اسرائیلی فوجیوں نے غزہ میں لڑنے سے انکار کردیا، باغیوں کو سنگین نتائج کی دھمکی
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
اسرائیلی فوج میں غزہ میں جاری جنگ کے خلاف بولنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ تقریباً 200 فوجیوں نے ایک خط پر دستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اگر حکومت جنگ بندی کو یقینی نہیں بناتی تو وہ لڑائی بند کر دیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: حماس اسرائیل معاہدہ نزدیک تر، صیہونی فوج کے حملوں میں بھی شدت
وائس آف امریکا کی رپورٹ میں جنگ سے انکار کرنے والے فوجیوں کے تاثرات شامل کیے گئے ہیں جنہوں نے حال ہی میں میڈیا سے گفتگو کی۔
ہم فلسطینیوں کو بے دریغ مارنے، گھر جلانے کے حق میں نہیں، اسرائیلی فوجیایسے 7 اسرائیلی فوجیوں نے اپنے انکار کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے میڈیا سے کہا کہ وہ فلسطینیوں کو بے دریغ مارنے اور ان کے مکانوں کو جلانے کے حق میں نہیں ہیں۔
لڑائی سے انکار کرنے والے فوجیوں کا کہنا ہے کہ خط پر اگرچہ 200 دستخط ہیں لیکن اور بھی بہت سے فوجی ہمارے خیالات سے متفق ہیں۔
فوجی خدمات سے انکار کا خط ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور حماس پر لڑائی ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے اور جنگ بندی پر بات چیت جاری ہے۔ صدر جو بائیڈن اور نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں نے 20 جنوری سے قبل کسی معاہدے پر پہنچنے پر زور دیا ہے۔
’نہتے فلسطینی کے قتل کا منظر بھولتا نہیں‘اسرائیلی فوج کی بکتر بند کور کے ایک افسر 28 سالہ یوتم ولک کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ایک نہتے فلسطینی نوجوان کے قتل کا منظر ان کے ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا ہے۔
مزید پڑھیے: اسرائیلی جارحیت، غزہ کی 6 فیصد آبادی کم ہوگئی
انہوں نے بتایا کہ غزہ میں اسرائیل کے زیرقبضہ بفر زون میں داخل ہونے والے کسی بھی غیر مجاز شخص کو گولی مار دینے کا حکم ہے۔ یوتم کا کہنا تھا کہ انہوں نے کم ازکم 12 افراد کو بفر زون میں گولیاں کھا کر گرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حماس بھی ہلاکتوں کی ذمہ دار ہےیوتم کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ ہلاکتوں کی ذمہ دار حماس بھی ہے۔ ایک گرفتار فلسطینی نے بتایا تھا کہ حماس نے کچھ لوگوں کو بفر زون میں جانے کے لیے 25 ڈالر دیے تھے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اسرائیلی فوج کیا ردعمل دے گی۔
باغی فوجیوں میں سے ایک یوتھم ولکیوتم کہتے ہیں کہ بفر زون میں آنے والوں کو مارنے سے پہلے فوج نے انتباہی گولیاں چلائی تھیں لیکن ان کا خیال ہے کہ کسی نہتے کو ہلاک کرنے میں جلدی کی گئی۔
بے ضرر مکینوں کے گھر گرانے کا بھی حکم ملا، فوجیغزہ میں لڑنے سے انکار کرنے والے 7 فوجیوں نے میڈیا کو بتایا کہ انہیں ایسے گھروں کو جلانے یا گرانے کا حکم دیا گیا تھا جن سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ انہوں نے فوجیوں کو گھروں کو لوٹتے اور ان کی توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دیکھا۔
کچھ واقعات نے فوج کی نوکری فوری چھوڑنے پر راغب کیاکچھ فوجیوں نے بتایا کہ انہوں نے غزہ میں جو کچھ ہوتے ہوئے دیکھا اسے ذہنی طور پر قبول کرنے میں وقت لگا۔ کئی دوسرے فوجیوں نے کہا کہ بعض واقعات ایسے تھے کہ ان کا فوری طور پر فوج کی نوکری چھوڑنے کو دل چاہا۔
’انسانی قدروں کو بکھرتے دیکھا‘یوتم کا کہنا تھا کہ جب نومبر 2023 میں اسرائیلی فوج غزہ میں داخل ہوئی تو ان کا خیال تھا کہ طاقت کا ابتدائی استعمال دونوں فریقوں کو بات چیت کے لیے میز پر لا سکتا ہے لیکن جنگ آگے بڑھتے بڑھتے اپنے 15 ویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے۔ اس عرصے میں انسانی زندگی کی قدر کو میں نے بکھرتے ہوئے دیکھا ہے۔
نوکری چھوڑنے والے فوجی نے کیا کہا؟فوج کے میڈیکل شعبے سے وابستہ 27 سالہ یوول گرین نے غزہ میں 2 ماہ گزارنے کے بعد گزشتہ جنوری میں فوج کو چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے وہاں جو کچھ ہوتے ہوئے دیکھا اس کے ساتھ میں زندگی نہیں گزار سکتا تھا۔
فوجیوں نے عبادت گاہوں تک میں لوٹ مار کییوول گرین کا کہنا تھا کہ فوجیوں نے گھروں کی بے حرمتی کی اور اسپتالوں کو نقصان پہنچایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوجیوں نے لوٹ مار کی حتی ٰکہ عبادت گاہوں تک سے چیزیں لوٹ کر لے گئے۔
ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے یوول گرین نے بتایا کہ ان کے ایک کمانڈر نے فوجیوں کو ایک گھر کو، جس سے کوئی خطرہ نہیں تھا، جلانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ حماس اسے استعمال کر سکے۔
