اسلام آباد : وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ آئی پی پیز ہر سال حکومت کو اربوں ڈالر کا چونا لگا رہے ہیں جن میں بڑے نام بھی شامل ہیں۔

خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ سولر انقلاب آرہا ہے آئی پی پیز کی بجلی کم استعمال ہوگی، کاروباری افراد تیار رہیں نیا معاشی نظام آرہا ہے جس سے امریکا کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو امپورٹ ڈیوٹیز پر سالانہ چار ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت ہر سال اپنے پاور پلانٹس کا ہیٹ آڈٹ کرواتی ہے، پرائیوٹ پلانٹس برطانوی عدالت چلے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج تک تمام آئی پی پیز نے ہیٹ آڈٹ نہیں کروایا جس قسم کی ڈکیتی آئی پی پیز نے کی اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

 

واضح رہے کہ پاکستان میں بجلی کے بلوں کا مسئلہ کافی سنگین صورت حال اختیار کرتا جارہا ہے۔ حالیہ برسوں میں بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ بجلی کے بلوں میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک بڑی وجہ ملک میں بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں یا انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کا کردار ہے-

آئی پی پیز پر تنقید کی جارہی ہے کیونکہ ان کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے مہنگے ثابت ہو رہے ہیں۔

ان معاہدوں کے تحت حکومت کو بجلی کی پیداوار کے لیے آئی پی پیز کو بھاری ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں، جس کا بوجھ بالآخر عوام پر پڑتا ہے3۔ اس کے علاوہ، ملک میں بجلی کی پیداوار کی صلاحیت طلب سے زیادہ ہونے کے باوجود، بجلی کی قیمتیں کم نہیں ہو رہیں، جو کہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ا ئی پی پیز خواجہ ا صف آئی پی پیز میں بجلی بجلی کی

پڑھیں:

شاپ ایکٹ کہاں گیا؟

ملک کے پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کا دور وہ پہلا دور تھا جب ملک میں دکانوں کے لیے کچھ قوانین بنائے گئے تھے جن میں ایک شاپ ایکٹ بھی تھا جس کے تحت تمام دکاندار ہفتے میں ایک روز اپنی دکانیں بند رکھنے اور دکانوں پر مقررہ اوقات کار پر عمل کرنے کے پابند تھے اور شاپ ایکٹ و دیگر قوانین پر عمل بھی ہوتا تھا جب کہ اس وقت بجلی کی بھی کمی نہیں تھی اور لوڈ شیڈنگ کا تو کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا۔

ایوب خان نے مارشل لا لگا کر دکانداروں کو اپنی دکانوں کے سامنے صفائی رکھنے، ملاوٹ سے گریز اور ناپ تول میں گڑبڑ نہ کرنے کا پابند کیا تھا اور مارشل لا کے خوف سے دکانداروں نے اپنی دکانوں پر صفائی دکھانے کے لیے رنگ و روغن بھی کرائے تھے اور بازاروں میں صفائی نظر آتی تھی۔ کسی دکان کے سامنے کچرا نظر نہیں آتا تھا۔ ملاوٹی اشیا فروخت کرنے والوں نے ملاوٹی اشیا خصوصاً مسالہ جات، مرچیں و دیگر اشیا بڑے پیمانے پر تلف کی تھیں جس کے بعد مضر صحت اشیا کی فروخت کا تصور ہی ختم ہو گیا تھا اور تمام دکانیں ہفتے میں ایک دن بند رہتی تھیں جس سے دکانداروں اور ان کے ملازمین کو ہفتے میں ایک روز چھٹی کا موقعہ مل جاتا تھا۔

اس وقت ملک میں صرف دو صوبے تھے اور موجودہ پاکستان اس وقت مغربی پاکستان تھا، جس کے گورنر ملک امیر محمد خان تھے جن کی ہیبت ہر جگہ اور ملک میں مکمل امن و امان تھا۔ رشوت ستانی نہ ہونے کے برابر تھی اور سرکاری دفاتر میں لوگوں کے کام آسانی سے ہو جاتے تھے۔ نفسا نفسی نہیں تھی جرائم نہ ہونے کے برابر تھے۔

