Islam Times:
2025-01-18@11:11:03 GMT

بھارت میں مسلمانوں کی عبادتگاہیں اور مسجدیں نشانے پر

اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT

بھارت میں مسلمانوں کی عبادتگاہیں اور مسجدیں نشانے پر

اسلام ٹائمز: حالیہ برسوں میں بھارت بھر میں کئی مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جہاں یہ دعوے کئے گئے کہ یہ مسجدیں دراصل مندروں کی جگہ پر بنائی گئی تھیں۔ خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی کی درگاہ کے پہلے شیو مندر ہونے کے دعوے، بدایوں کی 850 سال قدیم تاریخی جامع مسجد پر تنازع، سنبھل کی جامع مسجد تنازعہ، علیگڑھ کی جامع مسجد کی جگہ مندر ہونے کا شوشہ، نیل کنٹھ مہادیو مندر ہونے کا دعویٰ، بس وہی کہانی، وہی دلائل، وہی لوگ اور وہی ذہنیت۔ رپورٹ: جاوید عباس رضوی

بھارت میں مساجد میں مندروں کی تلاش کا معاملہ حالیہ دہائیوں میں شدّت سے سامنے آیا ہے۔ مسجدوں میں مندروں کی تلاش کے پیچھے ایک اہم دلیل یہ دی جاتی ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں مسلم حکمرانوں نے مندروں کو منہدم کرکے ان کی جگہ مسجدیں تعمیر کی تھیں۔ اگرچہ قرونِ وسطیٰ میں بعض مسلم حکمرانوں کی طرف سے مندروں کو نقصان پہنچانے کے واقعات ضرور پیش آئے، لیکن یہ واقعات عمومی پالیسی کا حصّہ نہیں تھے۔ بہت سے مسلم حکمرانوں نے مندروں کو تحفّظ فراہم کیا اور ہندوؤں کو اپنے مذہبی مقامات پر عبادت کی آزادی دی۔ مغل شہنشاہ اکبر، جہانگیر اور شاہ جہاں کے دور میں مندروں کو مالی امداد دی گئی، جبکہ اورنگزیب جیسے حکمرانوں نے بھی کئی مندروں کو تحفّظ دیا، اس کے باوجود کہ انہیں ایک سخت گیر حکمران کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ تاریخ کے ان واقعات کو موجودہ دور میں غلط طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے تاکہ اکثریتی طبقے میں ماضی کے مظالم کا احساس پیدا کیا جا سکے اور مسلمانوں کو ظالم کے طور پر پیش کیا جائے۔

مساجد میں مندروں کی تلاش ایک خاص منصوبے اور سیاسی حکمتِ عملی کا حصّہ ہے، جو ووٹ بینک کی سیاست پر مبنی ہے۔ اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے تاکہ ان کے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ ان کا مذہب اور ثقافت خطرے میں ہے۔ اس جذباتی بیانیے کو استعمال کرکے سیاسی جماعتیں اپنی حمایت مضبوط کرتی ہیں۔ اکثریتی طبقے اور اقلیتوں کے درمیان نفرت پیدا کرکے سماجی تقسیم کو بڑھاوا دیا جاتا ہے، جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ بابری مسجد کا مسئلہ اس حکمتِ عملی کی نمایاں مثال ہے، جہاں مسجد کے نیچے مبینہ رام مندر کی موجودگی کا دعویٰ کیا گیا۔ اس تنازعہ کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا، جس کا اختتام مسجد کی شہادت اور فرقہ وارانہ فسادات پر ہوا۔

مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے مسجدوں میں مندروں کی تلاش کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مسجدیں مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کی علامت ہیں۔ ان پر حملہ دراصل ان کی مجموعی شناخت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ مذہبی مقامات پر تنازعات کھڑے کرنے سے معاشرے میں جذباتی کشیدگی پیدا ہوتی ہے، جسے فرقہ وارانہ فساد میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت بھر میں کئی مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جہاں یہ دعوے کئے گئے کہ یہ مسجدیں دراصل مندروں کی جگہ پر بنائی گئی تھیں۔ کاشی وشوناتھ مندر، وارانسی میں واقع گیان واپی مسجد کو ایک متنازعہ مقام قرار دے کر اس پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ قدیم شیو مندر کی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی۔ متھرا میں واقع شاہی عیدگاہ کو کرشن کی جائے پیدائش سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی کی درگاہ کے پہلے شیو مندر ہونے کے دعوے۔ سنبھل کی جامع مسجد تنازعہ، بدایوں کی 850 سال قدیم تاریخی جامع مسجد پر تنازع، نیل کنٹھ مہادیو مندر ہونے کا دعویٰ، معاملے کی سماعت 8 اگست 2022ء سے جاری ہے، وہی کہانی، وہی دلائل، وہی لوگ اور وہی ذہنیت۔

