Daily Ausaf:
2025-04-21@12:16:47 GMT

Forwarded As Received

اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT

ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں اطلاعات کی قیمت سچ سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک جملہ ’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اب یہ سچ اور جھوٹ کے درمیان تمیز مٹا چکا ہے۔ یہ مختصر مگر خطرناک فقرہ آج کے معاشرے کے لئے ایک ناسور بن چکا ہے۔ اس جملے کی آڑ میں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ بغیر تحقیق کے کچھ بھی شیئر کرے اور بری الذمہ ہو جائے۔”
’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ لکھ دینے سے نہ تو سچ جھوٹ میں بدلتا ہے اور نہ ہی اس کا اثر کم ہوتا ہے۔ اس فقرے کا مطلب ہوتا ہے: میں ذمہ دار نہیں ہوں، بس مجھے یہ ملا اور میں نے آگے بڑھا دیا مگر سوال یہ ہے کہ اگر آپ ذمہ دار نہیں تو پھر یہ کام کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ کیا ہم اس قدر غیر ذمہ دار ہو چکے ہیں کہ ہم دوسروں کی زندگیوں، شہرت، عزت اور ریاست کی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں وہ بھی صرف ایک کلک یا لائیک کی خاطر؟ یہ مسئلہ صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں رہا بلکہ معاشرتی رویوں کا حصہ بن چکا ہے۔ ہم ہر چیز بغیر تحقیق کے آگے بڑھا دیتے ہیں۔ کسی کے بارے میں کوئی افواہ ہو، کوئی سیاسی یا مذہبی مسئلہ ہو یا ریاستی اداروں کے خلاف کوئی پراپیگنڈہ، ہم بغیر سوچے سمجھے اسے مزید لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
حال ہی میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اسلام آباد میں اوورسیز پاکستانیوں کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے اسی ناسور کی نشاندہی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر اطلاعات بغیر تحقیق کے آگے بڑھائی جاتی ہیں جو نہ صرف ریاست کے لئے نقصان دہ ہیں بلکہ پوری قوم کے ذہنوں میں بے یقینی اور مایوسی پیدا کرتی ہیں۔آرمی چیف نے قرآن پاک کی آیت کا حوالہ دیا’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہو۔‘‘(سورۃ الحجرات: آیت 6) قرآن پاک کا یہ واضح حکم صرف ایک دینی ہدایت نہیں بلکہ معاشرتی استحکام کی بنیاد ہے۔ سچ اور تحقیق کا حکم کسی بھی معاشرے کو فتنہ، فساد اور بربادی سے بچاتا ہے۔ آج کے دور میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک طرف ہمیں اپنے دین کی پیروی کرنی ہے، دوسری طرف ایک مہذب شہری کے طور پر ذمہ دار رویہ اپنانا ہے۔ ہم کیسے دعوی کریں کہ ہم قرآن کے ماننے والے ہیں جب ہم خود ہی اس کے احکام کو نظر انداز کرتے ہیں؟ کیا ہماری انگلیوں کا ایک کلک کسی کی عزت پامال کرنے، کسی خاندان کو برباد کرنے یا کسی ریاستی ادارے پر انگلی اٹھانے کے لئے کافی ہونا چاہیے؟ سوشل میڈیا کی آزادی ایک نعمت تھی مگر ہم نے اسے زحمت بنا دیا ہے۔ ہم ہرچیز کو سنسنی خیزانداز میں پیش کرنا چاہتے ہیں، جھوٹی خبروں میں اضافہ کرتے ہیں، اور پھر’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ کا سہارا لےکر خود کو بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ غیر اسلامی بھی ہے۔ آج ہمارے نوجوان، ہمارے دانشور یہاں تک کہ کچھ صحافی بھی اس ناسور کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہر ایک کو سب سے پہلےخبر دینےکی دوڑ میں سچ کی قربانی دی جا رہی ہے۔ جھوٹے بیانیے گھڑ کر ریاستی اداروں، فوج، عدلیہ اور حکومت پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے جس میں لوگ مایوسی، بے یقینی اور بداعتمادی کا شکار ہو رہے ہیں۔
آرمی چیف کا یہ کہنا کہ پاکستان کے بارے میں افواہیں پھیلا کر تاثر دیا جاتا ہے کہ ریاست وجود کھو چکی ہے، لیکن ہم قوم کے ساتھ مل کر ہر مافیا کی سرکوبی کریں گے۔ درحقیقت ایک انتباہ ہے ان سب کے لئے جو سوشل میڈیا کو انتشار کا ذریعہ بنا چکے ہیں۔ یہ صرف فوج کی یا کسی ادارے کی جنگ نہیں یہ پوری قوم کی جنگ ہے۔ اگر ہم نے وقت پر اپنا کردار درست نہ کیا تو ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنے مستقبل کو تاریکی میں دھکیل دیں گے۔یہاں ہمیں بطور مسلمان خود سے سوال کرنا ہوگا: کیا ہم اپنی زبان، قلم اور اب اپنی انگلیوں سے ہونے والے گناہوں سے واقف ہیں؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ جھوٹی خبر کو آگے بڑھانا بھی جھوٹ بولنے کے مترادف ہے؟ کیا ہم نے کبھی توبہ کی ہے ان ’’فارورڈز‘‘ پر جو کسی کی بدنامی، کسی کے قتل، یا کسی بغاوت کا باعث بنے؟اسلام نے ہمیشہ زبان اور کلام پر قابو رکھنے کی تلقین کی ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے اللہ اور روزِ قیامت پر ایمان لایا، وہ یا تو اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔(صحیح بخاری و مسلم)تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم کچھ بھی شیئر کرنےسے پہلے تحقیق کر لیں؟ اگر ہم تحقیق نہیں کر سکتے تو خاموشی اختیار کریں۔ خاموشی بھی ایک عبادت ہے خاص طور پر جب وہ کسی فساد یا فتنے کو روکنے کا ذریعہ بنے۔
سوشل میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ استعمال صرف جھوٹی خبریں پھیلانے تک محدود نہیں رہا، بلکہ اب یہ قوموں کو تقسیم کرنے، ریاستوں کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے اور نسلوں کو گمراہی میں ڈالنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اگر ہم آج بھی نہ جاگے تو کل بہت دیر ہو جائے گی۔لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہم بطور فرد اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ کسی بھی خبر، ویڈیو یا تحریر کو آگے بڑھانے سے پہلے تحقیق کریں۔ اگر تحقیق ممکن نہیں تو خاموشی اختیار کریں۔ اسلامی تعلیمات کو زندگی میں عملی طور پر اپنائیں۔ ’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ جیسی خود غرضانہ روش ترک کریں۔اختتامیہ یہی ہے کہ آج اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو کل تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ درآصل سچ اور ذمہ داری سے فرار کا بہانہ ہے۔ سچ بولنا، سچ کو پھیلانا، اور جھوٹ سے اجتناب صرف ایک دینی فریضہ نہیں بلکہ ایک قومی ذمہ داری بھی ہے۔ ’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ کہہ کر خود کو بری الذمہ سمجھنے والے یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ایسا کوئی بہانہ قابلِ قبول نہ ہو گا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کا ذریعہ بن سوشل میڈیا کے لئے کیا ہم چکا ہے اگر ہم

