لیسکو چیف رمضان بٹ کا دورہ ’’نوائے وقت دفتر‘‘ ایم ڈی رمیزہ نظامی سے ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 20th, April 2025 GMT
لاہور (خاور عباس سندھو+ سپیشل کارسپانڈنٹ) اپنے جرات مندانہ فیصلوں کیلئے مشہور لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) کے چیف ایگزیکٹو انجینئرمحمد رمضان بٹ نے نوائے وقت گروپ کا دورہ کیا اور مینجنگ ڈائریکٹر و ایڈیٹر رمیزہ مجید نظامی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر چیف آپریٹنگ آفیسر نوائے وقت گروپ لیفٹیننٹ کرنل (ر) سید احمد ندیم قادری، ڈائریکٹر مارکیٹنگ بلال محمود، سینئر منیجر مارکیٹنگ عامر ادریس بھی موجود تھے۔ کرنل ندیم قادری نے نوائے وقت کی جانب سے لیسکو چیف رمضان بٹ کو گلدستہ پیش کیا۔ گفتگو کا آغاز معمار نوائے وقت و امام صحافت مجید نظامی سے جڑی یادوں سے ہوا۔ ایم ڈی رمیزہ مجید نظامی نے محمد رمضان بٹ کو لیسکو کے سی ای او کا چارج سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی اور کہاکہ محمد رمضان بٹ اچھی شہرت کے حامل افسر ہیں۔ امید ہے کہ ان کی تعیناتی سے لیسکو کی کارکردگی میں نہ صرف بہتری آئے گی بلکہ عوام کے مسائل بھی حل ہوں گے۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر لیسکو انجینئر محمد رمضان بٹ نے کہا کہ نوائے وقت جیسے قومی ادارے کی خاتون ایم ڈی کو دیکھ کر خواتین میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوا اور مستقبل میں خواتین ملک کی قیادت سنبھالنے کے لئے تیار ہیں۔ ایم ڈی رمیزہ مجید نظامی نے اس موقع پر مسلم لیگ ن خاص طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی کارکردگی کو سراہا اور کہا کہ انہوں نے اپنی کارکردگی سے میاں نواز شریف کی بیٹی ہونے کا حق ادا کر دیا۔ اگر کوئی پاکستانی کچھ عرصہ بعد لاہور آئے تو وہ شہر کی ترقی دیکھ کر راستہ بھول جاتا ہے۔ ملاقات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی، رمضان بٹ نے امام صحافت مجید نظامی کی اکلوتی صاحبزادی کو قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والے نظریاتی سرحدوں کے محافظ ادارے نوائے وقت کو مجید نظامی کے ویژن کے عین مطابق چلانے پر خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاور سیکٹر کے مسائل پاکستان کے بڑے مسائل ہیں، ان کو حل کئے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں، لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ موجودہ حکومت ان مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہے۔ ماضی میں حکومتوں کی جانب سے پاور سیکٹر پر اس طرح توجہ نہیں دی گئی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی توجہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی سپورٹ سے بجلی چوری کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا، تمام حکومتی ادارے اور پاک فوج بجلی چوری کے خاتمہ کیلئے آن بورڈ ہیں تمام مسائل پر جلد قابو پا لیا جائے گا۔ اگر کوئی لیسکو اہلکار یا افسر بجلی چوری میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری پاور سیکٹر کی بہتری کیلئے دن رات کوشاں ہیں اور ادارے کی بہتری کیلئے کئے جانے والے اقدمات کیلئے ہمیں ان کی مکمل سپورٹ حاصل ہے جبکہ لیسکو بورڈ آف ڈائریکٹر کے چیئرمین عامر ضیاء اور طاہر بشارت چیمہ سمیت تمام ممبران بھی اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے لیسکو کو ایک مثالی ادارہ بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ لیسکو کے ہزاروں ملازمین بجلی چوری روکنے کے لئے پرعزم ہیں۔ ماضی میں اگر کسی افسر یا ملازم نے بجلی چوری روکنے کی کوشش کی تو اس کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ اب ایسا نہیں ہو گا، وہ اپنے افسروں و ملازمین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ حکومت نے انہیں مکمل اعتماد دیا ہے کوئی معاملہ ان کے لئے نیا نہیں، بس حل کرنے کے لئے جرات مندانہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ ایم ڈی رمیزہ مجید نظامی نے محمد رمضان بٹ کی تعیناتی کو لیسکو صارفین کے لئے خوش آئند قرار دیا اور کہا نوائے وقت استحکام پاکستان کا ضامن ہے جو لیسکو کو مکمل سپورٹ کرے گا۔ انہوں نے لیسکو سے منسلک وقت ٹی وی کی سابق اینکر رابعہ قادر کو پبلک ریلیشن آفیسر کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی اور کہا کہ ملکی ترقی کے لئے خواتین کا ہر شعبہ میں آگے آنا ضروری ہے۔ چیف آپریٹنگ آفیسر کرنل ندیم قادری نے لیسکو چیف محمد رمضان بٹ کی جانب سے ایک صارف کا مسئلہ حل کرنے پر انکی معاملہ فہمی کو سراہا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ایم ڈی رمیزہ نوائے وقت بجلی چوری اور کہا کے لئے ا فیسر کہا کہ
پڑھیں:
بنگلہ دیش کے معافی کے مطالبے پر پاکستانی دفتر خارجہ کا ردعمل
ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان حالیہ اعلیٰ سطحی سفارتی مشاورت کے دوران بعض دیرینہ معاملات پر بات چیت ہوئی، جن میں 1971 کے واقعات پر بنگلہ دیش کی جانب سے رسمی معافی اور معاوضے کے مطالبات شامل تھے۔
دفتر خارجہ کی سیکریٹری آمنہ بلوچ گزشتہ دنوں 15 سال بعد دفتر خارجہ کی مشاورت کے لیے ڈھاکہ پہنچیں۔ ملاقات کے بعد بین الاقوامی میڈیا اور بنگلہ دیشی اخبارات ”ڈیلی اسٹار“ اور ”ڈھاکہ ٹریبیون“ نے رپورٹ کیا کہ بنگلہ دیش نے 1971 کے واقعات پر معافی، معاوضے، غیر ادا شدہ فنڈز اور 1970 کے سمندری طوفان کے لیے ملنے والے بین الاقوامی عطیات کی رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈیلی اسٹار کے مطابق بنگلہ دیشی سیکریٹری خارجہ جاشم الدین نے کہا کہ ’ان معاملات کو حل کیے بغیر مضبوط دوطرفہ تعلقات ممکن نہیں‘۔
ڈھاکہ ٹریبیون نے ان کے حوالے سے لکھا کہ ’یہ معاملات ہماری باہمی بنیاد کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔‘
جس کے بعد ہفتہ وار پریس بریفنگ میں سوال و جواب کے دوران دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’کچھ دیرینہ معاملات واقعی زیر بحث آئے، تاہم دونوں فریقوں نے انہیں باہمی احترام اور افہام و تفہیم کے ماحول میں پیش کیا۔‘
شفقت علی خان نے کہا کہ بعض عناصر ’جھوٹی یا سنسنی خیز خبریں پھیلا کر‘ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، انہوں نے زور دیا کہ مذاکرات انتہائی خوشگوار اور تعمیری ماحول میں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ’15 سال کے تعطل کے بعد ان مشاورتوں کا انعقاد دونوں ممالک کے درمیان خیرسگالی اور ہم آہنگی کا ثبوت ہے، اور گمراہ کن رپورٹس اس اہم پیشرفت کی اہمیت کو کم نہیں کر سکتیں۔‘
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ دونوں ممالک نے سیاسی، معاشی، ثقافتی، تعلیمی اور تزویراتی تعاون پر وسیع تبادلہ خیال کیا، جو مشترکہ تاریخ، ثقافتی ہم آہنگی اور عوامی امنگوں پر مبنی ہے۔ دونوں فریقوں نے نیویارک، قاہرہ، ساموآ اور جدہ میں ہونے والی حالیہ اعلیٰ سطحی ملاقاتوں پر اطمینان کا اظہار کیا اور تعلقات میں بہتری کے لیے مسلسل ادارہ جاتی رابطے، زیر التواء معاہدوں کی جلد تکمیل، تجارت، زراعت، تعلیم اور روابط میں تعاون بڑھانے پر زور دیا۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق، پاکستان نے اپنی زرعی جامعات میں تعلیمی مواقع فراہم کرنے کی پیشکش کی، جبکہ بنگلہ دیش نے فشریز اور میری ٹائم اسٹڈیز میں تکنیکی تربیت کی پیشکش کی۔ بنگلہ دیشی فریق نے پاکستانی نجی جامعات کی جانب سے اسکالرشپ کی پیشکش کو سراہا اور تعلیم کے شعبے میں مزید تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس اگست میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ دسمبر میں قاہرہ میں ڈی-8 کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ ڈاکٹر محمد یونس کے درمیان ملاقات میں 1971 کے تناظر میں باقی ماندہ شکایات کو حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔
دونوں ممالک کی افواج بھی جنوری میں اس بات پر متفق ہوئیں کہ ان کے باہمی تعلقات کو بیرونی اثرات سے محفوظ رکھا جائے اور دیرپا شراکت داری کو فروغ دیا جائے۔
Post Views: 2