مزید پڑھیں: غزہ: پناہ کے متلاشیوں پر اسرائیلی حملے اور والدین کو ڈھونڈتے خاک و خون میں لت پت بچے
بری فوج کے ایک سابق سپاہی نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے سنہ 2023 کے آخر میں 12 ہفتوں کے دوران تقریباً 15 عمارتوں کو غیر ضروری طور پر جلتے دیکھا۔
’ غیر منفصفانہ قوانین سے انکار کرنا اخلاقی ذمہ داری ہے‘لڑنے سے انکار کرنے والے فوجی اپنے خط پر زیادہ سے زیادہ دستخط حاصل کرنے کے لیے اس مہینے تل ابیب میں ایک اجتماع کر رہے ہیں۔ اس کے منتظمین میں میکس کریش بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریب کے لیے پوسٹر سائز کے اسٹکر تقسیم کیے ہیں جس کی نمایاں بات اس پر درج مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا ایک اقتباس ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ’غیر منفصفانہ قوانین سے انکار کرنا اخلاقی ذمہ داری ہے‘۔
لیکن فوج میں ایسے لوگ بھی ہیں جو جنگ سے انکار کی تحریک کی مخالفت کر رہے ہیں۔ فوج کے مطابق اس جنگ میں اب تک 830 اسرائیلی فوجی مارے جا چکے ہیں۔
فوج میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہوتیچھاتہ بردار فوج کے 42 سالہ گیلاد سیگل سن 2023 کے آخر میں 2 مہینے غزہ میں گزار چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فوجی خدمت سے انکار کی تحریک چلانے والے اسرائیل کی دفاعی صلاحیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فوج میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
اسرائیل میں جنگ کے طول پکڑنے کے ساتھ اس پر تنقید بڑھ رہی ہے۔ لیکن ملک کے اندر زیادہ تر تنقید یرغمالوں کو واپس گھر لانے کے لیے جنگ بندی پر مرکوز ہے۔
یہ بھی پڑھیے: شمالی غزہ: آخری اسپتال تباہ کرتے وقت اسرائیلی فوجیوں کا مریضوں، خواتین نرسوں کے ساتھ شرمناک سلوک
جب کہ بین الاقوامی حقوق کی تنظیمیں اسرائیل پر غزہ میں جنگی جرائم اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا الزام لگا چکی ہیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر کردہ کثیر ہلاکتوں کے الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے اور وہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہی ہے۔
اسرائیلی حکومت کی فوج کے الزامات کی تردیداسرائیل غیر معمولی تعداد میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ فوج کبھی بھی جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ نہیں بناتی اور فلسطینیوں کے نقصانات کو کم سے کم رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جاتے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے اپنے ایک بیان میں فوجی خدمات انجام دینے سے انکار کے عندیے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے سپاہیوں کو جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ تاہم ابھی تک کسی کو بھی حراست میں نہیں لیا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیلی فوج کا انکار اسرائیلی فوج کا لڑنے سے انکار باغی اسرائیلی فوجی غزہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج کا انکار باغی اسرائیلی فوجی سے انکار کرنے والے اسرائیلی فوجیوں اسرائیلی فوجی اسرائیلی فوج کہنا تھا کہ ہوئے دیکھا والے فوجی کرتے ہوئے فوجیوں نے انہوں نے میں نہیں کا کہنا فوج میں فوج کی کے لیے کہا کہ فوج کے گیا ہے رہی ہے کہ فوج
پڑھیں:
انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔بیرسٹرسیف
مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے ، امید ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس کا تین بار فیصلہ موخر ہونے سے شکوک و شبہات نے جنم لے لیا ہے۔اپنے ایک بیان میں بیرسٹر سیف نے کہا کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے، القادر ٹرسٹ کیس حکومت کا جعلی مقدمہ ہے، القادر کیس میں پیسہ بیرون ملک سے آیا، ریاست کے فلاحی منصوبے پر خرچ کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو سیرت النبیۖ سے روشناس کرانے پر حکومت بانی پی ٹی آئی کو سزا دینے کی کوشش کر رہی ہے، نوجوانوں کو سیرت النبیۖ سے روشناس کرانا جرم ہے تو یہ جرم بانی پی ٹی آئی کرتا رہے گا۔رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی یا بشریٰ بی بی کے اکائونٹ میں کوئی رقم منتقل نہیں ہوئی، بانی پی ٹی آئی کے خلاف تمام مقدمات کی حقیقت عدالتوں میں بے نقاب ہو رہی ہے، حکومت نے ملک میں لاقانونیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