پڑھیں:

فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری

غزہ کی صورتحال، فلسطین کی صورتحال، دن بدن نہیں لمحہ بہ لمحہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی جا رہی ہے اور اسرائیل تمام اخلاقیات، تمام قوانین، تمام معاہدات کو پامال کرتے ہوئے اس درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس پر دنیا کی خاموشی بالخصوص عالمِ اسلام کے حکمرانوں پر سکوتِ مرگ طاری ہے۔ مجھے تو بغداد کی تباہی کا منظر نگاہوں کے سامنے آ گیا ہے، جب تاتاریوں کے ہاتھوں خلافتِ عباسیہ کا خاتمہ ہوا تھا، بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی، اور اس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی، آج پھر ’’بغداد‘‘ کی تباہی کا منظر ہمارے سامنے ہے، اسرائیل اور اس کے پشت پناہ، آج وہ چادر جو انہوں نے اوڑھ رکھی تھی، مغرب نے، امریکہ نے، یورپی یونین نے، عالمی طاقتوں نے، انسانی حقوق کی، بین الاقوامی معاہدات کی، انسانی اخلاقیات کی، وہ آج سب کی چادر اسرائیلی درندگی کے ہاتھوں تار تار ہو چکی ہے۔لیکن اس سے زیادہ صورتحال پریشان کن، اضطراب انگیز یہ ہے کہ مسلم حکمران بھی اسی مصلحت کا، مصلحت نہیں بے غیرتی کا شکار ہو گئے ہیں۔ آج او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کو، عرب لیگ کو، مسلم حکمرانوں کو، جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ اس کے لیے مل بیٹھ کر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اور امتِ مسلمہ، عالمِ اسلام سناٹے کے عالم میں اپنے حکمرانوں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ ہمارے ہی حکمران ہیں، کون ہیں یہ؟لے دے کے دینی حلقوں کی طرف سے دنیا بھر میں کچھ نہ کچھ آواز اٹھ رہی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ملتِ اسلامیہ بحیثیت ملتِ اسلامیہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ نہیں، اپنی دینی قیادتوں کے ساتھ ہے جو کسی نہ کسی انداز میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں، اس آواز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔میں اس موقع پر دنیا بھر کے دینی حلقوں سے، علماء کرام سے، یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ آج کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے تاتاریوں کی یلغار اور بغداد کی تباہی کا ایک دفعہ پھر مطالعہ کر لیں، کیا ہوا تھا؟ کس نے کیا کیا تھا؟ اور کون سے حلقے تھے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کی تباہی کی راہ ہموار کی تھی اور کون سے لوگ تھے جنہوں نے اس وقت ملتِ اسلامیہ کو سہارا دیا تھا؟ مجھے اس وقت کی دو بڑی شخصیتیں ذہن میں آ رہی ہیں (۱) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ اور (۲) شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلام رحمہ اللہ تعالیٰ، دینی قیادت تھی، سامنے آئے تھے، امت کو سنبھالا تھا، مقابلہ کر سکے یا نہ کر سکے، امت کو سنبھالنا، امت کا حوصلہ قائم رکھنا، اور اپنے مشن کے تسلسل کو قائم رکھنا، یہ تو بہرحال بہرحال دینی قیادتوں کی ذمہ داری ہے، علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ حمیت کو باقی رکھیں، غیرت کو باقی رکھیں۔تو میری پہلی درخواست تو علماء کرام سے ہے، کسی بھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی فقہی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، کہ آج شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلامؒ کے کردار کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ویسے تو فقہاء نے لکھا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمان مظلوم ہوں، ذبح ہو رہے ہوں، تو دنیا بھر کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے، ہماری فقہی صورتحال تو یہ ہے، درجہ بدرجہ ’’   علی الاقرب فالاقرب‘‘  ،   ’’الاول فالاول‘‘۔ لیکن بہرحال مجموعی طور پر ہم امتِ مسلمہ پر جہاد کی فرضیت کا اصول اس وقت لاگو نہیں ہو گا تو کب لاگو ہو گا۔
