براعظم افریقہ کی بربادی میں یورپی اقوام کا کردار
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 جنوری 2025ء) پُرتگال وہ پہلا یورپی مُلک تھا، جس نے گِنی بساؤ، موزمبیق اور افریقہ کے دوسرے ملکوں پر قبضہ کر کے انہیں اپنی کالونی بنایا۔ پھرافریقہ سے کچھ افراد کو غلام بنا کر پرتگال لایا گیا۔ ان غلاموں کی محنت و مشقت کو دیکھ کر لاطینی امریکہ میں ہسپانیوں نے افریقی غلاموں کو لا کر ان سے سونے چاندی کی کانوں میں کام کروایا۔
اس وقت امریکہ میں جہاں برطانوی شہریوں نے مقامی لوگوں سے زمینیں چھین کر اپنے بڑے بڑے پلانٹیشن بنائے ہوئے تھے اور انہیں کام کے لیے مزدُوروں کی ضرورت تھی۔ تو وہاں بھی افریقہ سے لوگوں کو لا کر کام کروایا گیا۔
کیریبیئن جزائر میں بھی شکر کے کارخانوں کے لیے مزدور چاہیے تھے۔ چنانچہ لیور پول برسٹل اور مانچسٹر کے تاجروں نے افریقی غلاموں کا کاروبار شروع کیا۔
(جاری ہے)
اس کاروبار میں افریقہ کے قبائلی سردار بھی شامل تھے، جو لوگوں کو پکڑ کر یورپی تاجروں کو فروخت کرتے تھے۔ جب افریقی غلاموں کی ایک بڑی تعداد امریکہ میں آئی تو یہاں رنگ کی بنیاد پر نسلی امتیاز پیدا ہوا۔ سفید فام برتر نسل کے ہوئے اور افریقی کمتر۔جب برطانوی تاجروں نے غلام بنا کر لوگوں کی خرید و فروخت کا یہ کاروبار شروع کیا تو اس سے انہوں نے بے انتہا دولت کمائی۔
اب برطانیہ کے سرمایہ داروں میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ افریقی براعظم جو اب تک اُن کے لیے ایک نامعلوم دنیا تھی اُسے دریافت کیا جائے اور اُس کے فطری ذرائع کو حاصل کر کے دولت میں مزید اضافہ کیا جائے۔ اس موضوع پر کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ایک مصنف H.
اولین جماعت تاجروں، شکاریوں اور مہم جوؤں کی تھی، جو افریقہ سے کاٹن، شکر اور ہاتھی کے دانت لاتے تھے۔ یہ کارواں کی شکل میں سفر کرتے تھے۔ افریقی ان کا سامان سروں پر لاد کر سفر کرتے تھے اور موسم کی شدت کو برداشت کرتے تھے۔ ان دنوں میں یہ سفر تیس میل تک کا ہوتا تھا۔ اگر کوئی غلام سُستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرتا یا کام سے انکار کرتا تو اُس کو کوڑے مارے جاتے تھے۔
سفید فام لوگوں کا یہ خیال تھا کہ افریقیوں میں نہ جذبات ہوتے ہیں اور نہ ہی احساسات۔ تجارتی سامان کے ساتھ ساتھ یہ افریقی عورتوں سے جِنسی تعلقات بھی رکھتے تھے۔رچرڈ برٹن جنہوں نے الف لیلی کا انگریزی ترجمہ کیا تھا۔ جب وہ افریقہ کے سفر پر گئے تو بتایا گیا ہے کہ وہ ہر منزل پر افریقی عورتوں سے جنسی تعلقات قائم کرتے تھے۔ اس گروپ میں وہ افراد بھی شامل ہوتے تھے جو افریقی سرداروں اور اُن کے خاندان کا بیماری کی صورت میں علاج معالجہ کر کے اُن سے مراعات لیتے تھے۔
دوسری جماعت مشنریز کی تھی۔ ان میں کیتھولِک اور پروٹسٹنٹ دونوں شامل تھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ افریقہ کے لوگوں کا مذہب تبدیل کرا کر انہیں مسیحی بنایا جائے۔ دونوں جانب سے کئی نوجوان مذہب کی تبلیغ کے لیے افریقہ آئے۔ ان میں کافی تعداد اُن کی تھی جو موسم کی خرابی اور مَلیریا کی وجہ سے جلد مر گئے۔ لیکن مشنریز کی تعداد میں کمی نہیں ہوئی۔
