چارلی ہیبڈو حملہ کیس: فرانس کی عدالت سے 6 پاکستانیوں کو 3 سے 30 سال تک قید کی سزا
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
پیرس کی ایک عدالت نے گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے میگزین چارلی ہیبڈو کے سابق دفتر کے باہر 2 افراد کو چاقو کے وار سے قتل کرنے کی کوشش کرنے والے ظہیر محمود سمیت 6 پاکستانیوں کو 3 سے 30 سال تک قید کی سزا سنا دی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق 29 سالہ ظہیر محمود نے جب یہ حملہ کیا تو وہ لا علم تھے کہ’فرانسیسی میگزین’ کا دفتر اب اس عمارت میں نہیں ہے۔
درحقیقت چارلی ہیبڈو نے القاعدہ سے منسلک 2 نقاب پوش مسلح افراد کی جانب سے اپنے دفتر پر دھاوا بولنے کے بعد دفتر دوسری جگہ منتقل کر دیا تھا، القاعدہ کے اس حملے میں میگزین کے ادارتی عملے کے 8 ملازمین سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
جنوری 2015 میں ہونے والی ان ہلاکتوں نے فرانس کو ہلا کر رکھ دیا تھا، اظہار رائے اور مذہب کی آزادی کے بارے میں شدید بحث چھڑ گئی تھی، جس کے بعد فرانس میں ’جے سوئس چارلی‘ (’میں چارلی ہوں‘) کی یکجہتی لہر ابھر کر سامنے آئی تھی۔
بنیادی طور پر پاکستان کے دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والے ظہیر محمود 2019 کے موسم گرما میں غیر قانونی طور پر فرانس پہنچے تھے۔
اس سے قبل عدالت نے سماعت کی تھی کہ کس طرح ظہیر محمود، پاکستانی مبلغ خادم حسین رضوی سے متاثر تھے، جنہوں نے توہین مذہب کرنے والوں کے سر ’تن سے جدا‘ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ظہیر محمود کو اقدام قتل اور دہشت گردی کی سازش کا مجرم قرار دیا گیا تھا اور جب سزا پوری ہوجائے گی تو ان پر فرانس میں پابندی عائد کردی جائے گی۔
سنہ 2015 میں ہونے والی خونریزی، جس میں مشرقی پیرس کی ایک سپر مارکیٹ میں یرغمال بنائے جانے کا واقعہ بھی شامل تھا، فرانس کے لیے ایک تاریک دور کا آغاز تھا۔
القاعدہ اور دولت اسلامیہ سے متاثر انتہا پسندوں نے بعد کے کئی برسوں میں بار بار حملے کیے ، جس سے فرانس خطرے میں پڑ گیا اور مذہبی تناؤ میں اضافہ ہوا۔
انتقام
2015 کے قتل عام کے مقدمے کی سماعت کے آغاز کے موقع پر چارلی ہیبڈو نے 2 ستمبر 2020 کو گستاخانہ خاکے دوبارہ شائع کیے تھے۔
اسی ماہ کے آخر میں پاکستانی مبلغ (خادم حسین رضوی) کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کا بدلہ لینے پر زور دینے کے بعد ظہیر محمود چارلی ہیبڈو کے سابق دفتر کے سامنے پہنچے۔
ایک قصائی کے چاقو سے لیس ہو کر ظہیر محمود نے پریمیئرز لیگنس نیوز ایجنسی کے 2 ملازمین کو شدید زخمی کر دیا تھا۔
مقدمے کی سماعت کے دوران ان کے وکیل نے دلیل دی کہ ظہیر کے اقدامات فرانس سے گہری دوری کا نتیجہ تھے، کیوں کہ ان کی پرورش پاکستان کے دیہی علاقوں میں ہوئی تھی۔
ظہیر محمود کے وکیل البرک ڈی گیارڈن نے اعتراف کیا کہ ’ وہ کبھی پاکستان سے باہر نہیں گئے تھے’۔
انہوں نے کہا کہ وہ فرانسیسی نہیں بولتے، وہ پاکستانیوں کے ساتھ رہتے ہیں، وہ پاکستانیوں کے لیے کام کرتے ہیں۔
’میرے اندر کچھ ٹوٹ گیا‘
چارلی ہیبڈو کی جانب سے 2020 میں گستاخانہ خاکے دوبارہ شائع کرنے کے فیصلے کے بعد پاکستان میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے، جہاں توہین مذہب کی سزا موت ہے۔
5 دیگر پاکستانی افراد، جن میں سے کچھ اس حملے کے وقت نابالغ تھے، ظہیر محمود کے ساتھ دہشت گردی کی سازش کے الزام میں مقدمے کا سامنا کر رہے تھے کہ انہوں نے ملزم کے اقدامات کی حمایت اور حوصلہ افزائی کی تھی۔
فرانسیسی دارالحکومت کی نابالغوں کے لیے خصوصی عدالت نے ظہیر محمود کے شریک مدعا علیہان کو تین سے 12 سال قید کی سزا سنائی۔
کٹہرے میں کھڑے 6 افراد میں سے کسی نے بھی فیصلے پر رد عمل ظاہر نہیں کیا۔
سزا سنائے جانے کے موقع پر دونوں متاثرین موجود تھے، لیکن انہوں نے مقدمے کے نتائج پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
اس سے قبل سماعت کے دوران دونوں متاثرین میں سے ایک نے عدالت کو بتایا تھا کہ اس نے موت کے قریب پہنچنے کے تجربے کے بعد ’طویل بحالی‘ کا سامنا کیا۔ 37 سالہ متاثرہ شخص نے کہا کہ اس واقعے نے میرے اندر کچھ توڑ دیا تھا۔
دونوں متاثرہ فرانسیسی شہریوں نے ملزم کی جانب سے معافی کی درخواست قبول کرنے سے انکار کرد یا تھا۔
ظہیر محمود کے وکلا نے ابھی تک یہ اشارہ نہیں کیا ہے کہ آیا ان کے موکل فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے یا نہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ظہیر محمود کے کی جانب سے دیا تھا کے بعد کی سزا
پڑھیں:
9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس، پراسیکیوشن کے مزید 4 گواہان کے بیان قلمبند
انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) راولپنڈی میں 9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس اڈیالہ جیل میں سماعت ہوئی۔
اے ٹی سی راولپنڈی کے جج امجد علی شاہ نے سماعت کی، بانی پی ٹی آئی کو کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ دیگر ملزمان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
جی ایچ کیو حملہ کیس: ’راجا بشارت مظاہرین کو اکساتے رہے‘، گواہان کا بیانگواہان نے ملزمان سے برآمد ہونے والے ثبوت بھی عدالت میں پیش کیے۔
دوران سماعت مقدمے میں پراسیکیوشن کے مزید 4 گواہان نے اپنے بیانات قلم بند کرالیے، جن میں اے ایس آئی شہزاد، ہیڈ کانسٹیبل عمران اختر، کانسٹیبل زبیر صدیقی اور انوار شامل ہیں۔
9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس میں مجموعی طور پر 9 گواہان نے بیانات قلمبند کرائے ہیں۔
اے ٹی سی راولپنڈی نے بانی پی ٹی آئی اور شیریں مزاری سمیت دیگر ملزمان کی بریت کی درخواستوں پر 25 جنوری کو دلائل طلب کرلیے ہیں۔