Daily Sub News:
2025-04-21@12:16:36 GMT

اور ماں چلی گئی

اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT

اور ماں چلی گئی

اور ماں چلی گئی WhatsAppFacebookTwitter 0 19 April, 2025 سب نیوز

تحریر – عامر مغل
‏ بھلامائیں ایسےبچوں کوچھوڑجاتی ہیں،ماں اتنی سخت دل کیسےہوسکتی ہے، مائیں اتنی بےوفا کیسے ہوسکتی ہیں،
پیرکوطبیعت خراب ہوئی ،پوتاہسپتال لےگیاڈاکٹرنے الٹراساؤنڈ ،LFT,RFT کیااورکہاجگرکاکوئی سیریزمسئلہ ہےآپ سی ٹی سکین کرواؤپوتےنے سی ٹی سکین کروایاڈاکٹر نےکہاکہ بظاہرجگرٹرانسپلانٹ کاکیس ہےلیکن سی ٹی سکین کی رپورٹ آنےپرہی حتمی فیصلہ ہوگا
‏دو دن منگل،بدھ ہرطرف سےلیورٹرانسپلانٹ بارےمعلومات لیں۔
‏جمعرات کوCTاسکین رپورٹ آئی ڈاکٹر نےکہاجگرکاکینسر لاسٹ اسٹیج پرہےٹرانسپلانٹ ناممکن ہے ERCP+ Studڈالنےکی کوشش کرتے ہیں اگرکامیاب ہوگئی توان کےپاس15ماہ کاوقت ورنہ 4ماہ سےزیادہ وقت نہیں
‏آپ انہیں گھرلےجائیں اورایک دو دن میں فیصلہ کرکے بتائیں لیکن یادرکھیں کہ بہتری کا1%بھی چانس نہیں ،
‏پیروں تلےزمین نکل گئی والدہ کوہسپتال سےنکالا اس دوران بہت سےڈاکٹرزکوساری رپورٹ بھیج چکاتھاسب کی یہی رائےتھی،
‏کچھ دوستوں نےہومیو پیتھک کی امید دلوائ ،انہوں نےکہا کینسر لاسٹ اسٹیج پرہےلیکن کوشش کی جاسکتی ہے
‏اللہ کانام لےکرہومیوسےدوائ لی اوروالدہ کوگھرلےگئے،

‏ساری رات والدہ بھی جاگتی رہیں بہنیں بھی اورادھر میں بھی فون پررابطےمیں رہاایک پل نہیں سویا،آسٹریلیا،انگلینڈ، شوکت خانم،پمز،نوری،پولی کلینک اپنےتعلقات کےبندوں سےریکویسٹ کر کےآج کادن سیکنڈ اوپینئین لیتارہا،تقریباہر گھنٹےبعدوالدہ سےفون پربات بھی کرتارہا،
‏تکلیف میں تھیں لیکن قابل برداشت تھی یاپھربتاتی نہیں تھیں پتا ہے نا یہ مائیں جھوٹی بھی ہوتی ہیں آپنا درد آورتکلیف ا ولادسےچھپاتی ہیں،
‏دن 12بجےبہن اور بیوی کاروتےہؤےفون آیا والدہ کاجسم نیلاپڑگیاہے،بیہوش ہوگئی ہیں، فوراًہسپتال لےگئےمیں بھی قریب پنڈی ہی شفٹ ہوچکا تھا،اورپھر بعدنمازجمعتہ2:30بجےوفات پاگئیُں
‏ گھر لائےغسل دےکرکفن پہناکرقریبی سودوسو احباب کے ساتھ جنازہ پڑھااورنکل آیا ، ‏5بجےاطلاع دینی شروع کی رات10:00کادوسرا جنازہ رکھاصرف4گھنٹےمیں کتنی اطلاع دےسکتے تھےپھربھی ہزاروں لوگوں نےمیری ماں کاجنازہ پڑھامیں آپ سب کااحسان بھول نہیں سکتا
‏بھلامائیں اتنی جلدی کیسےجا سکتی ہیں،ابھی توخدمت بھی نہیں کی،ڈاکٹر نےکل ہی تو یہ کہ گھر بھیجا تھا چار ماہ کم از کم آپ کےپاس ہیں پھر ایکدم سے ایک دم سے میری ماں جی آپ کیسے چلی گئیں مائیں ہوتی ہی بےوفاہیں

