ڈ ی کاربونائزیشن پاکستان کے معاشی استحکام کی کلیدہے. ویلتھ پاک
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔25 جنوری ۔2025 )پاکستان کو کم کاربن والی معیشت کی طرف منتقلی کو آسان بنانے کے لیے کلین ٹیکنالوجیز کے لیے موزوں حل اور اسٹریٹجک سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے توانائی کے ماہر ڈاکٹر خالد ولیدنے ویلتھ پاک کو بتایاکہ کم کاربن والے مستقبل کی طرف منتقلی سے ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی جو کم پیداواری، تجارتی خسارے اور توانائی کے غیر پائیدار اخراجات کے چکر میں الجھی ہوئی ہے.
(جاری ہے)
انہوں نے خاص طور پر کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم جیسے بین الاقوامی ریگولیٹری فریم ورک کی روشنی میں توانائی کے روایتی طریقوں سے پائیدار حل کی طرف فوری منتقلی کی وکالت کی یہ طریقہ کار ملک کے ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے اہم چیلنجز پیش کرتا ہے جو اس کی معیشت کا ایک اہم جزو ہے جس کو کم مسابقت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جب تک کہ یہ ڈیکاربونائزیشن کی حکمت عملیوں کے مطابق نہیں ہو جاتا. انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صنعتی ڈیکاربنائزیشن نہ صرف ملک کے معاشی اور توانائی کے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے بلکہ ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے بھی ضروری ہے انہوں نے دلیل دی کہ پاکستان جیسی ترقی پذیر قوموں کو اس منتقلی کو آسان بنانے کے لیے ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز اور مالیاتی آلات تک رسائی حاصل ہونی چاہیے پائیداری کے لیے قانون سازی کی کوششوں اور ترغیبات کے درمیان ایک متوازن نقطہ نظر ضروری ہے اس کے لیے مختلف سطحوں پر صلاحیت کی تعمیر اور حکمت عملیوں کے انضمام کی ضرورت ہے جو زراعت سمیت متعدد شعبوں کو گھیرے ہوئے ہیںجو اخراج سے متعلق متنوع ڈیٹا سیٹس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں. انہوں نے کہاکہ وہ پاکستان کے لیے صنعتی ڈیکاربنائزیشن میں ایک رہنما کے طور پر ابھرنے کا ایک اہم موقع دیکھ رہے ہیں ضروری انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرکے اور تعلیم کو ترجیح دے کر ملک اس عالمی تحریک میں سب سے آگے کھڑا ہوسکتا ہے ان کا خیال ہے کہ یہ اقدامات نہ صرف ماحولیاتی استحکام میں معاون ثابت ہوں گے بلکہ پاکستان کی معیشت کے لیے ایک اوپر کی رفتار کو بھی سپورٹ کریں گے، پائیدار ترقی اور جدت کو فروغ دیں گے. پرائیویٹ فنانسنگ ایڈوائزری نیٹ ورک کے سابق قومی تکنیکی ماہرحماد بشیر نے اس خیال کو تقویت دی کہ ڈیکاربونائزیشن کو محض گرین واشنگ کے بجائے ایک جائز کاروباری معاملے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے انہوں نے صنعتوں کو درپیش چیلنجوں کو تسلیم کیا لیکن اپنی مرضی کے مطابق حل تیار کرنے کی اہمیت پر زور دیا جو ماحولیاتی مقاصد کو اقتصادی حقائق سے ہم آہنگ کرتے ہیں. انہوں نے راک فیلر فاﺅنڈیشن کے کول ٹو کلین پروگرام جیسے کامیاب عالمی اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کوئلے سے قابل تجدید توانائی کے ذرائع تک منتقلی کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی انہوں نے نشاندہی کی کہ ترقی یافتہ ممالک بھی کم کاربن والی صنعتوں کی طرف منتقلی سے دوچار ہیں اور اسٹیل اور سیمنٹ جیسے شعبوں کو اہم شعبوںکے طور پر شناخت کیا جہاں اختراعی پیداواری عمل اخراج میں خاطر خواہ کمی حاصل کر سکتے ہیں. انہوں نے کاربنائزیشن کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے سرکاری اور نجی شعبوں کے درمیان تعاون پر زور دیا انہوں نے دلیل دی کہ شراکت قائم کرنے سے علم کے اشتراک، وسائل کو متحرک کرنے اور مقامی سیاق و سباق کے مطابق اختراعی ٹیکنالوجیز کی ترقی میں سہولت ہو سکتی ہے ایک ماحولیاتی نظام کو فروغ دینے سے جو سبز ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، ملک نہ صرف اپنی صنعتی مسابقت کو بڑھا سکتا ہے بلکہ ابھرتے ہوئے شعبوں میں روزگار کے مواقع بھی پیدا کر سکتا ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے توانائی کے انہوں نے کے لیے کی طرف
پڑھیں:
معاشی ترقی کی رفتار تیزی کی جانب گامزن
عالمی بینک پاکستان میں دس برس کے دوران بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، دس سالہ شراکت داری فریم ورک میں 6 اہم شعبوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے،پاکستان ان شاء اللہ یقیناً معاشی بلندیوں کو چھوئے گا ، ہم مل کر پاکستان کو عظیم بنائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی بینک کے کنٹری پارٹنر شپ فریم ورک کے افتتاح کے بعد تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے گزشتہ کچھ عرصے میں اپنی اقتصادی صورتحال کی بہتری بالخصوص شرح سود کو کم کرنے کے حوالے سے جو اقدامات اٹھائے ہیں اور اس سلسلے میں جو نتائج حاصل کیے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ ابھی بہت پرانی بات نہیں کہ ملک کی اقتصادی صورتحال اس قدر بگڑ چکی تھی کہ اس کے ڈیفالٹ کرجانے کی باتیں ہونے لگی تھیں، مہنگائی روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہی تھی اور غریب آدمی کا جینا مشکل ہو چکا تھا۔
اس تمام تر صورتحال سے ایک دم نکلنا تو خیر ناممکن سی بات تھی لیکن ایک بدترین صورتحال کا مقابلہ کرنا اور پھر تیزی سے بہتری کی جانب سفر کرنا بھی یقیناً کوئی آسان بات نہ تھی۔ بلاشبہ اب تک کی حاصل ہونے والی کامیابیاں ایک مستحکم معاشی حکمت عملی اور موثر پالیسی سازی کا نتیجہ ہیں، جنھوں نے مالیاتی استحکام اور اقتصادی ترقی کے لیے راستہ ہموار کیا ہے۔
اسی طرح حکومت نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کے قیام کی منظوری دے کر سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کا اہم قدم اٹھایا ۔ عالمی بینک نے پاکستان کے لیے 10 سالہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کا باضابطہ اجراء کردیا ہے۔ دستاویز کے مطابق 2026 سے 2035 کے دوران پاکستان کے لیے اہم سماجی و معاشی اہداف مقرر کیے گئے ہیں جب کہ عالمی بینک اگلے دس سال کے دوران پاکستان کو 20 ارب ڈالر فنڈز فراہم کرے گا۔
غربت، چائلڈ اسٹنٹنگ میں کمی اور موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنا، کلین انرجی، بہتر ایئر کوائلٹی، عوامی شمولیت کے ذریعے پائیدار ترقی، نجی سرمایہ کاری، روزگار اور تجارت میں اضافہ بنیادی اہداف میں شامل ہیں۔عالمی بینک نے بتایا کہ حکومت نے مالیاتی، توانائی اور کاروباری شعبے میں اصلاحات متعارف کرائی ہیں جس کا مقصد معاشی ترقی کی رفتار تیز کرنا ہے تاہم ماضی کی ناکامیوں کی وجہ سے اعتماد کا فقدان پایا جاتا ہے۔
