Express News:
2025-04-15@09:51:30 GMT

غزہ میں پائیدار امن کے تقاضے

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ بندی کے نافذ ہونے کے ساتھ ہی اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے عمل کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔ حماس سے جنگ بندی کے مخالف انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر بن گویر عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ جنگ بندی ڈیل کا پہلا مرحلہ عارضی ہے، دوسرا مرحلہ بے نتیجہ رہا تو جنگ دوبارہ شروع کریں گے۔

جنگ کے آغاز سے ہی امریکا اور اسرائیل جنگ بندی کی مخالفت کرتے رہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق جنگ بندی سے صرف حماس کو فائدہ ہوگا۔ جنگ کو روکنے کے لیے امریکا کی طرف سے کی گئی سفارتی کوششوں پر نظر ڈالی جائے تو امریکا کی کوششیں مخلصانہ جدوجہد کم اور دکھاوا زیادہ معلوم ہوتی ہیں، کیونکہ جنگ کے آغاز سے امریکا، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی قراردادوں کو ویٹو کرنے میں پیش پیش رہا ہے۔

واشنگٹن جنگ بندی کے بجائے شہریوں کے تحفظ کے لیے لڑائی میں وقفے کی حمایت کرتا رہا ہے جس کی بدولت حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی اور غزہ کے لیے انسانی امداد کی فراہمی کی اجازت ملتی رہی ہے۔

جنگ بندی کا یہ معاہدہ بھی انھی کوششوں کی ایک کڑی اور امریکا کی روایتی پالیسی کا جزو معلوم ہوتی ہے۔ تین مرحلوں پر مشتمل اس جنگ بندی کے معاہدے کی کامیابی کے کیا امکانات ہیں؟ یہ ایک پیچیدہ اور مشکل سوال ہے جس کا حتمی جواب دینا مشکل ہے۔

البتہ کچھ ایسے نکات ہیں جو حماس اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے سیز فائر کے معاہدے کی کامیابی کے امکانات پر سوالیہ نشانات اٹھاتے ہیں۔ اسرائیل کے اہم جنگی مقاصد میں سے ایک حماس کی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کو تباہ کرنا تھا، اگرچہ اسرائیل نے اسے شدید نقصان پہنچایا ہے، لیکن حماس اب بھی دوبارہ منظم ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو، جنھوں نے کئی مہینوں تک جنگ بندی کی مزاحمت کی ہے اور اس بات پر اصرار کرتے رہے ہیں کہ حماس کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے، اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسرائیلی اسیروں کی بازیابی کے بعد نیتن یاہو دوبارہ جنگ شروع کر سکتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح حماس کو معاہدے کی ناکامی کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔

نیتن یاہو کا ظاہراً مقصد فلسطینی گروہ کو سزا دینا ہوگا جب کہ حقیقت میں وہ اپنی سیاسی بقا کو یقینی بنانے کے لیے یہ قدم اٹھائیں گے۔ ماضی میں بھی اسرائیل کا طرز عمل یہی رہا ہے۔ بین الاقوامی کرائسز گروپ کے ساتھ وابستہ اسرائیل اور فلسطین کے امور کی ماہر مائراو زونزین کے مطابق’’ اسرائیل جنگ بندی کو توڑنے اور یہ ظاہر کرنے میں بہت اچھا ہے کہ یہ اس کی غلطی نہیں تھی۔‘‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل ایک غاصب طاقت ہے اور مشرق وسطیٰ پر اپنی اجارہ داری اور اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتا ہے جب کہ سپر پاور کی حیثیت سے امریکا کبھی فلسطینیوں کے لیے مخلص نہیں رہا۔

بلکہ امریکا، اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے حماس سمیت فلسطینی مزاحمتی گروہوں کا صفایا کرنے بالخصوص غزہ پر حماس کا کنٹرول ختم کرنے کی پالیسی پر اسرائیلی حکومت کا مددگار رہا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن ہوگئی ہیں۔ اسرائیل، یہودی بستیوں کی توسیع جاری رکھے ہوئے ہے اور فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی اور فلسطینی علاقوں سے ان کے انخلاء کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

