Express News:
2025-01-18@10:16:13 GMT

لڑکیوں کی تعلیم اور قومی ترجیحات کا تعین

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

کسی بھی معاشرے کی ترقی، خوشحالی،سیاسی، سماجی،انتظامی اور معاشی ترقی کے امکانات کا براہ راست تعلق دنیا میں جدید تعلیمی تصورات اور لوگوں کی تعلیم تک رسائی ہے۔ا س عمل میں ایک بڑا مسئلہ لڑکیوں کی پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک رسائی بھی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک یا جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کی تعلیم و ترقی پر سنجیدہ سوالات موجود ہیں۔

ایک مسئلہ جہاں حکومتی ترجیحات کا ہے تو دوسری طرف ہمارا سیاسی ،سماجی اور انتظامی ڈھانچہ ہے جو تعلیم کی اہمیت اور رسائی کو کم کرتا ہے۔حال ہی میں پاکستان میںجو عالمی کانفرنس لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے منعقد ہوئی ہے اس کے مشترکہ اعلامیہ میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہم سب کو پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کی تعلیم میں موجود تمام تر رکاوٹوںکو ختم کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔عالمی کانفرنس رابطہ اسلامی اور مسلم ورلڈ لیگ کے زیر اہتمام مسلم دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم،چیلنجز اور مواقع کی دو روزہ کانفرنس نے اس نقطہ پر بھی زور دیا کہ مسلم معاشرے میں انتہا پسند خیالات ، سیاسی اور سماجی فتوؤں سے لڑکیوں کی تعلیم کو بدنام نہ کیا جائے۔

اسی طرح اس نقطہ پر بھی زور دیا گیا کہ مسلم معاشرے تعلیمی بجٹ میں اضافہ کریں اور افغان طالبان حکومت کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم دشمن پالیسیوں کی شدید مذمت کی گئی اور کہا کہ طالبان افغان عورتوں کو انسان نہیں سمجھتے۔پاکستان میں بھی ڈھائی کروڑ سے زیادہ بچے اسکول نہیں جاتے جن میں سوا کروڑ بچیاں بھی شامل ہیں۔

اعلان اسلام آباد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پڑھی لکھی عورت دنیا میں امن،سماج کو انتہا پسندی ،تشدد اور جرائم سے بچانے میں معاون ثابت ہوگی۔ عورتوں کی تعلیم ان کا بنیادی حق اور ریاست کی بنیادی ذمے داری بھی ہے۔آج کے ریاستی نظام میں موجود جدید تصورات میں ہم لڑکیوں کی تعلیم کو نظر انداز کرکے ان کی ترقی کو ممکن نہیں بنا سکتے ہیں۔پاکستان ہو یا جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کی تعلیم پر سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ پرائمری تعلیمی بجٹ میں مسلسل کٹوتی اور صوبائی سطح پر اٹھارویں ترمیم کے باوجود ہم پہلے سے طے شدہ اہداف لڑکیوں کی تعلیم میں مکمل نہیں کرسکے۔

2000-15 اور 2016 - 30 میں ہم عالمی سطح پر ملینیم ترقی اہداف میں بھی لڑکیوں کی تعلیم میں پیچھے کھڑے ہیں۔مضبوط گورننس کے نظام کی عدم موجودگی اور مقامی حکومتوں سے انحراف پر مبنی پالیسی بھی ہمیں مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام ثابت ہورہی ہے۔ہم تو آج بھی لڑکیوں کی تعلیم کے تناظر میں بہت سے فکری مغالطوں کا شکار ہیںجن میں ان کی تعلیم کی اہمیت سے انکار بھی ہے۔

اس کی ایک وجہ ہم لڑکیوں کی معاشی سرگرمیوں میں شرکت کے حامی نہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کو روزگار کی بجائے گھروں تک محدود رہنا چاہیے۔بالخصوص دیہی اور پسماندہ یا قبائلی علاقوں میں آج بھی تعلیم ایک بنیادی مسئلے کے طور پر موجود ہے۔پاکستان میں تعلیمی ایمرجنسی کی باتیں بڑی شدت کے ساتھ کی جاتی ہیں اور اس پر سیاسی نعرے بھی لگتے ہیں لیکن عملی طور پرہم وہ کچھ نہیں کرسکے جو ہمیں کرنا چاہیے تھا۔تعلیم کی ترقی اور اس کے اہداف کا کام سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں اور یہ عمل ریاست کے تمام فریقین کی مشترکہ کوششوں سے ہوگا۔

