کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) اسرائیل کی تاریخ وعدہ خلافی کی ہے‘ حماس کیساتھ معاہدے پر کار بند نہیں رہے گا‘غالباًنیتن یاہوعالمی دبائو کی وجہ سے معاہدے کی پاسداری پر مجبور ہوںگے ‘صیہونی فوج میں بغاوت ہوسکتی ہے ‘حماس کو شکست نہیں دی جاسکی‘ طاقتور جب چاہے سمجھوتا توڑ سکتا ہے‘ یہودیوں ،عیسائیوںنے اپنی توانائی کومجتمع کرنے کے لیے سمجھوتا کیا، مسلم ممالک بھی فائدہ اٹھائیں۔ان خیالات کا اظہار تحریک حماس پاکستان کے ترجمان ڈاکٹر خالد قدومی، جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما، چترال سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی‘اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مفتی محمد زبیر‘ معروف صحافی، سینئر تجزیہ کار میاں منیر احمد‘ معروف تجزیہ کار اور کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف صدیقی اور ویمن اسلامک لائرز فورم کی سابق چیئرپرسن طلعت یاسمین ایڈووکیٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا اسرائیل حماس سے معاہدے پر کاربند رہے گا؟‘‘ ڈاکٹر خالد قدومی نے کہا کہ دیکھیں اسرائیل کی ایک لمبی داستان ہے کہ وہ کبھی ا فہام و تفہیم یا مذاکرات پر عمل نہیں کرتا‘ اگرچہ اس نے معاہدے پر دستخط بھی کردیے ہیں‘ حماس کو معاہدے سے 2،3 دن پہلے اس کی تیاری کرنے کے لیے وقت دیاگیا تھا اور اسرائیل نے بھی اسے قبول کیا اور اس معاہدے کی شرائط کی قطر، مصر اور امریکا نے بھی گارنٹی دی ہے ‘ معاہدے سے پہلے حماس نے بتادیا تھا کہ کوئی نسل کشی اورکوئی حملہ نہیں ہوگا لیکن ہوا یہ کہ جس دن حماس نے پریس کانفرنس کی اور معاہدہ کا اعلان کیا اس روز حماس کے 82 افراد کو اسرائیل نے بمبارمنٹ میں شہید کردیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی نیت خراب ہے‘ اسرائیل پر عالمی دباؤ اور مجاہدین کی کامیابی اور فلسطینیوں کے ثابت قدم رہنے کی وجہ سے شاید اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکے پاس اب کوئی اور راستہ نہیں ہوگا کہ وہ معاہدے کے مطابق خاص طور پر اپنے اس پہلے مرحلے پر مکمل طور پر عمل درآمد کریں‘ فلسطین القدس کے وقت مطابق اتوار کے روز 4بجے دوپہر کو معاہدے پر عملدرآمد شروع ہوگا اب دیکھیں گے کہ یہ اپنے وعدے پر عمل کرتے ہیں یا نہیں‘ اگر اسرائیل معاہدے عمل نہیں کرے گا تو اسرائیلی یرغمالی کبھی رہا نہیں ہوں گے‘ عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ اس مقام پر جہاں اسرائیل نے ہمارے 82 افراد شہید کیے تھے‘ اس بمباری میں ایک یہودی یرغمالی خاتون بھی ہلاک ہو گئی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت کو اپنی عوام کی بھی کوئی فکرنہیں ہے وہ اپنے شہریوں کو بھی قتل کر سکتے ہیں اور کرے بھی رہے ہیں‘ ہم اچھی نیت سے معاہدے کے لیے گئے تھے تاکہ حماس فلسطینیوں کو جو اسرائیلی کی قید میں ہیں انہیں واپس لا سکے‘ حماس تحریک مزاحمت اور جدوجہد کو جاری رکھے گا‘ اسرائیل قابل شکست ہے‘ ان تمام افراد کو سلام پیش کرتے ہیں جو اس عظیم اور مقدس لڑائی میں شریک ہوئے ۔ مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ یہ اسرائیل کی اب مجبوری ہے کہ وہ حماس سے معاہدے پر کاربند رہے کیونکہ وہ حماس کو شکست نہیں دے سکے اور 15ماہ تک انہوں نے جنگ لڑی اور انہوں نے حماس کے خلاف ہر قسم کے ہتھیار استعمال کیے‘ فضائی اور زمینی حملے کیے اور ان کے گھروں کو تباہ کیا ان کے اسپتالوں کو جس طرح نست ونابود کیا اس کے باوجود بھی حماس کے لوگوں کی ہمت اور جرأت کسی صورت کم نہ ہو سکی ہے‘ ایک تو وجہ یہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسرائیلی فوج کے اندر سے بھی کچھ بغاوت کی خبریں آ رہی ہیں اگر یہ مصدقہ ہیں تو یہ اسرائیل کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہے کہ اگر وہ دوبارہ جنگ کا آغاز کرتا ہے تو اس کی فوج میں بغاوت ہو سکتی ہے ‘ تیسری بات یہ ہے کہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہونے کے بعد پھر اس کو توڑنا ان کے لیے مشکلات کا باعث ہوگا۔مفتی محمد زبیر نے کہا کہ اسرائیل اور حماس کا معاہدہ اس اعتبار سے تو قابل تحسین ہے کہ ایک لمبے عرصے سے حماس اور بالخصوص غزہ کے عوام پر جس طرح آگ کی بمباری جاری تھی اس میں کمی آئے گی لیکن لگتا نہیں ہے کہ اسرائیل اس معاہدے پر کاربند رہ سکے کیونکہ اسرائیل کی تاریخ ہمیشہ وعدے توڑنے کی رہی ہے‘ پوری اس تاریخ کو دیکھتے ہوئے ان سے کوئی زیادہ خوشگمانی کرنا مناسب نہیں ہوگا‘ جنگ کے محاذ پر غزہ کے لوگوں نے بھرپور فتح کے جھنڈے گاڑے اور خوب داد تحسین پائی ہے‘ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے تاہم اب ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر عرب ممالک کی کانفرنس اور او آئی سی کانفرنس بلائی جائے اور وزرائے خارجہ کی سطح پر مستقل اور پائیدار حل کی طرف جایا جائے‘ القد س کو دارالحکومت قرار دیا جائے ‘ فلسطین میں حماس کی حکومت کو حقیقی طور پر تسلیم کیا جائے۔میاں منیر احمد نے کہا کہ اسرائیل، حماس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے امریکا کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے جہاں اقتدار کی منتقلی کا مرحلہ آچکا ہے اور 4سالہ میعاد پوری کرکے رخصتی کی تیاری کرنے والے صدر جوبائیڈن اور نومنتخبڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی تشویش کا باعث بننے والی صورتحال کے خاتمے کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ اسرائیل امن معاہدے کی پاسداری کے وعدے پر کس حد تک اور کتنی مدت تک قائم رہے گا؟ اس کے ماضی کے کردار کی روشنی میں حتمی طور پر کچھ کہنا آسان نہیں تاہم واشنگٹن کو عالمی امن کے مفاد میں کردار کرنا چاہے گا تو معاہدہ موثر ہوسکتا ہے‘ اس معاہدے سے 15 سے زاید عرصہ سے جاری جنگ کے خاتمے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ محمد عارف صدیقی نے کہا کہ اسرائیل میں بنیادی طور پر 2 طرح کے صیہونی آباد ہیں ان میں سے ایک گروہ جس کی تعداد نسبتاً کم ہے وہ تو الٹرا آرتھو ڈوکس یہودی ہیں جن کا تعلق یہود کے 12 قبائل کی جو شاخیں ہیں ان سے ہے دوسرے وہ غیر یہود جو بنیادی طور پر صیہونی ہیں‘ یہ اشک نازی یہود یا وائٹ اینگلو سیکسن پروٹسٹنٹ یہود کہلاتے ہیں یہ دونوں قبائل وائٹ اینگلو سیکسن پروٹسٹنٹ یا اشک نازی بنیادی شیطان کی پوجا کرنے والے قبائل تھے جنہوں نے صیہون کا مذہب اوڑھا اور یہودیوں میں آ ملے دوسری طرف آرتھوڈوکس یہودی ہیں‘ اب اگر آپ ان دونوں یہودیوں و صیہونیوں کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں تو یہ بات واضح ہے کہ اس قوم نے ہمیشہ بد عہدی کی، انہوں نے پیغمبروں تک سے بد عہدی اور بے وفائی کی یہ وہ قوم ہے جن کی تاریخ اس بات سے عبارت ہے کہ ان پر اعتبار نہیں کیا جانا چاہیے‘ آپ کو یاد ہوگا کہ مدینہ میں موجود قبائل بھی رسول کریم ؐ کے ساتھ معاہدے