Express News:
2025-04-21@11:54:27 GMT

آٹزم کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, April 2025 GMT

میری دوست کی بیٹی کو آٹزم تھا اور وہ عام بچوں سے مختلف تھی۔ انھیں اس بیماری کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا، لہذا وہ بچی اسکول میں تعلیم حاصل نہ کرسکی۔ والدین کو علاج سے لے کر سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

 آئیے! جانتے ہیں کہ آٹزم کیا ہے۔

آٹزم ایک اعصابی (neurological) اور نشوونما سے متعلق بیماری ہے جو بچوں میں ابتدائی عمر میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ کیفیت انسان کی بات چیت، سماجی روابط، رویوں اور دلچسپیوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ آٹزم ایک ’’ اسپیکٹرم ڈس آرڈر‘‘ (Spectrum Disorder) ہے، یعنی اس کی شدت مختلف افراد میں مختلف ہوتی ہے۔ کچھ افراد معمولی طور پر متاثر ہوتے ہیں جب کہ کچھ کی حالت شدید ہوسکتی ہے۔آٹزم جسے اب ’’آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر'' (ASD) کہا جاتا ہے، ایک نفسیاتی حالت ہے جو عموماً تین بڑی علامتوں سے پہچانی جاتی ہے۔

(الف) سماجی میل جول میں مشکلات۔

(ب) زبان اور بات چیت میں تاخیر یا غیر معمولی انداز

(ج) محدود، تکراری اور مخصوص دلچسپیاں یا رویے۔

آٹزم کی علامات عام طور پر 2 سے 3 سال کی عمر تک سامنے آ جاتی ہیں اور بعض اوقات ایک سال کی عمر میں ہی اندازہ ہو سکتا ہے کہ بچہ عام بچوں سے مختلف انداز میں ردعمل دے رہا ہے۔

آٹزم کی وجہ ابھی تک مکمل طور پر معلوم نہیں ہو سکی، مگر تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مختلف جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل کا مجموعہ ہو سکتا ہے۔

بہت سے کیسز میں آٹزم موروثی (genetic) ہوتا ہے، اگر خاندان میں پہلے کسی کو آٹزم ہو تو بچوں میں اس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ آٹزم سے متاثرہ بچوں کے دماغ کی ساخت اور کام کرنے کا طریقہ عام بچوں سے مختلف ہوتا ہے، خاص طور پر وہ حصے جو سماجی روابط اور بات چیت سے متعلق ہیں۔

بعض سائنسی نظریات کے مطابق دورانِ حمل کچھ ماحولیاتی اثرات جیسے وائرس، ماں کی صحت یا دواؤں کا استعمال بھی بچے کے دماغی نشوونما کو متاثر کر سکتی ہے۔ دیکھا جائے تو آٹزم کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے، لیکن مناسب تھراپی، تعلیمی رہنمائی اور ماہرین کی مدد سے بہتری لائی جا سکتی ہے۔ علاج کا مقصد علامات کو کم کرنا، بچے کی صلاحیتوں کو بڑھانا اور خود مختاری کو فروغ دینا ہوتا ہے۔

(ABA Therapy):یہ تھراپی بچوں کے رویے بہتر بنانے اور مہارتیں سکھانے میں مدد دیتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے انعامات دے کر مثبت رویے کو فروغ دیا جاتا ہے۔

اسپیچ تھراپی:جن بچوں کو بولنے یا بات چیت کرنے میں مشکل ہو، ان کے لیے اسپیچ تھراپی بہت مؤثر ثابت ہوتی ہے۔

آکیوپیشنل تھراپی:یہ تھراپی بچوں کو روزمرہ کی سرگرمیاں جیسے کپڑے پہننا، کھانا کھانا اور لکھنا سکھاتی ہے۔

خصوصی تعلیم (Special Education)

ہر بچے کے لیے الگ تعلیمی منصوبہ بنایا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیت کے مطابق ترقی کر سکے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ والدین کیا کریں؟ آٹزم سے متاثرہ بچوں کی پرورش ایک چیلنج ہو سکتا ہے، لیکن والدین اگر صبر، سمجھ بوجھ اور علم سے کام لیں تو یہ سفر آسان بن سکتا ہے۔ والدین کو آٹزم کے بارے میں جتنا زیادہ علم ہوگا، وہ اتنی ہی بہتر انداز میں اپنے بچے کی مدد کر سکیں گے۔اسپیچ تھراپسٹ، ماہر نفسیات اور خصوصی تعلیم کے ماہرین کے ساتھ رابطے میں رہنا ضروری ہے۔آٹزم کے بچوں کو مخصوص روٹین سے سکون ملتا ہے، اس لیے روزمرہ زندگی کو ترتیب دینا مددگار ہو سکتا ہے۔

