سپریم کورٹ، سویلینز کے اب تک کیے گئے ملٹری ٹرائلز کی تفصیلات طلب
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا بھارتی جاسوس کلبھوشن کے علاوہ اب تک جتنے سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوا اس کی تفصیلات بھی جمع کرائیں, جبکہ جسٹس حسن رضوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ ملٹری ٹرائل میں پورا پروسیجر فالو کیا جاتا ہے۔جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ عدالت نے آپ سے ملٹری ٹرائل والے کیسز کا ریکارڈ مانگا، تھا، عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت کو ایک کیس کا ریکارڈ جائزہ کیلئے دکھا دیں گے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے پروسیجر دیکھنا ہے کہ کیا ملٹری کورٹ میں شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے ہوئے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ ہائیکورٹس یا سپریم کورٹ میرٹس کا جائزہ نہیں لے سکتیں، جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ عدالت نے ٹرائل میں پیش شواہد کو ڈسکس نہیں کرنا، محض شواہد کا جائزہ لینا چاہتے ہیں، نیچرل جسٹس کے تحت کسی کو سنے بغیر سزا نہیں ہو سکتی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت بنیادی حقوق کے نقطہ پر سزا کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ پانچ رکنی بنچ نے قابل سماعت ہونے کے نقطہ کا درست جائزہ نہیں لیا، عدالت ریکارڈ کا میرٹ پر جائزہ نہیں لے سکتی، زندگی کا حق اور فیئر ٹرائل شروع سے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے نہ بھی ہو تب بھی پروسیجر تو فالو کرنا ہوگا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آرٹیکل 8(3) میں بنیادی حقوق واپس لے لیے گئے ہیں۔
وزارت دفاع کے وکیل نے کہا یہ آرٹیکل 1973 سے آئین میں شامل ہے، جہاں آرٹیکل 8 ذیلی سیکشن 3 کا اطلاق ہو گیا بنیادی حقوق ختم ہوگئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا سویلین کے ملٹری ٹرائل والے قانون میں ترمیم ہو سکتی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 2010 میں آیا، فوجداری ضابطہ 1898 کا ہے، ضابطہ فوجداری میں ٹرائل کا پورا طریقہ کار دیا گیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ آرمی ایکٹ بنانے کا مقصد کیا ہے، آرمڈ فورسز میں ڈسپلن قائم کرنا یا کریمینل سرگرمیوں کو چیک کرنا؟ خواجہ حارث نے کہا آرمی ایکٹ کا مقصد آرمڈ فورسز کی سرگرمیوں میں کوئی رکاوٹ نہ آئے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسارکیا کہ کیا کریمنل سرگرمیوں کی الگ سے قانون سازی ہوتی تو یہ مسائل نہ ہوتے، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قانون میں بہتری کا عمل چلتا رہتا ہے۔
جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کے افسران جوانوں کو ڈیل کرتا ہے، 1967 میں ترمیم کرکے 2 ون ڈی ون سیکشن شامل ہوا، اس ترمیم سے قانون میں " کوئی بھی شخص " کے الفاظ شامل کر دیٔے گئے، ان الفاظ کی قانون میں شمولیت سے ریٹائرڈ افسران بھی ملٹری ٹرائل کے دائرے میں آگئے، اگر یہ 2 ون ڈی ون کالعدم برقرار رہتا ہے تو پھر کسی ریٹائرڈ افسر کا ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکے گا اور اگر ہو رہا تو وہ بھی ختم ہو جائیگا، لگتا ہے قانون میں شامل " کسی بھی شخص " کے الفاظ کا درست تعین نہیں ہوا، قانون میں شائد یہ سقم رہ گیا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ آئینی ترمیم کسی اور وجہ سے کی گئی۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کلبھوشن کے علاوہ اب تک کتنے سویلنز کا ٹرائل ہوا، ڈیٹا کیساتھ جواب دیدیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوشش کریں آج دلائل مکمل کر لیں، خواجہ حارث نے کہا کہ میں پوری کوشش کروں گا۔ سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث نے کہا کہ نے کہا کہ عدالت ملٹری ٹرائل جائزہ نہیں ا رٹیکل
پڑھیں:
جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس نے وقف قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
پی ڈی پی کے جنرل سکریٹری محمد خورشید عالم نے بی جے پی اور نیشنل کانفرنس دونوں پر مسلمانوں کے اعتماد اور حقوق کیساتھ "منظم خیانت" کا الزام عائد کیا۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر میں برسر اقتدار جماعت نیشنل کانفرنس نے نئے وقف ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔ یہ اقدام پارٹی صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی ہدایت پر اُٹھایا گیا ہے۔ پارٹی کی ترجمان افراء جان نے بتایا کہ نیشنل کانفرنس کے تین ارکان اسمبلی ارجن سنگھ راجو، ریاض احمد خان اور ہلال اکبر لون نے عدالت عظمیٰ میں رِٹ پٹیشن دائر کی ہے۔ اس طرح نیشنل کانفرنس جموں و کشمیر کی دوسری سیاسی جماعت بن گئی ہے جس نے متنازع قانون کو عدالت میں چیلنج کیا ہے۔ اس سے قبل الطاف احمد بخاری کی قیادت والی جموں کشمیر اپنی پارٹی نے بھی عرضی دائر کی تھی۔
ادھر اپوزیشن جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے بھی وقف قانون کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔ پارٹی نے ہفتے کو سرینگر میں اپنے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا، جس میں کارکنان نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ پی ڈی پی کے جنرل سکریٹری محمد خورشید عالم نے بی جے پی اور نیشنل کانفرنس دونوں پر مسلمانوں کے اعتماد اور حقوق کے ساتھ "منظم خیانت" کا الزام عائد کیا۔ ان کے بقول وقف (ترمیمی) قانون مسلمانوں کے کسی بھی طبقے کو قابل قبول نہیں اور اس کا پارلیمان میں خفیہ طریقے سے پاس ہونا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف غیر جمہوری عمل نہیں بلکہ اقلیتوں کو منظم طریقے سے کمزور کرنے کی ایک دانستہ کوشش بھی ہے، جسے ہم یکسر مسترد کرتے ہیں۔
دریں اثناء پیپلز کانفرنس کے صدر اور ہندوارہ سے رکن اسمبلی سجاد غنی لون نے نیشنل کانفرنس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں وقف قانون پر سنجیدہ بحث سے بچنے کے لئے بدنظمی پیدا کی گئی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسپیکر نے زیر سماعت ہونے کی بنیاد پر وقف بل پر بحث کی اجازت نہیں دی، حالانکہ ایوان میں تحریک التوا پیش کی گئی تھی۔ سجاد غنی لون کے مطابق جب مذہبی معاملات کے دفاع کی بات آئی تو نیشنل کانفرنس نے خاموشی اختیار کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسپیکر رکاوٹ تھے، تو انہیں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ لیکن انہوں نے عملی اقدام کے بجائے تماشہ چُنا۔ یاد رہے کہ حالیہ بجٹ اجلاس کے دوران جموں و کشمیر اسمبلی میں وقف قانون پر شدید ہنگامہ آرائی دیکھی گئی، جہاں حکومت اور اپوزیشن دونوں بحث کا مطالبہ کرتے رہے، جو اسپیکر نے مسترد کر دیا۔