بدقسمتی سے مسلم معاشروں اور مسلم حکمرانوں نے اپنے اپنے معاشروں میں ان تعصبات اور تفریق کے عمل کی حوصلہ افزائی کی جو عورتوں کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔لڑکیوں کی تعلیم کو محض مذہبی فریضہ نہیں بلکہ یہ اب دنیا بھر میں معاشرتی اور معاشی سطح کی ضرورت بن گئی ہے۔ بہت ترقی کی لیکن علمی اور سماجی تحریکوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ہم نے عورتوں کے سماجی کردار کو قومی ترقی کے دھارے میں دیکھنے کی بجائے سیاسی سطح پر دیکھا ہے۔

مسلم حکمران سمجھتے ہیں کہ ترقی مادی ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ علم اور ترقی کی بجائے انتظامی ڈھانچوں کی ترقی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔اسی وجہ سے انسانی وسائل پر جو کام ہونا چاہیے وہ نہیں ہو پاتا۔ہم نے علم و تحقیق کے ادارے بنانے کی بجائے اپنی توجہ ایسے منصوبوں پر رکھی جس سے لوگوں کے اندر نمود و نمائش کا کلچر عام ہو۔انسانی وسائل پر زیادہ سرمایہ کاری کرنے کی بجائے ہم نے محدود وسائل ان پر خرچ کیے۔آج کی گلوبل دنیا میں عورتوں کی تعلیم اور ترقی کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔جو مسلم معاشرے عورتوں کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں یا ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کا مقصد عورتوں کو روایتی طرز سیاست کے اندر محدود کرنا ہے وہ عورتوں کی ترقی کے امکانات کو مزید محدود کر دے گا۔

مسلم معاشروں میں عورتیں آگے بڑھنا چاہتی ہیں اور اپنے لیے ترقی کے مواقع تلاش کرنا چاہتی ہیں۔کیونکہ ان کو اندازہ ہو چکا ہے کہ تعلیم اور ترقی ان کو معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر شعور بھی دے گی۔اور وہ اس شعور کی بنیاد پر نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے خاندان کے لیے بھی ترقی کے مواقع تلاش کر سکیں گی۔ہم جب یورپ کی ترقی کا راز دیکھتے ہیں تو انھوں نے خاص طور پہ لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی ہے۔

تعلیم سے مراد محض رسم الخط نہیں یا لکھنا اور پڑھنے کی صلاحیت نہیں بلکہ اب تو تعلیم اور تربیت کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم پر بھی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ہم نے اگر آگے بڑھنا ہے تو کم سے کم پرائمری ایجوکیشن کمیشن کی ضرورت ہے جہاں صوبائی سطح پر صوبائی حکومتیں ایک ایسا جواب دہی کا نظام بنائیں جو لڑکیوں کی تعلیم کے اہداف کے مکمل کرنے میں حکومت کا ساتھ دے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں لڑکیوں کی تعلیم تعلیم اور عورتوں کی کی بجائے تعلیم کی دنیا میں کی اہمیت ترقی کے کی ترقی

پڑھیں:

ت سے تختی، ت سے تعلیم… محروم معاشرہ

وہ کتنا خوبصورت منظر تھا جب سردیوں کی ٹھنڈی صبح سکول گرائونڈ میں پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک کی کلاسز کی قطاریں لگتی تھیں اور سامنے دو یا تین بچے علامہ اقبالؒ کی مشہور زمانہ نظم ’’لب پہ آتی ہے یہ دعا بن کے تمنا میری، زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘‘… پھر اس نظام کے ساتھ تمام لائنز پریڈ کرتی ہوئیں اپنی اپنی کلاسز کی طرف روانہ ہو جاتیں پھر ایک ڈرل پیریڈ ہوتا تھا۔ ہمارے پی ٹی ماسٹر مختلف کھیلیں سکھاتے اور اساتذہ دل لگا کے پڑھاتے تھے۔ جب سے وہ ماحول ختم ہوئے ہمارا نظام تعلیم بھی ٹھس ہوگیا… ٹاٹ، دری اور چادر پر بیٹھ کر پڑھنے والے بچے تو اب بھی ہیں مگر ان کو بھی پڑھانے والا کوئی نہیں… گلی گلی سکول کھلنے سے والدین کو امیدیں تو تھیں مگر ان کی فیسیں دیکھ کر وہ مایوس ہو گئے۔ میرے نزدیک 77 سال کے اندر جس شعبہ کو تباہ کیا گیا وہ ہمارا نظام تعلیم تھا۔ حکومتی دو رخی پالیسیوں کی وجہ سے ہمارا نوجوان تباہی کے راستے پر نکلنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے ’’ڈگی کھوتے توں غصہ کمہار تے‘‘ 76سال سے ہم یہی کچھ تو دیکھ رہے ہیں۔ حکمرانی کرنے والے حکمرانوں سے لے کر اداروں کو بنانے اور توڑنے والوں کے جو کھیل تماشے ان گنہگار آنکھوں اور ٹوٹے دلوں نے دیکھے اور نہ ختم ہونے والے تباہی کے سلسلے، کھنڈرات میں بدلتی تعلیم و ثقافت و تہذیب، دہشت گردی اپنی چودھراہٹ کی خاطر خواب سجائے ہمارے ہی درمیان بیٹھے میرجعفر کے کرداروں نے ملک کی مضبوط بنیادوں کو کھوکھلا کرتے ہوئے نظام تعلیم کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔ اس سے پہلے کہ بات آگے لیکر چلوں۔ ایک نظر تعلیمی سیمینار پر جس میں نظام تعلیم پر وزیراعظم شہبازشریف نے سوالیہ نشان اٹھا دیئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم بہت بڑا ایشو ہے۔ اس کے لئے مسلم ممالک کو ہمارے ساتھ مل کے بڑا کردار ادا کرنا ہوگا۔ خواتین اپنی قابلیت سے قومی اور عالمی معیشت میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ انہوں نے مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم اور آنے والے چیلنجز پر بھی بات کی۔ ملکی مشکلات اور گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے بھی تعلیمی فقدان بڑھتا جا رہا ہے اور یہ سب ہمارے لئے باعث تشویش اور باعث پریشانی ہے‘‘۔ وزیراعظم نے تقریر کے دوران یہ انکشاف بھی کیا کہ 49 فیصد خواتین اور دو کروڑ بچے بھی تعلیم سے محروم ہیں۔
میرے نزدیک شہبازشریف نے اپنی تقریر کے دوران جن باتوں اور خدشات کا اظہار کیا ہے اس کا سامنا آج سے نہیں روز اوِّل ہی سے ہم کر رہے ہیں۔ آزادی پاکستان سے پہلے گورے کے دیئے تعلیمی نظام نے ہمیں برا نظام تعلیم ہی دیا۔ میں اس حکومت کی بات نہیں کر رہا۔ میں تو بات کر رہا ہوں پاکستان میں قائداعظمؒ کے بعد جو ایک سال حکمرانی کر سکے۔ کاش ہم ان کے دیئے تعلیمی ویژن اور اقوال پر ہی عملدر آمد کر لیتے تو آج ہم پڑھے لکھے ممالک میں شامل ہوتے اور ہمارا شمار بھی دنیا کی عظیم ترین قوموں میں ہو رہا ہوتا۔ کم از کم ایک اچھے نظام تعلیم سے ہمیں جاہل اور نااہل حکمرانوں سے تو واسطہ نہ پڑتا۔ وہ کہتے ہیں کہ پڑھی لکھی ماں اور پڑھا لکھا معاشرہ یہ دونوں قوموں کو بنانے اور سنوارنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اب بدقسمتی سے نہ ہم پڑھی لکھی ماں جنم دے سکے، نہ معاشرے کی تکمیل کر پائے اور نہ سرکاری تعلیمی اداروں کی بہتری کے ساتھ ساتھ فرسودہ اور پرانے نصاب کو بدل سکے، نہ استاد کو احترام، نہ طالب علم کو تہذیب اور کتاب دوستی میں ڈھال سکے… بجائے اچھے تعلیمی ویژن کے ہمارے علمی اداروں میں بھی سیاست سیاست کھیلی گئی۔ ہر حکومت نے نیا نصاب، نئی کتاب اور استاد بدلنے کی کوششیں کیں۔ اس کے لئے بڑی تعلیمی پالیسیاں آئیں مگر ان پر عملدرآمد ہو سکا، نہ تعلیمی ویژن کی بنیادوں کو ٹھوس سیمنٹ بجری سے بھرا گیا۔
اگر ہم روز اوّل ہی سے اچھی تعلیم کے لئے اچھی درسگاہوں کو بنانے کی طرف توجہ دے پاتے تو قوم کو بہت سی تباہیوں، بربادیوں اور اندھیروں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ نہ میں عقل کل اور نہ میں کوئی دانشور کہ میری باتوں سے آپ اتفاق کریں مگر یہ بات طے ہے کہ اچھا تعلیمی سسٹم نہ ہونے سے ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے نسلوں کو برباد کیا۔ گزشتہ دنوں میں ایک سروے رپورٹ دیکھ رہا تھا اس کے مطابق پاکستان انتہائی غریب ممالک کے دسویں نمبر میں شمار ہوتا ہے اور ہر سال خطہ غربت کی لکیر کے نیچے لڑھکنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ہماری یہ کس قدر بدقسمتی ہے کہ ہم نسلوں کو تعلیم نہ دینے سے ملک بھر میں غربت، افلاس، بدامنی، مہنگائی، رشوت ، کرپشن ، استحصال ، اغوا برائے تاوان، ڈاکے ، ڈکیتیاں اور خودکشیاں بڑھائیں۔ ان کو ختم کرنے کے اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ ہم نے انہیں تعلیم دینے کی بجائے بے روزگاری کے ماحول دیئے۔ کتاب اور قلم دوات کی جگہ کلاشنکوف کلچر کو فروغ دیا… نوجوانوں کو بے راہ روی کے راستوں پر ڈالا… اقتدار کی جنگ میں حکمران بچوں کو پڑھانا بھول گئے۔ یاد رکھیں مضبوط معاشرے ہی علم کی روشنی سے جگمگاتے ہیں۔ جس کا اہتمام نہ کیا جا سکا۔ دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہمارا تعلیمی گراف کسی اعشاریہ میں بھی نہیں آتا۔ آج اگر تھوڑا بہت علم کا پرچم بلند دکھائی دے رہا ہے تو وہ پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں کی وجہ سے ہے جہاں کم از کم سسٹم تو ہے جو اربوں کھربوں لگا کے بھی سرکاری اداروں میں نظر نہیں آ رہا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے تو سرکاری اعداد و شمار کے تحت کم تعداد بتائی جبکہ ایک سروے کے مطابق ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں کہ مہنگائی کے اس دور میں والدین کے لئے بھاری فیسیں اور کتاب بستہ دینا اب ممکن نہیں رہا۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ حکومت جب تک سرکاری سکولز میں مفت مراعات اور پرائیویٹ اداروں کی طرح اساتذہ کو پرکشش معاوضے نہیں دیتی اور تمام سرکاری اداروں میں مفت تعلیم، مفت کتاب، مفت قلم اور کاپی نہیں دینے کا ذریعہ نہیں بنتی ہمارے ہاں ان پڑھ بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پورے نظام تعلیم کو بدلنے کے لئے سرکاری سطح پر تعلیمی ایمرجنسی لگانا ہوگی۔ یہ بڑے بڑے سیمیناروں میں جو المیے ظاہر کئے جاتے ہیں اس کے ذمہ دار بھی وہی ہیں جو وزیراعظم کو اندھیرے میں رکھ کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم اور ہمارے اچھے ہیں تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ ان کو یہ بتانا چاہئے کہ وزیراعظم صاحب ان ڈھائی کروڑ بچوں کا کیا بنے گا جنہیں حروف لکھنا اور نہ پڑھنا آتے ہیں اور وہ (ت )سے تعلیم اور (ت) سے تختی سے محروم معاشرے میں اپنی زندگی رول رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد کانفرنس کا نشانہ امارات اسلامیہ افغانستان تھی،تنظیم اسلامی
  • الیکٹرو آپٹیکل سیٹلائٹ کی کامیابی قومی ترقی میں بڑا قدم ہے: آئی ایس پی آر
  • ت سے تختی، ت سے تعلیم… محروم معاشرہ
  • نوجوان نے ایک ہی دن میں تین لڑکیوں سے شادی کرلی
  • عصر حاضر علم و آگہی اور شعور کا دور ہے ، تعلیم کے بغیر ترقی ہوہی نہیں سکتی ،نصیراحمد بلوچ
  • امام غزالی، دینی تعلیم اور مُلا
  • چہ پدی چہ پدی کا شوربہ
  • بحرانوں کے درمیان یو این چیف کی امید پر مبنی ترجیحات کا اعلان
  • مسلم ممالک کے خلاف امریکہ، اسرائیل، انڈیا کی شیطانی تثلیث بڑا خطرہ بن گئی ہے، لیاقت بلوچ