شیر افضل مروت 2سال پہلے کہاں تھا اور کون تھا؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 19 اپریل 2025ء ) تحریک تحفظ آئین پاکستان کے ترجمان نے شیر افضل مروت کے علیمہ خان کیخلاف بیانات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شیر افضل مروت 2سال پہلے کہاں تھا اور کون تھا؟ اس غلاظت اور گٹھیا پن کی مذمت کرتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق بانی تحریک انصاف عمران خان کی بہن علیمہ خان کیخلاف بیانات دینے پر شیر افضل مروت کو تحریک تحفظ آئین پاکستان کے ترجمان اخونزادہ حسین احمد کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اپنے بیان میں اخونزادہ حسین احمد نے کہا کہ شیر افضل مروت دو سال پہلے کہاں تھا، اور کون تھا یہ اس ملک میں؟ زیادہ کسی کو پتہ نہیں۔ عمران خان کی وکالت نے انہیں یہاں لا کے کھڑا کیا ہے کہ آج وہ ٹی وی ٹاک شوز پر آ کر خان صاحب کی بہنوں پر حملہ آور ہو رہا ہے۔(جاری ہے)
ہم نہ صرف اس غلاظت اور گٹھیا پن کی مذمت کرتے ہیں، بلکہ پارٹی کے ان ساتھیوں کو بھی ملامت کرتے ہیں، جو اب بھی ان سے رابطے میں ہیں۔
انہوں نے ہی شیر افضل مروت کو پارٹی معاملات پر اور خان کی فیملی کے بارے میں اتنی بے باکی سے بولنے کے قابل بنایا ہے۔ یہ تو کم ظرفی کی انتہا ہے کہ جس شخصیت نے آپ کو ایک مقام پر بٹھایا ہو، آپ ان کی بہنوں کے خلاف دشنام طرازی پر اتر آئے۔.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے شیر افضل مروت خان کی
پڑھیں:
پوپ فرانسس کی جانب سے غزہ کی افسوسناک صورتحال کی مذمت
فلسطینی ذرائع کے مطابق، ان حملوں میں درجنوں بے گناہ شہری، خاص طور پر خواتین اور بچے، شہید یا زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کا مقصد یہ ہے کہ وہ زمینی دباؤ کے ذریعے فلسطینی مزاحمت کو اس کے اصولی مطالبات سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرے۔ اسلام ٹائمز۔ کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے اتوار کے روز چرچ کی عبادت کے دوران غزہ میں انسانی صورتحال کو افسوسناک قرار دیا۔ فارس نیوز کے مطابق، پوپ فرانسس نے اپنی تازہ ترین پوزیشن میں اسرائیلی محاصرے میں گھری ہوئی غزہ پٹی کی انسانی حالت کو غم انگیز کہا۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق، پوپ نے اتوار کی عبادت کے دوران غزہ میں افسوسناک انسانی بحران کی مذمت کی اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب اسرائیل نے جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک بار پھر غزہ پٹی پر شدید فضائی اور توپ خانے کے حملے شروع کیے۔
یہ حملے اس وقت ہوئے جب جنگ بندی کے پہلے مرحلے جس میں فلسطینی قیدیوں اور اسرائیلی یرغمالیوں کا تبادلہ شامل تھا کا اختتام ہو چکا تھا، اور دوسرا مرحلہ جو غزہ سے اسرائیلی افواج کے بتدریج انخلا پر مشتمل تھا، تل ابیب کے بہانوں کی وجہ سے رک گیا۔ اسرائیلی حکومت نہ صرف جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر عملدرآمد سے پیچھے ہٹی، بلکہ اس نے مذاکرات کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کیں اور مظلوم فلسطینی عوام کے لیے انسانی امداد کی ترسیل کو بھی روک دیا۔
اس کے بعد اسرائیلی قابض افواج نے ایک بار پھر غزہ کے رہائشی علاقوں، خاص طور پر مرکز اور جنوب میں شدید بمباری کی، جس سے علاقے کے شہریوں پر دوبارہ خوف، تباہی اور بے گھری مسلط ہو گئی۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق، ان حملوں میں درجنوں بے گناہ شہری، خاص طور پر خواتین اور بچے، شہید یا زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کا مقصد یہ ہے کہ وہ زمینی دباؤ کے ذریعے فلسطینی مزاحمت کو اس کے اصولی مطالبات سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرے۔