پر قائم نہیں رہ سکے تھے اور مسلمانوں کے خلاف اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے انہوں نے بارہا عہد شکنی کی جس کے نتیجے میں رسول اللہ کے دور میں بھی ان کی سرزش و تعدیب کی گئی‘ اس کے بعد کی تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ جب جب اس قوم نے کسی دوسری قوم کے ساتھ معاہدہ کیا تو یہ صرف اس وقت تک اس معاہدے پر کاربند رہے جب تک وہ معاہدہ ان کے حق میں بہتر رہا اور جب ذرا سی بھی ان کے مفادات پر ضرب پڑی تو اس معاہدے کو یہ لوگ بلا جھجک توڑ ڈالتے تھے‘ اس کی وجہ ان کی مذہبی کتب ہیں اگر آپ ان کی مذہبی کتب کا مطالعہ کریں تو وہاں غیر یہودیوں کو جنٹائل اور گوئم کے نام سے پکارا گیا ہے یعنی 2 ٹانگوں والے جانور اور ان کی مذہبی کتب کے مطابق غیر یہود کا خون، جان مال سب کچھ ان پر حلال ہے اور ان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی کوئی اہمیت نہیں ‘ یہ وہ بدبخت قوم ہے جو پیغمبروں تک سے بے وفائی اور عہد شکنی کر چکی ہے تو ہمارے ساتھ بھی یہی کرے گی‘ ہم دوسری بات عہد حاضر میں دیکھتے ہیں اس کے مطابق طاقتور اور کمزور کے درمیان جب معاہدہ ہوتا ہے تو طاقتور جب چاہے معاہدہ اس لیے توڑ ڈالتا ہے‘ اس سے اس پر عمل درآمد کروانے کی طاقت کسی میں نہیں ہوتی‘ اب اس معاہدے پر عمل درآمد کروانے کی طاقت کیا مسلم حکمرانوںمیں ہے‘ توجواب ہے کہ وہ تو صرف اپنے اقتدار کو طول دینے میں مصروف ہیں‘ انہیں فلسطین اہل فلسطین یا غزہ کے شہدا و مظلوموں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘ اس کے بعد اگر آپ بین الاقوامی اداروں کو دیکھیں تو وہ ہمیشہ سے صیہونی اور صلیب کی لونڈی بنے نظر آتے ہیں‘ اقوام متحدہ کے معاملات اور قراردادیں سب کے سامنے ہیں‘ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے فیصلے ردی کی ٹوکری میں پڑے ہیں‘ اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کروانے کی کسی میں جرأت نہیں ہے‘ اگر آپ اسی تناظر میں اس معاہدے کو دیکھیں تو یہ معاہدہ صرف وقتی طور پر جنگ بندی کے لیے کیا گیا ہے تاکہ دشمن یعنی صیہون اور صلیب ایک مرتبہ پھر سے اکٹھے اور اپنی توانائی کو مجتمع کر سکیں‘ غزہ میں موجود سرنگوں کے جال کو توڑنے کی کوئی تدبیر سوچ سکیں‘ مسلم ممالک پر دباؤ ڈال کر انہیں فرنٹ مین کے طور پر اسرائیل کے حق میں اور اہل غزہ کے خلاف استعمال کرنے کی پلاننگ کر سکیں یہ معاہدہ اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ اسرائیل وقت لینے کے لیے یہ معاہدہ کر رہا ہے اور بہت جلد اس معاہدے سے پھر جائے گا اب یہ ہم مسلمانوں پر ہے کہ وہ بھی اس وقفے سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اپنی طاقت کو مجتمع کریں‘ مسلم حکمرانوں کو غیرت دلوائیں اور ایک اور بات بہت اہم ہے کہ جنگ بندی کے بعد ہمیں اہل غزہ کے لیے زیادہ سے زیادہ امداد اکٹھی کرنی چاہیے۔ طلعت یاسمین ایڈووکیٹ نے کہا کہ جہاں تک اسرائیل کی تاریخ ہے تو اسرائیل حماس سے معاہدے پر بالکل بھی کار بند نہیں رہے گا‘ کوئی نہ کوئی بہانہ وہ ڈھونڈے گا‘ بلاشبہ وعدہ خلافی اور کہہ مکرنی کی تاریخ اسرائیل سے زیادہ اچھی کس کی ہو گی ۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: معاہدے پر کاربند اسرائیل کی تاریخ معاہدے پر کار اس معاہدے پر کہ اسرائیل سے معاہدے معاہدے سے نے کہا کہ انہوں نے ہے کہ اس ہے کہ وہ نہیں ہے اگر ا پ کے لیے غزہ کے رہے گا کے بعد اور ان