‏پورے7ماہ بعد4اپریل کوماں سےچھپ کرعیدملنے آیابیٹھنےہی نہیں دیاملیں پیارکیااورپیچھے پڑگئیں چلوواپس جاؤ،وہ ظالم آجائیں گےتم پربہت تشدد کریں گے،بس میں نےدیکھ لیاہےبس نکلوجاؤفون پربات ہوگی

2009اگست میں چھوٹا اسٹیکرچھپوایا،دیکھا تواسے تہہ کرکے پرس میں ڈال رہی ہیں پوچھا توکہنےلگی بیٹا چوہڑ تیری بہن کودکھاؤں گی میرے بیٹے کی تصویر کےپوسٹر لگے ہیں بیچاری مائیں کتنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پرپاگل ہوجاتی ہیں

عام نارمل حالات میں بھی میری تصویر پرس میں یا موبائل میں رکھتی تھیں کہتی تھی تجھے دیکھ کرخوش ہوتی ہوں

ویسے میری نانو بھی میری تصویر اپنے پاس رکھتی تھیں کہتی تھیں ہروقت تمھیں دیکھنے کو دل کرتاہے

دونوں ماں بیٹی جھوٹ بولتی تھیں ،دونوں نے جاتے ہؤے ڈھنگ سے سلام بھی نہیں کیا اور دعوے اتنے بڑے بڑے پیارکے یہ مائیں ہوتی ہی شائدجھوٹی ہیں،

میرے باپ جیسے شفیق بڑے بھائ حاجی عمر مغل نے، میری بہنوں نے، پوتوں، پوتیوں ،نواسوں نواسیوں میری بیوی بھابھی نے گنتی کے چار دن ماں جی کو دیکھ تولیانا، میں نے پھر بھی مری ماں کا چہرہ دیکھ لیا، پاؤں چوم لئیے،جنازہ پڑھ لیا،4اپریل کو ماں جی کو عید بھی مل آیا، مرشد کی زیارت بھی کرلی

میرا چھوٹا بھائی ڈاکٹر آفتاب مغل میری ماں جی کا لاڈلا پتر کل سارا دن آسٹریلیا میں مچھلی کی طرح تڑپتا رہا لیکن فلائٹ نہ ملی ،

نومبر 2024 اسلام آباد قتل عام کے مہینے میں میری اکلوتی خالہ اور چھوٹے بھائ کی ساس زیادہ بیمار ہوںئ ، بیوی بچے بھیج دئیے، بھائ تڑپتا رہا میں نے آنے نہیں دیا میں نےکہا میں نے ماں جی کو کہیں چھپارکھا ہے بیوی بچوں کو کہیں چھپارکھا ہے تجھے کہاں چھپاؤں گا

میری ماں اور میری خالہ کا لاڈلہ پتر ان ظالموں یذیدوں کی وجہ سے اپنی دونوں ماؤں کے آخری وقت دیدار سےمحروم رہ گیا

یااللہ تو ان ظالموں یذیدوں کو دنیا و آخرت میں تباہ و برباد کر جن کی وجہ سے بچے اپنی ماؤں کے آخری دیدار سے بھی محروم رہ جاتے ہیں

لیکن مجھے پتاہے ہم دونوں بھائیوں سے زیادہ ان دونوں ماؤں کو چھوٹے بھائ سے پیارتھا وہ آسٹریلیا بیٹھ کر بھی ہم سے زیادہ سب کا خیال رکھتاتھا

پچھلے دوسال کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر دوبہنوں اور چھوٹے بھائ کا ہمیشہ مطالبہ ہوتا بس اب سب کچھ سیاست چھوڑ دو آخر بچوں کا بزنس کا کتنا تو میں آخر میں کہتا چلو اماں جی سے حکم کروا دو چھوڑ دیتاہوں ، بڑی بہن کہتی تم اور اماں آپس میں ملے ہؤے ہمارے سامنےہربات مان جاتی ہیں لیکن تمھیں نہیں کہتی یہ دراصل تمھاری مرضی پر چلتی ہیں

