گزشتہ صدی کے آغاز میں دنیا کے مختلف ممالک عورتوں کو ووٹ کا حق دینے لگے تھے، وہ حق جو جمہوریت کی بنیاد ہے۔

برطانیہ میں خواتین کو یہ حق گزشتہ صدی کے اوائل میں طویل جدوجہد کے بعد ملا مگر ہندوستان کی عورت کو ووٹ کا حاصل کرنے کے لیے ابھی کئی برس انتظار کرنا تھا جس کے باعث اِس خطے کی عورت پر سیاست کے دروازے بند تھے تو ایسے میں دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح ہندوستان کی عورت نے بھی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔

ایک ایسا راستہ جو جوکھم سے بھرپور توتھا مگر جب جذبے جواں ہوں تو دیر سے سہی منزل مل ہی جاتی ہے۔

آپ اس طویل تمہید پر حیران ہو رہے ہوں گے کیوں کہ اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے صوبے  پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز ایک خاتون ہیں مگر اسی پنجاب کی راجدھانی لاہور میں سال 1896 میں جب باغبانپورہ کے مشہور ارائیں خاندان میں جہاں آرا شاہنواز کا جنم ہوا تو اُس وقت کسی نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی عورت کو ووٹ کا حق مل سکے گا جو تحریکِ نسواں میں ایک اہم سنگِ میل تھا۔

بات بیگم جہاں آرا شاہنواز کی ہو رہی ہو تو لاہور کے اتہاسک شالامار باغ کا ذکر کیے بنا آگے بڑھنا ممکن نہیں جس کے لیے مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے شہرِ پُرکمال کے نواحی علاقے کا انتخاب کیا۔ اس وقت اس علاقے کی ملکیت محمد یوسف نامی ایک زمین دار کے پاس تھی جو مہر منگا کے نام سے بھی معروف تھے جنہوں نے شہنشاہ کو یہ زمین تحفتاً پیش کردی۔

شہنشاہ مہر منگا کی اس فراخ دِلی سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکے جس پر انہوں نے انعام کے طور پر نہ صرف اس باغ کی نگرانی کی ذمہ داری مہر منگا کو سونپی بلکہ باغبانپورہ کی جاگیر دینے کے علاوہ میاں کا خطاب بھی عطا کیا۔

تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد میں اس خاندان کے مردوں کا سیاست میں اہم کردار رہا جن میں سے ایک سر محمد شفیع بھی ہیں جو سال 1906 میں ڈھاکا میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم کرنے کے لیے ہونے والے اجلاس میں موجود تھے اور وہ ان چند رہنماؤں میں سے ایک تھے جنہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کا نام تجویز کیا تھا۔

بیگم جہاں آرا شاہنواز انہی سر محمد شفیع کی صاحبزادی تھیں۔ اُن کی شادی سال 1911 میں سر محمد شاہنواز سے ہوئی جو اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور سیاست میں متحرک تھے۔ یوں بیگم جہاں آرا کی ازدواجی زندگی کے ساتھ ساتھ سیاسی سفر کا بھی آغاز ہوا۔

اُن دنوں ہی سال 1914 میں علی گڑھ میں آل انڈیا مسلم لیڈیز کانفرنس کا قیام عمل میں آیا جسے انجمنِ خواتینِ اسلام بھی کہا جاتا ہے اور اس کی پہلی سربراہ شاہی ریاست بھوپال کی سربراہ بیگم سلطان جہاں تھی جو اس تنظیم کا قیام مسلمان خواتین کی سماجی، علمی اور معاشی حالت سدھارنے کے لیے عمل میں لائی تھیں۔

سال 1920 میں یہ بیگم جہاں آرا ہی تھیں جنہوں نے اس تنظیم کے اجلاس میں کثرتِ ازدواج کے خلاف قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ’اپنی بہنوں، بیٹیوں اور دیگر خواتین رشتہ داروں کو مردوں کی دوسری بیوی نہ بنائیں یا اُن کی ایسے مرد سے شادی نہ کریں جو کسی وجہ کے بغیر دوسری شادی کرنا چاہتے ہوں۔‘

انہوں نے یہ استدلال بھی پیش کیا تھا کہ انڈیا کے اسلامی معاشرے میں دوسری شادی کرتے ہوئے قراَنی تعلیمات پر عمل نہیں کیا جاتا تو یوں بیگم جہاں آرا کی اُس طویل جدوجہد کا آغاز ہوا جو تقسیم کے بعد بھی جاری رہی۔

