Express News:
2025-04-21@12:16:45 GMT

جدید زراعت کے حصول علم کے لیے چین کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT

قربان جاؤں میں اپنے آقا نبی اکرم آخرالزماںؐ پر۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم بیان کر رہا ہوں جو کچھ اس طرح سے ہے کہ’’ علم حاصل کرو، چاہے چین جانا پڑے۔‘‘ 300 جوان زراعت کی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی تعلیم کے حصول کے لیے چین چلے گئے ہیں، مزید 700 جلد ہی رخت سفر باندھ لیں گے۔

ساڑھے چودہ سو سال بعد وہی پیغام ان نوجوانوں،کاشتکاروں کا شغف رکھنے والوں کے لیے زرعی ٹیکنالوجی، جدید مشینی زراعت، ڈیجیٹل فارمنگ کا علم اب روایتی علوم کے حصول کے علاوہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں یہ نوجوان ایسے ملک میں جا پہنچے ہیں جو اب زرعی ترقی کی روشن مثال ہے اور آج ہمارے نوجوانوں اور زرعی کاشتکاروں کے لیے ایک نئی درسگاہ بن چکی ہے اور یہی نوجوان جب زرعی علوم و فنون و ٹیکنالوجی سے تربیت یافتہ ہو کر جدید زرعی علوم کی پیاس بجھا کر واپس آئیں گے تو زرعی انقلاب کے لیے متحرک ہو جائیں گے۔ اس طرح یہ جوان اپنے کھیتوں کے مستقبل کو ہی نہیں سنوارے گا بلکہ اپنی قوم کے مستقبل کو بھی زرخیز بنائے گا۔ زمین پر جب اناج کے ڈھیر لگیں گے، بھوک پیاس، افلاس، غربت مکاؤ کے لیے ان کی یہ کاوشیں رنگ لے آئیں گی۔ صرف اپنے ملک کے لیے نہیں بلکہ دنیا کو ایکسپورٹ کرنے کے لیے بھی زراعت کو جب ترقی دے لیں گے تو اسی کو فلاح انسانیت کا نام دیا جاتا ہے۔

لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں لاکھوں نوجوان کسی نہ کسی شکل میں زراعت سے وابستہ ہیں۔ زمین پر ہل چلانے کے عمل سے لے کر دودھ دوہنے کے عمل تک، ان کاموں کے کرنے کے لیے اگر نوجوان جدید ٹیکنالوجی، جدید سائنسی علوم، ڈرون ٹیکنالوجی، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، ڈیجیٹل ایپلی کیشنز سے استفادہ کرکے پانی کے استعمال کو کم سے کم اور پیداوار زیادہ سے زیادہ حاصل کر لیتا ہے تو زراعت کا حصہ جی ڈی پی میں ڈبل بھی کر سکتا ہے۔

یعنی 40 فی صد پر پہنچ کر کھربوں روپے میں ٹیکس بھی حاصل ہو جائے گا۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ مختلف جائزوں کے مطابق کسی نے 65 لاکھ کہا، کسی نے 50 لاکھ سے زائد کہ اتنی بڑی تعداد میں نوجوان زراعت سے وابستہ ہیں۔ چلیے 50 لاکھ نوجوان مان لیتے ہیں تو ان کا دس فی صد 5 لاکھ بنتے ہیں حکومت کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہوں گے لیکن حکومت کم ازکم ہر سال 50 ہزار سے زائد نوجوان کسان، زراعت سے منسلک، دودھ کی پیداوار، جانوروں کی افزائش سے منسلک افراد کے بیرون ملک مثلاً امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا اور ڈنمارک اور دیگر صنعتی اور زرعی ترقی میں نامور ممالک کے ساتھ رابطہ کرے، معاہدہ کرے کہ ہمارے نوجوانوں کو زرعی ترقی، صنعتی ترقی کی تعلیم کے علاوہ دیگر شعبوں میں اور صنعتوں میں تربیت سے لیس کر کے واپس پاکستان بھجوایا جائے تو ایسی صورت میں کہیں زمین کی ہریالی سے فصلیں لہلہائیں گی تو ان فصلوں کو مشینوں کے کام لایا جاسکتا ہے۔

