اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15 جنوری ۔2025 )پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں بجلی پیدا کرنے والے مزید 14 کارخانوں (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی سے سالانہ 137 ارب روپے کی بچت کے دعوی پر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے صارفین کی مشکلات کم نہیں ہونگی.
(جاری ہے)
حکومت کی جانب جاری کردہ اعلامیے کے مطابق جن 14 کارخاںوں سے معاہدوں پر نظرثانی کی منظوری دی گئی ان میں سے چار 1994 کی پاور پالیسی اور دس 2002 کی پاور پالیسی کے تحت لگنے والے آئی پی پیز ہیں پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی ان کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے اس وقت سے زیر بحث ہیں جب گزشتہ نگران کابینہ میں وزیرتجارت و داخلہ گوہر اعجاز کی جانب سے ان معاہدوں پر کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں ادا کی جانے والی رقوم پر تنقید کی گئی جو کئی سو ارب روپے بنتی ہے.
ملک میںگذشتہ دو، تین برس میں بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ریکارڈ کیا گیا حکومت کے مطابق یہ اضافہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت کیا گیا تاہم اس کے ساتھ کیپسٹی پیمنٹ کی وجہ سے بجلی صارفین سے بجلی کی کھپت سے زیادہ بل وصول کرنے کی شکایات بھی منظر عام پر آئیں اور تقسیم کار کمپنیوں نے اووربلنگ کا اعتراف بھی کیا تاہم حکومت کی جانب سے اس پر کوئی کاروائی کی گئی نہ ہی وصول کی گئی اضافی رقوم صارفین کو واپس کی گئیں.
اعلامیے کے مطابق وفاقی کابینہ نے مزید 14 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی منظوری دی معاہدوں پر نظرثانی سے قومی خزانے کو کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں 137 ارب کی سالانہ بچت ہو گی اور صارفین کے بجلی کے بلوں میں کمی واقع ہو گی وفاقی کابینہ کے نئے فیصلے کے بعد ملک میں ایسے آئی پی پیز کی تعداد 27 ہو چکی جن کے ساتھ حکومت نے بجلی کی خریداری کے لیے از سر نو معاہدے کی منظوری دی ہے.
پاکستان انسٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں توانائی کے شعبے کی ماہر عافیہ ملک نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان معاہدوں میں حکومت نے ضمانت دی تھی کہ وہ’ ’ٹیک آر پے“ کے تحت بجلی کی قیمت ادا کرے گی یعنی کہ حکومت بجلی خریدے نہ خریدے وہ اس کی ادائیگی کرنے کی پابند ہو گی کیونکہ ان پاور پلانٹس کے لیے بیرونی و اندرونی بینکوں اور مالیاتی اداروں سے قرضہ لیا جاتا ہے اس لیے کمپنیوں کو اس قرضے کی ادائیگی کے لیے حکومت کی ضمانت درکار ہوتی ہے تاکہ یہ کمپنیاں حکومت کی جانب سے بجلی خریدنے یا نہ خریدنے دونوں صورتوں میں بینکوں کو قرضوں کی ادائیگی کر سکیں.
حکومت کی جانب سے جب اکتوبر 2024 میں پانچ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی منظوری دی گئی تھی تو اس سے بجلی صارفین کے بلوں میں کوئی قابل ذکر کمی واقع نہیں ہوئی تھی کیونکہ ان معاہدوں پر نظرثانی کے بعد بجلی کے بل میں صرف 70 پیسے فی یونٹ کمی کا تخمینہ سامنے آیا تھا دسمبر میں آٹھ مزید آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کے بعد توانائی کے شعبے کے ماہرین کا کہنا تھا کہ بیگاس(گنے کے پھوگ)پر چلنے والے آئی پی پیز کا بجلی کی پیداوار میں معمولی حصہ ہے اس لیے ان معاہدوں سے بجلی کے بل میں نہ ہونے کے برابر کمی واقع ہو گی بیگاس پر چلنے والے جن آٹھ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی منظوری دی گئی ان کی سرکاری ادارے پرائیوٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ کے مطابق مجموعی پیداواری صلاحیت صرف 259 میگاواٹ ہے جس کا حصہ پاکستان کی مجموعی بجلی کی پیداواری صلاحیت میں بہت کم ہے.
عافیہ ملک نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے آٹھ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی سے بجلی کے بلوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی کیونکہ بیگاس سے چلنے والے ان کارخانوں پر بجلی کی مجموعی پیداوار میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے انہوں نے کہا کہ اکتوبر میں پانچ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں اور اب آٹھ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کے بعد اگر مجموعی کمی لی جائے تو وہ صرف ایک روپیہ فی یونٹ کے قریب ہے.