بھگت سنگھ کا ذکر ہو تو سائمن کمیشن کا تذکرہ بھی ضرور ہوتا ہے جو دراصل 1919 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کا جائزہ لینے کے لیے ہندوستان آیا تھا جس کے خلاف احتجاج میں ہی لالہ لاجپت رائے جان سے گئے تھے جن کی موت کا بدلہ لینے کے لیے بھگت سنگھ اور اُن کے ساتھیوں نے انگریز راج کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔

بیگم جہاں آرا نے اسی سائمن کمیشن کے روبرو آل انڈیا وومن کانفرنس کی رُکن کے طور پر انڈیا کی خواتین کے لیے قانون ساز اسمبلی میں کوٹہ مختص کرنے اور ووٹنگ کا حق دینے کا مطالبہ کیا۔

کمیشن کے خلاف چوں کہ ہندوستان بھر میں احتجاج ہو رہا تھا تو بات بن نہ سکی جس کے بعد اس حوالے سے 3گول میز کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا۔ پہلی 2گول میز کانفرنسوں میں وہ واحد مسلمان خاتون تھیں تو تیسری گول میز کانفرنس وہ وہ اکیلے ہی پورے ہندوستان کی کروڑوں خواتین کی نمائندگی کر رہی تھیں۔

انہوں نے خواتین کو ووٹ دینے کا مطالبہ تو دہرایا ہی بلکہ یہ بھی اعتراف کیا کہ ایسا پہلی بار ہے کہ اس قسم کے اجلاسوں میں خواتین کو نمائندگی دی جا رہی ہے جب کہ وہ گول میز کانفرنسوں میں شرکت کے لیے برطانیہ میں قیام کے دوران سربر آوردہ برطانوی خواتین سے بھی رابطے میں رہیں اور اُن کو انڈیا کی خواتین کو اُن کے بنیادی سیاسی حقوق دینے کے لیے قائل کرتی رہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سال 1935 میں جب گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ شائع ہوا تو اس میں انڈیا کی قریباً 6لاکھ عورتوں کو ووٹ کا حق دیے جانے کے علاوہ قانون ساز اسمبلی میں اُن کے لیے نشستیں بھی مختص کی گئی تھیں۔

بیگم جہاں آرا اگرچہ خواتین کے لیے بالغ حقِ رائے دہی حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہی تھیں مگر اس کے باوجود یہ ایک بڑی کامیابی تھی کیوں کہ کوٹہ مختص کیے جانے کی وجہ سے ہی سال 1937 میں ہونے والے انتخابات میں 80 خواتین منتخب ہوئیں جن میں وہ خود بھی شامل تھیں۔

بیگم جہاں آرا کی خدمات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ سال 1927 میں مرکزی دستور ساز اسمبلی میں پیش کیے گئے بچپن کی شادیوں پر پابندی کے قانون کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے میں بھی اُن کا اہم کردار تھا جس کی منظوری کو سال 1929 تک ملتوی کیا جاتا رہا تھا۔

ثاقب سلیم انڈیا کے معروف مورخ اور مصنف ہیں۔ وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’جہاں آرا اور آل انڈیا وومن کانفرنس کی دوسری خواتین کارکنوں نے بل کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کمیٹی میں شامل میاں شاہنواز کے سوا کسی مسلمان رُکن نے بل کی حمایت نہیں کی جس پر شاہنواز، جو جہاں آرا کے شوہر تھے، کا ’’دھوکا‘‘ دینے پر مذاق اُڑایا گیا اور یہ تک کہا گیا کہ وہ اپنی بیوی کے زیرِاثر تھے۔‘

اس قانون کے تحت ہی خواتین کے لیے شادی کی کم از کم عمر 14 اور مردوں کے لیے 18 برس مقرر کی گئی تھی۔

بیگم جہاں آرا آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاست میں بھی پیش پیش رہیں۔ وہ  پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی 2خواتین ارکان میں سے ایک تھیں۔ دوسری رُکن شائستہ اکرام اللہ تھیں۔

تقسیم کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور میں یہ بیگم جہاں آرا تھیں جنہوں نے لاہور میں خواتین کے مظاہروں کی قیادت کی تاکہ وراثت میں خواتین کے حق کو قانونی طور پر تسلیم کیا جائے جس میں وہ کامیاب رہیں اور سال 1948 میں مسلم پرسنل لاز میں اس حق کو تسلیم کیا گیا۔

یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہی ہے کہ ان تمام خدمات کے باوجود بیگم جہاں آرا کو فراموش کر دیا گیا جو غالباً ایک پدر سری سماج میں خواتین کو اُن کے حقوق دلانے کے لیے کی گئی اُن کی جدوجہد کی قیمت ہے۔

تقسیم کے کچھ ہی برس بعد راولپنڈی سازش کیس کا شور اُٹھا۔ آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ ذکر بیگم جہاں آرا کا ہو رہا تھا تو یہ پنڈی سازش کیس کا اس سے کیا لینا دینا؟