دوسری طرف بہت سے اسرائیلی سیاست دان آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کے لیے کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ مئی 2024اور جنوری 2025میں واحد فرق صرف ڈونلڈ ٹرمپ کا ہے۔ صدر جو بائیڈن نے امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس کو انٹرویو دیتے ہوئے صدارتی دفتر میں اپنے آخری ایام کے بارے میں بتایا کہ کیسے علیٰ الاعلان خود کو صہیونی کہنے والے بائیڈن، وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کی خود سری کے آگے بے بس تھے۔

معاملے کو سمجھنے کے لیے ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن کے انٹرویوز دیکھیے یا انھیں پڑھیں کہ کیوں وہ غزہ میں نسل کشی کی حمایت کرتے رہے، اسے فنڈنگ اور ہتھیار مہیا کرتے رہے۔ اب واضح ہوچکا کہ اسرائیل کی جنگ، صرف حماس کے خلاف نہیں تھی بلکہ وہ تو ’’گریٹر اسرائیل‘‘ بنانے کے اپنے پروجیکٹ پر کارفرما تھا۔

چند بہادر اور مزاحمتی فلسطینیوں کے علاوہ تو غزہ اب مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ مغربی کنارے کی آبادی پر بھی اپنی زمینیں چھوڑنے کے لیے دباؤ ہے، اگرچہ لبنان میں بھی خاموشی ہے لیکن مشکلات کا سامنا کرنے والی حزب اللہ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ شام کے دفاعی نظام کو بھی مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ہے جب کہ ملک جزوی طور پر قبضے میں ہے۔

ایک بار پھر اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ یہ ’’دریا سے سمندر تک‘‘ علاقے کو کنٹرول کررہا ہے۔ اسرائیل کی کامیابی کا سہرا امریکا کی فراہم کردہ فضائی قوت کو بھی جاتا ہے جوکہ خطے میں سب سے طاقتور فضائی فورس ہے اور اس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کرسکتا۔

اقوامِ متحدہ نے بھی اسرائیل کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ سلامتی کونسل میں امریکا اور یورپی ممالک کی حمایت حاصل کر کے اسرائیل نے نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھا جب کہ انھوں نے اسرائیل کو عسکری اور مالیاتی امداد فراہم کیں جوکہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

صرف امریکا ہی سالانہ بنیادوں پر اسرائیل کو اربوں ڈالرز کے دفاعی ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ ایک مطالعہ کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز کے 12 ماہ میں امریکا نے اسرائیل کو 17.

9 ارب ڈالرز کی فوجی معاونت فراہم کی۔ دوسری جانب نسل کشی میں امریکا کے کردار کو دیکھتے ہوئے سوڈان کے قحط، عراق اور شام میں غیرقانونی جنگ میں امریکی کردار کے حوالے سے سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔

تاہم نسل کشی نے بہت سی چیزیں بدل کر رکھ دی ہیں۔ اس پورے المیے میں عالمی قوانین، معاہدوں اور بین الاقوامی اداروں کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی ہے۔ سیکولرازم اور انسانی حقوق جو کہ بین الاقوامی قانون کی بنیاد ہیں، ان کی خلاف ورزی کی گئی جس کی وجہ سے دنیا میں شمال اور جنوب کی بنیاد پر شدید تقسیم پائی جاتی ہے۔ یہ تو واضح ہوچکا ہے کہ سفید فام اکثریت رکھنے والے مغربی ممالک اب اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ دنیا کی قیادت کرسکیں۔

یہ بھی سامنے آچکا ہے کہ یہود مخالف اور ہولو کاسٹ کے قوانین صہیونیوں اور اسرائیل کو تحفظ فراہم کرتے ہیں کہ جن کے تحت ان پر تنقید کرنے والوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا بلکہ انھیں ’’ ٹرول‘‘ کیا جاتا ہے۔اب مغربی میڈیا قابلِ بھروسہ نہیں رہا۔

