Express News:
2025-04-21@11:55:01 GMT

معاشی ترقی اور اس کی راہ میں رکاوٹ

اشاعت کی تاریخ: 20th, April 2025 GMT

وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے جمعہ کا روز خاصا مصروفیت میں گزارا۔ جمعہ کو ان کی زیرصدارت امن و امان کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا اور پھر اسی روز انھوں نے اسلام آباد میں ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے ہیڈکوارٹرز کا بھی دورہ کیا۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق امن وامان کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم دہشت گردوں کو ایسی عبرتناک شکست دیں گے کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کر سکیں گے، ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھنکیں گے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام اداروں اور صوبوں کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔ وفاقی حکومت اس ضمن میں تمام صوبوں کی استعداد بڑھانے کے لیے بھرپور تعاون کرے گی۔

دہشت گردی پاکستان کی ترقی کی راہ میں اتنی بڑی رکاوٹ ہے، اس حوالے سے فیصلہ ساز ہی ہیں بلکہ عام پاکستانی تک حقائق سے آگاہ ہے۔ پاکستان کو اگر دہشت گردی کی لعنت کا سامنا نہ ہوتا تو آج پاکستان ایشیا میں ایک اہم معاشی قوت ہوتا۔

بہرحال بدترین دہشت گردی کے باوجود پاکستان نے معاشی اور سائنسی میدان میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہماری سیکیورٹی فورسز کے بہادر جوان اور افسر دن رات اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔

پاکستان کے اردگرد کے حالات ایسے ہیں، اس قسم کے حالات کا سامنا اگر دنیا کے کسی اور ملک کو ہوتا تو شاید اس کی حالت صومالیہ یا کانگو جیسی ہوتی۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جدوجہد کی ہے۔ حقائق کو سامنے رکھا جائے تو برملا کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دنیا کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں۔

پاکستان کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ غیرقانونی تجارت اور ڈرگز کی اسمگلنگ ہے۔ اسمگلنگ نے پاکستان کی مالیات کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اسمگلنگ کی وجہ سے پاکستان کو اربوں ڈالر ریونیو کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ نقصان ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں ہو رہا ہے اور پاکستان کے اندر بلیک منی ہولڈرز سسٹم کو کرپٹ کر کے پاکستان کے خزانے کو نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں۔

وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے امن وامان کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کے دوران یہ بھی کہا کہ اسمگلنگ کے خلاف تمام اداروں کو اپنی کوششیں مزید تیز کرنے، اہم شہروں میں سیف سٹی منصوبوں کو جلدازجلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ وفاقی اور وفاقی اداروں کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ صوبائی اور ضلعی اداروں کی کارکردگی میں بھی اضافہ ہونا ناگزیر ہے۔ جب تک صوبائی حکومت اپنے حصے کی ذمے داریاں احسن طریقے سے ادا نہیں کرتیں، اس وقت تک شہروں، قصبوں اور دیہات میں امن کا قیام ممکن نہیں ہو سکتا۔

سیف سٹی کیمرے جرائم پر قابو پانے کے لیے اہم ہتھیار ہے۔ اسی طرح بیوروکریسی اور سرکاری عملے کی جوابدہی کے لیے بھی تمام سرکاری دفاتر میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہونے چاہئیں اور ان کیمروں کا کنٹرول مرکزی کنٹرول سسٹم میں ہونا چاہیے۔ اسی طرح ڈسٹرکٹ کورٹ سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک کی ساری کارروائی سی سی ٹی وی کیمروں میں محفوظ ہونی چاہیے۔ اس سے سرکاری مشینری کی کارکردگی میں خاطرخوا اضافہ ہو گا اور عوامی مسائل میں کمی ہو گی جب کہ جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی میں مدد ملے گی۔

وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اسلام آباد میں ہی فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے ہیڈکوارٹرز کے دورہ کے دوران ٹیکس نظام میں بہتری، شفافیت، اور افسران کی کارکردگی کی جانچ کے لیے مکمل خودکار نظام کے اجرا کی منظوری دی، جس کے تحت افسران کو ترقی اور مالی مراعات کارکردگی کی بنیاد پر دی جائیں گی۔

نئے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم نے ایف بی آر افسران کو یقین دہانی کرائی کہ نئے نظام کے تحت شاندار کارکردگی دکھانے والے افسران کو30 لاکھ روپے ماہانہ تک تنخواہیں دی جائیں گی، ساتھ ہی ناقص کارکردگی اور کرپشن میں ملوث افسران کو نہ صرف ایف بی آر بلکہ کسی بھی سرکاری محکمے میں ملازمت نہیں کرنے دی جائے گی۔

وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اہم بات ٹیکس لاز میں تبدیلیاں بھی لانے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس قوانین واضح اور ابہام سے پاک ہونے چاہئیں۔ اسی طرح افسران کے اختیارات کے ساتھ ساتھ ان کے احتساب کے حوالے سے بھی قوانین واضح کرنے کی ضرورت ہے۔

افسران اور دیگر عملے کو یکطرفہ اختیارات دینے سے ممکن ہے ریونیو کے اہداف تو حاصل کیے جا سکیں لیکن ان اختیارات کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی حق تلفی بھی ہو سکتی ہے اور ان سے ناانصافی ہونے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری افسروں کو حاصل قواعد وضوابط کے اختیارات کو بھی واضح طور پر ان کے آفس کے باہر آویزاں کرنا چاہیے تاکہ سب کو پتہ چل سکے کہ افسر کے پاس کس قسم کے اختیارات موجود ہیں اور اگر وہ اختیارات کا ناجائز استعمال کرتا ہے تو اس کے خلاف کن کن قوانین کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ افسروں کے کمروں کے اندر اور باہر بھی سی سی ٹی وی کیمرے ہونے چاہئیں تاکہ پتہ چل سکے کہ وہاں کون کون آیا اور کتنا کام ہوا۔ اس طریقے سے سرکاری کام میں شفافیت پیدا ہو گی۔

وزیراعظم نے یہ بھی واضح کیا کہ قرضوں اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانا ہے تو محصولات کو بڑھانا ہوگا، قرضوں کی زندگی پاکستان کو بہت نقصان پہنچا چکی ہے، عدالتوں میں زیرالتوا کھربوں روپے کے ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں، ایک طرف ہمارے کھربوں روپے کے کیسز زیر التوا ہیں اور دوسری طرف ہم دن رات قرض لے رہے ہوتے ہیں یا ان کو رول اوور کرارہے ہوتے ہیں۔

دوسری طرف انٹرنل ریونیو سروس، کسٹم، سیلزٹیکس، جعلی رسید وں کی دردناک کہانیاں بھی ہم سن چکے ہیں، ہم نے ان کمزوریوں کو دور کرناہے،محصولات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 27فیصد اضافہ لائق تحسین ہے، ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کے سفر کا آغاز ہوگیا ہے،افسران محنت کریں اور قوم کی تقدیر بدلیں۔

عدالتوں سے23ارب روپے کا اسٹے آرڈر خارج ہوا توشام کو وہ پیسہ خزانے میں آگیا،البتہ ابھی گڈزکی مس ڈکلیئریشن سے متعلق کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں ہوا۔چند سال قبل ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم بنایا گیا جس کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے، اس میں کمپنی کی خطاہے یا اس نظام کا موثر استعمال نہیں کیا گیا؟ وزیرِ اعظم نے مالی سال2025 کے پہلے نو ماہ میں پاکستان کی آئی ٹی برآمدات 2.

828 ارب ڈالر تک پہنچنے اور گزشتہ سال کے مقابلے 23فیصد اضافے کا خیر مقدم کیا۔

انھوں نے کہا حکومت کی جانب سے آئی ٹی شعبے کو بروقت سہولیات کی فراہمی سے یہ اضافہ ممکن ہوا ہے۔انھوں نے کہا سرمایہ کار ہمارے سر کا تاج ہیں ، انھیں ہر ممکن سہولیات دیں گے۔وزیراعظم نے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ وہ ٹیکس ادا کرنے والوں سے اچھا رویہ رکھیں، سرمایہ کار ہمارے سرکا تاج ہیں، انھیں عزت اور ہر ممکنہ سہولت دینی ہے۔

پاکستان کی معیشت میں خاصی بہتری آئی ہے لیکن اگر ٹیکس دہندگان کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جائے تو ٹیکس کولیکشن میں اربوں روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ جن شعبوں کو مختلف قسم کے ٹیکسز میں استثنیٰ دیا گیا ہے، اس کو ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

ٹرسٹ، وقف اور فلاحی اداروں کے نام پر جو مراعات یا ٹیکسز میں چھوٹ دی جاتی ہے، اس کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ ٹرسٹ، وقف اور فلاحی اداروں کے حوالے سے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ لوگوں سے یا عام عوام سے چندہ وصول کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

جو سرمایہ دار یا خوشحال شخص کوئی فلاحی کام کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی ذاتی آمدنی سے کرے۔ سرکار سے مراعات لینا یا عام آدمی سے چندہ لینا بند ہونا چاہیے۔ کسی ٹرسٹ، وقف یا فلاحی ادارے کو زکوٰۃ اکٹھی کرنے، فطرانہ یا صدقات کے نام پر چندہ وصول کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

اگر کسی کو کوئی مدد دینی بھی ہے تو وہ بذریعہ حکومت ہونی چاہیے تاکہ پورا ریکارڈ رکھا جا سکے۔ سرکاری اراضی کی الاٹمنٹ کے حوالے سے بھی قوانین کو دو ٹوک اور واضح بنانے کی ضرورت ہے۔ پہلے سے بااثر لوگوں کو مزید نوازنا ملک کی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ قبائلی وڈیروں، گدی نشینوں اور بڑے بڑے جاگیرداروں سے ان کی طرززندگی کی مناسبت سے ٹیکس وصولی کا راستہ نکالنے کے لیے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی کارکردگی کی ضرورت ہے کے حوالے سے ہونی چاہیے پاکستان کی کی راہ میں افسران کو ایف بی آر کرنے کی نہیں ہو ان کے ا کے لیے

پڑھیں:

معاشی اثاثہ

معاشی استحکام قومی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جس کے لیے اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری، برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ ازبس ضروری ہے۔ برسر اقتدار حکومت کے معاشی ماہرین کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ وہ قومی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ایسے راستے تلاش کریں کہ قومی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو، قرضوں کے بوجھ میں کمی اور دوست ملکوں سے امداد کے حصول سے نجات اور سب سے بڑھ کر عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے شکنجے سے گلوخلاصی ممکن ہو سکے۔

عالمی معیشت کا مقابلہ کرنے، اپنے عوام کو سہولتیں دینے اور اپنے پاؤں پر مضبوطی سے کھڑے ہونے کے لیے ہمیں اپنی راہیں خود تلاش کرنی ہوں گی۔ اس بات سے انکار نہیں کہ شہباز حکومت معاشی استحکام کے لیے مقدور بھر کوششیں کر رہی ہے۔ اس ضمن میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی پس پردہ مساعی اور یقین دہانیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ دوست ملکوں چین، سعودیہ عرب، قطر اور یو اے ای سے لے کر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول تک آرمی چیف کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔

رواں ماہ میں دو اہم کنونشن کا انعقاد کیا گیا اول منرل انوسٹمنٹ اور دوم سمندر پار پاکستانیوں کا کنونشن۔ دونوں اجلاسوں سے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے علاوہ آرمی چیف کا مدبرانہ خطاب اس امر کا عکاس ہے کہ قومی معیشت کی بحالی اور پائیدار بنیادوں پر استحکام کے حوالے سے وہ پوری طرح سنجیدہ ہیں اور حکومتی پالیسیوں کو ان کا تعاون حاصل ہے جو یقینا خوش آیند بات ہے۔

پاکستان بلاشبہ معدنی ذخائر سے مالا مال ملک ہے۔ یہاں سونے چاندی سے لے کر گیس، تیل اور کوئلہ تک بے شمار معدنی اشیا زمین کے سینے میں دفن ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معدنی خزانوں کو سنجیدگی سے تلاش کرکے ان سے پوری طرح استفادہ کیا جائے تاکہ قومی معیشت کو استحکام ملے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو۔ وزیر اعظم نے منرل انوسٹمنٹ فورم سے خطاب کرتے ہوئے درست کہا کہ ہمارا معدنی شعبہ برسوں سے خصوصی توجہ کا طالب تھا۔ ملک میں موجود کھربوں ڈالر کے معدنی ذخائر سے استفادہ کرکے قرضوں سے نجات اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔

اس موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بیرونی سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور ہنرمندی و مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان میں معدنی معیشت میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کریں۔ آرمی چیف نے واضح طور پر کہا کہ پاک فوج بیرونی سرمایہ کاروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے فول پروف سیکیورٹی اقدامات کو یقینی بنائے گی۔ سپہ سالار اعظم نے درست کہا کہ پاکستان معدنی معیشت میں ایک رہنما کے طور پر ابھر رہا ہے اور جب معدنی ذخائر سے استفادے کے لیے ہنرمندی، صلاحیت اور مہارت بھی موجود ہو تو پھر مایوسی کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

پاکستان میں معدنی وسائل کا جو خزانہ پوشیدہ ہے اگر صحیح معنوں میں اس سے استفادہ کرنے کے مواقع میسر آجائیں تو نہ صرف عوام کی ترقی و خوشحالی کے سفر کا عمدہ آغاز ہو سکتا ہے بلکہ پاکستان کو کشکول اٹھا کر دوست ملکوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے پاس جانے کی حاجت بھی باقی نہیں رہے گی۔

اگرچہ پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں قدرتی وسائل کے وسیع ذخائر موجود ہیں، تاہم اس ضمن میں بلوچستان سب سے زیادہ مالا مال صوبہ ہے۔ لیکن افسوس کہ وہاں امن و امان کی گمبھیر صورت حال کے باعث سرمایہ کاروں کے تحفظات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک بلوچستان کے لوگوں کی محرومیوں کا ازالہ نہیں ہوگا، ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے وہاں امن کے قیام کا خواب تشنہ تعبیر رہے گا۔ ایسے ماحول میں سرمایہ کاروں کو آمادہ کرنا گویا جوئے شیر لانے کے برابر ہوگا۔

سمندر پار پاکستانیوں کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے کردار، محنت، لگن، وطن دوستی اور اپنی مٹی سے محبت کے جذبے کو سراہا اور انھیں اپنے سر کا تاج اور پاکستان کا ایمبیسڈر قرار دیا۔ وزیر اعظم نے سمندر پار پاکستانیوں کے لیے مراعاتی پیکیج کا بھی اعلان کیا۔

ان کے مسائل کے حل کے لیے خصوصی اقدامات اٹھانے کا یقین دلایا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے تقریب سے پرجوش خطاب کرتے ہوئے سمندر پار پاکستانیوں کے جذبات اور خدمات کو قابل تحسین قرار دیا۔ انھوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ دہشت گردوں کی دس نسلیں بھی پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ بلاشبہ دہشت گرد ایک نہ ایک دن ختم ہو جائیں گے۔ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا انشا اللہ۔ حکومت کو سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے حق سمیت تمام مسائل حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے کہ یہ قوم کا معاشی اثاثہ ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سپلائی چین میں خامیاں پاکستان کے شہد کے شعبے کی ترقی میں رکاوٹ ہیں. ویلتھ پاک
  • اقبال کے فلسفے کو اپنا کر معاشی خود انحصاری، یکجہتی کو فروغ دینا ہو گا: وزیراعظم
  • معاشی اثاثہ
  • پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ
  • دنیا زراعت میں آگے نکل گئی ہم قیمتی وقت کا ضیاع کرتے رہے، وزیراعظم شہباز شریف
  • وزیراعظم کا زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا عزم، زرعی خودکفالت کے لیے جامع حکمتِ عملی پر زور
  • قرضوں سے جان چھڑانی ہے تو ریونیو بڑھانا ہو گا: وزیراعظم
  • بلوچستان کے مسائل معاشی ترقی سے حل نہیں کئے جاسکتے: رضا ربانی
  • بلوچستان کے مسائل معاشی ترقی سے حل نہیں کیے جاسکتے، رضا ربانی