پڑھیں:

غزہ میں مستقل جنگ بندی کی ضمانت پر یرغمالی رہا کر دیں گے، حماس

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اپریل 2025ء) فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے آج پیر 14 اپریل کو کہا ہے کہ ان کی تنظیم ''قیدیوں کے سنجیدہ تبادلے‘‘ اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کی اسرائیلی ضمانتوں کے بدلے تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب حماس قاہرہ میں مصر اور قطر کے ثالثوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ غزہ میں جنگ بندی کے لیے بات چیت میں مصروف ہے۔

دوحہ اور قاہرہ کے نمائندے امریکہ کے ساتھ مل کر غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کے لیے سر گرم ہیں۔ حماس کے ایک سینئر اہلکار طاہر النونو نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم قیدیوں کے تبادلے کے ایک سنجیدہ معاہدے، جنگ کے خاتمے، غزہ پٹی سے اسرائیلی افواج کے انخلاء اور انسانی امداد کے داخلے کے بدلے تمام اسرائیلی اسیروں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

(جاری ہے)

‘‘

تاہم انہوں نے اسرائیل پر جنگ بندی کی جانب پیش رفت میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا، ''مسئلہ قیدیوں کی تعداد کا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ اسرائیل اپنے وعدوں سے مکر رہا ہے، جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کو روک رہا ہے اور جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ’’اس لیے حماس نے قابض (اسرائیل) کو معاہدے کو برقرار رکھنے پر مجبور کرنے کے لیے ضمانتوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

‘‘ دوسری جانب اسرائیلی نیوز ویب سائٹ Ynet نے پیر کو اطلاع دی ہے کہ تل ابیب کی جانب سے حماس کو ایک نئی تجویز پیش کی گئی ہے۔

اس تجویز کے تحت حماس زندہ بچ جانے والے دس یرغمالیوں کو رہا کرے گا، جس کے بدلے میں امریکی ضمانت کے تحت اسرائیل جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے بات چیت میں داخل ہو گا۔ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ، جو 19 جنوری کو شروع ہوا تھا اور اس میں متعدد یرغمالیوں کے تبادلے شامل تھے۔

تاہم یکم مارچ کو پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد جنگ بندی کی نئی کوششیں رک گئی ہیں، جس کی ذمہ داری فریقین ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔ نونو کا یہ بھی کہنا تھا کہ حماس خود کو غیر مسلح نہیں کرے گی، یہ ایک ایسی اہم شرط جو اسرائیل نے جنگ کے خاتمے کے لیے رکھی ہے۔

غزہ میں جنگ حماس کےسات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔

اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس حملے کے نتیجے میں 1,218 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ عسکریت پسندوں نے 251 کو یرغمال بھی بنا لیا، جن میں سے 58 اب بھی غزہ میں قید ہیں، جن میں 34 اسرائیلی فوج کے مطابق ہلاک ہو چکے ہیں۔

غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے اتوار کے روز کہا کہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے بعد 18 مارچ سے اب تک کم از کم 1,574 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جس سے جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 50,944 ہو گئی ہے۔

جرمنی کی تنقید کے بعد اسرائیل کا غ‍زہ میں ہسپتال پر حملے کا دفاع

اسرائیل نے پیر کے روز جرمن دفتر خارجہ کی ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر تنقید کی ہے، جس میں شمالی غزہ میں ایک ہسپتال کی عمارت پر اسرائیلی فوج کے حالیہ فضائی حملے پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ حملہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی طرف سے کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کے طور پر استعمال ہونے والی ایک عمارت پرحملہ تھا، نہ کہ ہسپتال کی بنیادوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسرائیلی وزارت خارجہ کا رد عمل جرمنی کے دفتر خارجہ اور سبکدوش ہونے والی وزیر خارجہ انالینا بیئربوک کی اتوار کو شیئر کی گئی اس ایک پوسٹ کا جواب تھا، جس میں کہا گیا تھا، ’’حماس کی ظالمانہ دہشت گردی کا مقابلہ کیا جانا چاہیے، تاہم شہری مقامات کی حفاظت کے لیے خصوصی ذمہ داری کے ساتھ بین الاقوامی انسانی قانون لاگو ہوتا ہے، ایک ہسپتال کو 20 منٹ سے کم وقت میں کیسے خالی کرایا جائے؟‘‘