اس کے لیے ہمارے بے روزگار نوجوانوں کو اعلیٰ فنی صنعتی تعلیم سے لیس کرنے کے لیے بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک جن میں یورپ کے کئی ممالک سرفہرست ہیں، ان سے معاہدے کیے جائیں۔ ہمارے بے روزگار نوجوانوں کو وہاں پر فنی تعلیم کے حصول، جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے روانہ کیا جائے کیونکہ ایک طرف اگر تقریباً ہزاروں نوجوان زرعی ٹیکنالوجی سے لیس ہو کر آ جاتے ہیں اور زمین کی ہریالی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں تو دوسری طرف انھی زرعی فصلوں کو سمیٹ کر زراعت پر مبنی صنعتوں کے پہیوں کی روانی بخشنے والے بھی منتظر ہوں گے۔ کیونکہ شاہراہ ترقی کا یہ سفر، فریقین مل کر ہم سفر جب بن جائیں گے تو پھر ملاحظہ فرمائیے ہوتا کیا ہے۔

کیونکہ جب ہریالی اگانے والے آجائیں گے، کھیتوں میں زرخیزی پیدا کرکے فصلوں کو بہار دینے والے، چین و دیگر ملکوں سے فنی زرعی تعلیم و تربیت سے لیس ہو کر آجائیں گے تو پھر ضرورت ہوگی کہ ان فصلوں سے، اس پیداوار سے فیکٹریاں چلائی جائیں، ملوں کے پہیوں کو رواں دواں کیا جائے تاکہ روزگار کے دیے جلتے رہیں اور بے روزگار برسر روزگار ہوتے رہیں۔

زمین جب زرخیز ہوتی ہے تو اس کی پیداوار سے فیکٹریاں چلتی ہیں اور آج کل صرف انھی فیکٹریوں کا مال ایکسپورٹ ہوتا ہے جو جدید ترین اعلیٰ ترین صنعتی ٹیکنالوجی سے مزید ہوں، جہاں وہ ہاتھ کام کر رہے ہوں جوکہ اعلیٰ ترین ترقی یافتہ صنعتی ممالک سے جدید ٹیکنالوجی اور جدید علوم و فنون سے تربیت پا کر ملک لوٹے ہوں۔

آج کا پاکستان اور اس کے بے شمار مسائل کے حل کے لیے ہمیں انھی باتوں میں حل تلاش کرنا ہوگا کہ ہم فریقین میں نوجوانوں میں ایسی ہم آہنگی پیدا کردیں کہ ایک طرف جدید زرعی علوم سے تربیت یافتہ نوجوان کھیتوں میں ٹیکنالوجی سے ہریالی لے کر آئے اور دوسری طرف جدید صنعتی علوم و فنون و ٹیکنالوجی سے لیس نوجوان اس خام مال کو فیکٹریوں میں سمیٹے تاکہ ان سے روزگار کے دیے سے دیا جلتا رہے۔ ایکسپورٹ کے لیے جہاز بھر بھر کر لادے جا رہے ہوں، ملک میں بیرون ملک سے تاجر آ رہے ہوں، کروڑوں، اربوں روپے کے سودے طے ہو رہے ہوں، کیونکہ زمین کی ہریالی سے جب فیکٹری کا پہیہ تیزی سے گھومتا ہے تو بے روزگاروں کی تمام تر کھیپ برسر روزگار ہو جاتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں ملک شاہراہ ترقی پرگامزن ہو چکا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ٹیکنالوجی سے بے روزگار جائیں گے کے حصول رہے ہوں کے لیے سے لیس

پڑھیں:

وزیراعظم کا زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا عزم، زرعی خودکفالت کے لیے جامع حکمتِ عملی پر زور