بات یہ ہے کہ اس پوری ’’سازش‘‘ میں، جنرل اکبر خان کی اہلیہ بیگم نسیم اکبر بھی شامل تھیں جو واحد خاتون تھیں جنہیں حکومت کا تختہ الٹنے کی ’‘سازش‘‘ کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور اُس وقت پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر نے اپنے ملک بھیجے گئے ایک خفیہ مراسلے میں بیگم نسیم اکبر کے ’ایمیشسس‘ ہونے کو اس ’’سازش‘‘ کی وجہ قرار دیا تھا۔

پاکستانی عسکری تاریخ کے ایک مورٔخ میجر جنرل (ر) سید علی حامد اپنے والد میجر جنرل (ر) شاہد حامد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’جنرل گریسی نے کہا تھا کہ مجھے اکبر پر ترس آتا ہے، ایک نفیس سپاہی جو اپنی بیوی کی وجہ سے نقصان اُٹھائے گا۔‘

اس ’’سازش‘‘ کے دیگر نمایاں کرداروں میں شاعر فیض احمد فیضؔ بھی شامل تھے جو لاہور سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے مدیر تھے جس کے مالک میاں افتخار الدین تھے جو بائیں بازو کے نمایاں سیاست دان تھے اور بیگم جہاں آرا کے قریبی عزیز تھے مگر بیگم جہاں آرا کا اس پوری ’’سازش‘‘ سے کیا تعلق تھا؟

بات کچھ یوں ہے کہ بیگم نسیم اکبر سر شاہنواز اور بیگم جہاں آرا کی صاحبزادی تھیں جو جنرل اکبر خان سے علیحدگی کے بعد بیگم نسیم جہاں کے طور پر جانی گئیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے دور کی جدید سوچ اور فکر رکھنے والی خاتون تھیں جنہوں نے ایک ایسے سماج میں اپنا تعارف اپنی ماں کے نام سے کروایا جہاں اس پوری ’’سازش‘‘ کا محرک اُن کو قرار دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے تاکہ جنرل اکبر خان کو بیوی کے ’’زیرِاثر‘‘ دکھا کر اُن کی مقبولیت کم کی جا سکے کیوں کہ وہ کشمیر میں جنگ کی وجہ سے عوام میں مقبول تھے۔

بیگم نسیم جہاں آنے والے برسوں میں بھی سیاست میں سرگرم رہیں اور سال 1961 میں منظور ہونے والے فیملی لاز آرڈیننس کے خلاف جب مذہبی طبقے کی جانب سے ردِعمل ظاہر کیا گیا تو انہوں نے اس کے حق میں لاہور میں بڑے مظاہروں کی قیادت کی جب کہ اُن کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کی بانی ارکان میں بھی کیا جاتا ہے۔

وہ سال 1971 میں قومی اسمبلی کی رُکن منتخب ہوئیں اور 1973 کے دستور کی دستاویز پر بیگم اشرف عباسی اور جنیفر موسیٰ قاضی کے علاوہ اُن کے بھی دستخط ہیں تو یوں انہوں نے اپنی والدہ کی جدوجہد کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔

بیگم جہاں آرا کی ادب میں دلچسپی کا اندازہ اُن کے اُردو ناول ’حسن آرا بیگم‘ سے لگایا جا سکتا ہے جب کہ انہوں نے ’فادر اینڈ ڈاٹر: اے پولیٹیکل بائیوگرافی‘ بھی لکھی۔

وہ ایشیا کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے پارلیمان کے اجلاس کی صدارت کی اور یوں وہ اپنے اُس خواب کی تعبیر پانے میں کامیاب رہیں جو انہوں نے بہت عرصہ قبل دیکھا تھا۔

اُن کی ایک اور صاحب زادی ممتاز شاہنواز بھی تھیں جو سیاست میں تو سرگرم رہیں ہی بلکہ انہوں نے انگریزی میں ناول ’The Divided Hearts ‘ بھی لکھا اور ان کا شمار پاکستان کی انگریزی زبان کی اولین ناول نگاروں میں کیا جاتا ہے۔ یہ ناول اُن کی وفات کے بعد شائع ہوا جو تقسیم کے پس منظر میں لکھا جانے والا غالباً پہلا ناول ہے۔

ممتاز شاہنواز سال 1948 میں اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لیے امریکا جا رہی تھیں کہ طیارے حادثے میں چل بسیں۔ اُس وقت اُن کی عمر محض 35 برس تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ بیگم جہاں آرا، نسیم جہاں اور ممتاز شاہنواز کے ذکر کے بغیر پاکستان تو کیا، ہندوستان کی تاریخ بھی ادھوری رہے گی جنہیں بھلا کر ہم غالباً اپنی ہی تاریخ سے نظریں چرا رہے ہیں جس سے ہمارے سوا کسی اور کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اقصیٰ ناصر علی

