لاہور کے باغِ جناح میں قائم شاندار قائد ِاعظم لائبریری کے قیام کی وجہ ایک سانپ بنا۔ یہ بات ظاہر ہے لائبریری کے تعارف میں تو نہیں لکھی جاسکتی اس لیے یہ بات شاید وہاں مطالعہ کے لیے جانے والے طالب علموں، اسکالرز اور وہاں کام کرنے والے عملے کو تو کُجا، پنجاب پبلک لائبریز کے ڈائریکٹر جنرل اور ہمارے دوست کاشف منظور کے علم میں بھی یقیناً نہیں ہوگی۔
آئیے آپ کو بتائیں کہ ایک سانپ کس طرح قائداعظم لائبریری کے قیام کا باعث بنا۔ سرور منیر راؤ صاحب سینئر ٹی وی جرنلسٹ ہیں، وہ دہائیوں پروڈیوسر، رپورٹر سے لے کر بطور ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افئیرز پاکستان ٹیلی وژن سے وابستہ رہے۔
گزشتہ دونوں اپنے یو ٹیوب چینل ASG Productions کے لیے سرور منیر صاحب کا طویل انٹرویو ریکارڈ کیا، جو قسط وار چینل پر موجود ہے۔ راؤ صاحب نے اپنے انٹرویو میں بہت دل چسپ باتیں بتائیں، لیکن یہاں ہم صرف اس سانپ کا ذکر کریں گے جو قائدِاعظم لائبریری کے قیام کا باعث بنا۔
راؤ صاحب بتاتے ہیں کہ 1978 میں جنرل ضیا کے مارشل لاء کا دور تھا اور وہ لاہور میں تعینات تھے۔ اس زمانے میں بھی پی ٹی وی پر خبرنامہ 9بجے ہی نشر ہوا کرتا تھا، مگر وہ آدھے گھنٹے پر محیط ہوتا تھا۔
خبر نامے کے بعد 25 منٹ کا ایک پروگرام ترجمان چلا کرتا، 14 اگست کے قریب سوچا کہ ایک رپورٹ تیار کرتا ہوں جس میں یہ بتایا جائے کہ 14 اگست 1947 کو لاہور میں کیا ہو رہا تھا؟ اور اس دن کے اخبارات میں کیا شائع ہوا؟
رپورٹ کی تیاری کے لیے راؤ صاحب انارکلی میں قائم پنجاب پبلک لائبریری گئے۔ انہوں نے افسوس کے ساتھ بتایا کہ 14 اگست 1947 کے ایک اخبار کے علاوہ باقی سب اخبارات کے پیشانی کے صفحات کو پڑھنے والے تراشوں کی شکل میں پھاڑ چُکے تھے۔
سرور منیر راؤ صاحب نے بتایا کہ لائبریرین کو انہوں نے کہا کہ مجھے ایسی قدیم کتابیں دکھائیں جن تک سب لوگوں کی رسائی نہ ہو۔ لائبریرین نے ایک ایسا کمرہ کھلوایا جہاں سیکڑوں سال عمر والی کُتب بھی موجود تھیں۔
کتابوں پر جمی گرد اور ان کی بوسیدگی ان کی عمر کا پتہ بتا رہی تھی۔ راؤ صاحب کہتے ہیں کہ جونہی کیمرے کی لائٹ آن ہوئی تو کتابوں کی اوٹ سے ایک سانپ پھن پھلائے سامنے آگیا۔ سانپ کو دیکھتے ہی میں تیزی سے باہر نکلا اور معاون عملے کو بھی پیچھے ہٹنے کا کہا۔
انہوں نے بتایا جب رات کو ایڈیٹنگ کروانے کے لیے بیٹھا تو دیکھا سانپ کے کتابوں کی اوٹ سے نکلتے ہوئے پھن پھلانے کی ویڈیو ریکارڈ ہو چکی ہے۔
راؤ صاحب کہتے ہیں کہ جب رپورٹ تیار ہوئی تو میں نے سانپ کے کتابوں کے بیچ میں سے نمودار ہونے کی فوٹیج پر آواز ریکارڈ کروائی کہ “جب علم کے خزانوں پر سانپ بیٹھے ہوں اور تاریخ کے ساتھ ہمارا یہ سلوک ہو تو پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا؟”
14 اگست 1978ء کی رات جب یہ رپورٹ خبر نامے کے بعد نشر ہوئی تو جنرل ضیا نے بھی یہ رپورٹ دیکھی۔ اگلے دن تمام اخبارات نے بھی یہ خبر نمایاں طور پر شائع کی۔ اسی روز اتفاق سے کابینہ کے اجلاس میں وزیرِ تعلیم ایڈمرل انعام سے بھی اس بابت استفسار کیا گیا۔
