نیب کا عوام کو بحریہ ٹاﺅن کے دبئی پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کا مشورہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 جنوری ۔2025 )نیب نے عوام کو بحریہ ٹاﺅن کے دبئی پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کا مشورہ دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ملک ریاض کے دبئی اپارٹمنٹس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے خلاف منی لانڈرنگ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی. نیب کی جانب سے جاری اعلامیہ میں واضح کہا گیا ہے کہ بحریہ ٹاﺅن کے مالک کے خلاف دھوکا دہی اور فراڈ کے کئی مقدمات زیر تفتیش ہیں نیب کے پاس مضبوط شواہد ہیں کہ ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاﺅن کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی اور نیو مری میں نہ صرف سرکاری، بلکہ نجی اراضی پر بھی قبضہ کرکے بغیر اجازت ہاﺅسنگ سوسائٹیز قائم کیں اور لوگوں سے اربوں روپے کا فراڈ کیا.
(جاری ہے)
نیب اعلامیے میں دعویٰ کیا گیا کہ ملک ریاض نے بحریہ ٹاﺅن کے نام پر پشاور، جامشورو سمیت کئی شہروں میں زمین پر قبضہ کرکے ہاﺅسنگ سوسائٹیز بنائی ہیں اور لوگوں سے بھاری رقوم بٹور رکھی ہیں ملک ریاض اس وقت برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے مقدمے میں عدالتی مفرور ہے جو عدالت اور نیب دونوں کو مطلوب ہے نیب بحریہ ٹاﺅن کے پاکستان کے اندر بے شمار اثاثے پہلے ہی ضبط کرچکا ہے اور مزید اثاثوں کو ضبط کرنے کے لیے قانونی کاروائی کرنے جارہا ہے. نیب کے مطابق حکومت پاکستان بھی فوری طور پر اس اہم معاملے پر دبئی کی حکومت سے رابطہ کر کے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی نیب نے کہا ہے کہ دبئی میں روپوش ملک ریاض کی حوالگی کے حوالے سے دبئی حکام سے رابطے میں ہیں. اس سلسلہ میں برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں سابق نیب پراسیکیوٹر شاہ خاور نے کہا کہ نیب کی انکوائری کے تین مرحلے ہوتے ہیں جس میں پہلے شکایت ہوتی ہے پھر انکوائری اور اس کے بعد تفتیش کا عمل ہوتا ہے نیب کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک ریاض کا معاملہ ابتدائی مرحلے طے کر چکا ہے اس لیے نیب نے ملک ریاض کے نام اثاثے منجمد کر دیے ہیں . شاہ خاور نے کہا کہ اثاثے منجمد ہونے کے بعد مزید سرمایہ کاری کے لیے تو نیب نے عوام کو روک دیا ہے جو سرمایہ کاری ہو چکی ہے یا جو لوگ بحریہ میں رہائش پذیر ہیں وہ نیب کے فریزنگ آرڈر کے خلاف نیب میں ہی اعتراضات داخل کرا سکتے ہیں وہاں اگر سنوائی نہیں ہوتی تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا فورم موجود ہے جہاں سے وہ بنیادی حقوق کے تخفظ کے لیے رجوع کر سکتے ہیں. انہوں نے کہا کہ نیب کی جانب سے اثاثے منجمد کیے جانے کے دوران اعتراض داخل کرانے کے لیے 15 دن کا وقت ہوتا ہے اگر 15 دن کا وقت گزر چکا ہے تو براہ راست ہائی کورٹ بھی رجوع کیا جا سکتا ہے شاہ خاور کا کہنا تھا کہ ملک ریاض کے اثاثے منجمد ہونے کے بعد بحریہ ٹاﺅن میں پہلے سے خرید و فروخت کرنے والے اب مزید زمین یا گھر فروخت نہیں کر سکیں گے لیکن وہ اپنے گھروں میں رہتے رہیں گے عدالت جب قبضے کی زمین پر بنے بحریہ ٹاﺅن کا حتمی فیصلہ کرے گی تو تب ہی وہاں کے رہائشیوں کی قسمت کا فیصلہ ہو گا سیکرٹری اسلام آباد ہائی کورٹ بار شفقت عباس تارڑ کی رائے شاہ خاور سے مختلف ہے انہوں نے بتایا کہ بحریہ ٹاﺅن کے رہائشی جو بیس پچیس برسوں سے رہ رہے ہیں وہ ایک طویل مدتی معاہدہ ہے جو انہوں نے ادائیگی