جب مزاحمت بھی مشکوک ٹھہرے، فلسطین، ایران فوبیا اور امت کی بے حسی
اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمتِ مسلمہ فلسطین کے مسئلے کو صرف مسلکی یا جغرافیائی زاویے سے نہ دیکھے۔ فلسطین ایک انسانی، اخلاقی اور اصولی مسئلہ ہے۔ جو بھی اسکی حمایت کرے۔ خواہ وہ ایران ہو، ترکی یا کوئی عرب ریاست۔ اُسکا ساتھ دینا اصولی فریضہ ہے۔ یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح اسلام کسی مخصوص نسل، قوم یا زبان تک محدود نہیں، اسی طرح مظلوم کی حمایت بھی کسی مسلکی حد بندی کی محتاج نہیں۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی
غزہ میں جاری ظلم و ستم اور نسل کشی نے دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، مگر حیرت انگیز طور پر پاکستان جیسے بیدار دل معاشرے میں، خاص طور پر مذہبی طبقات میں، ایک غیر معمولی خاموشی طاری رہی۔ یہ خاموشی صرف وقتی نہیں، بلکہ ایک فکری جمود اور بیانیاتی تقسیم کا اظہار ہے، جو امتِ مسلمہ کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے بجائے اسے مسلکی اور جغرافیائی تعصبات میں بانٹ دیتی ہے۔ فلسطینیوں پر ہونیوالے مظالم کسی ایک لمحے یا واقعے تک محدود نہیں۔ شہداء کے لاشے، تباہ حال ہسپتال، یتیم بچے، زخمی ماں باپ، جلتی بستیاں، یہ حالات گذشتہ کئی ماہ سے جاری ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ اب یکدم جذبات کیوں بھڑک اُٹھے؟ (فتوے کیوں آنا شروع ہوگئے) اور پہلے کیوں خاموشی رہی؟ یہ جذبات اگر واقعی فلسطینی عوام کیلئے ہیں تو اُن لمحوں میں کیوں نہیں اُبھرے، جب حزب اللہ، حماس اور ایران اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہے تھے۔؟
یہ بات قابلِ غور ہے کہ جب ایران نے شام یا لبنان کے محاذ سے اسرائیل کو جواب دیا، یا جب حماس اور حزب اللہ نے عسکری مزاحمت کی تو بیشتر مذہبی حلقے خاموش رہے۔ اس وقت دلیل یہ دی گئی کہ یہ "ایران کا ایجنڈا" ہے، یا یہ "شیعہ سیاست" کا حصہ ہے۔ اس طرزِ فکر نے فلسطینی مزاحمت کو مسلکی خانوں میں قید کر دیا۔ یوں امتِ مسلمہ کا ایک اہم اور مقدس مسئلہ فرقہ وارانہ بیانیے کی نذر ہوگیا۔ یہ خاموشی محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک سوچے سمجھے پروپیگنڈے کا نتیجہ بھی ہے، جس کا مقصد امت کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم رکھنا ہے۔ جب ایک مزاحمتی تحریک کو صرف اس بنیاد پر مشکوک بنا دیا جائے کہ اسے کسی مخصوص مسلک یا ملک کی حمایت حاصل ہے تو یہ درحقیقت ظالم کے بیانیے کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اگر کوئی سنی ملک فلسطین کی کھل کر عسکری حمایت کرے تو پھر وہ حمایت "حلال" اور قابلِ قبول ہو جائے، لیکن اگر یہی کام ایران کرے تو وہ فوراً "مسلکی ایجنڈا" بن جائے؟ کیا ظلم کیخلاف آواز اٹھانے کا جواز صرف اس وقت بنتا ہے، جب وہ آواز ہماری مسلکی شناخت کے مطابق ہو۔؟
یہ طرزِ فکر انتہائی خطرناک ہے، کیونکہ یہ نہ صرف فلسطینی عوام کی حمایت کو محدود کرتا ہے، بلکہ اُمت کو اصولوں سے ہٹا کر شناختوں کی قید میں جکڑ دیتا ہے۔ اگر فلسطین کا مسئلہ واقعی اُمت کا مسئلہ ہے تو پھر اس کی حمایت ہر اس شخص، ریاست یا گروہ سے کی جانی چاہیئے، جو اخلاص سے مظلوم کیساتھ کھڑا ہو، چاہے اس کی فقہی یا سیاسی شناخت کچھ بھی ہو۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران، اپنے سیاسی و مسلکی پس منظر کے باوجود، فلسطین کی مسلح مزاحمت کا سب سے مستقل اور مخلص حامی رہا ہے۔ اگر اس کی حمایت کو صرف اس بنیاد پر مسترد کیا جائے کہ وہ ایک شیعہ ملک ہے، تو یہ انصاف اور عقل دونوں کے منافی ہے۔ ایسی سوچ نہ صرف فلسطینیوں کیلئے نقصان دہ ہے، بلکہ پوری مسلم دنیا میں وحدت کے امکانات کو بھی مجروح کرتی ہے۔ فلسطینی مزاحمت کے حق میں آواز بلند کرنا ایک اصولی فرض ہے اور یہ فرض اس سے مشروط نہیں ہونا چاہیئے کہ کون ساتھ دے رہا ہے۔ جب ایران یا اس کے حمایت یافتہ گروہ جیسے حزب اللہ یا حماس میدان میں ہوں تو ان کی حمایت یا مخالفت کا پیمانہ صرف مسلک نہیں، بلکہ یہ ہونا چاہیئے کہ کیا وہ مظلوم کی مدد کر رہے ہیں یا نہیں۔