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)وزیراعظم محمد شہباز شریف نے زرعی خودکفالت کے حصول کے لئے زراعت کے شعبہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے ،نوجوانوں کی صلاحیتوں اور تجربہ کار ماہرین سے رہنمائی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے زرخیز زمین، قابل زرعی ماہرین، محنتی کسانوں سے نوازا ہے ، زرعی شعبہ میں آگے بڑھنے کیلئے متعلقہ فریقین کی آراء اور تجاویز کا جائزہ لے کر مربوط حکمت عملی کے ذریعے ان سے استفادہ کیا جائے گا، زرعی گھریلو صنعتوں، چھوٹے و درمیانے حجم کے کاروبار اور سٹوریج کی سہولیات کو فروغ دے کر زرعی شعبہ کو بھرپور انداز میں ترقی دی جا سکتی ہے . انہوں نے یہ بات ملک میں زرعی شعبے کی بحالی، جدت اور پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت نوجوان زرعی ماہرین، سائنسدانوں، محققین، کاروباری شخصیات اور برآمدکنندگان پر مشتمل اعلیٰ سطحی مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں قومی زرعی پالیسی کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے، نوجوان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے، اور تجربہ کار ماہرین کی رہنمائی سے ایک مربوط لائحہ عمل کی تشکیل پر غور کیا گیا۔اجلاس میں وفاقی وزیر توانائی ڈاکٹر مصدق ملک، وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن شزا فاطمہ خواجہ، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ سمیت متعدد ماہرین اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج کے اجلاس میں ہم نےزراعت کو بہتر بنانے ترقی دینے کیلئے تجاویز کا جائزہ لینا ہے، پاکستان ایک زرعی ملک ہے ، پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے زرخیز زمین، قابل زرعی ماہرین، محنتی کسانوں سے نوازا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک زمانے میں کپاس، گندم سمیت دیگر اجناس میں خود کفیل تھا لیکن اب گندم کی ہماری فی ایکڑ پیداوار ترقی یافتہ ممالک کے مقابلہ میں کم ہے، ہم کپاس درآمد کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی 65 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں اس آبادی کے بہتر طرز زندگی اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کو دیہی علاقوں میں بروئے کار لانے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے گئے؟۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں نجی سطح پر زرعی مشینری بنانے کیلئے کچھ ادارے کام کر رہے ہیں ، ایک زمانے میں کامن ہارویسٹر ز باہر سے آتے تھےاور ایک دو اداروں نے ’’ڈیلیشن پروگرام‘‘ بھی شروع کیا، چھوٹے کاشتکاروں کی سہولت کیلئے سروسز کمپنیاں بنائی گئی تھیں تاہم ان کی منظم انداز میں سرپرستی نہیں کی گئی ۔ وزیراعظم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے پناہ مواقع اور صلاحیتوں سے نوازا ہے لیکن زراعت کے شعبہ میں جو ترقی کرنی چاہئے تھی وہ بالکل نہیں ہوئی، قرب و جوار اور دنیا کے دیگر ممالک نے اس حوالہ سے بہت ترقی کی اور آگے نکل گئے، ہم قوم کے قیمتی وقت کا ضیاع کرتے رہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج کے مشاورتی اجلاس کا مقصد یہ ہے کہ اس شعبہ میں آگے بڑھنے کیلئے متعلقہ فریقین کی آراء اور تجاویز کو بغور سنا جائے او ر ان سے استفادہ کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زراعت کے حوالہ سے گھریلو صنعت اور ایس ایم ایز میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ آف سیزن اجناس کی سٹوریج کا خاطر خواہ انتظام نہیں اور ان کی ویلیو ایڈیشن کیلئے چھوٹے پلانٹس نہیں لگائے گئے جہاں دیہی علاقوں میں ہمارے نوجوان کام شروع کرکے روزگار کے