مسجدوں کے سامنے جلسے یا جلوس منعقد کئے جاتے ہیں۔ مذہبی جنون پر مبنی نعرے بازی، اشتعال انگیز تقاریر، یا بلند آواز میں موسیقی، اس عمل کے ذریعے اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے تاکہ انہیں محسوس ہو کہ ان کی ثقافت اور مذہب خطرے میں ہے۔ طاقت کے مظاہرے کے ذریعے اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کو احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کی مذہبی آزادی خطرے میں ہے اور وہ محفوظ نہیں ہیں۔ مذہبی جذبات کو استعمال کرکے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی جاتی ہے، جس سے سیاسی جماعتیں ووٹ بینک کی سیاست میں کامیاب ہوتی ہیں۔ ایسے مظاہروں کا مقصد مسلمانوں اور اکثریتی طبقے کے درمیان کشیدگی پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ سماج میں مذہبی منافرت بڑھائی جا سکے۔ مسجدوں کے سامنے مظاہرے اکثر فرقہ وارانہ فسادات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، جس سے سماجی امن و امان متاثر ہوتا ہے۔

عوامی مقامات پر مذہبی منافرت پیدا کرنا اور کسی عبادت گاہ کے قریب مظاہرے کرنا عام طور پر یہاں کے قانون کے خلاف ہے، لیکن ان معاملات میں اکثر قانون نافذ کرنے والے ادارے بے عملی یا جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی شکایات کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، اور ان کے ردّعمل کو قانون کی خلاف ورزی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے مظاہرے اقلیتوں کو یہ باور کرانے کے لئے منعقد کئے جاتے ہیں کہ وہ معاشرتی اور سیاسی طور پر کمزور ہیں۔ اقلیتی طبقے کی مذہبی آزادی پر حملہ کرکے ان کے اندر خوف و ہراس پیدا کیا جاتا ہے، جس کا مقصد انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔ مسجدیں مسلمانوں کے عقیدے، تہذیب، اور روحانی زندگی کا مرکز ہیں۔ ان کے انہدام کا مقصد مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا ہوتا ہے۔ مسجد کی شہادت سے مسلمانوں کے دلوں میں گہرے زخم ڈالے جاتے ہیں تاکہ ان کا مذہبی اعتماد متزلزل ہو۔ مسجدیں اسلامی تہذیب اور ثقافت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کے انہدام سے مسلمانوں کی اجتماعی شناخت پر حملہ کیا جاتا ہے۔

اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ووٹ بینک سیاست سیاسی فائدہ حاصل کیا جاتا ہے، جیسے بابری مسجد کے معاملے میں دیکھنے کو ملا۔ مسجدوں کے انہدام کے ذریعے ہندو اور مسلم طبقات کے درمیان خلیج پیدا کی جاتی ہے تاکہ اقلیتوں کو الگ تھلگ اور کمزور کیا جا سکے۔ بعض جماعتیں اس حکمتِ عملی سے اپنی حکمرانی کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، کیونکہ مذہبی جذبات کو قابو میں رکھنا عوامی حمایت حاصل کرنے کا مؤثر ذریعہ ہوتا ہے۔ مسجدوں کے انہدام کے ذریعے مسلمانوں میں خوف پیدا کیا جاتا ہے کہ ان کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں ہیں۔ یہ عمل مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ایک کمزور اقلیت ہیں، جو اپنی عبادت گاہوں تک کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں۔ بعض اوقات مسجدوں کو "مسخ شدہ مندر” قرار دیا جاتا ہے تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ مسلمانوں نے تاریخ میں دیگر مذاہب پر مظالم کئے۔ تاریخی عمارتوں پر جھوٹے دعوے کرکے اکثریتی طبقے کو باور کرایا جاتا ہے کہ ماضی میں ان کے مذہبی مقامات پر حملے ہوئے تھے، حالانکہ اکثر اوقات یہ دعوے بے بنیاد ہوتے ہیں۔

مین اسٹریم میڈیا، سیاست اور، فلم انڈسٹری، سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے بھارت کے مسلمانوں کو ہمیشہ منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ ان کے خلاف عام عوام کے جذبات کو بھڑکایا جا سکے۔ عالمی اور مقامی سطح پر مسلمانوں کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ان کی جدوجہد اور مشکلات کو کمزور کیا جا سکے۔ مسلمانوں کے خلاف جھوٹے مقدمات اور گرفتاریوں کو بڑھاوا دے کر انہیں دباؤ میں رکھا جاتا ہے۔ نفرت انگیزی کو فروغ دینے کے لئے مسلمانوں کو "دوسرے درجے” کے طور پر پیش کر کے اکثریتی طبقے کو ان کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے۔ اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے تاکہ انہیں دشمن کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ جلسے، جلوس اور میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف جھوٹے دعوے اور نفرت آمیز بیانات پھیلائے جاتے ہیں۔ منصوبہ بندی کے تحت فسادات کو بھڑکا کر مسلمانوں کو جسمانی اور مالی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ مسلسل دباؤ اور خوف کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو سیاسی میدان میں کمزور اور غیر مؤثر بنایا جاتا ہے تاکہ ان کی آواز نہ سنی جائے۔