‏میری ماں جی کی فرض تو دورتہجدبھی کبھی قضا نہیں ہوئ، تلاوت کبھی قضا نہیں ہوئی ،
ہمیشہ رمضان میں تراویح اوراعتکاف مسجد میں جاکرپڑھتی تھیں میری یادداشت میں کوئ ناغہ نہیں کیا، 4اپریل کومجھےکہتی ہیں بیٹامیں اعتکاف میں بالکل ٹھیک ہوگئی تھی ،
ویسےوہ زیادہ بیمار تو وہ کبھی تھیں ہی نہیں بس وہی عمر کے حساب سے کبھی بلڈپریشر یا شوگر تھورابہت اوپر نیچے،
‏آج میں نےپنڈی میں گھربھی ارینج کرلیاتھاآج شام کوماں جی کووہاں شفٹ کرناتھا،ڈاکٹر نےصرف 4ماہ ہی تو دئیےتھے

‏سوچاکم ازکم4ماہ تو ماں جی کی خدمت کروں گاKPK میں شفٹ کرلوں گا ، اپنی مرشد اپنی پیر،ولی کامل کی خدمت کروں گالیکن مجھےکیاپتاتھامائیں ایسےبھی بیوفائی کرجاتی ہیں ،
‏خدا کی قسم ہر ماں عظیم ہےلیکن میری ماں ولی کامل تھی میں نےاتنی نیک دل،نیک سیرت،غریب پرور ماں کبھی نہیں دیکھی ،
‏میری بڑی بہن کہتی ہےمجھے3دن سےمنع کررہی تھیں عامر کونہیں بلانااسےامتحان میں نہیں ڈالنامیں ٹھیک ہوں
‏مجھے2بارٹکٹ نہیں ملاایک بارجاویدہاشمی کواور دوسری باراسدعمرکوتوکہتی بیٹاتم فکرنہ کرومیں نےاللہ تعالیٰ سےمانگاہؤاہےاوروہی ہمیں دےگا ،پھر2024میں کہتی ہیں میں نےتیرا ٹکٹ لےلیاہے،وہ ایسے ہی ہرچیز اللہ تعالی سے جھگڑ کرلےلیتی تھیں۔

‏ہر وقت میرےاورعمران خان کیلئےدعائیں اورہمیشہ حوصلہ دیتیں کہ انشاللہ آخری فتح تمہاری ہے، 8سال سےبلڈ کینسرکامریض ہوں اورمیری سادی ماں کےعلاوہ ساری دنیا کوبیماری کاپتاہےپچھلے سال گرفتار ہؤاتو وکیل نے جج کوکینسر کابتاکرمیڈیکل گراؤنڈ پرضمانت مانگی
ٹی وی پر ٹکرچل گیاماں نےدیکھ لیاجیل سےواپس آیاتوکہتی ہیں بیٹایہ ٹی وی پر کیابکواس چل رہی تھی میں نےکہااماں آپ کوپتاہےوکیل ضمانت کیلئےجھوٹ بولتےہیں ،
‏کہنےلگیں نہیں بیٹااتنابڑا بکواس نہیں کرتےبیشک ضمانت نہ ملےزیادہ دن جیل میں رہو ،
‏سادی ماں کوکیاپتا کہ بیٹا7سال سےکینسر کامریض ہےاورخود بھی اسی کاشکارہوں گی،
آج تک میں کبھی سوشل میڈیا یا کسی جگہ یہ نہیں بتایا کہ میں کینسر کا مریض ہوں کہیں میری ماں نہ پڑھ لے وہ یہ کیسے برداشت کرے گی،
ماں جی کو صرف اتنا پتا تھا کہ بیٹے کو بلڈ وائٹ سیل کی بیماری ہے ،
‏لیکن سوال پھروہی یااللہ ان ماؤں کوکیوں اتناسادہ بناتاپھران کی محبت اولاد کےدل میں ڈالتا ہے پھر محبت ہمارے دلوں میں ڈال کرانہیں موت کیوں دیتاہےآخرکیوں ؟آخر کیوں ؟آخر کیوں ؟
ابھی تو23سال پہلےابوجان کی وفات کاغم نہیں بھراماں جی آپ بھی باپ کی طرح بیوفائی کر گئیں ،
‏یااللہ کم از کم ان ماؤں سے توموت کوٹال ہی دےایک طرف ان کےپاؤں میں جنت رکھتا ہےدوسری طرف جنت ہی چھین لیتاہے
اپنی ماں جی سمیت تمام ماؤں کیلئے طالب دعا ۔عامر مغل

