امام محمد بن عمر بن واقد
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
ایک غریب عورت نے قاضی کی عدالت میں مقدمہ درج کیا کہ “اشرافیہ میں سے ایک شخص نے میرے حقوق لوٹ لئے ہیں ” قاضی نے مقدمے کا جائزہ لیا ،دلائل سنے اور یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ غریب عورت حق پر ہے اس کے حقوق ادا کئے جائیں ” ۔یہ بغداد کے قاضی امام واقدی تھی ۔مامون الرشید کادور خلافت تھا ،اشرافیہ کے لئے یہ سوچنا بھی محال تھا کہ اس دور میں اس کے خلاف ایسافیصلہ آسکتا ہے ،مگر فیصلہ آگیا ،جس پر عمل بھی ہوگیا ۔لوگ انگشت بدنداں تھے اور وہاں کے علما بھی جن کا یہ خیال تھا کہ امام واقدی خلیفہ کا گماشتہ ہے ،اشرافیہ کا نمائندہ ہے وہ اس کے خلاف فیصلہ کیسے دے سکتا ہے ۔امام محمد بن عمر بن واقد الاسلمی قبیلہ بنی اسلم میں 747 میں شہر نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ میں پیدا ہوئے ۔اصحاب رسول کی بستی میں جنم لینے والے واقد کے بیٹے نے مدینہ منورہ ہی میں وہاں کے جید علما اور ممتاز محدثین کے حضور زانوئے تلمذطے کیا اور فقط اس علم کے حصول تک محدود نہیں رہے بلکہ حدیث، تاریخ اور مغازی کی موضوعات میں گہری دلچسپی لی۔یہی وجہ تھی کہ کم عمری ہی میں قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد دیگر علوم میں مہارت کے لئے اپنے زمانے کے بڑے علما فضلا کے دامن علم میں پناہ لی اور جلد ہی ان کا اپناشمار بھی ماہر معلم دین میں ہونے لگا۔واقدی کی دلچسپی کا اہم موضوع سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورغزوات نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ٹھہرا ۔محمد بن عمر الواقدی نےوقت کے انتہائی معروف و مشہور علمائے کرام مثلا امام مالک بن انس ،ابن ابی ذنب اور متعدد دوسرے ماہر اساتذہ سے فیض علم کی پیاس بجھائی۔انہوں نے اپنے لئےجو خاص موضوع چنا وہ سیرت النبی اور علم المغازی تھا یوں انہوں نے “علم المغازی” کے بانی کا اعزاز حاصل کیا اور ان کی تصنیف” کتاب المغازی” سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے موضوع کے اہم ترین مصادر میں شمار ہوئی ہے۔اسلامی تاریخ کے حوالے سے انہوں نے جس کام کا بیڑہ اٹھایا اس وقت وہ بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد کام تھا کہ خلافت راشدہ اوربنو امیہ کی تاریخ مدون کی جس میں انہوں نے عرب سیاست، ان کی عسکری خدمات اور معاشرتی زندگی کےحوالے سےان کا شجرہ تحریر کیا۔
اس میں شک نہیں کہ امام واقدی نے اپنے عہد کے بڑے اساتذہ سے علم حدیث کا استفادہ کیا اور انہیں سے متعددروایات نقل فرمائیں مگر محدثین عصرکی ان کے بارے یہ رائے رہی کہ “امام واقدی ضعیف احادیث کے راوی ہیں ” مگر ان کی تاریخی روایات پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی گئی۔امام واقدی نےعرب قبائل کی تاریخ اور ان کےجغرافیائی حالات پر بھی سیر حاصل لکھا جسے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا اور تسلیم کیا گیا۔امام واقدی نے لکھنے کا بہت سارا کام کیا اور ان کی بہت ساری تصنیفات منصہ شہود پر آئیں مگر بہت ساری کتب ایسی بھی تھیں جو مرور زمانہ کے بے رحم ہاتھوں ضائع ہوئیں۔تاہم ان کی جامع دستاویز کتاب المغازی،کتاب الردہ ،کتاب تاریخ القریش اور کتاب الفتوح زمانے کی دست برد سے بچ گئیں ۔
