Express News:
2025-04-15@06:36:43 GMT

بدلتی دنیا اور ہم

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

انتہائی پیچیدہ مسائل سے اس وقت دنیا نمٹ رہی ہے خاص طور پر ماحولیاتی مسائل سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ لاس اینجلس اور کیلی فورنیا میں آگ کا پھیلنا آج ہمارے سامنے ہے اور لاس اینجلس میں آگ کا پھیلاؤ اس دفعہ اس قدر شدید ہوگا اس بات کا اندازہ نہ تھا۔اس آگ کے پھیلاؤ کی اصل وجہ یہ ہے کہ کر ہ ارض اب دن بہ دن گرمائش کے گھیرے میں جا رہی ہے، سطح سمندر دن بہ دن بڑھے گی اور گلیشیر جو ہزاروںسال سے پگھلے نہیں ان کے پگھلنے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ ہر آنیوالے برس پچھلے برس سے گرم ثابت ہوگا۔ اس ماحولیاتی نظام کی بربادی کا سبب ہے کیپٹل ازم ہے جس کو ہم سرمایہ دارا نہ نظام کہتے ہیں۔

دنیا کے دو بڑے ممالک جو ماحولیاتی تباہی میں بڑا حصہ ڈالتے ہیں، وہ ہیں امریکا اور چین۔ کیونکہ یہی دونوں ممالک دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں ہیں،جتنی بڑی معاشی طاقت اتنا ہی بڑا حصہ ما حولیاتی آلودگی میں، معاشی پہیے کو چلانے کے لیے توانائی درکار ہے اور توانائی اور اس توانائی کے حصول کے لیے جو ذرائع ہیں وہ Fossil Fuels  پر مبنی ہیں۔یعنی تیل، کوئلہ اور گیس۔ یہ توانائی کے ذرائع کاربن کا دھواں Carbon emissionپیدا کرتے ہیں جو یقینا ماحولیاتی آلودگی پیدا کرتے ہیں اور انھیں ذرائع کے استعمال کی وجہ سے دنیا میں گرمی بڑھ رہی ہے اور گرمی اس دھرتی کی تمام زندہ مخلوق کے وجود کے  لیے خطرہ ہے۔

دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام جو اپنی حدوں کو چھو رہا ہے اور اس نظام کی انتہا میں امریکا کے نو منتخب صدر اور ایلون مسک جیسی سوچ کا ہاتھ ہے اور یہ سوچ کسی ایک یا دو کی سوچ نہیں بلکہ مجموعی طور پر پورے سرمایہ دارانہ نظام کی سوچ ہے۔توانائی کے دوسرے ذرائع کی طرف جس تیزی سے جا رہے ہیں یہ Fossil Fuels کی سرمایہ داری سوچ اتنی ہی تیزی سے اس عمل کو روک رہی ہے اور اس گروپ کے مفادات کے دعوے دار امریکا اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔

جہاں تمام فیصلہ سازی ان کے مفادات کی ترجمانی کرتی ہے۔اچھے خواص بھی ہیں اس نظام کے جیسا کہ رسد اور ترسیل کے فیصلے مارکیٹ کرتی ہے۔سرمایہ دار اپنی سرمایہ کاری کرتا ہے منافع کمانے کے لیے، اس طرح مقابلہ بازی ہوتی ہے تاکہ معیار بہتر ہو سکے اور اسی معیار کی خاطر بہت سی تخلیقات اور ایجادات بھی ہوئیں، لیکن اب یہ نظام اور یہ سوچ انتہائی خود غرضی کی ہے۔اس سوچ کا انسانیت کی بھلائی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔انسانی فلاح و بہبود اس کے منافع کمانے کے ٹکراؤ میں ہے،لہٰذا یہ نظام انسانی ترقی اور فلاح و بہبود کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔

ایک طرف دنیا میں فاصلے کم ہو رہے ہیںانفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی بنیاد پر۔مگر غربت نے اس دنیا کے شکنجے میں لیا ہوا ہے۔ دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر کے نیچے رہنے پر مجبور ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کا شوشہ ایک لحاظ سے جمہوریت کے تابع بھی ہے۔ وہ ترقی یافتہ ممالک جو سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے تحت چلتے ہیں ، ان کے پاس آئین ہے اور اس آئین کی ریڑھ کی ہڈی ہے شہر یوں کے بنیادی حقوق۔