بچے کی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ ان میں خود اعتمادی بڑھے۔ بچوں کو بار بار ٹوکنے سے ان میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ نہ انھیں حد سے زیادہ توجہ دینی چاہیے، جس کی وجہ سے بچے خود انحصاری نہیں سیکھتے۔ بچوں کے لیے باغ اور کھلی فضا بے حد ضروری ہے۔ ایسے گروپس والدین کو نہ صرف جذباتی مدد فراہم کرتے ہیں بلکہ تجربات کا تبادلہ بھی ممکن ہوتا ہے۔

اگر بروقت تشخیص ہو جائے اور مناسب تھراپی و تعلیم فراہم کی جائے تو آٹزم کے کئی بچے عام زندگی گزارنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ جنھیں بچپن میں آٹزم تشخیص ہوا تھا، بعد میں کامیاب پیشہ ور، مصنف، سائنسدان یا آرٹسٹ بنے ہیں۔ مثال کے طور پر، آٹزم کے حامل کچھ افراد میں غیر معمولی صلاحیتیں بھی پائی جاتی ہیں، جیسے میوزک، میتھ یا آرٹس میں مہارت۔

ترقی یافتہ ممالک میں آٹزم سے متاثرہ بچوں اور ان کے والدین کے لیے مختلف سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں حکومت آٹزم کے شکار بچوں کے والدین کو مالی امداد فراہم کرتی ہے تاکہ وہ علاج، تعلیم اور ضروری تھراپیزکا بندوبست کر سکیں۔ایسے اسکول اور ادارے موجود ہیں جو صرف آٹزم کے بچوں کی تربیت اور تعلیم کے لیے بنائے گئے ہیں۔ آٹزم سے متاثر بچوں کو قانونی طور پر تعلیم، علاج اور سماجی شرکت کے مساوی مواقعے فراہم کرنے کے لیے قوانین موجود ہیں۔

پاکستان میں آٹزم کے حوالے سے شعورکم ہے، اور سہولیات کی شدید کمی ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں کچھ نجی ادارے اور اسپیشل ایجوکیشن سینٹرز وجود میں آئے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ آٹزم کے حوالے سے قومی سطح پر مہم چلائے، سرکاری سطح پر ادارے قائم کرے اور والدین کو مالی امداد فراہم کرے۔

 پاکستان میں 3 لاکھ 50 ہزار بچے آٹزم کا شکار ہیں، جب کہ کراچی میں آٹزم کے شکار بچوں کی تعداد تقریباً 40 ہزار ہے، لیکن بچوں کے اعداد و شمار کے حوالے سے کوئی باقاعدہ کام نہیں کیا گیا۔ ملک میں آٹزم سے متاثرہ بچوں کے لیے خصوصی اسکولوں کا قیام نہایت ضروری ہے تاکہ ان کی تعلیمی، سماجی اور نفسیاتی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کیا جا سکے۔ ان اسکولوں میں تربیت یافتہ اساتذہ، تھراپی سیشنز اور جدید تدریسی طریقے ہونے چاہئیں جو بچوں کی انفرادی صلاحیتوں کے مطابق ہوں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے بچوں کو خصوصی وظیفے فراہم کرے تاکہ ان کے والدین مالی بوجھ سے آزاد ہو کر بہتر تعلیم اور علاج پر توجہ دے سکیں۔ اس کے علاوہ ایسے بچوں کی رجسٹریشن کا ایک قومی نظام ہونا چاہیے تاکہ ہر بچے کی ترقی اور ضروریات کو مؤثر طریقے سے مانیٹر کیا جا سکے۔

مزید برآں، آٹزم سے متاثرہ بچوں کے لیے مخصوص کھیلوں کے کلب اور تفریحی مراکز قائم کیے جائیں جہاں وہ محفوظ ماحول میں دوسروں کے ساتھ گھل مل کر اپنی سماجی صلاحیتیں بہتر بنا سکیں۔ ان کلبوں میں اسپیشل ایجوکیٹرز اور سائیکالوجسٹ کی موجودگی ضروری ہو تاکہ بچوں کو ان کے مزاج اور رویوں کے مطابق سرگرمیوں میں شامل کیا جا سکے۔ میڈیا اور نصاب میں آگاہی شامل کر کے معاشرے میں آٹزم سے متعلق شعور اجاگرکیا جائے، تاکہ والدین، اساتذہ اور عام لوگ ان بچوں کے ساتھ بہتر سلوک کر سکیں۔ آٹزم میں مبتلا بچوں کے لیے ایپلیکیشنز بھی بنائی جاسکتی ہیں۔

والدین کی آگہی کے لیے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر پروگرام ترتیب دیے جانے چاہئیں۔ آٹزم ایک پیچیدہ مگر قابل فہم حالت ہے، جس کا بروقت ادراک اور صحیح رہنمائی سے بہتر طور پر سامنا کیا جا سکتا ہے۔ والدین، اساتذہ، ماہرین اور حکومت اگر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تو آٹزم کے شکار بچوں کو ایک باوقار، خوشحال اور خود مختار زندگی فراہم کی جا سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ا ٹزم سے متاثرہ بچوں بچوں کے لیے ہو سکتا ہے والدین کو کے مطابق ا ٹزم کے ا ٹزم کی کے ساتھ ہوتی ہے بچوں کی بات چیت بچوں کو جاتا ہے ہوتا ہے کیا جا بچے کی

پڑھیں:

دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا  

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ایس رضا کاظمی نے بچوں کی حوالگی کے حوالے سے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے دوسری شادی کرنے کے باوجود ماں کو ہی بچے کی کسٹڈی کا حق دار قرار دے دیا۔

جسٹس احسن رضا کاظمی نے نازیہ بی بی کی درخواست پر 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، عدالت نے دوسری شادی کی بنیاد دس سالہ بچے کو ماں سے لیکر باپ کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

فیصلے میں کہا کہ بچوں کے حوالگی کے کیسز میں سب سے اہم نقطہ بچوں کی فلاح وبہبود ہونا چاہیے، عام طور پر ماں کو ہی بچوں کی کسٹڈی کا حق ہے، اگر ماں دوسری شادی کر لے تو یہ حق ضبط کر لیا جاتا ہے۔

اس میں کہا گیا کہ یہ کوئی حتمی اصول نہیں ہے کہ ماں دوسری شادی کرنے پر بچوں سے محروم ہو جائے گی، غیر معمولی حالات میں عدالت ماں کی دوسری شادی کے باوجود بچے کی بہتری کی بہتری کےلیے اسے ماں کے حوالے کرسکتی ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ کیس میں یہ حقیقت ہے کہ بچہ شروع دن سے ماں کے پاس ہے، صرف دوسری شادی کرنے پر ماں سے بچے کی کسٹڈی واپس لینا درست فیصلہ نہیں، ایسے سخت فیصلے سے بچے کی شخصیت پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔

 جج نے قرار دیا کہ موجودہ کیس میں میاں بیوی کی علیحدگی 2016 میں ہوئی، والد نے 2022 میں بچے کی حوالگی کے حوالے سے فیصلہ  دائر کیا،  والد اپنے دعوے میں یہ بتانے سے قاصر رہا کہ اس نے چھ سال تک کیوں دعوا نہیں دائر کیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ والد نے بچے کی خرچے کے دعوے ممکنہ شکست کے باعث حوالگی کا دعوا دائر کیا، ٹرائل کورٹ نے کیس میں اٹھائے گئے اہم نقاط کو دیکھے بغیر فیصلہ کیا، عدالت ٹرائل کورٹ کی جانب سے بچے کی حوالگی والد کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتی  ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا  
  • سندھ میں انسداد پولیو مہم کا باقاعدہ آغاز
  • کینال کا معاملہ صدر زرداری سے ضرور ڈسکس ہوا ہو گا: مصطفیٰ کمال
  • پولیو کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، وزیراعظم
  • تمام والدین سے گزارش ہے کہ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائیں، وزیراعظم
  • 4 بچوں کی ماں اپنی بیٹی کے سسر کے ساتھ بھاگ گئی
  • ملک بھر میں 7 روزہ انسداد پولیو مہم کا آغاز 21 اپریل سے ہو گا
  • پاڑہ چنار میں زہریلا کھانا کھانے سے 150 افراد کی حالت غیر
  • خطرات سے بھری دنیا