لیکن بہرحال ہمیں اپنے اپنے دائرے میں امتِ مسلمہ کا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے، بیدار رکھنے کے لیے، فکری تیاری کے لیے۔اور دو تین محاذ ہمارے ہیں: ایک تو یہ ہے کہ علماء کرام ہر علاقے میں ہر طبقے میں ہر دائرے میں اپنے کردار کو اپنے حوصلے کو قائم رکھتے ہوئے امت کا حوصلہ قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج ایک محاذ میڈیا وار کا بھی ہے، لابنگ کا بھی ہے، اس میں جو لوگ صلاحیت رکھتے ہیں ان کو کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور تیسرا محاذ بائیکاٹ کا ہے، اب تو یہ مرحلہ آ گیا ہے، اسرائیل نہیں، اس کے سرپرستوں کے معاشی بائیکاٹ کی بھی ضرورت پیش آ رہی ہے، اور یہ معاشی بائیکاٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں معاشی بائیکاٹ حضورؐ کا بھی ہوا ہے، حضورؐ نے بھی کیا ہے۔ شعبِ ابی طالب میں حضورؐ کا ہوا تھا، غزوہ خندق میں حضورؐ نے کیا تھا۔ اور اس کی مختلف مثالیں موجود ہیں۔تو لابنگ کی جنگ، میڈیا کی جنگ، حوصلہ قائم رکھنے کی جنگ، اور معاشی بائیکاٹ، اس میں جس قدر ہم زیادہ توجہ دے سکیں۔ کوئی لکھ سکتا ہے تو لکھے، بول سکتا ہے تو بولے، خرچ کر سکتا ہے تو خرچ کرے، کوئی لوگوں کے ساتھ رابطے کر سکتا ہے تو رابطے کرے۔ جو بھی کسی میں صلاحیت ہے، آج یہ وقت ہے، جو بھی کسی کے پاس موقع ہے، توفیق ہے، صلاحیت ہے، وہ اس کو اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے، فلسطین کی آزادی کے لیے، اسرائیلی درندگی کی مذمت کے لیے، اس میں رکاوٹ کے لیے، مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی آزادی کے لیے، جو بھی کر سکتا ہے وہ کرے۔ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ ایک مثال دیا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو ایک چڑیا چونچ میں پانی ڈالتی تھی، ایک پرندہ تھا، اس سے کسی نے پوچھا، تیرے پانی ڈالنے سے کیا ہو گا؟ اس نے کہا، ہو گا یا نہیں ہو گا، میری جتنی چونچ ہے اتنا پانی تو میں ڈالوں گی۔ یہ کم از کم کہ جو ہم کر سکتے ہیں وہ تو کریں، میں دیانت داری کے ساتھ (کہوں گا) کہ مجھے، سب کو اپنے اپنے ماحول کو دیکھنا چاہیے، اپنی اپنی توفیقات کو دیکھنا چاہیے اور جو کر سکتے ہیں اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے مظلوم فلسطینی بھائیوں پر رحم فرمائے، ہم پر رحم فرمائے۔ مولا کریم! فلسطین کی آزادی، غزہ کے مسلمانوں کی اسرائیلی درندگی سے گلوخلاصی، اور اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی بدمعاشی سے نجات دلانے کے لیے اللہ پاک ہمیں توفیق عطا فرمائیں اور خود مہربانی فرمائیں، فضل فرمائیں کہ اس مرحلے پر عالمِ اسلام کی، امتِ مسلمہ کی دستگیری فرمائیں، ان کو اس عذاب سے نجات دلائیں۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • بجلی
  • میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کی وجہ دریافت، سائنسدانوں کی حیران کن تحقیق سامنے آگئی
  • پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے
  • ایف آئی آر کی کہانی
  • اور ماں چلی گئی
  • روس نے طالبان پر سے پابندی اٹھالی، اصل وجہ کیا ہے؟