ٹریفک ، سیف سٹی،یورپی نظام اور ہمارا رویہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
گزشتہ دنوں اخبارات کے صفحات پر کچھ ایسی خبریں نظروں سے گزریں جن کا تعلق لاہور کی ٹریفک پر قابو پانے سے تھا جن میں ایک خبر میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور میں مزید ٹریفک وارڈن بھرتی کرنے کی منظوری دیتے ہوئے اسے ٹریفک میں بہتری لانے کا عمل قرار دیا ہے۔ کیونکہ انہیں ایسا ہی بریف کیا گیا تھا کہ لاہور میں ٹریفک کے مسئلے کی بنیادی وجہ وارڈن کی کمی ہی ہے اور دوسری خبر میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانوں میں اضافے کی تھی ۔جرمانوں میں اضافہ کرنے کو بھی ٹریفک میں بہتری لانے کے لئے ا حسن عمل قرار دیا جارہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ٹریفک کے مسائل وارڈن کی مزید بھرتی کر نے اور جرمانے بڑھانے سے حل ہو جائیں گے؟ اگر ایسا سمجھا جارہا ہے توبے شک ہزار فیصد جرمانہ کر دیں اور ہر گلی محلے کی نکڑ پر ایک وارڈن کھڑا کر دیں۔ لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے ۔ہمارے معاشرے کے حوالے سے یہ ایک انتہائی پیچیدہ معاملہ اور مسئلہ ہے جس کی کئی وجوہات ہیں جن میں ناخواندگی، ٹریفک شعور کی کمی کے علاوہ قوانین کی پاسداری کرنا مجموعی طور پر ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔جبکہ جو ٹریفک وارڈن موجود ہیں ان کا اپنا طرز عمل بھی کوئی اتنا بہتر اور سنجیدہ نہیں کہ وہ صرف ٹریفک کی روانی کو برقرار اور بہتر رکھنے کے لئے بھرتے کئے گئے ہیں ۔بلکہ ان کے اور بھی کئی کام ہیں جن میں سر فہرست صرف اور صرف بنا ہیلمٹ موٹر سائیکل سواروں کے چالان کرنا یا منڈلی لگا کر گپ شپ لگانے کے ساتھ خود ساختہ ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے وی آئی پیز کو گزارنے کے لئے خودکار انتظام کے تحت ٹریفک سنگلز کو کنٹرول کرنا، مختلف چوکوں چوراہوں کو ڈیوائڈر لگا کر بند کر کے ٹریفک مینجمنٹ کرنا، لفٹر کے ذریعے سڑکوں پر کھڑی گاڑیاں اٹھانا یا وی وی آئی پی کو گزارنے کے لئے ٹریفک سنگلنز بند کرنا یہ سارے عمل بھی وہ ٹریفک کی روانی کو بہتر کرنے کے لئے ہی کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ٹریفک کا نظام دن بہ دن بد سے بد تر ہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس کی وجوہات پر غور کرنے کی بجائے آئے روز نت نئی پابندیاں اور جرمانوں میں اضافے کو ہی مسائل کا حل سمجھا جاتا ہے۔
جب ہم دیگر مہذب معاشروں کی کوئی مثال پیش کرتے ہیں تو اس کا مطلب بھی بہتری لانا ہی ہوتا ہے ۔ یورپ میں رہنے والے یا وہاں کا سفر کر کے پاکستان آنے والوں کے مطابق آج سے 70 سے 80 سال پہلے یورپ کو بھی ایسی ہی مشکلات کا سامنا تھا، لیکن مستقل کوششوں سے یہ لوگ ایسے نظام کو وجود میں لے آئے کہ جہاں قطار توڑنے کو معیوب سمجھا جانے لگا ۔یورپ میں آج بھی جرمانے کے نام پر شہری ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور شہر میں کئی جگہ خفیہ کیمرے والی ویگنوں کو حکومت کی اے ٹی ایم
مشینیں کہا جاتا ہے۔ حکومت سالانہ ان جرمانوں کا ہدف مقرر کرتی ہے اور پھر اس کو حاصل بھی کرتی ہے اور پولیس ملازمت کا کم وبیش 10 فیصد حصہ بھی ایسے کاموں کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ لیکن جن بنیادوں پریورپی ممالک کا ٹریفک نظام کھڑا ہے اس میں ڈرائیونگ لائسنس کا ایک مؤثر اور شفاف نظام بھی ہے۔