یہ فرقہ وارانہ تقسیم صرف فلسطینی کاز کو نہیں، بلکہ خود امت کے اتحاد کو کمزور کرتی ہے۔ اگر مزاحمت کو صرف اس بنیاد پر قبول یا مسترد کیا جائے کہ اسے کون کر رہا ہے، تو یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم اصول، انصاف اور مظلوم کی حمایت کو شخصیات، ریاستوں اور مسالک کی بنیاد پر تول رہے ہیں۔ یہی انتخابی مزاحمت (Selective Activism) ہے۔ جب تصاویر زیادہ دردناک ہو جائیں، جب سوشل میڈیا پر لہر اُٹھے، جب عرب میڈیا بھی مجبور ہو کر کچھ دکھا دے، تب عوامی غصہ سامنے آتا ہے۔ مگر جب زمینی سطح پر مزاحمت ہو رہی ہو، جب خون بہہ رہا ہو، جب دشمن کو جواب دیا جا رہا ہو، تب ہم خاموش رہتے ہیں۔ یا پھر اسے "ایرانی ایجنڈا" کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک فکری غلامی ہے۔ ایک ایسا ذہنی جال جس میں امت کو اس حد تک اُلجھا دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ہی جنگ میں غیر جانبدار، بلکہ کبھی کبھار مخالف بن جاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمتِ مسلمہ فلسطین کے مسئلے کو صرف مسلکی یا جغرافیائی زاویے سے نہ دیکھے۔ فلسطین ایک انسانی، اخلاقی اور اصولی مسئلہ ہے۔ جو بھی اس کی حمایت کرے۔ خواہ وہ ایران ہو، ترکی یا کوئی عرب ریاست۔ اُس کا ساتھ دینا اصولی فریضہ ہے۔ یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح اسلام کسی مخصوص نسل، قوم یا زبان تک محدود نہیں، اسی طرح مظلوم کی حمایت بھی کسی مسلکی حد بندی کی محتاج نہیں۔ اگر ہم کسی ملک یا گروہ کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر اس کے موقف کو رد کر دیں تو ہم خود بھی اسی تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کیخلاف اسلام نے ہمیں خبردار کیا ہے۔ فلسطینی پرچم صرف جذبات کی لہر یا وقتی احتجاج کیلئے نہیں، بلکہ اصولی موقف، فکری استقلال اور اتحادِ امت کی علامت ہونا چاہیئے۔ اس پرچم کو کسی ایجنڈے، پراکسی یا مسلک سے جوڑنے کی بجائے، اسے ظلم کیخلاف مزاحمت اور حق کی سربلندی کا نشان بنانا ہوگا۔ جب تک امت اس بنیادی اصول کو نہیں سمجھے گی، تب تک ہم فلسطین کیساتھ بھی انصاف نہیں کرسکیں گے اور نہ ہی اپنے آپ کیساتھ۔ (مضمون نگار تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ اور پاکستان کے ممتاز عالم دین ہیں)
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مظلوم کی اس بنیاد کی حمایت بنیاد پر ہے کہ ا بلکہ ا یہ بھی کو صرف
پڑھیں:
ایران کا جوہری پروگرام(3)
اسلام ٹائمز: مسقط میں ہونیوالے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟ تحریر: سید نوازش رضا
مسقط مذاکرات سے قبل ایران نے دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود سائنسی و جوہری ترقی ممکن ہے اور وہ اس میدان میں خود کفیل ہوچکا ہے۔ اگرچہ جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم ساتھ ہی ایک خاموش مگر واضح پیغام بھی دیا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا جوہری پروگرام اب اُس سطح تک پہنچ چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ مزید برآں، ایران نے یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر اس کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کی گئی تو اس کا ردعمل نہایت سخت اور سنگین ہوگا، جس کے عالمی سطح پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔"