حکومتی ادارے پرائیوٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت 101 آئی پی پیز کام کر رہے ہیں جن میں فرنس آئل پر چلنے والے کارخانوں کی تعداد 15، گیس اور آر ایل این جی پر چلنے والے پاور پلانٹس کی تعداد 19، پانی سے بجلی بنانے والے آئی پی پیز کی تعداد چار، درآمدی کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد تین، تھر کے کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد پانچ اور بیگاس پر چلنے والے پاور پلانٹس کی تعداد آٹھ ہے جبکہ سورج کی روشنی سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 10 اور ہوا سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 36 ہے.
عافیہ ملک نے بتایا کہ ان آئی پی پیز میں حکومتی آئی پی پیز بھی شامل ہیں جن میں پانی اور نیوکلئیر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس بھی شامل ہیں عافیہ ملک نے بتایا کہ اکتوبر میں ہونے والے معاہدوں پر عملدرآمد ہو چکا اور جن پانچ کمپنیوں کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا تھا وہ اب ”ٹیک یا پے“ٹیرف سے ”ٹیک اور پے“ٹیرف پر آچکی ہیں یعنی اب حکومت جو بجلی خریدے گی اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی انہوں نے بتایا کہ ان پانچ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر عملدرآمد ہو چکا جبکہ ان کی جانب سے سٹاک مارکیٹ میں اپنے شیئر ہولڈرز کو بھی اس بارے میں مطلع کر دیا گیا.
شعبہ توانائی کے تجزیہ کار سمیع اللہ طارق نے اس حوالے سے بتایا کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اب ان معاہدوں کو نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی کو بھیجا جائے گا جو ان کے لیے نئے بجلی کے ٹیرف بنائے گا اور اس کی منظوری سے ان کمپنیوں کے لیے نئے پاور ٹیرف کا اطلاق ہو جائے گا کپیسِٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے جو صارفین کی جانب سے بجلی کی اضافی مانگ کی صورت پر مہیا کی جا سکے لیکن جب کوئی پلانٹ اپنی پوری صلاحیت پر اس لیے بجلی پیدا نہیں کرتا کیونکہ ملک میں اس کی مانگ نہیں تو ایسے وقت میں ان پاور پلانٹس کو فعال رکھنے کے لیے کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے.
ماہرین کے علاوہ حکام بھی تسلیم کرتے ہیں آئی پی پیزسے معاہدوں پر نظرثانی سے صارفین کو بہت معمولی فائدہ ہوگا کیونکہ اصل مسلہ ضرورت سے زیادہ ٹیکس‘سرچارجزاور دیگر پوشیدہ چارجزہیں رواں ماہ کے آغازپر ”نیپرا“کی جانب سے مرتب کی جانے والی رپورٹ میں فی یونٹ کم ازکم 20روپے کے ایسے اخراجات کا تذکرہ کیا گیا ہے جو بلاجوازاور غیرضروری ہیں جبکہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ حکومت فی یونٹ اوسط 7روپے49پیسے میں بجلی خریدکرمہنگے داموں فروخت کرتی ہے اس کے علاوہ سرکاری محکموں‘پارلیمان‘اعلی سرکاری عہدیدران اور افسران‘اعلی عدلیہ کے جج صاحبان سمیت متعددسرکاری ونیم سرکاری اداروں‘حکام اور اہلکاروں کو مفت یا انتہائی کم ریٹ پر بجلی فروخت کی جاتی ہے .
ماہرین کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ سمیت اہم ترین سرکاری مراکز‘دفاتر‘رہائش گاہیں‘محکمے جو بہت زیادہ بجلی صرف کرتے ہیں وہ کم ریٹ کے باوجود بل ادانہیں کرتے کئی کئی دہائیوں سے ان کے ذمے پاور کمپنیوں کے اربوں روپے واجب الادا ہیں زیادہ سرکاری محکمے اپنے بجٹ میں تو واجب الادا بلوں کی رقم کو شامل کرتے ہیں اور عوامی خدمات کے عوض وصول کی جانے سرکاری فیسوں میں بجلی کے بل بھی وصول کیئے جاتے ہیں مگر ان کی ادائیگیاں نہیں کی جاتیں انہوں نے کہا کہ اعلی عدلیہ ہو یا اعلی سرکاری حکام ایسی بے ضابطگیاں سب کے علم میں ہیں مگر انہیں نظراندازکیا جاتا ہے لہذا توانائی کے شعبے کے اس ”خسارے“ کو پوراکرنے کے لیے سارا بوجھ عام صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے چونکہ پاکستان جیسے ممالک میں اعلی سرکاری شخصیات یا اداروں کی بجلی عدم ادائیگی پر منقطع کرنے کا کوئی تصور نہیں اس لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی طرح وزارت بجلی وتوانائی اور تقسیم کار کمپنیاں عام شہریوں سے اووربلنگ یا بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے ”خسارے“کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر
کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی
معاہدوں پر نظرثانی سے
ثانی کی منظوری دی
حکومت کی جانب سے
بجلی پیدا کرنے
سے بجلی بنانے
عافیہ ملک نے
ان معاہدوں
توانائی کے
کی ادائیگی
بجلی کے بل
میں بجلی
کے مطابق
پیمنٹ کی
بجلی کی
کرنے کی
فی یونٹ
ملک میں
کے بعد
کی گئی
کے لیے
اس لیے
پڑھیں:
گلے میں بندھی چوٹی کا نیا فیشن، دیکھنے والے سر کھجانے پر مجبور
بالوں سے بنی نیک ٹائی فیشن کی دنیا میں تہلکہ مچا رہی ہے.
