Express News:
2025-04-16@22:30:25 GMT

کیا ٹرمپ بائیڈن سے بہتر ثابت ہوں گے؟

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

ٹرمپ نے امریکی انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کر کے بلاشبہ بائیڈن کو سبق آموز شکست دی ہے مگر اس شکست کی وجہ بائیڈن کی بحیثیت امریکی صدر اندرونی غلطیاں اور عالمی امور میں ناکامیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ ویسے بھی بائیڈن کی ناکامیابیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، سب سے اول تو وہ غزہ کا مسئلہ حل کرانے میں ناکام رہے مگر کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرانا چاہتے ہی نہیں تھے۔

بائیڈن کا دور اب ختم ہونے والا ہے۔ غزہ میں ڈیڑھ سال سے فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے مگر افسوس کہ بائیڈن نیتن یاہو کو نہ روک سکے بلکہ یہ کہنا کسی طرح غلط نہ ہوگا کہ وہ اسے روکنا چاہتے ہی نہیں تھے، اس بات کا ثبوت اس طرح بھی مل جاتا ہے کہ جب بھی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بند کرانے کے لیے کسی ملک کی جانب سے قرارداد پیش کی گئی تو امریکا کی جانب سے اس کے خلاف ویٹو استعمال کیا گیا۔

یہ سب بائیڈن کی فطرت میں چھپی عیاری کا پتا دیتا ہے کہ ایک طرف وہ جنگ کے خلاف تھے تو دوسری طرف وہ اسرائیلی بربریت کو بڑھاوا دیے جا رہے تھے شاید ان کی اس مکاری کا صلہ قدرت نے انھیں یہ دیا کہ وہ امریکی صدارت کے لیے دوسری مرتبہ الیکشن لڑنے کے لیے اہل ثابت نہیں ہو سکے۔

اب ٹرمپ کا دور شروع ہو گا تو پتا چلے گا کہ ان کی غزہ کے بارے میں کیا پالیسی ہے، ویسے انھوں نے نیتن یاہو کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کے حلف اٹھانے سے پہلے ہی غزہ پر حملے بند کردے اور جنگ بندی کا معاہدہ کر لے۔ اب دیکھتے ہیں کیا ٹرمپ بائیڈن کی طرح فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ رنگتے ہیں یا پھر انھیں نیتن یاہو کی بربریت سے بچاتے ہیں۔

ابھی انھوں نے حلف بھی نہیں اٹھایا ہے مگر اس سے پہلے ہی بڑی بڑی باتیں اور بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں۔ انھوں نے کینیڈا کو امریکا میں ضم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور پاناما وگرین لینڈ کو خریدنے کا ارادہ ظاہرکیا ہے۔

کیا یہ سب کچھ ممکن ہے؟ لگتا ہے وہ اس دفعہ اپنی جیت سے اتنے خوش ہیں کہ آپے سے باہر ہو گئے ہیں۔ وہ سب سے پہلے اپنے ملک کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کریں تو ہی بہتر ہوگا، اس لیے کہ بائیڈن نے اپنے چار سالہ دور میں امریکی امیج کو بہت نقصان پہنچایا ہے دوستوں کو دشمن بنایا ہے اور یوکرین جیسے محاذ پر ذلت اٹھائی ہے، اس کے علاوہ بھی دیگر مسائل ہیں جن پر توجہ مرکوزکرنا ضروری ہے۔

ٹرمپ کے اپنے دوستوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے اور بڑی بڑی باتیں کرنے سے امریکا کو تو نقصان پہنچے گا ہی ساتھ ہی ٹرمپ کی صلاحیت پر بھی شک کیا جائے گا۔ ویسے بھی وہ 80 سال کے ہو چکے ہیں چنانچہ ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ پہلے اپنے ملکی مسائل کی جانب توجہ دیں اور پھر عالمی مسائل کی جانب مائل ہوں۔

اس میں شک نہیں کہ اس وقت عالمی حالات امریکی مفاد کے خلاف ہیں۔ چین اور روس عالمی سطح پر اپنا مقام بنا رہے ہیں جب کہ امریکی اجارہ داری نے پوری عالمی برادری کو ناراض کردیا ہے۔ خود یورپی ممالک جو کبھی امریکا کا دم بھرتے تھے، اب امریکا سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔

یورپ کی سیکیورٹی کی ذمے داری امریکا نے اٹھائی ہوئی ہے مگر اب یورپی ممالک خود اپنی حفاظت کا انتظام کر رہے ہیں اور امریکن ڈکٹیشن پر چلتے ہوئے جن ممالک سے دشمنی کی فضا قائم تھی، ان سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔

ٹرمپ پہلے صدر ہوں گے جنھوں نے یورپ سے اس کی حفاظت کے عوض معاوضہ طلب کیا ہے۔ یہ امریکی رویہ سراسر یورپی ممالک کو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہوگا۔ امریکی منفی رویے کی وجہ سے ہی مشرقی یورپ کے کئی ممالک جو پہلے روس سے ٹوٹ کر مغربی ممالک کے حلیف بن گئے تھے اور بعد میں نیٹو کے ممبر بھی بن گئے تھے اب روس کی طرف واپس جا رہے ہیں وہ پیوتن کی پالیسیوں کو بھی کھلم کھلا سراہ رہے ہیں۔

دراصل روس کی پالیسی امریکا کی طرح دنیا پر حکمرانی کرنے یا اپنی طاقت کے بل پر کمزور ممالک پر قبضہ کرنے والی نہیں ہے۔ روس اب پہلے کی طرح صرف اپنے حلیفوں تک تعلقات محدود رکھنے کی پالیسی کو ترک کر کے تمام ممالک کے دکھ درد میں شریک ہو رہا ہے۔ افریقہ اور جنوبی امریکا کے غریب ممالک میں اب وہ بہت مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ مغربی ممالک سے ہٹ کر وہ ’’ جیو اور جینے دو ‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہے۔

روس کی اب برصغیر کے لیے خارجہ پالیسی میں بھی بہت تغیر آ چکا ہے، پہلے وہ صرف بھارت کا دم بھرتا تھا مگر اب وہ پاکستان سے بھی اچھے تعلقات قائم کر چکا ہے۔ کشمیر کے بارے میں بھی اب اس کی پالیسی پہلے کی طرح بھارت نواز نہیں رہی ہے۔

بھارت روس کو اب بدلے ہوئے حالات میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ اسے پہلے کی طرح اپنا قبلہ و کعبہ مانتا ہے مگر اس کی پالیسی سراسر دوغلی ہے۔ وہ مغربی ممالک سے بھی فائدہ اٹھانے کے لیے دوستی کا ڈرامہ رچا رہا ہے۔ اس کی موقع شناس خارجہ پالیسی کی وجہ سے روس اور مغربی ممالک دونوں ہی اسے شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

امریکا اور کینیڈا میں جب سے بھارت نے سکھوں کے رہنماؤں کو قتل کرانے کی غلطی کی ہے، اس سے باز پرس کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکا اورکینیڈا دونوں چاہتے ہیں کہ بھارت اپنے جرم کا اعتراف کر لے مگر وہ اپنے جرم کو قبول نہیں کر پا رہا ہے۔ تاہم اب اس کی دہشت گردی بے نقاب ہو چکی ہے۔

وہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے پوری دنیا میں بدنام ہو چکا ہے۔ امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں بھارت کے امریکا کینیڈا اور پاکستان سمیت کئی ممالک میں ’’را‘‘ کے ذریعے اپنے مخالفین کو قتل کرانے کی رپورٹ شایع کی ہے۔

اب حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی عزت خاک میں مل چکی ہے اور یہ صورت حال بی جے پی حکومت کے لیے ڈوب مرنے والی ہے کیونکہ وہ تو بھارت کو ایک مہان دیش بنانا چاہتے ہیں مگر وہ تو ایک دہشت گرد ملک کے طور پر دنیا بھر میں بدنام ہو چکا ہے۔ مودی نے لگتا ہے اب ٹرمپ کی آشیرباد سے بھارت کی ساکھ کو بہتر بنانے کی امید لگا رکھی ہے مگر اب تو وہ بھی بدلے بدلے نظر آتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مغربی ممالک کی پالیسی بائیڈن کی چاہتے ہی سے پہلے کی جانب رہے ہیں رہا ہے کی طرح کی وجہ ہے مگر سے بھی

پڑھیں:

ٹرمپ نے6 کروڑ سے زیادہ امریکیوں کے ریٹائرمنٹ فوائد خطرے میں ڈال دیئے ہیں. جوبائیڈن

شکاگو(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 اپریل ۔2025 )امریکا کے سابق صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاﺅس چھوڑنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں اپنے جانشین ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حکومت میں ردوبدل کی مذمت کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس کوشش سے امریکیوں کی ریٹائرمنٹ کے فوائد خطرے میں پڑ گئے ہیں امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق جو بائیڈن نے شکاگو میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 100 دن سے بھی کم عرصے میں ٹرمپ انتظامیہ نے حیران کن نقصان اور تباہی کی ہے، یہ سب حیرت انگیز ہے کہ اتنی جلدی ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟.