امام واقدی کی جس تصنیف کو شہرت دوام نصیب ہوئی وہ “کتاب المغازی ” ہے جو اسلامی تاریخ اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوالے سے انتہائی اہم کتاب تصور کی جاتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عہد میں برپا ہونے والی جنگوں کے واقعات تحریر کرنے کے ساتھ ساتھ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قیادت میں برپا ہونے والی مبازرتوں کا ذکر ہے اور ان غزوات کی جنگی حکمت عملیوں کا بیان ہے جنہیں فقط غزوات کی تاریخ ہی نہیں بلکہ ان معرکوں کی سیاسی، سماجی اور اخلاقی اثرات کا خوبصورت تجزیہ بھی کہا جاسکتا ہے ۔کتاب المغازی تین جلدوں پر مشتمل ہے ،جن میں سرزمین مکہ پر مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانےوالے ظلم تعدی اور مکہ سے ہجرت فرما جانے کے بعدقریش مکہ کے ساتھ ہونے والے سرایا و غزوات یعنی غزوہ بدر،غزوہ احد اور دیگر غزوات کی تفصیلات کا بیان ہے۔علاوہ ازیں صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے اسباب و واقعات کی تفصیل ہے ۔پھر ریاست مدینہ کے قیام و استحکام کے حوالے حالات و واقعات خو دلکش و خوبصورت پیرایہ اظہار دیا۔ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آخری غزوات خصوصا غزوہ تبوک کا ذکر۔ان تمام امور کے باوصف کہ امام واقدی کی علمی گہرائی اور مستحکم دلائل کی جھلک ان کے ہر فیصلے میں صاف و شفاف دکھائی دیتی تھی ،تاریخ ،فقہ اور حدیث کے علوم میں ان کی مہارت کو تسلیم کیا جاتا تھا مگر ان کے ہم عصر انہیں ثقہ راوی نہیں مانتے تھے ۔ان کے قضایا کی غیر جانبداری، فلاح وبہبود ،فوجداری اور مالی معاملات کی شفافیت ،ان کی بصیرت، سماجی اصلاحات اور مخلوق خدا کے حقوق کا تحفظ سب تسلیم مگر ان کے ایک امر کی وجہ سے کہ وہ خلیفہ وقت کے پشت پناہ تھے اور اسکےہر عمل کو روا گردانتے تھے اس لئے علما و فقہا میں متنازع رہے۔یحی بن معین نے واقدی کے اقوال تک کو ثقاہت سے تعبیر کیا اور امام بخاری رح نے ” التاریخ الکبیر ” واقدی ضعیف ہونے کے بارے صاف الفاظ میں بیان فرمایا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کتاب المغازی امام واقدی سیرت النبی واقدی نے کی تاریخ انہوں نے کیا اور اور ان
پڑھیں:
ایک اور میثاق جمہوریت تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی. رانا ثنا اللہ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15 اپریل ۔2025 )وزیر اعظم کے مشیر اور مسلم لیگ (ن ) کے سینئر رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ سیاسی مسائل کو اسٹیبلشمنٹ سے گفتگو کرکے حل کرلیں گے،سیاسی مسائل صرف اس وقت حل ہوں گے جب سیاسی قیادت ٹیبل پر بیٹھے گی، جب تک ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تب تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی.(جاری ہے)
نجی ٹی وی سے گفتگو میں رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اپنے معاملات میں بری طرح الجھتی جارہی ہے اور جب تک یہ جماعت الجھی رہے گی پاکستانی سیاست کو بھی الجھائے رکھے گی، یہ جس راستے پر جانا چاہتے ہیں اس سے جمہوریت مضبوط نہیں ہوگی، یہ جس راستے پر جانا چاہتے ہیں اس سے ان کو کوئی منزل نہیں ملے گی. مشیر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کہا جا رہا ہے ہم نے اپنے مسائل اسٹیبلشمٹ سے بات چیت کر کے حل کرنے ہیں، یہ مسائل ایسے حل نہیں ہوں گے ، جب سیاسی قیادت سر جوڑے گی حل ہوں گے لیکن عمران خان کہتے ہیں میں نے اسٹیبلشمٹ سے ہی بات کرنی ہے. انہوں نے کہا کہ مذاکراتی کمیٹیز میں جو گفتگو ہوئی سب کو پتا ہے کہ وہاں سے کون چھوڑ کر بھاگا تھا؟ یہ لوگوں کے گھروں تک جا کر ذاتی طور پر زچ کرتے ہیں، عون عباس کو جس طرح گرفتار کیا گیا میں نے اس کی مذمت کی تھی رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ جہاں سے راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں وہاں سے نہیں ملے گا، پی ٹی آئی دور میں ہر طرح کے مسائل موجودہ دور سے زیادہ تھے، اگر سیاسی مسائل بھی حل ہوں تو جو معاملات ایک سال میں حل ہوں ایک ماہ میں ہوں. ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں میں تقاریر اور خطابات میں بڑی بڑی باتیں ہوجاتی ہیں، میرا یقین ہے جب تک سیاسی جماعتیں بیٹھ کر بات نہیں کریں گی اور ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تو موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی.