لڑکیوں کی تعلیم پر اسلام آباد منعقدہ کانفرنس میں افغانستان شامل نہیں
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جنوری 2025ء) نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی اپنے آبائی وطن پاکستان میں آج سے شروع ہونے والی اسلامی دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم کے موضوع پر عالمی سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچ گئیں۔ ملالہ نے پاکستان آمد پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
یہ سربراہی اجلاس وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کے میزبانی میں منعقد ہو رہا ہے۔
اس عالمی سربراہی اجلاس میں مسلم اکثریتی ممالک کے تعلیمی رہنماؤں کو اکٹھا کیا گیا ہے لیکن پاکستان کے پڑوسی ملک افغانستان نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ یاد رہے کہ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی ہے۔ملالہ کی اسرائیل کی مذمت، غزہ کی حمایت کا اعادہ
کانفرنس میں میزبان ملک کے رہنماؤں کے افتتاحی کلمات
مسلم ورلڈ کے تعاون سے منعقد ہونے والے اس سربراہی اجلاس کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا، ''پاکستان سمیت مسلم دنیا کو لڑکیوں کے لیے تعلیم تک مساوی رسائی کو یقینی بنانے میں اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘ شہباز شریف کا مزید کہنا تھا،''لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا ان کی آواز اور ان کی پسند کے حق کو تلف کرنے کے مترادف ہے، کیونکہ تعلیم سے محرومی لڑکیوں کے روشن مستقبل کے حق سے محرومی کا سبب ہوگی۔‘‘پاکستان کے وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے اے ایف پی کو بتایا کہ اسلام آباد حکومت نے ''افغانستان کو دعوت دی تھی لیکن افغان حکومت کی طرف سے کوئی بھی کانفرنس میں شامل نہیں ہو رہا ہے۔
‘‘افغان مہاجرین کے لیے یکم نومبر کی مہلت، ملالہ بھی بول پڑیں
ملالہ کی کانفرنس میں شرکت
ملالہ یوسف زئی، جنہیں 2012ء میں پاکستانی طالبان عسکریت پسندوں نے اس وقت گولی کا نشانہ بنایا تھا جب وہ ایک اسکول کی طالبہ تھیں، ہفتے کو اپنے آبائی ملک پہنچ گئیں ہیں اور اتوار کو کانفرنس سے خطاب کرنے والی ہیں۔
اپنے والدین کے ساتھ دارالحکومت اسلام آباد پہنچنے پر انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''پاکستان واپس آنا میرے لیے اعزاز ہے، میں حقیقی معنوں میں بہت خوش اور جزبات سے مغلوب ہوں۔‘‘
اس سے قبل جمعہ کو، ملالہ نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں تحریر کیا کہ وہ اس کانفرنس میں اس بارے میں کریں گی کہ ''کیوں طالبان کو افغان خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جرائم کا مرتکب اور جواب دہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
‘‘2021ء میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے، افغان طالبان کی حکومت نے لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم اور دیگر شعبوں میں ان کی شرکت پر قدغنیں لگائیں ہیں، جسے اقوام متحدہ نے ''صنفی عصبیت‘‘ یا '' جنسی امتیاز‘‘ قرار دیا ہے۔
پاکستان کا تعلیمی بحران
اسلامی جمہوریہ پاکستان کو خود بھی شدید تعلیمی بحران کا سامنا ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 26 ملین سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جو اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے اعتبار سے دنیا میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ملالہ نے دادو کے ٹینٹ سٹی میں اسکول قائم کر دیا
وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا، ''تعلیم کا ناکافی بنیادی ڈھانچہ، حفاظتی خدشات کے ساتھ ساتھ گہرے سماجی اصول لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔
‘‘کلینکل سائیکالوجی کی تعلیم حاصل کرنے والی 23 سالہ زہرہ طارق کا، جنہوں نے اسلام آباد میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق مذکورہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کی، کہنا تھا، ''ہمارے پاس مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے یہ کم از کم ایک اچھا قدم ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو اب بھی مسائل کا سامنا ہے۔
بعض صورتوں میں تو خود لڑکیوں کے خاندان والے ہی پہلی رکاوٹ بنتے ہیں۔‘‘ملالہ یوسفزئی کا نام ہر زبان پر کیوں؟
2012ء میں وادی سوات میں ایک اسکول بس پر پاکستانی طالبان عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد ملالہ یوسف زئی کا نام دنیا بھر میں جانا جانے لگا۔ یہ وہ وقت تھا جب اس خطے میں عسکریت پسندی بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی تھی کیونکہ افغانستان میں سرحد پار افغان طالبان اور نیٹو افواج کے درمیان جنگ جاری تھی۔
ملالہ کا طالبان حکمرانوں کے نام خط
خیال رہے کہ پاکستان اور افغان طالبان الگ الگ گروپ ہیں لیکن ان کے قریبی روابط اور ایک جیسے نظریات ہیں، جن میں ''لڑکیوں کی تعلیم کو سخت کفر سمجھنا‘‘ بھی شامل ہے۔
ملالہ یوسف زئی کو اس حملے کے بعد پاکستان سے برطانیہ منتقل کر دیا گیا تھا اور وہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ''عالمی وکیل‘‘ بن گئیں اور 17 سال کی عمر میں انہیں نوبل امن انعام سے بھی نوازا گیا اور وہ دنیا کی سب سے کم عمر نوبل امن انعام یافتہ شخصیت بن گئیں۔
ک م/ا ب ا(اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے لڑکیوں کی تعلیم سربراہی اجلاس کانفرنس میں اسلام آباد شہباز شریف لڑکیوں کے میں شرکت کے لیے
پڑھیں:
کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ استعمال کر رہی ہے، یورو ایشیئن ٹائمز
پینٹاگون نے یہ تسلیم کیا ہے کہ امریکہ نے 2005 سے اگست 2021 کے درمیان افغان قومی دفاعی اور سکیورٹی فورسز کو 18.6 ارب ڈالر کا سامان فراہم کیا۔ امریکی انخلا کے بعد ان ہتھیاروں نے ٹی ٹی پی کو سرحد پار دہشت گرد حملوں میں مدد دی۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان کی سرزمین پر افغانستان سے لائے جانے والے غیر ملکی اسلحے کے استعمال کے ثبوت ایک بار پھر منظر عام پر آ گئے اور خود امریکہ بھی اعتراف کر رہا ہے کہ افغانستان کو لاکھوں کی تعداد میں اسلحہ فراہم کیا گیا ہے جو کہ کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ سکیورٹی ذرائع سے ملنے والی مصدقہ رپورٹ کے مطابق پاک فوج گزشتہ دو دہائیوں سے دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے جبکہ حال ہی میں پاکستان میں افغان سرزمین سے ہونے والے دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان سے دہشتگرد پاک افغان سرحد کے ذریعے دراندازی کی کوشش کرتے ہیں اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ معصوم شہریوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اب پوری دنیا پر یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ دہشت گردوں کو افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ دستیاب ہے اور دہشتگردوں کو ہتھیاروں کی فراہمی نے خطے کی سلامتی کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے۔
افغانستان سے جدید غیر ملکی اسلحے کی پاکستان اسمگلنگ اور ٹی ٹی پی کا سکیورٹی فورسز اور پاکستانی عوام کے خلاف غیر ملکی اسلحے کا استعمال افغان عبوری حکومت کا اپنی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے کے دعووں پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ممتاز غیرملکی جریدے یورو ایشیئن ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی کارروائیوں میں غیر ملکی ساخت کے اسلحے کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ پینٹاگون خود بھی یہ انکشاف کر چکا ہے کہ امریکہ نے افغان فوج کو کل 427,300 جنگی ہتھیار فراہم کیے، جس میں 300,000 انخلا کے وقت باقی رہ گئے تھے۔ پینٹاگون نے یہ تسلیم کیا ہے کہ امریکہ نے 2005 سے اگست 2021 کے درمیان افغان قومی دفاعی اور سکیورٹی فورسز کو 18.6 ارب ڈالر کا سامان فراہم کیا۔ امریکی انخلا کے بعد ان ہتھیاروں نے ٹی ٹی پی کو سرحد پار دہشت گرد حملوں میں مدد دی۔