18 برس کی عمر کو پہنچنے والے ہر بچے کی کوشش ہوتی ہے کہ جونہی وہ 18 سال کا ہو تو ڈرائیونگ کا امتحان پاس کرلے۔ ڈرائیونگ کا امتحان پاس کرنے کے لیے تھیوری اور پریکٹیکل پر مشتمل 2 الگ امتحانات میں کامیاب ہونا ہوتا ہے۔ تھیوری کے امتحان میں پرچہ حل کرنا ہوتا ہے جس میں اشکال کی مدد سے 25 سوالات دیئے جاتے ہیں۔ سوالوں کے آگے 2 سے 4 جز ہوتے ہیں۔ ان 25 میں سے 20 سوالوں کے ٹھیک جواب دینے والے کو پاس تصور کیا جاتا ہے، جس کے بعد پریکٹیکل یا عملی امتحان کی تیاری کے لیے آپ کو ایک تصدیق شدہ انسٹرکٹر کے ساتھ گاڑی چلانے کے چکر مکمل کرنا ہوتے ہیں۔ امتحان کے دن پولیس اہلکار آپ سے عملی ٹریفک میں گاڑی چلوا کر، گاڑی پارک کرا کر، گاڑی سے متعلق عام معلومات کا زبانی امتحان لے کر، پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد لائسنس جاری کرتا ہے۔ اس ڈرائیونگ لائسنس کو ایک شناختی کارڈ جتنی ہی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
پاکستان میں ان پڑھ ڈرائیور ہماری ٹریفک کے بڑے مسائل کے ذمہ دار ہیں، جس شخص کے پاس موٹر سائیکل خریدنے کے پیسے ہوں وہ موٹر سائیکل خرید کر سڑک پر نکل آتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کو گاڑی کو کنٹرول کرنا آ ہی جاتا ہے۔ تاہم ٹریفک میں اس کا رویہ کیا ہونا چاہیے اس کا اسے ساری عمر پتہ نہیں چلتا۔ لوگ بڑے دھڑلے سے ہائی بیم پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے گاڑی چلاتے ہیں، کسی کو معلوم نہیں کہ اگر راستہ تنگ ہو تو اس پر سے گزرنے کا حق پہلے کسے ہے اور کس کا بعد میں۔ بے ہنگم طریقے سے گاڑی کو ایک طرف سے دوسری طرف لے جانا اور بند سگنل پر جلد بازی کرکے سب کو پریشان کرنا معمول ہے، اور جب بڑی مشکل سے آگے نکلتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کسی ایک کی غلطی کی وجہ سے خالی سڑک پر ہمارا کتنا وقت ضائع ہوگیا۔کم عمر بچے دھڑلے سے موٹر سائیکلیں دوڑاتے پھرتے ہیں اور والدین فخر سے بتاتے پھرتے ہیں کہ بیٹا اب موٹر سائیکل چلانے لگ پڑا ہے، ایسے بچوں کی سڑک پر موٹر بائیک چلانے کی سمجھ کیا ہوسکتی ہے؟ یہ آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔
یہاں پورے کا پورا نظام کمزور بنیاد پر کھڑا ہے، ان پڑھ ابن ان پڑھ ڈرائیور اپنی سواری کو ٹریفک کے ماحول میں لارہا ہے، لوگوں کو احساس ہی نہیں کہ قطار میں ایک دوسرے کے پیچھے چلنے میں ہی سب کی بھلائی ہے، سڑک پر لگی سفید لکیریں ماتم کرتی رہ جاتی ہیں لیکن کوئی ان کی بتائی حدود کی پاسداری نہیں کرتا۔ یورپی ممالک میں بنیادی فرسٹ ایڈ اور محفوظ ڈرائیونگ کے اطوار سیکھنا ہر ڈرائیونگ کورس کا بنیادی حصہ ہیں، اگر اسی طرز پر ہم کسی بھی مہذب ملک سے ان کا ڈرائیونگ کا تربیتی نظام کاپی کرکے اپنے ہاں لاگو کرلیں تو ہمارے نظامِ ٹریفک کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی جاسکتی ہے۔ اب یہاں بھی پچھلے کچھ سال سے ڈرائیونگ کے امتحان کے وقت کچھ ٹریفک کے اشارے پوچھنے اور گاڑی میں بٹھا کر ایک کھلے میدان میں آگے پیچھے کرا کر مہارت چیک کرنے کا سلسلہ آغاز ہوا ہے جو خوش آئند ہے لیکن عموی طور پر اس کو بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے اور جب بنیادوں میں کچھ بہتری آجائے تو ہر شہری کی اسطاعت کے مطابق بھاری جرمانے کرنے میں کوئی حرج نہیں، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے ہر ملزم کے خلاف اس کی معاشرے میں سماجی حیثیت، مقام اوراس کی گاڑی کے سائز اور برانڈ کو بھلا کر ای چالان کے ٹکٹوں کا اجرا کیا جائے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: موٹر سائیکل ٹریفک میں ٹریفک کے جاتا ہے ہوتا ہے کو ایک سڑک پر ہیں کہ کے لئے ہے اور
پڑھیں:
کل جماعتی حریت کانفرنس کی کشمیر کے بارے میں دنیا کو گمراہ کرنے کی بھارتی کوششوں کی مذمت
عبدالرشید منہاس نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں پروپیگنڈا اور اعلیٰ سطحی دوروں کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات کو معمول کے مطابق ظاہر کرنے کی بھارتی کوششوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے تنازعہ جموں و کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دینے اور اپنے غیر قانونی قبضے کے تلخ حقائق کو چھپانے کی بھارتی کوششوں کی شدید مذمت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں پروپیگنڈا اور اعلیٰ سطحی دوروں کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات کو معمول کے مطابق ظاہر کرنے کی بھارتی کوششوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کے بارے میں بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے بیانات کا مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارے میں زمینی حقائق کو مسخ کرنا اور بھارتی حکمرانوں کی طرف سے اپنے عوام کو گمراہ کرنا ہے جو اس کی پرانی عادت ہے۔ حریت ترجمان نے گاندربل میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ عمر عبداللہ کے حالیہ بیان پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جموں و کشمیر کے مفادات پر سمجھوتہ کر لیا ہے اور بھارتی تسلط کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا چاہتی ہے اور اگست 2019ء سے مسلط کی گئی کشمیر دشمن پالیسیوں اور آمرانہ حکمناموں کے ذریعے کشمیر کے باشندوں کو بے اختیار کرنا چاہتی ہے۔ ان اقدامات کا مقصد بھارت میں انتخابی نتائج کو حکمران جماعت کے حق میں کرنا ہے جو جموں و کشمیر کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ حریت کانفرنس نے کہا کہ بھارتی انتظامیہ کشمیریوں کی اجتماعی امنگوں کو دبانے کے لیے علاقے کی آبادی کو مذہبی، علاقائی، نسلی اور سیاسی خطوط پر تقسیم کر کے ”تقسیم کرو اور حکومت کرو” کا ہتھکنڈا استعمال کر رہی ہے۔ حریت ترجمان نے زور دے کر کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگ گزشتہ 77سال سے اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ حق خودارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اپنی جدوجہد پر ثابت قدم ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل علاقائی یا ثقافتی عوامل پر مبنی نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے عوام کی سیاسی امنگوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔حریت کانفرنس نے کشمیرکو ایک سیاسی تنازعہ قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیری عوام کو ان کا ناقابل تنسیخ حق خودارادیت دینے کے لیے بھارت پر دبائو ڈالے جو عالمی برادری کی طرف سے تسلیم شدہ حق ہے اور بھارت اور پاکستان دونوں نے اس کی توثیق کر رکھی ہے۔