جنرل ضیا نے حُکم دیا کیا کہ کُتب کے ذخیرے کو محفوظ کرنے کے لیے ایک شاندار لائبریری قائم کی جائے۔ اس کے لاہور کے گورنر لیفٹینٹ جنرل غلام جیلانی نے چیف سیکریٹری پنجاب کی سربراہی کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کردی۔
یوں لاہور کے لارنس گارڈن اور آج کل کے باغِ جناح میں قائم پرانے جم خانہ کی عمارت کو تزئین و آرائش کے بعد قائداعظم لائبریری میں تبدیل کردیا گیا۔
باغ ِ جناح یا قائداعظم لائبریری کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ ایک پورا جہاں ہے، جس پر تفصیلاً بات کی جائے تو ایک کالم یا مضمون کم پڑھ جائے گا۔
مارچ 1999 میں جب لاہور گیا تو پنجابی کے نام ور کہانی کار الیاس گھمن کے توسط سے پاکستان ٹائمز کے چیف نیوز ایڈیٹر رانا نوید صاحب سے ملا اور وہاں بطور سب ایڈیٹر سیکھنے کے لیے جانا شروع کیا۔
دوسرا کام یہ کیا کہ قائد اعظم لائبریری کا کارڈ بنوایا، آج کل پتہ نہیں کیا طریقہ کار ہوگا مگر اس زمانے میں کارڈ بنوانے کے کافی تگ و دو کی ضرورت تھی۔
پاکستان ٹائمز کا تذکرہ آیا تو بہت سے احباب ہیں جن کا ذکر کیے بغیر اس زمانے کی تصویر مکمل نہیں ہ سکتی، جیسے میاں سیف الرحمان، ظہیر صاحب اور چوہدری ذوالفقار، کسی اور وقت کے لیے ان محبّانِ گرامی کا ذکر اُٹھا رکھتے ہیں۔
بات قائدِاعظم لائبریری کی ہو رہی تھی، کئی چکر تو کارڈ بنوانے کے لیے لگانے پڑے، قائداعظم لائبریری میں بہت سے علم کے متلاشی اور مقابلے کے امتحانات کی تیاری کرنے والے نوجوان نظر آتے ہیں۔
میں جب لائبریری گیا تو علم ہوا کہ آپ کتاب پڑھنے کے لیے ساتھ نہیں لے جا سکتے، جو کتاب بھی پڑھنی ہو اسے لائبریری میں بیٹھ کر ہی پڑھیں۔ نتیجتاً لائبریری کا کارڈ واپس کردیا۔
قائد اعظم لائبریری میں بہت سے رسائل و جرائد بھی میسر ہوتے ہیں، اخبارت تو لائبریری کی راہداری میں اسٹینڈز پر بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔
آپ جب بھی لائبریری کے پارک کی طرف کُھلنے والے دروازے کی طرف جائیں تو وہاں کئی اخبار بین مطالعے میں مصروف پائیں گے۔
آج کل وہاں ہمارے دوست کاشف منظور صاحب کا بھی دفتر ہے، وہ ڈائریکٹر جنرل پنجاب پبلک لائبریریز کے فرائض سر انجام دے رہے۔ کاشف بہت کُھلے ڈُلھے، نفیس اور صاحبِ مطالعہ شخص ہیں۔
کاشف صاحب کُتب بینی کے فروغ کے لیے بہت سے اقدامات اُٹھا بھی رہے ہیں اور بہت سے منصوبوں کو عملی شکل دینے کے لئے کوشاں ہیں۔
ایک طرف چلتی پھرتی لائبریریاں وہ قائم کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف ان لائبریریوں کا احیا بھی۔ نئے زمانے سے ہم آہنگ ہونے اور نوجوان نسل کو مطالعہ کی طرف راغب کرنے کے لئے وہ ای ریڈر یا ٹیلبٹ کے ذریعے وہ یونیورسٹی اور کالج کے طالب علموں کو کُتب کے ذخیرے تک رسائی آسان بنانے کا سوچ رہے ہیں۔
کسی علمی ادبی، ثقافتی ادارے کا سربراہ کاشف منظور جیسا وسیع المطالعہ اور وضع دار افسر ہو تو علم و فن کے متلاشیوں کے لیے سہولت اور آسانی پیدا ہوتی ہے اور وہ اطمنان سے علم کی پیاس بُجھا سکتے ہیں۔
