ٹرمپ نے 20 جنوری سے پہلے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے، صیہونی حکام
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
اسرائیل کے وزیر خارجہ گدعون ساعر نے حالیہ دنوں میں کہا تھا کہ قطر میں مذاکرات میں ترقی ہوئی ہے اور اسرائیل اس معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل کے نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ کے منتخب صدر نے اس رژیم سے کہا ہے کہ وہ 20 جنوری (ٹرمپ کی حلف برداری کے دن) سے پہلے غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ حاصل کرے۔ فارس نیوز کے مطابق، اسرائیل کی نائب وزیر خارجہ شارین ہسکل نے آج (منگل) کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے کہا کہ حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت اسرائیل کے 33 قیدی آزاد ہو جائیں گے۔ ہسکل نے ذکر کیا کہ امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو 20 جنوری سے پہلے مکمل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں اس معاہدے کی تفصیلات ظاہر نہیں کر سکتی اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ ایسی کوئی بات کی جائے جو گروگانوں کے اہل خانہ کے جذبات پر اثر انداز ہو۔ ہسکل نے یہ بھی کہا کہ اس وقت قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر بات چیت جاری ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ جلد مثبت خبریں آئیں گی۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ گدعون ساعر نے حالیہ دنوں میں کہا تھا کہ قطر میں مذاکرات میں ترقی ہوئی ہے اور اسرائیل اس معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس ضمن میں اسرائیلی چینل 12 نے رپورٹ کیا کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے سیکیورٹی اور فوجی حکام سے مشاورت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چینل نے بتایا کہ اس معاہدے کے باوجود، داخلی سیکیورٹی کے وزیر ایتمار بن گویر اور وزیر خزانہ بزالل اسموتریچ نے اس کی مخالفت کی ہے، لیکن یہ معاہدہ کابینہ میں وسیع حمایت حاصل کر رہا ہے۔ اسموتریچ نے آج صبح اس ممکنہ معاہدے کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے اسے اسرائیل کی سیکیورٹی کے لیے تباہ کن قرار دیا۔
اسی دوران، ایتمار بن گویر نے بزالل اسموتریچ کو غزہ میں جنگ بندی معاہدہ پر دستخط کرنے کی صورت میں کابینہ سے استعفیٰ دینے کی دھمکی دی اور اس معاہدے کو تسلیم طلب قرار دیا۔ اخبار یدیعوت احرونوت نے بن گویر کے حوالے سے لکھا کہ اسموتریچ کو بتا دیں کہ اگر معاہدہ ہوا، تو ہم دونوں حکومت سے استعفیٰ دے دیں گے۔ بن گویر نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ جو تیار ہو رہا ہے، ایک تسلیم طلب معاہدہ ہے اور ہم اسے روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
اسموتریچ نے گزشتہ روز کہا کہ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ اسرائیل کی سیکیورٹی کے لیے تباہ کن ہے اور کہا کہ یہ معاہدہ تسلیم طلب ہے اور اس میں اہم دہشت گردوں کی آزادی، جنگ کا خاتمہ اور حاصل کردہ کامیابیوں کا ضیاع شامل ہے۔ اسموتریچ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم غزہ کو دوبارہ قابو کریں، امداد پر کنٹرول رکھیں اور جہنم کے دروازے کھول دیں تاکہ حماس ہار جائے اور گروگانوں کو واپس کیا جائے۔
اس ضمن میں اسرائیلی چینل کان نے رپورٹ کیا کہ بنیامین نیتن یاہو کی کوششیں اسموتریچ کو قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی حمایت پر قائل کرنے میں ناکام ہو گئی ہیں۔ دوسری جانب، قطر نے گزشتہ رات امریکہ، حماس اور اقوام متحدہ کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کے آخری مذاکرات پر تبادلہ خیال کیا۔ قطر کے شاہی دیوان نے اپنے ویب سائٹ پر بیان جاری کیا کہ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے امریکی صدر جو بائیڈن سے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔
حماس کے مزاحمتی گروپ نے بھی منگل کی صبح قطر کے امیر سے ملاقات کی اور غزہ میں جنگ بندی مذاکرات کی تفصیلات پر بات کی۔ حماس نے کہا کہ وہ جنگ بندی کی کوششوں اور موجودہ پیش رفت کے حوالے سے مثبت نقطہ نظر رکھتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قیدیوں کے تبادلے اسرائیل کے اس معاہدے معاہدے کے کے وزیر رہا ہے کہا کہ کیا کہ ہے اور اور اس
پڑھیں:
ایران امریکہ مذاکرات
تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جسمیں تازہ ترین مسائل کے بارے نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کیجاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیں
تجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: ایران امریکہ مذاکرات
مہمان تجزیہ نگار: پروفیسر ڈاکٹر عائشہ طلعت وزارت (سابق چیئرپرسن جامعہ کراچی شعبہ بین الاقوامی تعلقات)
میزبان وپیشکش: سید انجم رضا
13 اپریل 2025ء
ابتدائیہ:
عمان کے دارالحکومت مسقط میں امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کی پہلی نشست مکمل ہوئی
مسقط میں مذاکرات میں ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ سید عباس عراقچی جبکہ امریکی وفد کی قیادت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے مشرقِ وسطیٰ سٹیو وٹکوف کر رہے ہیں۔
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق امریکہ اور ایران کے مذاکرات کاروں نے اگلے ہفتے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
کئی سال بعد اس بات چیت کا مقصد ایران کے متنازع جوہری منصوبے پر نئے معاہدے پر اتفاق کرنا ہے۔
موضوعات و سوالات:
ایران امریکہ مذاکرات، کسی معاہدے کی کتنی امید ہے اور کیا امریکہ خصوصا ٹرمپ اپنے معاہدے پر برقرار رہے گا؟
ٹرمپ نے مذاکرات کیلئے پیشگی شرائط رکھی تھیں جس کو ایران نے قبول نہیں کیا، کیا بغیر شرائط کے مذاکرات امریکہ کی شکست نہیں ہے؟
فیلڈ میں اگرچہ اسرائیل مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے لیکن حماس اور یمن اور اسی طرح مزاحمتی بلاک اب بھی کھڑا ہے، اس صورتحال میں امریکہ کا ٹیبل پر آنا اور ٹرمپ کا خط لکھ کر ایران کو دعوت دینا بین الاقوامی روابط اور ڈپلومیٹک اصولوں میں کس طرح دیکھا جائے گا؟
اسرائیلی مظالم پر مسلم ممالک کی حکومتیں کیوں خاموش ہیں؟
گذشتہ دنوں پاکستان کے کچھ صحافیوں کی اسرائیل سفر کی خبریں عام ہوئیں ان میں کتنی صداقت ہے؟ کیا پاکستان کے اندر اسرائیل کیلئے کہیں کوئی نرم گوشہ پایا جاتا ہے؟ اگر ہے تو یہ کون لوگ ہیں؟
خلاصہ گفتگو و اہم نکات: ٹرمپ اپنے گزشتہ دورِ اقتدار میں دستخط شدہ معاہدے کو توڑنےکی بنا پہ اپنا اعتبار کھوچکا ہے
ٹرمپ ایک ناقابل اعتبار امریکی لیڈر ثابت ہوا ہے
موجودہ مذاکرات کی کامیابی کے بارے کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہو گا
بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا الزام لگا کر امریکہ ہمیشہ مسلمان ممالک کو بلیک میل کرتا آیا ہے
ایران کے مذاکرات کاروں سے توقع ہے کہ وہ بہترین حکمت عملی اپنائیں گے
امید ہے کہ ایرانی مذاکرات ٹیم اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا رد کرنے میں کامیاب رہے گی
ایرانیوں نے براہ ِ راست مذاکرات سے انکار کر کے امریکیوں کو پسپا کیا ہے
امریکہ کا دوبارہ مذاکرات کے لئے کہنا ہی اس کی خفت و شکست کا اظہار ہے
ایران کے مزاحمتی حلیف دن بہ دن مضبوط ہوتے جارہے ہیں
ایران کسی بھی صورت اپنی ایٹمی توانائی کے حق پر سمجھوتا نہیں کرے گا
ایران کی پر امن نیوکلیر پالیسی اس کا حق ہے
ایران کو اس وقت توانائی کی اشد ضرورت ہے
ایرانی رہبر نے بارہا نیوکلیر توانائی کے پُرامن استعمال کا فتوی دیا ہے
اسرائیل کے عزائم ہمیشہ سے جارحانہ اور توسیع پسندانہ رہے ہیں
جو مسلم ممالک اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں وہ اسرائیلی مظالم سے بچ نہیں سکتے
پاکستانی صحافیوں کا اسرائیل کا خفیہ دورہ تکلیف دہ بات ہے
پاکستانی قوانین کے مطابق ان پاکستانیوں سے تفتیش کی جانی چاہیئے
پاکستان میں پرو امریکی لابی صیہونی مفادات کے لئے بھی کام کر رہی ہے
پاکستان میں اسرائیلی نفوذ پاکستان کے لئے نقصان کا باعث بنے گا
پاکستان میں صیہونی نفوذ سی پیک کے لئے بھی بہت خطرناک ثابت ہو گا