مسجدوں کو نشانہ بنا کر مسلمانوں کی تہذیبی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مذہبی تنازعات پیدا کر کے اکثریتی طبقے کو متحد کرنا اور ان کے جذبات کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر ووٹ حاصل کرنا اکثریتی قوتوں کی عام حکمت عملی ہے۔ مسجدوں کو مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کا مرکز سمجھا جاتا ہے، اس لئے انہیں ہدف بنا کر اکثریتی طبقے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان کی مذہبی بالادستی قائم ہو رہی ہے۔ ہجومی تشدّد اور فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات میں ملوث افراد کو اکثر سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے، جس سے انصاف کا عمل کمزور ہوتا ہے۔ پولیس اور عدلیہ جیسے ریاستی ادارے اکثر و بیشتر اکثریتی طبقے کے دباؤ میں آ کر اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ یہ جانبداری اقلیتوں میں خوف اور عدم تحفّظ کا احساس پیدا کرتی ہے۔ بھارت کی موجودہ حکومتیں بعض اوقات فرقہ وارانہ کشیدگی کو ختم کرنے کے بجائے اسے اپنے فائدے کے لئے ہوا دیتی ہیں اور پروان چڑھاتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے طور پر پیش کیا جا میں مندروں کی تلاش مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ مسلمانوں کی مسلمانوں کو کیا جا سکے کے انہدام مسجدوں کو مسجدوں کے مندروں کو مقامات پر مندر ہونے کی مذہبی کے ذریعے کو نشانہ کہ ان کی پیدا کر پیدا کی کی کوشش ہوتا ہے کے لئے

پڑھیں:

حج 2025 کی تیاریاں عروج پر، وزارت مذہبی امور کے ملازمین کی دوڑیں لگ گئیں

وزارت مذہبی امور نے حج 2025 کی تیاریاں تیز کردی ہیں اور حج کے دوران پاکستانی عازمین کو معیاری خدمات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری انتظامات کیے جارہے ہیں۔

اس سلسلے میں وزارت مذہبی امور کی جانب سے ان ملازمین کے فٹنس ٹیسٹ کا انعقاد کیا جارہا ہے جو عازمین کے ساتھ بطور معاونین سعودی عرب جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور سعودی عرب میں حج معاہدہ، کیا نئی سہولیات ملیں گی؟

وزارت مذہبی امور کے مطابق، جوائنٹ سیکریٹری حج سجاد حیدر یلدرم کی نگرانی میں اس فٹنس ٹیسٹ کی تیاریاں کی جارہی ہیں، آج شالیمار گراؤنڈ میں وزارت مذہبی امور کے ملازمین کی ٹرائل دوڑ کا آغاز کیا گیا تاکہ حتمی فٹنس ٹیسٹ کے لیے مناسب وقت کا تعین کیا جاسکے۔ اس ٹرائل دوڑ میں جوائنٹ سیکریٹری حج سجاد حیدر یلدرم، ڈپٹی سیکریٹری ناصر عزیز خان اور دیگر اعلیٰ افسران نے بھی شرکت کی۔

آج ہونے والی ٹرائل دوڑ کا کل فاصلہ 5 کلو میٹر تھا۔ سجاد حیدر یلدرم نے 5 کلومیٹر کی دوڑ 29:40 منٹ، محمد حفیظ نے 37:52 منٹ، اسد حسین ملک نے 36:50 منٹ، محمد حفیظ کھوکر نے 39 منٹ، ریحان علی چیمہ 43:20 منٹ جبکہ جمیل الرحمان اور ناصر عزیز خان نے 5 کلومیٹر کی یہ دوڑ 48 منٹ میں مکمل کی۔

یہ بھی پڑھیں: حج کے خواہشمند پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کے لیے خوشخبری

واضح رہے کہ یہ فٹنس ٹیسٹ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ معاونین جسمانی طور پر حج کے دوران ہونے والی محنت اور چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل ہوں۔ وزارت مذہبی امور اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ حج 2025 کے دوران پاکستانی حجاج کرام کو تمام تر سہولیات اور معاونت فراہم کی جاسکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسلام اباد انتظامات تیاریاں جوائنٹ سیکریٹری حج سجاد حیدر یلدرم حج 2025 حجاج دوڑ سہولیات شالیمار گراؤنڈ فٹنس ٹیسٹ معاونین وزارت مذہبی امور

متعلقہ مضامین

  • کرپشن کی بہتی گنگا اور مذہبی ٹچ
  • معاشی کامیابیاں اور کچھ رکاوٹیں
  • کانگریس اور بی جے پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، امانت اللہ خان
  • جیل میں ایک وقت کا کھانا دیا جاتا تھا، اچھی بات ہے میرا وزن کم ہوگیا، مریم نواز
  • حج 2025 کی تیاریاں عروج پر، وزارت مذہبی امور کے ملازمین کی دوڑیں لگ گئیں
  • بی جے پی حکومت برقرار رکھنے کیلیے مسلم دشمنی کے ہتھکنڈے استعما ل کرتی ہے
  • کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
  • لاس اینجلس کی آگ! کیا واقعی اللہ کا عذاب ہے؟
  • تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی میں اضافہ تشویشناک ہے،جاوید قصوری
  • عازمین حج نے 48 ارب 90 کروڑ روپے جمع کرا دیے