علمی، ادبی اور ثقافتی مراکز پر صاحبِ علم انسان دوست گیانی ہی نگہبانی کے فرائض انجام دیں تو علم و ادب پنپتا ہے، ورنہ تو عملی خزانوں پر براجمان سانپوں سے تو ہر دور میں کسی نہ کسی طرح سے طالب علموں کو واسطہ پڑ ہی جاتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اکمل شہزاد گھمناکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: قائد اعظم لائبریری قائداعظم لائبریری اعظم لائبریری کے لائبریری میں اور وہ بہت سے
پڑھیں:
عمران خان نے حکومت سے مذاکرات کیوں ختم کیے؟ بیرسٹر گوہر نے وجہ بتادی
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی نے کہا ہے کہ اگر حکومت سے جاری مذاکرات کے نتیجے میں 9 مئی اور 26 نومبر کے حوالے سے کمیشن نہیں بننے جا رہا تو ہم نے حکومت کے ساتھ صرف ہیلو ہائی اور فوٹو سیشن کے لیے تو نہیں بیٹھنا تھا۔
جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے جو احتجاج ہوا تھا، اس سے متعلق ایک مقدمہ ہوا تھا، اس میں دہشت گردی کی دفعہ لگی تھی، اس میں درخواست ضمانت پر سماعت چل رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سارے وکلا پر مقدمات ہوئے ہیں، اس میں پیش ہو گئے تھے، اب 4 تاریخ کو سماعت مقرر ہوئی ہے، جج صاحب نے کہا ہے امید ہے چار تاریخ کو یہ کیس ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات بہترین راستہ ہے اور مزاکرات ہونے چاہیے تھے اور بڑی فراخدلی سے ہم نے یہ شروع کر لیے تھے، تحفظات کے باوجود نیک نیتی سے بیٹھے تھے، حکومت کی جانب سے ہمارے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں، ہمارا مینڈیٹ چوری ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور بشری بی بی کو جس طریقے سے سزائیں دی گئی ہے، لیکن ان سب چیزوں کے باوجود خان صاحب نے اعلان کیا تھا کہ ہم دو مطالبات رکھتے ہیں اور اس پر ہم مذاکرات کریں گے۔
بیرسٹر گورہر نے کہا کہ مذاکرات کا پہلا دور ہوا تھا تاریخ تھی 23 دسمبر، دو جنوری اس کے بعد پڑھی ہے 16 جنوری تاریخ پڑی تھی، اس کے بعد انہوں نے ابھی 28 کے لیے رکھا لیکن 16 جنوری کو ہم نے ان کو یہ کہا تھا کہ اب آپ 7 دن میں اعلان کریں کہ اپ کمیشن بنانے جا رہے ہیں کہ نہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ کمیشن میں یہ بھی طے ہونا تھا کہ اس میں ججز کون سے ہیں ٹی او ارز کون سے ہوں گے، ٹائم کتنا لگے گا؟ کیا کچھ ہوگا؟ لیکن ان کی طرف سے کچھ بھی نہیں ہوا، کوئی قدم نہیں لیا گیا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی نیت ہی نہیں ہے کوئی کمیشن بنانے کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کمیشن نہیں بننے جا رہا تو ہم نے حکومت کے ساتھ صرف ہیلو ہائی اور فوٹوسیشن کے لیے تو نہیں بیٹھنا تھا، لہذا خان صاحب نے ان عوامل کے پیش نظر مذاکرات ختم کردیے۔
انہوں نے کہا کہ دیکھیں پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، ساری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات کرنا چاہ رہی تھی، خان صاحب نے خود اس کو شروع کیا اور سب سے پہلے کمیٹی خان صاحب نے بنائی۔