اسلام آباد(آن لائن )وکلا ایکشن کمیٹی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا آئینی بینچ آئینی ترمیم کی پیداوار ہے‘26 ویں ترمیم کیخلاف درخواستیں مقرر کرکے فل کورٹ تشکیل دیا جائے،عدالتی نظام درہم برہم ہوچکا ہے‘فیصلہ کیا ہے کہ آل پاکستان نیشنل کنونشن ہوں گے ، ہم اب اس تحریک میں تیزی لائیں گے۔ وکیل رہنما حامد خان کی سربراہی میں وکلاء ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں کہاہے کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کی آئینی حیثیت جانچے بغیر ججز تعیناتی روک دینی چاہیے، اگر سپریم کورٹ اس فیصلے پر پہنچی کہ 26ویں ترمیم غیر آئینی ہے تو نئے ججز فارغ ہو جائیں گے، 26 ویں ترمیم کیخلاف درخواستیں مقرر کرکے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔حامدخان ایڈووکیٹ نے بتایاکہ کل آل پاکستان وکلاء ایکشن کمیٹی کی میٹنگ ہوئی تھی،سینئر وکیل رہنما منیر اے ملک کی سربراہی میں میٹنگ ہوئی، 26 ویں ترمیم سے عدالتی نظام درہم برہم ہوگیا ہے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آل پاکستان نیشنل کنونشن ہوں گے ، ہم اب اس تحریک میں تیزی لائیں گے، ہمارا سپریم کورٹ کے ججز سے مطالبہ ہے کہ آئین کی حفاظت کریں، فارم 47 کی حکومت سے آئین پر حملہ کرایا گیا ہے، 26 ویں ترمیم کیخلاف درخواستیں مقرر کرکے فل کورٹ تشکیل دیا جائے،سپریم کورٹ کا آئینی بینچ آئینی ترمیم کی پیداوار ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ایکشن کمیٹی سپریم کورٹ ویں ترمیم ترمیم کی

پڑھیں:

آئینی بنچ: اے پی ایس کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟ آئین میں ترمیم کس لئے کرنا پڑی: جسٹس مندوخیل

