروغ میں مصروف رہی ہے۔ مذاکرات کے دوران بھی وہ ایسا ہی سب کچھ کرتی رہی ہے اور مذاکرات کے خاتمے کے بعد بھی انہیں ایسا ہی سب کچھ کرنے کو ملے گا۔ ان کی سیاست چلتی رہے گی، پی ٹی آئی سڑکوں پر رہے گی اور عمران خان جیل میں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کہ پی ٹی آئی مذاکرات کے کے درمیان ہوتے ہیں کے خاتمے کے ساتھ کے خلاف رہے ہیں ہوتی ہے سے پہلے کے لئے

پڑھیں:

پی ٹی آئی کا مقصد مذاکرات نہیں، صرف ایک شخص کو ریلیف دلانا چاہتی ہے، خواجہ آصف

وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ میں نے پی ٹی آئی سے مذاکرات نہ چلنے کی پیش گوئی پہلے ہی کردی تھی، پی ٹی آئی کا مقصد مذاکرات نہیں، نہ ہی وہ مسائل کا حل نکالنا چاہتی، میں پی ٹی آئی کی نفسیات سمجھتا ہوں، پی ٹی آئی کا مقصد صرف ایک شخص کو ریلیف دلانا ہے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی مذاکرات نہیں چاہتی، یہ لوگ اپنے لیے ریلیف کا راستہ نکالنا چاہتے ہیں۔
 ان کاکہناتھا کہ میں بانی پی ٹی آئی کو اچھی طرح جانتا ہوں، پی ٹی آئی کی لیڈر شپ ایک دوسرے کی گردن کاٹنے کے چکرمیں ہے، پی ٹی آئی میں ہرایک کے مفادات ہیں، ان کا کوئی نظریہ نہیں، صرف مفادات کے لئے اکھٹے ہیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ خیبر پختونخوا کےعوام کو امن و ریلیف ملنا چاہیے، پی ٹی آئی حکومت اپنی بنیادی ذمہ داری پوری نہیں کررہی، اسی طرح پاراچنار اور کرم کے لوگوں کو ریلیف ملنا چاہیے، کے پی حکومت اسلام آباد پر3 مرتبہ حملہ کر چکی ہے۔
 ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں بات کرنے کے لیے بہت سے موضوعات ہیں، تحریک انصاف کواس کے حالات پر چھوڑ دینا چاہیے، پی ٹی آئی مشروط مذاکرات چاہتی ہے، اس طرح کے مذاکرات ہمیشہ ناکام ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے، پی ٹی آئی نے ماضی میں بھی اسلام آباد تک مارچ کی دھمکی دی تھی، ان کا احتجاج کا نیا اعلان بھی گزر جائے گا۔
لیگی رہنما نے کہا کہ پی ٹی آئی کا مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ ”غیر متوقع“ نہیں تھا کیونکہ پی ٹی آئی کسی مسئلے کو حل کرنے پر کام نہیں کر رہی بلکہ ریلیف کی تلاش میں ہے۔

خواجہ آصف کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کی سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد کوئی بھی گرینڈ اپوزیشن الائنس ہمارے لئے تشویش کی بات نہیں ہوگی۔
 پروگرام میں پی ٹی آئی رہنماعلی احمد خان اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بھی بات چیت کی۔

متعلقہ مضامین

  • کل حکومت کے ساتھ مذاکرات میں نہیں بیٹھیں گے: چیئرمین پی ٹی آئی
  • پی ٹی آئی کاکل حکومت کے ساتھ مذاکرات میں نہ بیٹھنے کااعلان
  • کل حکومت کے ساتھ مذاکرات میں نہیں بیٹھیں گے، چیئرمین پی ٹی آئی
  • مذاکرات دفن، کال کا انتظار، پیپلز پارٹی ناراض
  • پی ٹی آئی کا مقصد مذاکرات نہیں، صرف ایک شخص کو ریلیف دلانا ہے، خواجہ آصف
  • پی ٹی آئی کا مقصد مذاکرات نہیں، صرف ایک شخص کو ریلیف دلانا چاہتی ہے، خواجہ آصف
  • حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ جلد بازی میں نہیں کیا، شیخ وقاص اکرم
  • مذاکرات حکومت سے فوٹو سیشن کے لیے نہیں تھے،بیرسٹر گوہر
  • حکومت کیساتھ صرف فوٹو سیشنکے لیے نہیں بیٹھ سکتے‘ بیر سٹر گو ہر