(جاری ہے)

ریٹائرمنٹ اور معذوری کے فوائد ادا کرنے والے قومی ادارے کا حوالہ دیتے ہوئے سابق صدر نے کہا کہ انہوں نے سوشل سیکیورٹی انتظامیہ کو دھوکا دیا ہے جس نے 7 ہزار ملازمین کو فوائد سے محروم کر دیا ہے سابق امریکی صدر نے تقریبا آدھے گھنٹے تک تقریر کی صدر ٹرمپ نے جو بائیڈن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوشل میڈیا پر ایک مختصر ویڈیو پوسٹ کی جس میں ان میں سے ایک واقعہ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا بائیڈن کی جانب سے سوشل سکیورٹی کے موضوع کے انتخاب کا مقصد ٹرمپ پر دباﺅ بڑھانا تھا تاکہ وہ حکومت کی اصلاحات کی کوششوں میں تیزی لائیں.

جو بائیڈن نے ایجنسی میں عملے کی کمی پر روشنی ڈالی جسے ٹرمپ اور ان کے ارب پتی معاون ایلون مسک نے اپنے ”ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی“ کے حصے کے طور پر آگے بڑھایا ہے اور کہا ہے کہ سوشل سکیورٹی کی ویب سائٹ بند ہو رہی ہے اور ریٹائرڈ افراد کو ان کے فوائد حاصل کرنے سے روک رہی ہے یہ پروگرام جس پر 6 کروڑ 50 لاکھ سے زائد امریکی انحصار کرتے ہیں واشنگٹن میں رائے دہندگان کے تئیں حساسیت کی وجہ سے سیاست کی تیسری ریل کے طور پر جانا جاتا ہے.

بائیڈن کا کہنا تھا کہ بہت سے امریکی صرف خوراک خریدنے کے لیے سماجی تحفظ پر انحصار کرتے ہیں اور ان میں سے بہت سے فائدہ اٹھانے والوں کی واحد آمدنی یہی ہے اگر اسے کاٹ دیا گیا تو یہ لاکھوں لوگوں کے لیے تباہ کن ہوگا . انہوں نے ٹرمپ کے وزیر تجارت اور سابق ہیج فنڈ منیجر ہاورڈ لوٹنک کو ایک حالیہ بیان پر تنقید کا نشانہ بنایا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ دھوکا باز افراد چیک غائب ہونے کی شکایت کریں گے لیکن اپنی ساس کے غائب ہونے کی کوئی شکایت نہیں کرتے جو بائیڈن نے اس کردار کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ 94 سالہ اس ماں کا کیا ہوگا جو خود سے اپنی زندگی گزار رہی ہے جس کے خاندان میں کوئی ارب پتی نہیں ہے؟.

متعلقہ مضامین

  • بائیڈن کا ٹرمپ پر کڑا وار: نئی حکومت نے قلیل مدت میں شدید نقصان پہنچایا
  • 100 دن سے بھی کم عرصے میں ٹرمپ نے حیران کن نقصان پہنچایا ہے، جوبائیڈن
  • ٹرمپ نے6 کروڑ سے زیادہ امریکیوں کے ریٹائرمنٹ فوائد خطرے میں ڈال دیئے ہیں. جوبائیڈن
  • ٹرمپ سماجی سلامتی کو خطرات سے دوچارکررہے ہیں، بائیڈن کی تنقید
  • صدر ٹرمپ سماجی سلامتی کو خطرات سے دوچار کر رہے ہیں: جو بائیڈن
  • سوشل سیکیورٹی سے متعلق اقدامات پر جو بائیڈن کی ٹرمپ انتظامیہ پر کڑی تنقید
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مطالبات نہ ماننے پر ہارورڈ یونیورسٹی کےلئے سوا دو ارب ڈالر کی امداد روک دی
  • روس اور یوکرین کے درمیان جنگ میری نہیں بائیڈن کی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کا لڑائی ختم کرنے پر زور
  • غیرمنصفانہ تجارتی رویے پر کوئی ملک ٹیرف سے نہیں بچے گا، ٹرمپ
  • ٹرمپ کا دوٹوک اعلان: چین ہم سے بدسلوکی کرے گا تو ٹیرف سے نہیں بچے گا