اقصیٰ ناصر علی صحافی اور کہانی کار ہیں۔ وہ شہرِ بے مثل لاہور کے مختلف ادبی جرائد و رسائل کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ ایک ایسی دنیا کے خواب دیکھتی ہیں جہاں کوئی صنفی امتیاز نہ روا رکھا جاتا ہو، کوئی بچہ بھوک سے نہ بلکتا ہو اور جہاں بارود کی بو نہیں بلکہ پھولوں کی مہک ہو۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جہاں ا را شاہنواز بیگم جہاں ا را کی ا ل انڈیا مسلم میز کانفرنس ہندوستان کی کرنے کے لیے ساز اسمبلی میں خواتین اہم کردار خواتین کو ہونے والے نسیم جہاں بیگم نسیم سیاست میں خواتین کے تقسیم کے کیا جاتا کے اجلاس جنہوں نے انہوں نے ن کے لیے نے والے کے خلاف ہی تھیں میں بھی کیا گیا کے بعد کی وجہ تھا کہ

پڑھیں:

مرکزی مسلم لیگ کے حقوق سندھ مارچ کا پہلا پڑاؤ بدین میں ہو گا

بدین (نمائندہ جسارت) مرکزی مسلم لیگ کی جانب سے سندھ حکومت کی بدترین کرپشن اور عوام کو حقوق کی عدم فراہمی کے خلاف آج کراچی سے شروع ہونے والے حقوق مارچ کے شرکاء ٹھٹھہ اور سجاول سے ہوتے ہوئے شام کو بدین پہنچیں گے جہاں پارٹی قائدین شاہ نواز چوک پر جلسے سے خطاب کریں گے۔ مرکزی مسلم لیگ کی جانب سے سندھ بھر کی طرح بدین ضلع کے شہروں کو بینر پینا فلیکس، ہولڈنگ، اشتہارات، ہینڈ بلز، سائن بورڈ سے سجا دیا گیا، تیاریوں کے سلسلے میں کارکنوں کے عوامی رابطہ مہم میں ہر طرف صدائیں حقوق سندھ مارچ کی چاروں طرف سے آوازیں حقوق سندھ کی گونج رہیں، سندھ بھر کی طرح بدین میں بھی اس وقت حقوقِ سندھ مارچ کی تیاریاں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ مرکزی مسلم لیگ کے ترجمان کے مطابق سندھ بھر کی عوام کی اُمیدوں کا مرکز محور مرکزی مسلم لیگ بن چکی ہے، الحمد اللہ اس وقت سندھ کے شہر دلہن کی طرح مرکزی مسلم لیگ کے جھنڈوں بینرز سے سج دھج چکے ہیں، عوام کے دلوں کی دھڑکن مرکزی مسلم لیگ بنتی جا رہی ہے، سندھ میں اس وقت عوامی کی ترجمانی کرنے والی واحد جماعت مرکزی مسلم لیگ ہے۔ مرکزی مسلم لیگ کے جاری اعلامیہ میں پاکستان مرکزی مسلم لیگ سندھ کے صدر فیصل ندیم نے کہا کہ حقوق سندھ مارچ کا اعلان ہوتے ہی عوام کے وسائل پر قابض مافیا اپنی شکست کا خوف محسوس کرنے لگا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حقوق سندھ مارچ کرپشن کیخلاف جدوجہد کا آغاز ہے،مقررین
  • کیا سیف علی خان پر حملے کے وقت کرینہ کپور نشے میں تھیں؟
  • ایسا پلٹ فارم چاہتے ہیں جہاں معاملات پر غور اور مجموعی سیاسی حل سامنے آئے فضل الرحمن
  • ایسا پلیٹ فارم چاہتے ہیں، جہاں معاملات پر غور اور مجموعی سیاسی حل سامنے آئے:مولانا فضل الرحمٰن
  • ایسا پلیٹ فارم چاہتے ہیں، جہاں معاملات پر غور اور مجموعی سیاسی حل سامنے آئے: مولانا فضل الرحمٰن
  • انسانی حقوق کا مغربی فلسفہ اور امتِ مسلمہ
  • قائد اعظم کو متاثر کرنے والے مولانا غلام حیدر جنڈالوی کون تھے؟
  • گسٹا اساتذہ کے حقوق کی محافظ ہے، فیض محمد کیریو
  • مرکزی مسلم لیگ کے حقوق سندھ مارچ کا پہلا پڑاؤ بدین میں ہو گا