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا ہے کہ اے پی ایس حملے میں گٹھ جوڑ موجود تھا تو فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟۔ فوجی عدالت میں دہشت گردوں کے ٹرائل کیلئے آئین میں ترمیم کیوں کرنا پڑی؟۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسثس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بینچ کا حصہ ہیں۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آج بھی دلائل دیے۔ خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ جرم کی نوعیت سے طے ہوتا ہے ٹرائل کہاں چلے گا۔ اگر سویلینز کے جرم کا تعلق آرمڈ فورسز سے ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں جائے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم نیت کو بھی دیکھ سکتے ہیں، جرم کرنے والے کا مقصد کیا تھا۔ کیا ملک کے مفاد کیخلاف تھا؟۔ وزارت دفاع کے وکیل نے بتایا کہ عدالت کا پوچھا گیا سوال شواہد سے متعلق ہے۔ سپریم کورٹ براہ راست شواہد کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جرم کرنے والے کی نیت کیا تھی، یہ ٹرائل میں طے ہوگا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ لیکن پہلے بنیادی اصول تو طے کرنا ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ ڈیفنس آف پاکستان سے کیا مراد ہے؟۔ وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ جنگ کے خطرات ڈیفنس آف پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس حسن اظہر رضوی صاحب نے ایک سوال کیا تھا۔ سوال میں پوچھا گیا تھا کہ جی ایچ کیو پر حملہ، ایئر بیس کراچی پر حملے کا کیس ملٹری کورٹس میں کیوں نہیں گیا؟۔ اس سوال کا جواب 21ویں آئینی ترمیم فیصلے میں موجود ہے۔ دہشت گردی کے یہ تمام واقعات بتائیں گے کہ اکیسویں آئینی ترمیم ہوئی کیوں تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا سانحہ آرمی پبلک سکول میں گٹھ جوڑ موجود تھا؟ جس پر وکیل نے تبایا کہ اے پی ایس حملے کے وقت گٹھ جوڑ بالکل موجود تھا۔ جسٹس جمال خان کے پوچھنے  پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ سانحہ آرمی پبلک سکول کے وقت بالکل موجود تھا۔ جسٹس جمال نے پوچھا کہ گٹھ جوڑ اور آرمی ایکٹ کے ہوتے ہوئے بھی فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟۔ فوجی عدالت میں دہشتگردوں کے ٹرائل کے لیے آئین میں ترمیم کیوں کرنا پڑی؟، شامل کیے گئے تھے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ دہشت گرد گروپ یا مذہب کے نام پر دہشت گردانہ کارروائیوں پر ٹرائل کہاں چلے گا، جس پر وکیلِ وزارت دفاع نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت دہشت گرد گروپ یا مذہب کے نام پر دہشت گردی کے واقعات پر ٹرائل ملٹری کورٹ میں چلے گا۔ آئینی ترمیم کے بغیر بھی ایسے جرائم کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل چل سکتا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کچھ دن پہلے یہ خبر آئی کچھ لوگوں کو اغوا کیا گیا ان میں سے 2کو چھوڑا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کوئی دہشت گرد تنظیم تاوان کے لیے کسی آرمڈ پرسن کو اغوا کرے تو ٹرائل کہاں چلے گا، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ فرض کریں ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہیں چل سکتا۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں اس کیس پر کیا اثر پڑے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ہم یہاں بیٹھ کر جرم کی نوعیت کا جائزہ نہیں لے رہے۔ ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ آرمی ایکٹ کی متعلقہ شقیں آئین کے تحت ہیں یا نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تقابلی جائزہ بھی دینا پڑے گا، ملٹری ٹرائل کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا گیا۔ اکیسویں آئینی ترمیم میں دو جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس ناصر الملک نے اپنی رائے میں کہا کہ آئینی ترمیم عدالت میں چیلنج ہی نہیں ہو سکتی۔ خواجہ حارث نے دلائل میں بتایا کہ اگر سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی شق 2 ون ڈی اور 2 ڈی ٹو کو آرٹیکل 8 شق تین کے تحت درست قرار دیا تو ملٹری کورٹس کیخلاف درخواستیں ہی ناقابل سماعت قرار دینی ہوں گی۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اکیسویں آئینی ترمیم کا اہم حصہ آپ نے نہیں پڑھا۔ پارلیمنٹ میں ترمیم سے قبل بحث ہوئی اور مائنڈ اپلائی کیا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت ایک سابق سینٹ چیئرمین کے آنسو بھی نکل آئے تھے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ترمیم 2 سال تک کے لیے تھی۔ انہوں نے خود کورٹ میں آکر تسلیم کیا کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ وہ ترمیم کے حق میں ووٹ دینے سے انکار بھی کر سکتے تھے، زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ان کی سیٹ چلی جاتی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ وہ بڑے با اصول آدمی ہیں، انہوں نے روتے ہوئے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، سمجھ میں آتی ہے۔ بعد ازاں عدالت نے وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث کے دلائل سننے کے بعد کیس کی سماعت آج جمعرات تک ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

  • عدالت نے 9 مئی جرم پر کلین چیٹ نہیں دی ،سوال یہ ہے ٹرائل کہاں ہوگا؟ آئینی بینچ
  • عدالت نے 9 مئی جرم پر کلین چیٹ نہیں دی، سوال یہ ہے کہ ٹرائل کہاں ہوگا؟ آئینی بینچ
  • 26ویں ترمیم کے بعد آئینی بینچز کےاختیار کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا
  • سپریم کورٹ میں بینچوں کے دائرہ کارپر سماعت‘اٹارنی جنرل سے معاونت طلب
  • سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم پرکیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا
  • سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا
  • 26ویں آئینی ترمیم کےتحت کیس سننے والا بینچ ٹوٹ گیا
  • سپریم کورٹ کا 26ویں ترمیم کے بعد بینچزکے اختیارات سے متعلق کیس   سابق بینچ کے سامنے لگانے کا حکم 
  • آئینی بنچ: اے پی ایس کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟ آئین میں ترمیم کس لئے کرنا پڑی: جسٹس مندوخیل