.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

Forwarded As Received

ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں اطلاعات کی قیمت سچ سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک جملہ ’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اب یہ سچ اور جھوٹ کے درمیان تمیز مٹا چکا ہے۔ یہ مختصر مگر خطرناک فقرہ آج کے معاشرے کے لئے ایک ناسور بن چکا ہے۔ اس جملے کی آڑ میں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ بغیر تحقیق کے کچھ بھی شیئر کرے اور بری الذمہ ہو جائے۔”
’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ لکھ دینے سے نہ تو سچ جھوٹ میں بدلتا ہے اور نہ ہی اس کا اثر کم ہوتا ہے۔ اس فقرے کا مطلب ہوتا ہے: میں ذمہ دار نہیں ہوں، بس مجھے یہ ملا اور میں نے آگے بڑھا دیا مگر سوال یہ ہے کہ اگر آپ ذمہ دار نہیں تو پھر یہ کام کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ کیا ہم اس قدر غیر ذمہ دار ہو چکے ہیں کہ ہم دوسروں کی زندگیوں، شہرت، عزت اور ریاست کی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں وہ بھی صرف ایک کلک یا لائیک کی خاطر؟ یہ مسئلہ صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں رہا بلکہ معاشرتی رویوں کا حصہ بن چکا ہے۔ ہم ہر چیز بغیر تحقیق کے آگے بڑھا دیتے ہیں۔ کسی کے بارے میں کوئی افواہ ہو، کوئی سیاسی یا مذہبی مسئلہ ہو یا ریاستی اداروں کے خلاف کوئی پراپیگنڈہ، ہم بغیر سوچے سمجھے اسے مزید لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
حال ہی میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اسلام آباد میں اوورسیز پاکستانیوں کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے اسی ناسور کی نشاندہی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر اطلاعات بغیر تحقیق کے آگے بڑھائی جاتی ہیں جو نہ صرف ریاست کے لئے نقصان دہ ہیں بلکہ پوری قوم کے ذہنوں میں بے یقینی اور مایوسی پیدا کرتی ہیں۔آرمی چیف نے قرآن پاک کی آیت کا حوالہ دیا’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہو۔‘‘(سورۃ الحجرات: آیت 6) قرآن پاک کا یہ واضح حکم صرف ایک دینی ہدایت نہیں بلکہ معاشرتی استحکام کی بنیاد ہے۔ سچ اور تحقیق کا حکم کسی بھی معاشرے کو فتنہ، فساد اور بربادی سے بچاتا ہے۔ آج کے دور میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک طرف ہمیں اپنے دین کی پیروی کرنی ہے، دوسری طرف ایک مہذب شہری کے طور پر ذمہ دار رویہ اپنانا ہے۔ ہم کیسے دعوی کریں کہ ہم قرآن کے ماننے والے ہیں جب ہم خود ہی اس کے احکام کو نظر انداز کرتے ہیں؟ کیا ہماری انگلیوں کا ایک کلک کسی کی عزت پامال کرنے، کسی خاندان کو برباد کرنے یا کسی ریاستی ادارے پر انگلی اٹھانے کے لئے کافی ہونا چاہیے؟ سوشل میڈیا کی آزادی ایک نعمت تھی مگر ہم نے اسے زحمت بنا دیا ہے۔ ہم ہرچیز کو سنسنی خیزانداز میں پیش کرنا چاہتے ہیں، جھوٹی خبروں میں اضافہ کرتے ہیں، اور پھر’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ کا سہارا لےکر خود کو بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ غیر اسلامی بھی ہے۔ آج ہمارے نوجوان، ہمارے دانشور یہاں تک کہ کچھ صحافی بھی اس ناسور کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہر ایک کو سب سے پہلےخبر دینےکی دوڑ میں سچ کی قربانی دی جا رہی ہے۔ جھوٹے بیانیے گھڑ کر ریاستی اداروں، فوج، عدلیہ اور حکومت پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے جس میں لوگ مایوسی، بے یقینی اور بداعتمادی کا شکار ہو رہے ہیں۔