فیشن کی دنیا میں کبھی کبھار ایسے رجحانات جنم لیتے ہیں جو نہ صرف چونکا دینے والے ہوتے ہیں بلکہ دیکھنے والوں کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ”بالوں جیسی بنی نیک ٹائی“ نے بالکل ایسا ہی کیا ہے۔
اطالوی فیشن ہاؤس سکیاپاریلی (Schiaparelli) نے پیرس فیشن ویک (Autumn-Winter 2024) میں ایک ایسی نیک ٹائی متعارف کرائی ہے جو کسی لمبی چوٹی جیسی دکھائی دیتی ہے۔ جی ہاں! یہ نیک ٹائی دراصل نائلون کے ریشوں سے تیار کی گئی ہے جو ایک چمکدار اور دلکش چوٹی کی شکل میں سامنے آتی ہے۔
یہ انوکھا فیشن پیس، جسے ”بصری دھوکہ“ (trompe l’oeil) کہا جا رہا ہے کلاسیکی مردانہ نیک ٹائی کو ایک جدید، تخلیقی اور آرٹسٹک انداز میں پیش کرتا ہے۔
مشہور شخصیات بھی پیچھے نہیں رہیں
فلم ساز کرن جوہر، جو ہمیشہ منفرد انداز میں نظر آتے ہیں، نے اس نیک ٹائی کو ایک بیج سوٹ اور سفید قمیض کے ساتھ پہنا۔ ان کے لباس کو سکیاپاریلی Schiaparelli کا آنکھ جیسا بروچ مزید نمایاں کر رہا تھا۔
اداکارہ سے ہدایت کارہ بننے والی میگی جلنہال نے لاس ویگاس میں ہونے والے سینیما کون 2025 کے ریڈ کارپٹ پر اسے ایک سیاہ پینٹ سوٹ کے ساتھ پہنا اور سب کو حیران کر دیا۔
’لیگلی بلونڈ‘ کی اداکارہ سیلما بلیئر نے یہ نیک ٹائی سکیاپاریلی Schiaparelli کے اپنے فیشن شو میں پہنی۔ انہوں نے اس کو ایک اوور سائزڈ براؤن سوٹ، بھاری چمڑے کی بیلٹ اور سفید شرٹ کے ساتھ اس انداز میں پہنا کہ سب کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔
جبکہ آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ ٹلڈا سوئٹن نے بھی اس انوکھے اسٹائل کو اپنایا۔ انہوں نے اسے ایک انتہائی نفیس اور ٹیلرڈ سوٹ کے ساتھ ڈی جی اے ایوارڈز میں پہنا۔
اگر آپ اس 2,300 امریکی ڈالر (تقریباً 2 لاکھ روپے) کی قیمت والی نیک ٹائی خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، تو مایوس نہ ہوں۔
سوشل میڈیا انفلوئنسر آوا سلمیچی سمیت کئی فیشن شوقین افراد نے اپنے لمبے بالوں کو چوٹی کی شکل دے کر خود ہی اس انداز کو تخلیق کیا اور آفس سمیت مختلف تقریبات میں زیب تن کیا۔
یہ نئی نیک ٹائی صرف ایک فیشن اسٹیٹمنٹ نہیں بلکہ پہننے کے قابل فن پارہ ہے جو صنفی سرحدوں کو مٹا کر فیشن کی دنیا کو نئی جہت دے رہا ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا آپ فیشن میں اتنی ہمت رکھتے ہیں کہ 2 لاکھ روپے کی ”بالوں جیسی“ نیک ٹائی پہن سکیں؟
Post Views: 1