اسرائیلی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ جرمن بیان میں''اہم حقائق‘‘ کا فقدان ہے، بشمول یہ کہ اسرائیلی فوج نے پیشگی وارننگ جاری کی تھی اور یہ کہ اس حملے میں کوئی شہری ہلاک نہیں ہوا۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے تاہم کہا کہ ہسپتال کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈھانوم گیبریئس نے ایکس پر لکھا، ’’ہسپتال کے ڈائریکٹر کے مطابق ہسپتال سے انخلاء کے دوران دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ایک بچے کی موت ہو گئی۔‘‘ یورپی یونین کی فلسطینی اتھارٹی کے لیے مالی امداد

یورپی یونین فلسطینی اتھارٹی کے لیے 1.6 بلین یورو (1.8 بلین ڈالر) کے تین سالہ پیکج کے ساتھ اپنی مالی امداد میں اضافہ کرے گا۔

یہ بات مشرق وسطیٰ کے لیے ذمہ دار یورپی کمشنر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو ایک انٹرویو میں بتائی۔

بحیرہ روم کے لیے یورپی کمشنر ڈیبراوکا سوئیکا نے کہا کہ مالی امداد فلسطینی اتھارٹی کی اصلاحات کے ساتھ مشروط ہو گی، جس پر ناقدین بدعنوانی اور خراب حکمرانی کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ سوئیکا نے کہا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کریں کیونکہ اصلاح کیے بغیر، وہ صرف ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے لیے مضبوط اور قابل اعتبار نہیں ہوں گے۔

‘‘

کمشنر کا یہ تبصرہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ اور فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم محمد مصطفیٰ سمیت سینئر فلسطینی حکام کے درمیان آج پیر کو لکسمبرگ میں ہونے والے پہلے ''اعلیٰ سطحی سیاسی مکالمے‘‘ سے پہلے آیا ہے۔ یورپی یونین فلسطینیوں کے لیے سب سے بڑا عطیہ دہندہ ہے اور یورپی یونین کے حکام کو امید ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے پر حکمران فلسطینی اتھارٹی، اسرائیل اور حماس کے عسکریت پسندوں کے درمیان جنگ کے خاتمے کے بعد ایک دن غزہ کی ذمہ داری بھی قبول کر لے گی۔

شکور رحیم، اے ایف پی، ڈی پی اے اور روئٹرز کے ساتھ

ادارت: افسر بیگ اعوان، رابعہ بگٹی

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل حماس جنگ بندی کیلئے ہونیوالے مذاکرات بغیر کسی پیشرفت کے ختم
  • مصری تجویز مسترد: حماس کا جنگ بندی معاہدے کے لیے غیر مسلح ہونے سے انکار
  • جنگ کے خاتمے کی ضمانت ملے تو یرغمالیوں کو رہا کر دیں گے، حماس
  • غزہ میں مستقل جنگ بندی کی ضمانت پر یرغمالی رہا کر دیں گے، حماس
  • اسرائیل طاقت کے ذریعے قیدیوں کو نہیں چھڑا سکتا، حماس
  • ہم شامی سرزمین پر کسی فریق کیساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتے، ھاکان فیدان
  • اسرائیل حماس سے شکست کھا چکا، مسلم حکمران غیرت کا مظاہرہ کرکے خاموشی توڑیں، حافظ نعیم الرحمان
  • حماس کی جانب سے صہیونی قیدیوں کی رہائی کے لیے شرائط
  • جہاز رانی میں مضر ماحول گیسوں کا اخراج کم کرنے پر تاریخی معاہدہ طے
  • حکومت کے وکلاء کیساتھ معاہدے میں کبھی دھوکا نہیں ہو گا: اعظم نذیر تارڑ