آرمی چیف کا یہ کہنا کہ پاکستان کے بارے میں افواہیں پھیلا کر تاثر دیا جاتا ہے کہ ریاست وجود کھو چکی ہے، لیکن ہم قوم کے ساتھ مل کر ہر مافیا کی سرکوبی کریں گے۔ درحقیقت ایک انتباہ ہے ان سب کے لئے جو سوشل میڈیا کو انتشار کا ذریعہ بنا چکے ہیں۔ یہ صرف فوج کی یا کسی ادارے کی جنگ نہیں یہ پوری قوم کی جنگ ہے۔ اگر ہم نے وقت پر اپنا کردار درست نہ کیا تو ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنے مستقبل کو تاریکی میں دھکیل دیں گے۔یہاں ہمیں بطور مسلمان خود سے سوال کرنا ہوگا: کیا ہم اپنی زبان، قلم اور اب اپنی انگلیوں سے ہونے والے گناہوں سے واقف ہیں؟ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ جھوٹی خبر کو آگے بڑھانا بھی جھوٹ بولنے کے مترادف ہے؟ کیا ہم نے کبھی توبہ کی ہے ان ’’فارورڈز‘‘ پر جو کسی کی بدنامی، کسی کے قتل، یا کسی بغاوت کا باعث بنے؟اسلام نے ہمیشہ زبان اور کلام پر قابو رکھنے کی تلقین کی ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے اللہ اور روزِ قیامت پر ایمان لایا، وہ یا تو اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔(صحیح بخاری و مسلم)تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم کچھ بھی شیئر کرنےسے پہلے تحقیق کر لیں؟ اگر ہم تحقیق نہیں کر سکتے تو خاموشی اختیار کریں۔ خاموشی بھی ایک عبادت ہے خاص طور پر جب وہ کسی فساد یا فتنے کو روکنے کا ذریعہ بنے۔
سوشل میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ استعمال صرف جھوٹی خبریں پھیلانے تک محدود نہیں رہا، بلکہ اب یہ قوموں کو تقسیم کرنے، ریاستوں کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے اور نسلوں کو گمراہی میں ڈالنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اگر ہم آج بھی نہ جاگے تو کل بہت دیر ہو جائے گی۔لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہم بطور فرد اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ کسی بھی خبر، ویڈیو یا تحریر کو آگے بڑھانے سے پہلے تحقیق کریں۔ اگر تحقیق ممکن نہیں تو خاموشی اختیار کریں۔ اسلامی تعلیمات کو زندگی میں عملی طور پر اپنائیں۔ ’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ جیسی خود غرضانہ روش ترک کریں۔اختتامیہ یہی ہے کہ آج اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو کل تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ درآصل سچ اور ذمہ داری سے فرار کا بہانہ ہے۔ سچ بولنا، سچ کو پھیلانا، اور جھوٹ سے اجتناب صرف ایک دینی فریضہ نہیں بلکہ ایک قومی ذمہ داری بھی ہے۔ ’’فارورڈڈ ایز ریسیوڈ‘‘ کہہ کر خود کو بری الذمہ سمجھنے والے یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ایسا کوئی بہانہ قابلِ قبول نہ ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • بجلی
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے
  •  دو ریاستی حل ہم کبھی بھی اسرائیل کو قبول ہی نہیں کرتے، فخر عباس نقوی 
  • Forwarded As Received
  • ایف آئی آر کی کہانی
  • عمران خان سرخرو ہوں گے، کبھی ڈیل نہیں کریں گے: زرتاج گل
  • عمران خان سرخرو ہوں گے، وہ کبھی بھی ڈیل نہیں کریں گے: زرتاج گل
  • بانی پی ٹی آئی سرخرو ہوں گے، کبھی بھی ان سے ڈیل نہیں کریں گے: زرتاج گل