صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیز کے تحت پوری دنیا ایک تبدیلی کی لپیٹ میں ہے۔ صدر ٹرمپ کے اقدامات جو وہ آزاد تجارت کو کچلنے کے لیے اٹھا رہے ہیں، ایسی پالیسیز ماضی میں امریکا کے کسی صدر نے نہیں لاگو کیں اور دوسری طرف ہیں ماحولیاتی چیلنجز جن کا سامنا ہم نے کرنا ہے۔
انٹارکٹیکا اور الاسکا جو دنیا کے نارتھ اور ساؤتھ پول ہیں وہاں برف کے گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ یقینا سمندر کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہزاروں ارب ڈالر کی اراضی اور اثاثے سمندر نگل رہا ہے۔ بہت سے علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی شروع ہو چکی ہے۔ تیسری مائیکرو چپ نے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ مصنوعی ذہانت ایک حقیقت سے زیادہ ضرورت بنتی جا رہی ہے۔
ٹرمپ کی پالیسیز دنیا کی آزاد تجارت کو کچلنے کے مترادف ہیں، ان پالیسیز نے نہ صرف دنیا بھرکے ممالک کی اسٹاک ایکسچینج کو شدید نقصان پہنچایا ہے بلکہ یہ پالیسیز خود امریکا کی معیشت کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔
امریکا کی بانڈز مارکیٹ دنیا کی مضبوط ترین مارکیٹ تھی۔ دنیا میں جہاں بھی سر پلس ہوا وہ امریکی حکومت کے (بانڈز) خرید کرتے تھے مگر اب ٹرمپ کی حکومت میں دنیا امریکی بانڈز خریدنے سے شش و پنج میں ہے۔ ٹرمپ کے صدر بننے سے پہلے میں نے اپنے کالم میں یہی لکھا تھا کہ سٹہ لگانے والے اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ ٹرمپ کی حکومت میں ڈرٹی کیپیٹل ازم پروان چڑھے گا۔
اسٹاک ایکسچینج کو ایک دم سے گرایا بھی جائے گا اور اچانک بڑھایا بھی جائے گا اور اس اتار چڑھاؤ سے کچھ مخصوص لوگ مستفید ہوںگے۔ جب صدر ٹرمپ نے چین اور دیگر ممالک جو امریکا کو اپنی اشیاء ایکسپورٹ کرتے تھے، ان پر بھاری ٹیرف عائد کیے تو اسٹاک مارکیٹ نے لگ بھگ پانچ ہزار ارب ڈالرگنوا دیے۔
ان کے اثاثوں کی قیمت گر گئی۔ پھر چند ہی دنوں میں صدر ٹرمپ نے ٹیرف عائد کرنے کا یہ فیصلہ واپس لے لیا اور نیو یارک اسٹاک مارکیٹ واپس چار ہزار ڈالر چڑھ گئی۔ ٹرمپ کے مخالف ڈیموکریٹس کا یہ کہنا ہے کہ ٹرمپ کے قریبی لوگوں کے پاس پہلے سے ہی یہ اطلاعات تھیں جن سے انھوں نے اربوں ڈالرکمائے ہوںگے۔
مشرقِ وسطیٰ کے محاذ پر ٹرمپ کی پالیسیاں، تضادات کو تیزکررہی ہیں۔ یوکرین کی معدنیات پر ٹرمپ حکومت اپنا قبضہ جمانا چاہتی ہے۔ یورپ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکا کا سب سے بڑا اتحادی تھا، وہ امریکا سے بدظن ہوچکا ہے۔
امریکا کی اب کوشش یہ ہے کہ روس سے تعلقات بہتر کیے جائیں، روس اور چین کے تعلقات میں دراڑیں ڈالی جائیں۔ دوسری طرف یورپین یونین، امریکا کی ان غیر مستقل مزاج پالیسیزکو دیکھتے ہوئے دنیا کے اندر ایک نئے عالمی لیڈر کی طرف دیکھ رہی ہے اور یہ نیا لیڈر چین بھی ہو سکتا ہے۔
اس تمام منظرنامے میں ایک نئی قوت اور تیسری بڑی عالمی قیادت بہت تیزی سے ابھر رہی ہے وہ ہے بھارت۔ امریکا کی بیشترکمپنیوں نے ٹرمپ کے اتحادی ایلون مسک کی گاڑیوں کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ اسی طرح یورپ نے بھی جس سے ایلون مسک کو لگ بھگ ایک ہزار ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
مگر اس دنیا کی تیزی میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم اس قابل ہیں کہ آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں؟ کیا ہماری کوئی تیاری ہے؟کیا ہم نے کوئی متبادل راستہ ڈھونڈا ہے، جب صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی ہم پر بھی لاگو ہوںگی۔
ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر امریکا ہے۔ یقینا ہم پر بھی ان پالیسیز کے منفی اثرات مرتب ہوںگے۔ امریکا یہ چاہے گا کہ پاکستان پر اسی طرح کے دباؤ ڈال کرکچھ شرائط عائد کی جائیں اور ان شرائط کی مد میں اپنے من پسند کام لیے جائیں۔
پاکستان کی سیاست میں جب بھی امریکا نے پالیسیز بنائیں، ان سے پاکستان میں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچااور خاص کر ان ادوار میں جب امریکا میں ری پبلیکن کا دورِ ہو۔یہ ہماری غلط فہمی ہوگی، اگر ہم یہ سوچ رہے ہیں افغانستان، امریکا سے ٹکراؤ بڑھائے گا،کیونکہ امریکا کو بٹگرام ایئر پورٹ واپس چاہیے۔
امریکا نے اس حوالے اپنی درخواست ، طالبان کے آگے پیش بھی کردی ہے۔ امریکا، ایران کے ساتھ فوجی محاذ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے، اس منظرنامے میں دونوں ہی ممالک ہمارے پڑوسی ہیں۔ دنیا کی تیسری طاقت یعنی ہندوستان بھی ہمارا پڑوسی ہے۔
اگر ہم امریکا کا جائزہ لیں تو داخلی اعتبار سے موجودہ انتظامیہ میں، پاکستان کوئی دیرینہ دوست نہیں رکھتا۔ ہماری موجودہ سول قیادت ایک سال گزار چکی ہے لیکن اسٹبلشمنٹ کو اس حکومت کو ہٹانے کے لیے زیادہ دقت کا سامنا نہیں ہوگا۔
بس ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ جو معاشی بحران عمران خان کی حکومت میں آیا تھا، اب ملک اس بحر ان سے نکل چکا ہے۔ اس کا کریڈٹ یقینا شہباز شریف اور اس کی ٹیم کو جاتا ہے۔ اس دورِ حکومت میں پارلیمنٹ اور سول حکومت اتنی آزاد نہیں جتنی آزادی بانی پی ٹی آئی کے دور میں میسر تھی۔
بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے صوبوں میں جو ہلچل مچی ہوئی ہے، اس تیزی میں اس حکومت کے خلاف آوازیں ابھر رہی ہیں۔ موجودہ بحران بانی پی ٹی آئی کے لیے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کرنے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ امریکا کی مداخلت ہمیشہ پاکستان کی داخلی سیاست میں رہی۔ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں ہمارے جیسے ممالک اپنی آزاد خارجہ پالیسی بنانے میں آزاد نہیں رہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کے اسٹیج پر پہلی مرتبہ اتنی نمایاں اور واضح تبدیلی نظر آرہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اعداد و شمار کے تحت پاکستان دنیا کے سات ملکوں میں شمار ہوتا ہے جو اس بحران کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی ساحلی پٹی پر بڑی واضح تبدیلیاں آئی ہیں جس سے نقل و حمل کے امکانات زیادہ ہوگئے ہیں۔
ہماری داخلی سیاست انتہائی کمزور ہے۔ کسی مضبوط سول قیادت کا وجود نہیں جو ابھرتے ہوئے بین الاقوامی ٹکراؤ میں بھرپور انداز میں ہماری ترجمانی کرسکے بلکہ ایسی مضبوط سول قیادت بھی میسر نہیں جو چار یا تین صوبوں میں یکساں طور پر مقبول ہو۔ فیڈریشن کے حوالے سے پاکستان اس وقت انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ یہاں بلوچستان کا بیانیہ الگ ہے۔ خیبر پختونخوا کا بیانیہ الگ ہے اور اب سندھ میں بھی ایک نیا بیانیہ جنم لے چکا ہے۔
یہ تبدیلیاں بڑی تیزی سے آرہی ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کانگریس نے انگریز حکومت کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو ‘‘ کی تحریک چلائی اور ان تحاریک میں سبھاش چندر بوس جیسے لیڈر تھے جنھوں نے انگریز سامراج کو کمزور دیکھتے ہوئے جارحانہ انداز اپنایا۔صرف امید کی کرن ہے ٹیکنالوجی کے اندر انقلاب ! اس انقلاب میں چین امریکا کے ساتھ کھڑا ہے۔
لاکھ بحران سہی لیکن اس ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک کردیا ہے۔ پچیس سالوں سے دنیا میں آزاد تجارت کا سکہ چل رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی نے مزید سے مزید ترقی پائی۔صدر ٹرمپ اس وقت جو اقدامات کر رہے ہیں وہ دنیا کی آزاد تجارت کو کچل دیں گے۔
دائیں بازو کی پاپولر ازم بھی اس وقت اپنی انتہا پر ہے۔ یقینا اس کا زوال بھی ہوگا مگر جانے سے پہلے جو منفی اثرات چھوڑے گا، وہ دنیا کے لیے بہت خطرناک ہوںگے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں اگر اسی رفتار سے رواں رہیں تو دنیا ایک بہت بڑے بحران میں داخل ہو رہی ہے اور اگر ماحولیاتی تبدیلیاں ایسے بحران کو جنم نہیں دیتیں تو دائیں بازو کے پاپولر ازم کو شکست ہوگی جو دنیا کو اس وقت تیسری جنگِ عظیم کے دہانے لے آیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حکومت میں امریکا کی کی حکومت عظیم کے ٹرمپ کی رہی ہیں رہے ہیں ٹرمپ کے دنیا کی تیزی سے دنیا کے ہے اور رہی ہے
پڑھیں:
ٹرمپ ضمانت دیں وہ پہلے کی طرح جوہری معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، ایران
ایران کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نئے جوہری معاہدے سے بھی پیچھے نہیں ہٹ جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا ایران بالواسطہ مذاکرات کا دوسرا دور روم میں ہوگا، ایرانی نائب وزیر خارجہ
العربیہ نیوز کے مطابق ایک سینئر ایرانی اہلکار کا کہنا ہے کہ ایران نے گزشتہ ہفتے امریکا سے بات چیت میں کہا تھا کہ وہ اپنی یورینیم کی افزودگی پر کچھ حدود کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اسے اس بات کی واٹر ٹائٹ گارنٹی درکار ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ جوہری معاہدے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
ایران اور امریکا عمان میں مذاکرات کے پہلے دور کے ایک ہفتے بعد ہفتے کے روز روم میں مذاکرات کا دوسرا دور کرنے والے ہیں جسے دونوں فریقوں نے مثبت قرار دیا ہے۔
ٹرمپ جنہوں نے فروری سے ایران پر دباؤ بڑھا دیا ہے کہ وہ جوہری معاملے پر امریکا سے بات چیت کرے۔ ٹرمپ اپنی پہلی مدت کے دوران 2015 میں ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان سنہ 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہو گئے تھے اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھیں۔
بعد ازاں ایراان نے اپنے جوہری پروگرام پر سنہ 2015 کے معاہدے کی حدود سے مسلسل تجاوز کیا جو ایٹم بم تیار کرنا مشکل بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیے: ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا پہلا دور ختم
سابق امریکی صدر جو بائیڈن جن کی انتظامیہ نے سنہ 2015 کے معاہدے کو بحال کرنے کی ناکام کوشش کی تھی، تہران کی اس ضمانت کے مطالبے کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے کہ آئندہ کوئی امریکی انتظامیہ اس سے دستبردار نہیں ہوگی۔
تہران نے مذاکرات کے لیے رجوع کیا ہے لیکن اس کو اس بات پر شبہ ہے کہ ٹرمپ معاہدہ کرکے اس سے دوبارہ نہ پھر جائیں۔
ٹرمپ نے بار بار دھمکی دی ہے کہ اگر ایران نے یورینیم کی افزودگی کے پروگرام کو بند نہ کیا تو وہ ایران پر بمباری کرے گا۔ جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ وہ پروگرام پرامن ہے۔
اگرچہ ایران اور امریکا دونوں نے کہا ہے کہ وہ سفارت کاری پر عمل پیرا ہیں لیکن ان کے مابین تنازع 2 دہائیوں سے زیادہ عرصے سے چل رہا ہے۔
ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایران کی مذاکراتی پوزیشن کو بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای جوہری پروگرام کو ملک کی ریڈ لائن قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ایران کبھی بھی یورینیم کی افزودگی کے لیے اپنے سینٹری فیوجز کو ختم کرنے، افزودگی کو مکمل طور پر روکنے یا افزودہ یورینیم کی مقدار کو اس سطح سے کم کرنے پر راضی نہیں ہو گا جو اس نے سنہ 2015 کے معاہدے میں طے کیا تھا جسے ٹرمپ نے ترک کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایران اپنے میزائل پروگرام پر بھی بات چیت نہیں کرے گا جسے وہ کسی بھی جوہری معاہدے کے دائرہ کار سے باہر سمجھتا ہے۔
مزید پڑھیں: مذاکرات سے قبل امریکا کا مزید ایرانی اداروں کیخلاف پابندیوں کا اعلان
ایران نے عمان میں ہونے والی بالواسطہ بات چیت میں سمجھ لیا کہ امریکا نہیں چاہتا کہ ایران تمام جوہری سرگرمیاں بند کرے اور یہ ایران اور امریکا کے لیے منصفانہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے مشترکہ بنیاد ہو سکتی ہے۔
ایران نے جمعے کے روز کہا کہ امریکا کے ساتھ معاہدے تک پہنچنا اس صورت میں ممکن ہے اگر وہ ارادے کی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور غیر حقیقی مطالبات نہ کرے۔
اعلیٰ امریکی مذاکرات کار اسٹیو وٹ کوف نے منگل کو ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ایران کو واشنگٹن کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کے لیے اپنی جوہری افزودگی کو روکنا اور ختم کرنا ہوگا۔
ایران نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی جوہری ایجنسی کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے جسے وہ اس عمل میں واحد قابل قبول ادارے کے طور پر دیکھتا ہے تاکہ اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ اس کا جوہری کام پرامن ہے۔
عباس عراقچی نے امریکیوں سے کہا تھا کہ اس تعاون کے بدلے میں امریکا کو ایران کے تیل اور مالیاتی شعبوں پر سے پابندیاں فوری طور پر ہٹانی چاہئیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ایران ایران امریکا جوہری معاہدہ ایران امریکا مذاکرات