یہ سفید فاموں کا ساتھ دیتا ہے جب کہ ان کی جانبداری کھل کر سامنے آچکی ہے۔ ان کے نمایندگان امریکا اور یورپ سے مفادات کے عوض جھوٹی کہانیاں گھڑتے ہیں۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکی عوام سمجھتے ہیں کہ ان کے انتخابات اور پالیسیز اسرائیل کی حمایت کرنے والی بڑی عالمی کمپنیز سے متاثر ہیں جب کہ امریکی خارجہ پالیسی بڑی حد تک اسرائیل کے مفادات پر مبنی ہے۔

عوام بالخصوص امریکا میں مایوسی بھی پائی جاتی ہے کیونکہ شہریوں کا گمان ہے کہ ان کے ٹیکس کی رقوم اسرائیل کو مالی امداد اور ہتھیاروں کی فراہمی میں استعمال ہو رہی ہے۔ امریکا میں نوجوانوں کی اکثریت، اسرائیل کی نسل کش مہم کے خلاف ہے جب کہ امریکا اور یورپی ممالک کے مرکزی شہروں میں واقع کالجز کے کیمپسز اور سڑکوں پر جس طرح نوجوانوں نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے، اس نے مغربی نوجوانوں کی سوچ کی عکاسی کی۔

یہ مظاہرے مغربی ممالک کی تاریخ میں منفرد اہمیت کے حامل ہیں۔ نوجوان اس بات پر بھی برہم ہیں کہ اسکول اور یونیورسٹیز میں انھیں جن اقدار کا درس دیا جاتا ہے، دنیا تو ان سے رہنمائی لیتی ہی نہیں۔ وہ اب رہنمائی کے لیے کسی نئے متبادل کی تلاش میں ہیں۔

دوسری جانب پرانے سیاست دان میڈیا کے تعاون سے معاملات جیسے ہیں، انھیں ویسے ہی رکھنے کی کوششوں میں ہیں۔ مغرب کے لیے نسل کشی کی حمایت کا مقصد ’’ گریٹر اسرائیل‘‘ کا قیام تھا جو کہ مشرقِ وسطیٰ اور اس کے بے پناہ وسائل کو کنٹرول کرے، تاہم ’’گریٹر اسرائیل‘‘ ایک ایسی آبادی پر مشتمل ہوگا جہاں اکثریت اسرائیل اور مغرب کی پالیسیز کے خلاف ہوگی جب کہ وہ ایک متبادل عالمی آرڈر کی تلاش میں ہوں گے۔

پائیدار امن تنازع کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے اور غزہ سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور اسرائیل میں بنیادی تبدیلیوں کا تقاضا کرتا ہے۔ غزہ کا 17 سال سے جاری محاصرہ ختم ہونا چاہیے اور اسرائیل اس علاقے کو غیر مشروط طور پر خالی کرے جسے عالمی برادری فلسطینی ریاست کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ امن کا دارو مدار نسل پرستی اور نسلی عصبیت کے خاتمے سے مشروط ہے جیسا کہ جولائی 2024 میں عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے اپنے احکامات میں کہا تھا اور تمام اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مساوی حقوق یقینی بنائے جانے چاہئیں۔

گزشتہ پندرہ ماہ تک جاری رہنے والے وحشیانہ تشدد سے متاثر ہونے والے لاکھوں لوگوں کو جنگی جرائم، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم پر انصاف درکار ہے۔ طویل عرصے سے جاری قبضے اور نسلی عصبیت کا خاتمہ اور مظالم پر انصاف کی یقینی فراہمی ہی خطے میں تشدد کے سلسلے کا خاتمہ کرنے اور پائیدار امن کے قیام کی ضمانت ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور فلسطینی اور اسرائیل جنگ بندی کے اسرائیل کے امریکا اور اسرائیل کی اسرائیل کو نیتن یاہو امریکا کی کی حمایت کرتے رہے ہے جب کہ کے خلاف ا ہے کہ کے لیے ہیں کہ اور اس ہے اور رہا ہے

پڑھیں:

غزہ جنگ بند کرنے کی ضمانت دیں تو تمام یرغمالیوں کی رہا کردیں گے؛ حماس کی پیشکش

حماس نے ثالث کاروں کے سامنے ایک بار پھر غزہ میں اسرائیلی جارحیت میں معصوم انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے قابلِ عمل حل کی پیشکش رکھ دی۔

عرب میڈیا کے مطابق حماس کے ایک سینئر عہدیدار طاہر النونو نے کہا ہے کہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ اسرائیل غزہ میں جنگ ختم کرنے، اپنی افواج واپس بلانے اور انسانی امداد کی فراہمی کی ضمانت دے۔

ان خیالات کا اظہار حماس کے نمائندے نے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں مصر، قطر اور امریکا کے ثالثوں سے مذاکرات کے بعد وطن واپس روانہ ہوتے ہوئے کیا۔

حماس کے سینئر رہنما نے اسرائیل پر جنگ بندی میں پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ یرغمالیوں کی تعداد کا نہیں بلکہ اسرائیل کی طرف سے معاہدے پر عمل درآمد سے انکار اور جنگ جاری رکھنے کا ہے۔

ادھر، حماس کے رہنما طاہر النونو نے اسرائیل کی یہ بے جا شرط کہ حماس ہتھیار ڈال دے، کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کا ہتھیار ڈالنا ابھی مذاکرات کا موضوع ہی نہیں ہے۔

طاہر النونو نے یہ بھی کہا کہ حماس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کو معاہدے پر عمل کرنے کے لیے عالمی ضمانتیں دی جائیں۔

ادھر اسرائیلی نیوز ویب سائٹ Ynet نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک نیا معاہدہ حماس کے سامنے پیش کیا گیا ہے، جس کے تحت امریکا نے 10 زندہ یرغمالیوں کے بدلے اسرائیل کو جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے کی ضمانت دی ہے۔

رپورٹس کے مطابق اس وقت مذاکرات اس لیے تعطل کا شکار ہیں کیونکہ یرغمالیوں کی تعداد پر اختلافات ہیں۔ اس وقت بھی 58 افراد غزہ میں یرغمال ہیں جن میں سے 34 کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس صورتحال میں اسرائیلی مہم جو گروپ یرغمالیوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کا فورم نے مرحلہ وار رہائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ طریقہ قیمتی وقت ضائع کرتا ہے اور تمام یرغمالیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ صرف ایک ہی موزوں اور مؤثر حل ہے اور وہ جنگ کا خاتمہ اور تمام یرغمالیوں کی ایک ساتھ فوری رہائی ہے۔

یاد رہے کہ پہلی جنگ بندی 19 جنوری کو شروع ہوئی تھی، جو دو ماہ چلی اور اس دوران قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ بھی ہوا تاہم یہ بعد میں ناکام ہوگئی۔

 

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل حماس جنگ بندی کیلئے ہونیوالے مذاکرات بغیر کسی پیشرفت کے ختم
  • مصری تجویز مسترد: حماس کا جنگ بندی معاہدے کے لیے غیر مسلح ہونے سے انکار
  • غزہ جنگ بند کرنے کی ضمانت دیں تو تمام یرغمالیوں کی رہا کردیں گے؛ حماس کی پیشکش
  • جنگ کے خاتمے کی ضمانت ملے تو یرغمالیوں کو رہا کر دیں گے، حماس
  • غزہ میں مستقل جنگ بندی کی ضمانت پر یرغمالی رہا کر دیں گے، حماس
  • اسرائیل طاقت کے ذریعے قیدیوں کو نہیں چھڑا سکتا، حماس
  • کراچی میں ’غزہ ملین مارچ:‘ جماعت اسلامی کا اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان
  • اسرائیل حماس سے شکست کھا چکا، مسلم حکمران غیرت کا مظاہرہ کرکے خاموشی توڑیں، حافظ نعیم الرحمان
  • احتساب کو مئوثر بنانے کے تقاضے
  • حماس کی جانب سے صہیونی قیدیوں کی رہائی کے لیے شرائط