پاکستان میں دوست ممالک کی جانب سے 27 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں سے سعودی عرب نے پانچ ارب ڈالر، یو اے ای اور کویت نے 10، 10 ارب ڈالر جب کہ آذربائیجان نے دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ یعنی مواقعے پاکستان کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں، پالیسی ریٹ کی کمی سے کاروباری سرگرمیوں میں تیزی آئے گی، ملک میں بیرونی سرمایہ کاری آرہی ہے جب کہ یہ وہ تمام اعشاریے ہیں جو حکومتی اصلاحات کے نتیجے میں سامنے آرہے ہیں۔ پچھلی حکومت نے چین کو مجبور کردیا تھا کہ وہ سی پیک سے ہاتھ کھینچ لے وہ دوبارہ سی پیک فیز ٹو کے لیے پوری طرح آمادہ ہے اور پاکستان کے ساتھ پانچ نئے کوریڈورز شروع کرنے کے لیے اپنی حمایت کی یقین دہانی کراچکا ہے۔سعودی کان کنی کی کمپنی منارا منرلز کی طرف سے بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کاری کی خبر خوش آیند ہے۔
سعودی کمپنی نو ارب ڈالر کے عوض 10سے 20فیصد حصص خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سعودی کمپنی کی سرمایہ کاری سے نہ صرف اس منصوبے میں تیزی آئے گی بلکہ دیگر غیر ملکی کمپنیاں بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی طرف راغب ہوسکتی ہیں۔ ویسے تو شرح سود، شرح نمو اور افراط زر جیسے الفاظ کا سر ا کسی بھی ملک کی اقتصادی صورتحال سے ہی جا کر ملتا ہے۔ یعنی کسی ایک چیز کا درست ہونا دوسری پر خودبخود اثر انداز ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی مہنگائی کی شرح میں کمی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو موقع فراہم کیا کہ وہ سود کی شرح کو کم کر سکے۔
اس کے علاوہ، حکومت کی جانب سے مالیاتی خسارے کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے، جن میں بجٹ خسارے کو کم کرنے اور غیر ضروری اخراجات کو محدود کرنے پر توجہ دی گئی۔ ان اقدامات نے معیشت پر دباؤ کو کم کیا اور سرمایہ کاری کے لیے زیادہ سازگار ماحول پیدا کیا۔اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 25-2024 کی پہلی ششماہی میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری سالانہ 20 فیصد بڑھ گئی۔پاکستان کا دسمبر 2024 کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس 582 ملین ڈالر تک جا پہنچا جس کو ماہرین ملکی معیشت میں نئے انقلاب کی علامت قرار دے رہے ہیں۔
عالمی اقتصادی فورم نے گلوبل رسک رپورٹ 2025 جاری کر دی جس میں پاکستان کی معاشی صورتحال پر قابل اطمینان نقطہ نظر اور اعتماد کا اظہارکیاگیاہے۔ رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ معاشی چیلنجز کے باوجود پاکستان معاشی استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے، اس ملک نے کڑے چیلنجز کے باوجود درست اقدامات کی بدولت معاشی کامیابیاں حاصل کیں۔ڈبلیو ای ایف نے خطے میں اسلحے کی دوڑ کے باوجود پاکستان کی محتاط سوچ کی تعریف کی اوراسے لائق تحسین قراردیا۔ دنیا بھر میں فوجی بجٹ میں اضافہ ہوا لیکن پاکستان اسلحے کی اس دوڑ کا حصہ نہیں بنا۔شرح سود میں کمی کے عمومی فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگوں کی خریداری کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔
کم سود پر قرضے لینے کی سہولت کے ذریعے وہ ان ضروری اشیاء تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جو پہلے ان کی پہنچ سے باہر تھیں۔ اس سے مجموعی طور پر زندگی کا معیار بہتر ہوتا ہے اور لوگوں کا اعتماد بحال ہوتا ہے۔مختصراً یہ کہ شرح سود میں کمی معیشت کے تمام پہلوؤں پر مثبت اثر ڈالتی ہے اور عام شہریوں کی زندگی میں خوشحالی کا باعث بنتی ہے۔شرح سود کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے ایک اہم عنصر ہے، جو قرضوں، سرمایہ کاری اور مجموعی معاشی سرگرمیوں پر اثر انداز ہوتا ہے، جب مرکزی بینک شرح سود میں کمی کرتا ہے تو اس کے اثرات ہر سطح پر محسوس کیے جاتے ہیں، خاص طور پر عام شہریوں پر۔ پاکستان کو توانائی کے خسارے کا سامنا ہے، قابل تجدید توانائی کے ذرایع میں بھی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ ماضی قریب میں ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر میں خاص طور پر موبائل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ سروسز کی توسیع کے ساتھ نمایاں غیر ملکی سرمایہ کاری دیکھنے میں آئی ہے۔
اس وقت بھی بڑی ٹیلی کام کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہشمند ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کاروباری ماحول کو بہتر بنانے اور موجودہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مسلسل کوششیں جاری رکھی جائیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری بھی سود کی شرح میں کمی کی ایک وجہ بنی۔ برآمدات میں اضافہ، بیرونی سرمایہ کاری میں بہتری اور دوست ممالک سے مالی معاونت نے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کیا۔ اس استحکام نے روپے کی قدر کو سہارا دیا اور مہنگائی کے دباؤ کو کم کیا، جس سے سود کی شرح کم کرنے میں مدد ملی۔ اس سلسلے میںمالیاتی شعبے کی اصلاحات نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
بینکوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے، نادہندہ قرضوں کو کم کرنے اور ڈیجیٹل بینکاری کو فروغ دینے جیسے اقدامات نے معیشت کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ ان اصلاحات نے مالیاتی نظام کی کارکردگی کو بڑھایا اور معیشت میں لیکویڈیٹی کو بہتر بنایا، جس نے سود کی شرح کو کم کرنے کے عمل کو تقویت دی۔ ترقی یافتہ ممالک میں ترقی پذیر ممالک سے افرادی قوت کے انخلاء کا مسئلہ بھی گھمبیر ہے۔ یہ عمل صرف اس لیے ہے کہ موخرالذکر ممالک میں ملازمتوں کے مواقعے کم اور اول الذکر ممالک میں زیادہ ہیں جس کی اہم وجہ وہاں صنعت کاری ہے۔
جب تک ترقی پذیر ممالک میں صنعت کاری نہیں ہو گی، یہ عمل جاری رہے گا۔ نیو یارک ٹائمز میں حال ہی میں ایک رپورٹ شایع ہوئی ہے کہ پاکستان کی سب سے زیادہ ایکسپورٹ وہاں کی انفرادی قوت ہے۔ بھلا کیوں؟ اگر پاکستان میں صنعت کاری ہو اور وہاں ملازمت کے مواقعے ہوں تو یہاں سے افرادی انخلاء کیوں ہو؟ پھر ان افراد پر ان غریب ممالک میں تعلیم وغیرہ پر خرچ ہوتا ہے۔ وقت ضیاع ہوتا ہے۔
یعنی ان پر خرچ غریب ممالک کریں اور اس سے استفادہ امیر ممالک کریں۔ بہرحال اس عمل کے جاری رہنے سے کوئی بھی ملک سیاسی، معاشی اور سماجی خودمختاری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس امر کا سدباب نہایت ضروری ہے۔ مشرق ہو یا مغرب، امریکا ہو یا روس، یورپ ہو یا ایشیاء یالاطینی امریکا، ان سب کو باہمی ترقی کے لیے راستے نکالنے ہونگے۔
عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی بھی ایک مثبت عنصر ثابت ہوئی۔ تیل کی قیمتوں میں کمی نے پاکستان کے درآمدی بل کو کم کیا اور تجارتی خسارے میں کمی کا سبب بنی، جس نے اقتصادی توازن کو بہتر بنایا۔ ان عوامل کے علاوہ، حکومت اور اسٹیٹ بینک نے قلیل المدتی اور طویل المدتی پالیسی اقدامات کا امتزاج استعمال کیا۔ مانیٹری پالیسی میں نرمی، کاروباری طبقے کے لیے قرضوں کی سہولت، اور معاشی ترقی کے منصوبوں پر توجہ جیسے اقدامات نے اس عمل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مزیدعلاقائی تعاون کو بڑھا کر پاکستان مزید استحکام حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے،خطرات کو مواقع میں تبدیل کرنے کی صلاحیت مستقبل کا تعین کرے گی اجتماعی عزم کے ساتھ پاکستان خود کو ابھرتے ہوئے عالمی منظر نامے میں اہم کھلاڑی کے طور پر کھڑا کر سکتا ہے۔