مگر ان ممالک کی سوچ وہ ہی پرانی نو آبادیاتی والی سوچ ہے۔جو ان ممالک کی کالونی میں رہے وہ ممالک نہ ہی ترقی یافتہ بن سکے اور نہ ہی خودکفیل ہو سکے۔یہ ممالک بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور ان قرضوں کی وجہ سے یہ ممالک ان بڑی طاقتوں کے شکنجے میں ہیں۔

ان ممالک نے ہم جیسی ریاستوں کے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔سرد جنگ کے زمانوں میں ہمیں اپنی فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر استعمال کیا اور کامیابی سے اپنے مقاصد پائے۔مسلم ممالک کو خصوصی طور پر آگے بڑھنے سے روکا گیا اور یہی وجہ ہے اسلامی ممالک میں جمہوریت پنپ نہیں پائی۔

دنیا کیپٹل ازم کی سمت چلنا چاہتی ہے مگر انسان پرستی اور ماحولیاتی تباہی کی خاطر کیپٹل ازم کے نظام کو اپنی ماہیت تبدیل کرنا ہوگی۔ہم نے اس بات کامشاہدہ کیا ہے کہ سوا برس سے پٹرول پر چلنے والی گاڑیوں کو الیکٹرک گاڑیوں نے پیچھے چھوڑ دیا ہے اور آیندہ دس برسوں میں پٹرول گاڑیوں کی وقعت نہ رہے گی۔

مصنوعی ذہانت نے اس دنیا کو جدید دور داخل میں کیا، اس ٹیکنالوجی کے اثرات آنیوالے دس برسوں میں مزیدواضح ہونگے۔توانائی کے متبادل ذرائع بڑی تیزی سے دریافت کیے جا رہے ہیں۔شمسی توانائی اور ونڈ انرجی کے ذرائع بڑے کامیاب متبادل رہے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد اور سرد جنگ کے زمانوں میں ، مشرق وسطیٰ بین الاقوامی ٹکراؤ اور تضادات میں صف اول پر رہا، خصوصاستر کی دہائی کے بعد ان تضادات میںمزید شدت آگئی تھی، اس دفعہ یہ خطہ ، شام میں انقلاب کے بعد ایک نئی سمت کی طرف جا رہا ہے۔

ایران میں موجودہ نظام بھی زیادہ عرصے تک نہیں چل پائے گا اس لیے تبدیلی اب ناگزیر ہے۔سعودی عرب اپنے اندر بہت سی تبدیلیاں لارہا ہے تاکہ وہ دنیا کے ساتھ چل سکیں۔امریکا میں دوبارہ ٹرمپ کا صدر منتخب ہونا، دنیا کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں سمجھا جا رہا ہے۔امریکا کی اندرونی سیا ست میں بھی یہی چہ مگوئیاں ہیں کہ ٹرمپ امریکا میں بگاڑ پیدا کریگا اور امریکا کی خارجہ پالیسی اس سے شدید متاثر ہوگی او ر یہاں کیپٹل ازم ایک انتہائی صورت اختیار کرے گا۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ آنے والے دس برس تاریخی اعتبار سے بڑی تبدیلی کے سال ہیں۔انھی دس برسوں میں اگلے پچاس سال کی حکمت عملی چھپی ہو ئی ہے کہ یہ دنیا کس سمت رواں ہوگی۔انھی دس برسوں میں یہ ثابت ہوگا کہ انسان مارس پر اتر سکتا ہے کہ نہیں،جس کے امکانات زیادہ ہیں اور یہ بھی کہ ہم دھرتی کے مدار پر ایک ایسا گھر یا پھر ہوٹل بنائیں جہاں سیکڑوں لوگ رہیں اور واپس آجائیں۔ان دس برسوں میں کائنات کے حوالے بہت بڑی آگاہی ملنے کی توقعات ہیں۔

 مصنوعی ذہانت دنیا کو ایک ہونے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔انگریزی زبان آفاقی زبان بن جائے گی۔اگلے دس برس ، ٹیکنالوجی کے دس برس اور اگلے پچاس سال،انھیں دس برسوں کے نقش پر چلیں گے۔

پاکستان آگے جا کر آبادی کے حساب سے دنیا کا پانچواں ملک بننے جا رہا ہے اور اسی حوالے سے پاکستان کو بڑے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ان چیلنجز کے ساتھ آگے بڑھنے کی ہماری کوئی تیاری نہیں۔ ہمارے لیڈر صاحبان اور شرفاء ،ہندوستان کی طرح ٹیکنالوجی میں کوئی جوہر نہیں دکھا سکتی ۔

ان کی زندگی کا المیہ ہے اقتدار۔ ہماری بڑی سیاسی جماعتوں میں ایسے الیکٹبلز موجود ہیں جن کے مفادات کی ترجمان ہیں بڑی پارٹیاں۔لوگوں میں کبھی سرمایہ کاری نہیں کی ،لہٰذا کبھی انسانی ذرائع بہتر نہ ہو سکے اور جو انفرااسٹرکچر بہتر کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اس پر کئی سوالیہ نشان ہیں۔

وفاق کی پیچیدگیاں ہم سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔اس ملک کے چار صوبے، چار ثقافتیں، چار زبانیں ان کا آپس میں گہرا تعلق اور پنجاب کا کردار ایک بڑے کے مانند ان تمام باتوں کو سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرمایہ دارانہ توانائی کے کیپٹل ازم جا رہا ہے ہے اور اس ہے اور ا دنیا کے رہے ہیں ہیں اور رہی ہے اور یہ کے لیے

پڑھیں:

اسرائیل کیخلاف جہاد میں حصہ لیں

ﷰامریکا کی مکمل حمایت سے غزہ پر نہ رکنے والے اسرائیلی ظلم و ستم کو روکنے کیلئے کوئی آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ ظالم اپنے ظلم میں روز بروز بڑھتا جا رہا ہے لیکن دنیا کا ضمیر سویا ہوا ہے۔ ماسوائے زبانی جمع خرچ کے کوئی بھی مظلوم فلسطینیوں کو ظالم اسرائیل سے بچانے کیلئےآگے نہیں بڑھ رہا۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ افسوس مسلمانوں اور مسلمان ممالک پر ہوتا ہے جو فلسطینیوں کی اس نسل کشی کو بڑی سرد مہری کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے اگر بیانات سے آگے کوئی بات نہیں بڑھتی تو عمومی طور پر عام مسلمانوں کو بھی جو کرنا چاہیے وہ نہیں کیا جا رہا۔ پاکستان کے بڑے عالم دین اور اسکالر محترم مفتی تقی عثمانی نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں غزہ پر اسرائیلی ظلم و ستم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب تمام مسلمان ممالک کی حکومتوں پر فلسطینیوں کو اسرائیل کے ظلم و ستم سے بچانےکے لیے جہاد فرض ہو چکا۔ محترم مفتی صاحب کی اس بات کا پاکستان سمیت دوسرے اسلامی ممالک کے حکمرانوں پر کتنا اثر ہوتا ہے اس بارے میں مجھے کوئی خوش فہمی نہیں لیکن اگر عام مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ اس صورتحال میں ساری ذمہ داری صرف مسلمان ممالک کی حکومتوں کی ہے تو یہ بات بھی درست نہیں۔ اگر مسلمانوں کے حکمراں فلسطینیوں کی مدد کرنے اور اسرائیل کے خلاف جہاد کرنے کیلئےتیار نہیں تو پھر کیا عام مسلمان بھی خاموش ہو کر بیٹھ جائیں؟ اپنے آپ کو بے بس ثابت کر کے اور مسلمان ممالک کے حکمرانوں پر ساری ذمہ داری ڈال کر عام مسلمانوں کا وہ کچھ بھی نہ کرنا جو اُن کے بس میں ہے کیا اس ظلم میں اسرائیل کا ساتھ دینے کے مترادف نہیں۔ ایک عام مسلمان چاہے اُس کا تعلق پاکستان سے ہو، سعودی عرب یا ترکی سے یا وہ امریکا اور یورپ کے کسی ملک میں بیٹھا ہو اوہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے ایک ایسے جہاد کا حصہ نہیں بن سکتا جس کا اسرائیل کو نقصان بھی ہو اور اپنے آپ کویہ احساس بھی کہ کم از کم میرے بس میں جو ہے وہ میں عملی طور پر کر رہا ہوں۔ اسرائیل کے غزہ پر حملوں اور بچوں، عورتوں، بوڑھوں سمیت ہزاروں فلسطینیوں کو نشانہ بنانے پر اسرائیلی اور یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی مہم چلائی گئی۔ پاکستان میں بھی یہ مہم چلائی گئی اور اسرائیلی مصنوعات کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کیا گیا۔ اس پر عوام کے ایک خاطر خواہ طبقہ نے اسرائیلی مصنوعات،برینڈز، فرین چائزز، فوڈ چینز وغیرہ کا بائیکاٹ کیا لیکن بعد میں اس احتجاج میںحصہ لینے والوں کی شرح میں بدستور کمی ہوتی گئی اس سلسلے میں کچھ عوامی سروے میں بھی یہ حقیقت سامنے آئی۔اسرائیلی فوڈ چینز میں وہی رش لوٹ آیا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ اب جب کہ اسرائیل کا ظلم تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور مسلمان ممالک کے حکمراں بھی کچھ کرنے کو تیار نہیں تو عام مسلمان اسرائیل کو مالی طور پر نقصان پہنچانے کیلئے اسرائیلی و یہودی مصنوعات، اشیاء، فوڈ چینز، کولڈ ڈرنکس وغیرہ کا بائیکاٹ کر کے جہاد کی اس صورت میں اپنا حصہ کیوں نہیں ڈالتے۔ اگر ہم اسرائیلی اور یہودی مصنوعات وغیرہ کا بائیکاٹ نہیں کرتے اور اُنہیں خریدتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اُس اسرائیل کو مالی طور پر مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جو مظلوم فلسطینیوں کا خون بہانے سے رکنے کا نام نہیں لے رہا۔کچھ عرصہ قبل جب اسرائیلی مصنوعات کے حوالے سے تفصیلات سامنے آئیں تو پتا چلا کہ ہمارے گھروں میں استعمال ہونے والی اکثر اشیاء کا تعلق اسرائیل سے ہے۔ یعنی اگر ہم ان اشیاء کو خریدنے سے نہیں رکتے تو ہم عملی طور پر ظالم اسرائیل کو مضبوط اور مظلوم فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس ظلم کو روکنے کیلئے ہمیں اسرائیل کے خلاف اس جہاد میں حصہ لینا چاہیے۔اگر مسلمان ممالک کے حکمراں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھی وہ کام نہ کریں جو ہمارے بس میں ہے اور جس کا ایک اثر بھی ہے۔
انصار عباسی

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • حکومت نے معاشی استحکام حاصل کر لیا، جو منزل نہیں بلکہ ترقی کی بنیاد ہے، وزیر خزانہ
  • پاکستان سب سے زیادہ ترسیلات زر وصول کرنے والے دس ممالک میں شامل
  • اسرائیل کیخلاف جہاد میں حصہ لیں
  • بیرن ملک مقیم افراد میں پاکستان کا دنیا میں کون سا نمبر ہے؟
  • آزاد منڈی اور ٹیرف
  • امیر جماعت کا اسلامی ممالک کے سربراہان کے نام خط، غزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے 20اپریل کو عالمی یوم احتجاج منانے کی تجویز
  • پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں واٹس ایپ سروس متاثر
  • پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں صارفین کو واٹس ایپ کے استعمال میں مشکلات کا سامنا
  • واٹس ایپ کی سروس ڈاؤن، پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں صارفین کو مشکلات کا سامنا
  • دنیا کا سب سے بڑا فارم ہاؤس، جو 49 ممالک سے بھی بڑا ہے