اس وقت دو پلڑے والے ترازو اور ہر سال چیک ہونے والے باٹوں کے ذریعے خرید و فروخت ہوتی تھی بعد میں بغیر پلڑوں کا ترازو ہونے لگا اور دونوں اقسام کے ترازو اور ان کے باٹوں کا ایک سرکاری محکمہ سالانہ چیک کر کے نئی مہر لگاتا تھا اور کم تولنے کی شکایات نہ ہونے کے برابر۔ اشیائے خور و نوش معیاری ہوتی تھیں اور لوگوں کی زندگی آسانی سے گزر رہی تھی۔

اب وہ سب کچھ ایک خواب نظر آتا ہے دکانوں کو بند رکھنے کا تصور ختم ہو چکا اور دکانوں کے کھولنے بند کرنے کے اوقات خواب ہو چکے بلکہ اب تو 24 گھنٹے بھی بعض دکانیں کھلی رہتی ہیں۔ صبح جلد کاروبار شروع کرنے اور رات سے قبل کاروبار بند کرنے کا سلسلہ ختم ہو چکا اور بجلی کی کھپت کم کرنے کے لیے ہر حکومت نے کوشش کی کہ کاروبار وقت مقررہ تک محدود کر دیا جائے مگر سرکاری احکامات پر کوئی دکاندار عمل نہیں کرتا، دکانیں مذہبی تہواروں پر مجبوراً بند کی جاتی ہیں۔

حکومت نے بجلی بچانے کے لیے جب بھی کاروباری اوقات مقررکیے وہ ہمیشہ ہوا میں اڑائے گئے۔ پہلے دودھ، دہی کی دکانوں پر صبح ہی دودھ دہی فروخت ہو جاتا تھا۔ گوشت، مرغی، مچھلی کی دکانیں جلد کھلتی تھیں اور دوپہر سے پہلے بند ہو جاتی تھیں، البتہ سبزی اور پھلوں کا کاروبار شام تک جاری رہتا تھا۔

بجلی کی کھپت بڑھنے سے ملک میں پہلے بجلی کی قلت پیدا ہوئی اور اب گرمیوں میں بھی ضرورت پرگیس نہیں ہوتی۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے جنریٹروں کا کاروبار چمکا پھر سوئی گیس کی قلت سے گیس چولہوں نے فروغ پایا جو گرمیوں میں بھی رکھنا ہر گھر کی مجبوری بن چکا ہے۔ پہلے لوگ لکڑی کے برادے کے چولہے استعمال کرکے ضرورت پوری کر لیتے تھے اور سوچتے تھے کہ آنے والے دنوں میں ترقی ہوگی مگر دنیا جدید دور میں اور ہم پرانے دور میں واپس آ چکے ہیں۔

غریب لکڑی کے چولہے استعمال کر رہے ہیں کیونکہ مہنگی بجلی سے اب ہیٹر استعمال نہیں ہوتے۔ حکومت نے بجلی بچانے کے لیے گھڑیاں آگے بھی کرائیں، دکانوں کے اوقات بھی مقرر کیے مگر عمل کرانے میں ہر حکومت ناکام رہی۔ پہلے لوگ شاپ ایکٹ پر عمل کرکے چھٹی بھی کرتے تھے اور مطمئن تھے اب دکانیں زیادہ وقت کھول کر بھی پیٹ نہیں بھر رہا۔ دنیا جدید اور ہم فرسودہ دور میں آچکے ہیں اور حکومتی رٹ تو ملک بھر میں کہیں نظر نہیں آتی اور سزا سب بھگت رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ٹیکسٹائل برآمدات 13.613 بلین ڈالر کی بلند ترین سطح پر، وزیراعظم کا 9.38 فیصد اضافے کا خیر مقدم
  • سرگودھا میں لڑکی والوں نے شہری کو شادی کے نام پر چونا لگادیا
  • ایلون مسک کو حکومت امریکا نے کھرب پتی بنایا
  • بجلی
  • وفاقی حکومت کا بجلی کی قیمت میں مزید ریلیف دینے کا فیصلہ
  • غزہ ظلم اور بربریت کے آگے فصیل کی طرح کھڑا ہے، خواجہ آصف
  • ایک نا تجربہ کار حکومت نے ملک کی معاشیات کو تباہ کر کے رکھ دیا،خواجہ آصف
  • شاپ ایکٹ کہاں گیا؟
  • کیا 9 مئی پر ادارے نے کسی کا احتساب کیا؟ جسٹس حسن اظہر رضوی