کر کے قانونی طور پر حاصل کیا ہے اس لیے میری سمجھ کے مطابق ان پر نیب کے ملک ریاض کے خلاف اس حکم نامے کے اثرات مرتب نہیں ہوں گے. نیب نے بیان میں کہا ہے کہ ملک ریاض نیب اور عدالت دونوں کو مطلوب ہیں اور اس وقت عدالتی مفرور کی حیثیت سے دبئی میں مقیم ہیں نیب کے اقدامات پر دبئی میں مقیم بحریہ ٹاﺅن کے ملک ریاض نے سوشل میڈیا اکاﺅنٹ کے ذریعے اپنے ردعمل میں 190 ملین پاﺅنڈز کیس کا حوالہ دیا کہ ایک گواہی کی ضد کی وجہ سے بیرون ملک منتقل ہونا پڑا میرا کل بھی یہ فیصلہ تھا آج بھی یہ فیصلہ ہے چاہے جتنا مرضی ظلم کر لو ملک ریاض گواہی نہیں دے گا. ملک ریاض نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان میں کاروبار کرنا آسان نہیں، سالوں کی بلیک میلنگ، جعلی مقدمے اور افسران کی لالچ کو عبور کیا نیب کا آج کا بے سروپا پریس ریلیز دراصل بلیک میلنگ کا نیا مطالبہ ہے میں ضبط کرہا ہوں لیکن دل میں ایک طوفان لیے بیٹھا ہوں اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو پھر سب کا بھرم ٹوٹ جائے گا.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بحریہ ٹاﺅن کے سرمایہ کاری ملک ریاض کے کہ ملک ریاض شاہ خاور کے خلاف نیب کے کے لیے نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
سعودی کمپنی منارامنرلز پاکستان کے ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کاری کیلئے تیار
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی کان کنی کی کمپنی منارا منرلز پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے میں 50 کروڑ سے ایک ارب ڈالر کے عوض 10 سے 20 فیصد حصص خریدے گی۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ نے فائنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ منصوبے کی لین دین کی بات چیت کے حوالے سے آگاہ ذرائع نے بتایا ہے کہ منارا منرلز حکومت پاکستان سے ریکوڈک منصوبے میں شیئرز خریدے گی۔ منارا منرلز کے عہدیداروں نے گزشتہ سال مئی میں ریکوڈک کان میں حصص خریدنے کے بارے میں بات چیت کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا اس کمپنی کے پاس پاکستان کے ساتھ مشترکہ طور پر اس منصوبے کی ملکیت ہے۔ رپورٹ کے مطابق منارا منرلز منصوبے میں 9 ارب ڈالر کے عوض 10 سے 20 فیصد حصص خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ خیال رہے کہ منصوبے میں کان کنی کی کمپنی بیرک گولڈ 50 فیصد حصص کی مالک ہے جبکہ بقیہ شیئرز حکومت پاکستان (25 فیصد) اور صوبہ بلوچستان (25فیصد) کی ملکیت ہیں۔ اگست 2024 میں، بیرک گولڈ کے چیف ایگزیکٹو نے کہا تھا کہ ان کی کمپنی پاکستان کی ریکوڈک سونے اور تانبے کی کان کے منصوبے میں سعودی عرب سرمایہ کاری کو لانے کے لیے تیار ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے حکومتی عہدیدار بھی ملک میں سعودی سرمایہ کاری پر زور دے رہے ہیں۔ خیال رہے کہ ریکوڈک منصوبہ سیاسی اور عدالتی تنازع کا شکار رہا ہے تاہم مزید پیش رفت ہونے پر کان سے 2028 تک سونے اور تانبے کی پیداوار شروع ہوسکتی ہے۔ بیرک گولڈ کے ابتدائی تخمینے کے مطابق پہلے مرحلے میں کان کے لیے 5 ارب 50 کروڑ ڈالر سے زاید کی سرمایہ کی ضرورت درپیش ہوگی، اس مرحلے میں سالانہ بنیادوں پر 2 لاکھ ٹن تانبے اور ڈھائی لاکھ اونس سونے کی مقدار پیدا کی جاسکے گی۔ علاوہ ازیں توسیع کے تحت منصوبے کے لیے اضافی 3 ارب 50 کروڑ ڈالر درکار ہوں گے جو مذکورہ پیداواری صلاحیت کو دگنا کردے گی، اس کے تحت سالانہ بنیادوں پر 4 لاکھ ٹن تانبے اور 5 لاکھ لاکھ اونس سونے کی مقدار پیدا ہوگی۔