اُن کا خیال تھا کہ افریقیوں کا کوئی ایک مضبوط مذہب نہیں ہے اس لیے اُنہیں آسانی سے مسیحی بنایا جا سکتا ہے۔ مشنریز کو فنڈز دینے والی ایجنسیوں کو جو اُمید تھی وہ تو پوری نہیں ہوئی مگر تبلیغ کی وجہ سے کچھ افراد نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا۔ مشنریز کی تبلیغ میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ لیکن اُنہیں مقامی زبانیں سیکھ کر بائبل کا ترجمہ کرنا ہوتا تھا۔اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ڈیوڈ لونگسٹوں۔ انہوں نے تنہا افریقہ کے دُور دراز علاقوں کا سفر کر کے اُن کے بارے میں معلومات اکھٹی کیں تھیں۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر اُنہوں نے برطانیہ اور افریقہ کے بارے میں نئی تجاویزات دیں۔ یہ وہ وقت تھا جب برطانیہ میں بہت غربت تھی۔ بے روزگار نوجوان آوارہ گردی کرتے تھے، اور بھیک مانگ کر اپنا گزارا کرتے تھے۔
Livingstone کی تجویز یہ تھی کہ سینٹرل افریقہ کے ممالک میں آبادی کم ہے اور زمینیں خالی پڑی ہیں۔ اس لیے اگر برطانیہ کے بے روزگار اور غرباء کو یہاں لا کر آباد کیا جائے اور اُنہیں یہ زمینیں دیں جائیں تو کاشکاری کے ذریعے وہ خوشحال ہو جائیں گے۔ ساتھ ہی افریقی لوگ بھی ان سے مغربی تہذیب سیکھیں گے اور اپنی جہالت کو ختم کریں گے۔اس کے مقابلے میں دوسری تجویز یہ تھی کہ افریقیوں کو پہلے مہذب بنایا جائے پھر اُن کا مذہب تبدیل کیا جائے۔لیکن برطانوی حکومت نے Livingstone کی تجویز کو مانتے ہوئے بڑی تعداد میں سفید فام لوگوں کو سینٹرل افریقہ کے مُلکوں میں بھیجا، جہاں اُنہوں نے زمینوں پر قبضہ کر کے افریقیوں کو غلام بنا کر اُن سے کھیتی باڑی کرائی۔ جس کی وجہ سے افریقی معاشرے میں سفید فام برتر ہو گئے، اور افریقی اپنے ہی گھر میں اُن کے غلام بن گئے۔ سفید فام آبادیوں نے نسلی تعصب کو پیدا کیا اور یہی وہ تعصب تھا، جس نے جنوبی افریقہ میں اپرتھائیڈ کی حکومت قائم کی۔
نسلی تعصب کی وجہ سے افریقیوں میں مزاحمت کم ہو گئی۔ اُن کی زرعی پیداوار اور معدنیات کو سفید فام اقوام لوٹ کر لے گئیں، اور بلاآخر اُنیسویں صدی میں تمام افریقی براعظم میں یورپی اقوام نے اپنی کالونیز قائم کر کے طاقت کے ذریعے افریقی براعظم کو برباد کیا۔ دوسری عالمی جنگِ کے بعد افریقی مُلکوں میں آزادی کی تحریکیں اُٹھیں اور اپنی جدوجہد اور قتل و غارت گری کے باوجود اُنہوں نے یورپی سامراج سے نجات حاصل کی۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے افریقہ کے کہ افریقی کی وجہ سے کیا جائے سفید فام کرتے تھے کر کے ا کے لیے
پڑھیں:
سکردو، صیہونی مظالم کیخلاف تحریک بیداری کے زیر اہتمام ریلی
مقررین نے کہا کہ جی بی کے پہاڑوں میں موجود معدنیات یہاں کے عوام کے ہیں ہم کسی کو ان پر ہاتھ ڈالنے کی اجازت نہیں دینگے۔ متعلقہ فائیلیںاسلام ٹائمز۔ فلسطین میں جاری انسانیت کشی و نسل کشی کے خلاف تحریک بیداری امت مصطفی بلتستان کے زیر اہتمام مرکزی امامیہ جامع مسجد تا یادگار شہداء اسکردو احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ یادگار شہداء پر شرکاء سے ممبر مشاورتی کونسل انجمن امامیہ بلتستان شیخ ذوالفقار علی انصاری اور تحریک بیداری کے شیخ منظور حسین نے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت کی اور کہا کہ قرآنی آیات کی رو سے یہود ونصاری تمہارے کبھی بھی دوست نہیں ہو سکتے اور یقینا 56 اسلامی ممالک اس آیت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوستی قائم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایک یا دو ملک ایسے ہیں ان آیات پر عمل پیرا ہیں اور یہود و نصارٰی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کو 75 سالوں سے جی بی کو نہ آئینی حقوق دینے کی توفیق ہوئی نہ متنازعہ علاقے کے حقوق دینے کی توفیق ہوئی۔ لیکن یہاں کے معدنیات پر نظریں جمائے ہوئے ہیں تو ہم اس اجتماع کے توسط سے بتانا چاہتے ہیں کہ جی بی کے پہاڑوں میں موجود معدنیات یہاں کے عوام کے ہیں ہم کسی کو ان پر ہاتھ ڈالنے کی اجازت نہیں دینگے۔