اسرائیل کے لیے پیغام:
"ہم ٹیکنالوجی میں اتنے قریب ہیں کہ اگر چاہیں تو جوہری ہتھیار بنا سکتے ہیں، اس لیے حملے کی غلطی نہ کرنا۔" اسرائیل کے لیے یہ اسٹریٹیجک ڈیٹرنس (Strategic Deterrent) ہے، تاکہ اسرائیل کو باز رکھا جا سکے۔
امریکہ کے لیے پیغام:
ایران نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ اگر امریکہ نے باعزت اور برابری کی سطح پر مذاکرات نہ کیے اور عائد پابندیاں ختم نہ کیں، تو وہ اپنے راستے پر بغیر رکے آگے بڑھتا رہے گا۔ ایران نے یہ بھی باور کرا دیا کہ وہ جوہری ٹیکنالوجی میں اُس مقام سے آگے نکل چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔"
اسرائیل اور امریکہ کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا؟
اسرائیل:
ممکنہ طور پر ایران کے سائنسدانوں، تنصیبات یا سپلائی چین کو ہدف بنا سکتا ہے، لیکن: امریکہ براہ راست فوجی کارروائی سے اس وقت گریز کرے گا، کیونکہ: یوکرین کا محاذ ابھی کھلا ہے۔ ایران کا جوابی حملہ مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونک سکتا ہے
اس تمام صورتحال میں امریکہ کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے
-امریکن صدر ٹرمپ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے صرف جارحانہ بیانات دے سکتا ہے، لیکن امریکہ فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔
-امریکی اسٹیبلشمنٹ (سی آئی اے، پینٹاگون) سفارتی حل کو ترجیح دے گی۔
یورپ اور امریکہ، خاص طور پر ان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں (جیسے CIA ،MI6) ایران کی جوہری پیش رفت پر مسلسل نظر رکھتی آئی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ: ایران یورینیم کو 60% تک افزودہ کر رہا ہے، جبکہ 90 فیصد بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایران نے جدید IR-6 اور IR-9 سینٹری فیوجز بنائے ہیں۔ ایران نے ریسرچ ری ایکٹرز اور بھاری پانی کی ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔
اس لیے مغربی انٹیلیجنس دائرے میں یہ بات اب ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ ایران جوہری ٹیکنالوجی میں ایک اہم مرحلہ عبور کرچکا ہے۔ البتہ وہ عوامی سطح پر اس کو تسلیم نہیں کرتے، تاکہ ایران پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے اور اپنے لاڈلے لونڈے اسرائیلی کے اس مطالبات سے بچا جاسکے کہ "فوری حملہ کرو۔" اب سوال یہ ہے کہ امریکہ مسقط مذاکرات میں کیا حاصل کرنا چاہتا تھا اور کیا حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔؟ کیا وہ سفارتی ذرائع کے ذریعے JCPOA جیسے معاہدے کی جانب واپسی کا راستہ اختیار کرے گا، یا پھر اپنی سپر پاور حیثیت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے مزید دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور خفیہ فوجی اقدامات کا سہارا لے گا؟"
ظاہراً امریکہ کے پاس سفارتی ذرائع کے ذریعے کسی معاہدے تک پہنچنے کے سوا کوئی مؤثر آپشن نظر نہیں آتا، کیونکہ ماضی میں اقتصادی پابندیوں نے ایران پر خاطر خواہ اثر نہیں ڈالا اور فوجی اقدام دنیا کو ایک ممکنہ عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ "ایران نے جس انداز سے اب تک اپنی فوجی اور جوہری طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے امریکہ کو یہ باور کرا دیا ہے کہ مذاکرات کی میز پر اب ایک طاقتور اور متوازن فریق موجود ہے۔ ٹرمپ چاہے زبان سے سخت لہجہ اختیار کریں، لیکن اندرونی طور پر انہیں لچک دکھانا پڑے گی، کیونکہ ایران اب "دباؤ" کے بجائے "ٹیکنالوجی" کی زبان میں بات کرے گا۔
مسقط میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