مواقع مہیا کرتے اور اسے برآمد کرتے ، اس شعبہ پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ اجلاس کے دوران شرکاء نے زرعی ترقی کے لئے چند کلیدی شعبوں کی نشاندہی کی جن میں جامع اصلاحات اور سائنسی بنیادوں پر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔زرعی ڈیجیٹلائزیشن اور مصنوعی ذہانت کے اطلاق کے تحت دیہی علاقوں میں سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کی دستیابی بہتر بنانے، کسانوں کا مرکزی ڈیٹابیس تشکیل دینے، اور زرعی ان پٹس کی ترسیل کے لئے بلاک چین اور کیو آر کوڈ سسٹمز متعارف کرانے کی تجاویز پیش کی گئیں۔تحقیق و ترقی کے میدان میں مٹی کی زرخیزی اور صحت پر توجہ مرکوز کرنے، جدید سائنسی طریقوں کے ذریعے غذائیت سے بھرپور پیداوار کے فروغ، اور کسانوں کی استعداد کار میں اضافے کے لئے نجی و سرکاری شراکت داری سے تربیتی پروگرامز کے آغاز پر اتفاق کیا گیا۔زرعی بنیادی ڈھانچے اور مشینی زراعت کے فروغ کے ضمن میں موجودہ منڈیوں کی بہتری، نئی مارکیٹ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور جدید زرعی آلات کی دستیابی کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا تاکہ پیداوار میں اضافہ ممکن ہو۔زرعی مالیات تک مؤثر رسائی کے لئے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ، زرعی قرضہ جات کی آسان فراہمی، اور مالیاتی اداروں کے کردار کو مزید فعال بنانے کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی۔قانونی و انتظامی اصلاحات کے سلسلے میں حکومت کے کردار کا ازسرنو تعین، شفاف ریگولیٹری ڈھانچے کی تشکیل، اور پالیسی سازی میں ماہرین، کسانوں اور متعلقہ فریقین کی شمولیت پر زور دیا گیا تاکہ دیرپا اور مؤثر نتائج حاصل کئے جا سکیں۔اجلاس میں اس اہم پہلو کا بھی جائزہ لیا گیا کہ پاکستان میں فی ایکڑ زرعی پیداوار دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ ماہرین نے پانی کے غیر مؤثر استعمال، ناقص بیج، زمین کی غیر معیاری تیاری، اور کھادوں کے غیر سائنسی استعمال کو اس کمی کی بنیادی وجوہات قرار دیا۔شرکاء نے متفقہ طور پر اس امر کی نشاندہی کی کہ پانی کا مؤثر استعمال، معیاری بیجوں کی دستیابی، اور جدید زرعی تحقیق کی روشنی میں توسیعی خدمات کے فروغ سے زرعی پیداوار میں نمایاں بہتری ممکن ہے۔اجلاس کے اختتام پر شرکاء نے اس عزم کا اظہار کیا کہ نوجوانوں کو قومی زرعی ترقی کا حصہ بنانے، سائنسی تحقیق کو ترجیح دینے، اور مشترکہ کوششوں سے پاکستان کو زرعی خودکفالت کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں گے۔اجلاس کے اختتام پروزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ پانچوں شعبوں پر ورکنگ کمیٹیاں فوری تشکیل دی جائیں اور دو ہفتوں میں قابلِ عمل سفارشات پیش کریں۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • دنیا نے زراعت میں ترقی کی، ہم وقت ضائع کرتے رہے: شہباز شریف
  • دنیا زراعت میں آگے بڑھ گئی، ہم قیمتی وقت گنواتے رہے: وزیراعظم
  • دنیا زراعت میں آگے بڑھ گئی، ہم قیمتی وقت گنواتے رہے: وزیراعظم
  • دنیا زراعت میں ترقی کر کے آگے نکل گئی اور ہم قوم کا قیمتی وقت ضائع کرتے رہے. وزیراعظم
  • دنیا زراعت میں ترقی کر کے آگے نکل گئی، ہم قیمتی وقت ضائع کرتے رہے‘ وزیراعظم
  • دنیا زراعت میں آگے نکل گئی،ہم قوم کا قیمتی وقت ضائع کرتے رہے: وزیراعظم
  • دنیا زراعت میں ترقی کر کے آگے نکل گئی اور ہم قوم کا قیمتی وقت ضائع کرتے رہے: وزیراعظم
  • دنیا نے زراعت میں بہت ترقی کی اور آگے نکل گئی، ہم قیمتی وقت کا ضیاع کرتے رہے: شہباز شریف
  • وزیراعظم کا زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا عزم، زرعی خودکفالت کے لیے جامع حکمتِ عملی پر زور